فرقہ پرست سیاسی ہار سے خونیں یلغار تک

رشید سمیع سلفی سیاسیات

آج لہولہان دلی کو دیکھ کر گذشتہ خونیں تاریخ کا ایک ایک منظر نظروں کے سامنے گھوم رہا ہے، آزادی کے بعد سے مسلمانوں کو ایسے ہی دلدوز حالات سے گذرنا پڑا ہے، ان کے مقدر میں صرف لاشیں اٹھانا اور پھر فسادات کے الزام میں تشدد اور قید و بند کی صعوبتوں کو جھیلنا ہے، اعدادوشمار کے مطابق آزادی کے بعد لاکھوں مسلمان فسادات کی نذر ہوئے ہیں، اربوں کی املاک تباہ ہوئی ہے، کتنی زندگیاں عذاب سے گذر رہی ہیں یہ کوئی اندازہ بھی نہیں لگاسکتا۔

دنیا کتنی بھی ترقی کرجائے لیکن نفرت کے بے لگام درندے کو نکیل نہیں پہنائی جاسکتی، کیونکہ حکومتیں اپنے مفادات کے لیے ہی فسادات کرواتی ہیں، جو فسادات کرواتے ہیں وہ گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر تباہی کے مناظر دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ طوفان گذر جانے کے بعد برسوں تک فسادات کے زخم سے اٹھنے والی ٹیسوں پر خاندان کا خاندان بلکتا اور تڑپتا ہے، آنسؤؤں کے سوتے خشک ہوجاتے ہیں، جب وقت زخم کو بھر چکا ