موت ایک اٹل حقیقت ہے، روزانہ ہم کتنی ہی اموات کی خبریں سنتے رہتے ہیں لیکن ہمارے سخت دلوں پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا، پر جب ہمیں کسی عزیز وقریب اور محبوب کی وفات کی خبر پہنچتی ہے تو ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے، اور بار بار ان کا ہی چہرہ نظروں کے سامنے گھومتا رہتا ہے۔ ان کے ساتھ گزاری گئی پل پل کی یادیں ذہن ودماغ پر گردش کرتی رہتی ہیں۔ کئی دنوں سے کچھ ایسی ہی کیفیت کے ساتھ گزر رہا ہوں، بار بار استاد محترم قاری نثار احمد فیضی رحمہ اللہ کا چہرہ سامنے آجاتا ہے۔ ان کی تربیت میں گزارے ہوئے جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو کی پانچ سالہ زندگی نظروں کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔
ویسے تو مئو ناتھ بھنجن میں میری تعلیمی زندگی کی شروعات اس سے دو سال پہلے ہی ہو چکی تھی جب غالبا سنہ 2001ء میں میرا داخلہ جامعہ اثریہ دار الحدیث میں جماعت ثانیہ میں ہوا تھا۔ شیخ اسعد اعظمی حفظہ اللہ ورعاہ سے علم الصیغہ اور ہدایۃ النحو پڑھنے کے بعد نحو کے ساتھ ایک خاص دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ نحو کی کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتا تھا، ساتھیوں کے ساتھ مذاکرے میں اکثر وبیشتر نحوی مسائل ہوا کرتے تھے۔ در اصل شیخ کے پڑھانے کا اسلوب ہی منفرد تھا، ہر درس کے آخر میں قرآن کریم سے متعلقہ قواعد کی تمرین کراتے تھے۔ پھر جماعت ثالثہ میں شیخ عبد الشکور اثری حفظہ اللہ سے نحو کی مشہور اور مشکل سمجھی جانے والی کتاب ”کافیہ“ پڑھنے کا موقع ملا جس سے یہ دلچسپی مزید دو بالا ہوگئی۔ اسی زمانے میں اپنے علاقے کے فیض عام کے طلبہ سے قاری نثار احمد فیضی رحمہ اللہ کا ذکر خیر سنتا رہتا تھا۔ اور فیض عام کے طلبہ بیک زبان شیخ کے کافیہ پڑھانے کے اسلوب کی حد درجہ تعریف کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گرچہ میں نے کافیہ دو بار پڑھا اور ایک بار پڑھایا ہے لیکن قاری نثار احمد فیضی رحمہ اللہ سے کافیہ نہ پڑھ پانے کا افسوس آج بھی ہے اور ہمیشہ رہےگا۔
فیض عام میں میرا تعلیمی سلسلہ جماعت رابعہ سے شروع ہوا۔بڑی مشکل سے داخلہ ہوا تھا، جس کی تفصیل صدر صاحب نے ”عربی مخطوطات کی تحقیق وتدوین کے اصول وقواعد“ کی تقریظ میں لکھی ہے۔ یہاں آنے کے بعد قاری صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ لیکن کلاس میں ان کے سامنے زانوے تلمذ تہ کرنے کی حسرت پانچ سال بعد جماعت ثامنہ میں پوری ہوئی۔ ہاں اس سے پہلے مختلف مواقع پر ان سے استفادہ کا موقع ملتا رہا، ملاقاتیں رہیں، خصوصا مسابقاتی پروگراموں میں طلبہ کو نصیحت کرنے کے لئے قاری صاحب کو خصوصی دعوت دی جاتی تھی۔ اور آپ کی نصیحتیں واقعی دل پذیر ہوا کرتی تھیں۔
جماعت ثامنہ میں ان سے براہ راست صحیح مسلم پڑھنے کے علاوہ دو واقعے خصوصی طور پر مجھے یاد آرہے ہیں:
پہلا: جماعت سابعہ میں درس تجوید کے لئے جن طلبہ کا انتخاب ہوا تھا خاکسار بھی ان میں سے ایک تھا۔ اس زمانے میں عادت یہ تھی کہ تجوید /حدر کے طلبہ کا آخری امتحان قاری نثار احمد فیضی رحمہ اللہ لیتے تھے۔ بلکہ قاری صاحب تو پورے ہندوستان میں حفظ وتجوید کے مسابقات میں بطور حکم بلائے جاتے تھے۔ بڑا سخت امتحان لینے کے لئے معروف تھے۔ اور ان کے نام سے ہی ہم طلبہ کے پسینے چھوٹنے لگتے۔ پہلے ہی سے ہم نے سن رکھا تھا کہ فلاں فلاں مشہور حفاظ کو بھی قاری صاحب کے پاس ممتاز نمبر لانے میں حالت خراب ہو گئی ہے، اور بہتوں کو ممتاز نمبر ملا بھی نہیں ہے۔ اس لئے حتی الامکان جتنی تیاری کر سکتا تھا کی تھی۔ اردو زبان میں تجوید کی جو کتابیں جمع کر سکتا تھا کی تھیں، اور مسائل کو حتی الامکان ضبط کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ امتحان کے لئے جب قاری صاحب کے پاس گیا تو کافی گھبرایا ہوا تھا۔ قاری صاحب نے بہت سارے سوالات کئے ، اور بعض سوالات میں میرا اعتماد پرکھنے کے لئے ابتدائی طور پر اپنی عدم رضا مندی ظاہر کی کہ میں اپنا جواب بدل دیتا ہوں یا اسی پر قائم رہتا ہوں۔ میں اپنے جواب پر قائم رہا۔ اور جن کتابوں کا مراجعہ کیا تھا طلب کرنے پر انہیں کھول کر دکھایا بھی۔ قاری صاحب کا یہ انداز بہت متأثر کن تھا۔ اور الحمد للہ توقع سے کہیں زیادہ نمبرات سے کامیاب بھی ہوا۔
دوسرا واقعہ : پہلے واقعہ کے بعد قاری صاحب رحمہ اللہ سے ایک طرح کی قربت سی ہو گئی تھی۔ اس کے کچھ مہینوں بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی طرف سے جامعہ ابی ہریرہ لال گوپال گنج الہ آباد یوپی میں حفظ وتجوید اور تفسیر قرآن کریم کا آل انڈیا مسابقہ تھا۔ تفسیر قرآن کے زمرےمیں فیض عام سے میں اور میرے دو ساتھی: احمد اللہ بن نصر اللہ اور منیر الاسلام جا رہے تھے۔ اور بھی کوئی رہا ہو تو ابھی مجھے یاد نہیں۔ راستہ خرچ حاجی مجیب الرحمن صاحب (جزاہ اللہ خیرا) نے اپنے جیب خاص سے دیا تھا۔ مئو ریلوے اسٹیشن میں جیسے ہی گاڑی لگی ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہوئے ہم کسی طرح ایک جنرل ڈبے میں چڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔ الہ آباد کا یہ میرا پہلاسفر تھا، خواہش تو بہت تھی کہ کھڑکی سے آس پاس کے طبعی مناظر کا جی بھر کر دیدار کروں، پتہ نہیں یہ موقع دوبارہ ملے نہ ملے، لیکن تیاری کمزور ہونے کی وجہ سے مجھے اپنی یہ خواہش قربان کرنی پڑی، اور بادل ناخواستہ سامان رکھنے والی اوپری سیٹ پر اپنا قبضہ جمایا اور مسلسل الہ آباد تک مراجعہ کرتا رہا۔ بلکہ جامعہ ابی ہریرہ پہنچنے کے بعد بھی سب سے الگ تھلگ ہوکر پڑھتا ہی رہا۔
حسب عادت قاری صاحب حفظ وتجوید کے زمرے کے لئے بطور حکم تشریف فرما تھے۔ مغرب بعد جامعہ کی مسجد میں ہمارے زمرے کا تحریری امتحان شروع ہوا۔ مسابقہ کمیٹی کی طرف سے امتحان کا وقت تین گھنہ رکھا گیا تھا لیکن دوسرے پروگرام کے ساتھ ٹکراو کی بنا پر اچانک ایک گھنٹہ گھٹا کر دو گھنٹے کا کر دیا گیا ۔ سوالات چونکہ پہلے سے مرتب تھے، اور تین گھنٹے کے حساب سے بنائے گئے تھے اس لئے دو گھنٹے میں حل کرنا نا ممکن سا لگنے لگا۔ غالبا کل اکیس سوالات تھے، اور تفصیل طلب تھے۔ میں نے وقت کی نزاکت/قلت کو دیکھتے ہوئے پہلے اپنا جدول سیٹ کیا کہ فلاں وقت تک اختصار کے ساتھ لکھ کر کسی طرح اتنے نمبر سوال تک پہنچنا ضروری ہے۔ دو گھنٹے کا وقت ختم ہوجانے کے باوجود کوئی بھی کاپی جمع کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ بالآخر انتظامیہ کو ہی سب سے زبردستی کاپی لینی پڑی۔ جیسے ہی کاپی جمع کرکے مسجد سے باہر نکلا تو وہ منظر دیکھا جس کے لئے اس ذاتی واقعہ کو یہاں ذکر کیا ہے۔ قاری صاحب لپکتے ہوئے میرے پاس آئے اور ایک ہی سوال کئے کہ” کتنے سوالوں کا جواب لکھے ہو؟“۔ میں نے کہا: کاپی چھننے سے پہلے الحمد للہ تمام سوالوں کا جواب لکھ چکا تھا۔ قاری صاحب نے پھر یہ نہ پوچھا کہ صحیح صحیح ہر سوال کا جواب لکھے ہو یا نہیں، بلکہ یوں گویا ہوئے کہ ان شاء اللہ پہلی پوزیشن تمہاری ہوگی۔ قاری صاحب کے چہرے پر اپنے لئے اس وقت جو اعتماد دیکھا تھا وہ آج بھی ذہن سے مٹا نہیں ہے۔
ان دو واقعات کے بعد دل میں قاری صاحب کا احترام اور بڑھ گیا تھا۔ پھر جب ان سے صحیح مسلم پڑھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ کیوں طلبہ ان کی تعریف کرتے تھکتے نہیں تھے۔ اس میں شک نہیں کہ علمی صلاحیت کے اعتبار سے اب تک قاری صاحب سے بھی اعلی صلاحیت کے بہت سارے اساتذہ مجھے مل چکے ہیں، لیکن ان کے درس کی جو بعض لائق اتباع اور قابل رشک خصوصیات تھیں وہ دوسروں سے انہیں ممتاز کرتی تھیں، جن میں سے بعض خصوصیات کا بیان یہاں کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ میرا اپنا تجربہ وتجزیہ ہے، قاری صاحب کے دوسرے شاگردوں کو اس سے اختلاف کا پورا حق حاصل ہے:
1- زبان بڑی صاف تھی، آواز میں ایک الگ ہی کشش تھی، کبھی کسی لفظ کو سمجھنے میں دشواری نہ ہوتی۔
2- وقت کے بڑے پابند تھے، اور انہیں اس امانت وذمہ داری کا ہمیشہ خیال رہتا تھا۔
3- گھنٹی سے کبھی غائب نہ ہوتے۔ شاید مداومت کی ہی برکت تھی کہ بغیر کسی اضافی گھنٹی کے پوری صحیح مسلم جلد دوم آسانی سے ختم کر لے جاتے۔
4- مشکل مسائل کو بھی حتی الامکان طلبہ کے لئے آسان سے آسان کر دیتے۔
5- مطالعہ کرکے پڑھاتے جس کا اثر درس میں ظاہر ہوتا۔
6- علمی تواضع حد درجہ تھا۔ اس کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
صحیح مسلم میں جب حدیث ام زرع ( گیارہ سہیلیوں والی حدیث؛جس میں مشکل اور غریب الفاظ کی بھرمار ہے) آئی تو اس کا ترجمہ اور نہایت مختصر شرح کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی آنے والی ہے اس لئے آپ لوگ اس کی تفصیلی شرح صدر صاحب (محفوظ الرحمن فیضی) سے سن لیں۔ وہی اس حدیث کا صحیح حق ادا کر سکتے ہیں۔
اس طرح آپ دوسروں کے علم وفضل کا کھلے دل سے اعتراف کرتے تھے۔
7- طلبہ کو محنت پر ابھارتے تھے۔ پیار سے کہتے تھے: ”ابے جم کے محنت کرو، اگر صلاحیت ہوگی تو جگہ تلاشنے کی ضرورت نہ ہوگی، اُچک لئے جاؤگے“۔ بہت سارے طلبہ ان کا ”ابے“ سننے کے لئے ترستے تھے۔ ان کے ”ابے“ میں جو پیار تھا اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ احادیث میں ہم پڑھتے تھے کہ ”ثکلتک امک“، ”رغم انفک“، ”ویحک“ وغیرہ جملے بطور گالی نہیں بطور محبت و شفقت استعمال ہوئے ہیں، قاری صاحب کا کسی کو ”ابے“ کہنا اس کی عملی تفسیر تھی۔
8- سلف صالحین کی تعظیم اور ان کے احترام کے پہلو کو نمایاں کرنے پر توجہ ہوتی، لیکن یہ تعظیم کبھی بھی تقلید کی حد تک نہ پہنچتی۔
9- موقع ومناسبت کے اعتبار سے معاصرین یا سابقین کے سچے واقعات بیان کرتے جس سے کہ طلبہ کے اندر نشاط باقی رہے۔
10- ہر حدیث کا با محاورہ اردو ترجمہ کرتے۔
11- احادیث میں وارد بعض اہم تعبیرات پر خصوصی توجہ دیتے۔
12- جن مسائل کے اندر تفصیل کی ضرورت ہوتی تشفی بخش بحث کرتے، ورنہ عموما شرح مختصر ہوتی۔
13- اکثر وبیشتر توجہ متن حدیث پر ہوتی۔
14- صحیح مسلم کے بعض اسنادی لطائف بھی بیان کرتے۔ لیکن یہ کم ہوتا۔
15- گاہے بگاہے صحیح مسلم کی مثالوں سے واضح کرتے کہ محدثین نے احادیث کی ضبط وتحدیث میں کس قدر دقت اور امانت سے کام لیا ہے۔
قاری صاحب رحمہ اللہ کے سوال بنانے کا انداز بھی جداگانہ تھا۔ سوالات پوری کتاب کو محیط ہوتے۔ اور طلبہ کے اصرار کے باوجود بعض مخصوص ابواب وکتب کی تعیین نہ کرتے۔ سوالات اس انداز کے ہوتے تھے کہ پوری کتاب کو باریک بینی سے پڑھنی پڑتی تھی۔ بہت حد تک سوال بنانے کا ان کا انداز شیخ محفوظ الرحمن فیضی حفظہ اللہ کے ساتھ میل کھاتا تھا، اور بسا اوقات طلبہ کے لئے بہت مشکل ہوتا تھا۔ بطور مثال دو سوال ملاحظہ فرمائیں:
1 – غزوہ حنین میں جب صحابہ کرام پیچھے ہٹنے لگے تھے اور اللہ کے رسول کے ساتھ بہت کم لوگ باقی رہ گئے تھے تو آپ نے اپنے چچا عباس کو لوگوں کو واپس بلانے کا حکم دیا، عباس رضی اللہ عنہ نے آواز لگائی، ان کی آواز سن کر سب فورا مڑ گئے، ان کے مڑنے کو عباس رضی اللہ نے ایک مخصوص جملے میں بیان کیا ہے، ان کے ان مخصوص الفاظ کو بیان کریں۔
2 – حدیث میں سفر کو قطعۃ من العذاب کہنے کی تین علتیں بیان کی گئی ہیں، ان تینوں علتوں کو بیان کریں۔
اسی لئے طلبہ کو محنت بھی بہت کرنی پڑتی تھی، جو وقتی طور پر گرچہ بہت شاق گزرتا تھا لیکن بعد میں در حقیقت وہی ثمرہ اور ماحصل ہوا۔
شیخ محفوظ الرحمن فیضی حفظہ اللہ کے سوالات بھی اسی طرح یا اس سے بھی زیادہ مشکل ہوتے۔ مثلا فلاں باب کو ثابت کرنے کے لئے امام بخاری نے کون سی حدیث بیان کی ہے؟ اس حدیث کو لکھیں۔ اور عموما ایسے ابواب کے متعلق سوال کرتے جن میں باب وحدیث کے مابین مطابقت ظاہر نہ ہوتی۔
یا فلاں حدیث کو امام بخاری نے دسیوں ابواب میں ذکر کیا ہے، ان میں سے پانچ سات ابواب کا نام لکھیں۔ پھر لکھتے : ”ومن زاد نزد“۔
اس طرح کے سوالات کا ایک اہم فائدہ ہم طلبہ کو یہ ہوا کہ پوری کتاب کا ہم نےباریک بینی سے مطالعہ کیا۔اس وقت ساتھیوں کے مابین بھی اسی انداز سے ایک دوسرے سے سوالات ہوتے ۔ یہاں تک کہ امتحان سے پہلے ہم بعض ساتھیوں کی تیاری الحمد للہ اس طرح کی ہو چکی تھی کہ اکثرایک دوسرے کو کسی سوال میں لا جواب نہیں کر پاتے۔
اللہ استاد محترم کو غریق رحمت کرے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ہم شاگردوں کو ان کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے، اور قیامت کے دن نبیین، صدیقین، شہدا وصالحین کے ساتھ ان کا و ہمارا حشر کرے۔ این دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد۔
جزاکم اللہ خیرا یا دکتور
جزاك الله خير واحسن الجزاء في الدنيا والآخرة
جزاکم اللہ خیرا کثیرا، بہت خوب لکھا آپ نے، کاش علماء کی وفات پر ان کے تلامذہ اسی نوعیت کی تحریریں لکھیں جن میں ان کے اخلاق وکردار کا عموما اور اسلوب تدریس کا خصوصا تذکرہ ہو تو یہ بڑے فائدے کی چیز رہے گی. اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے.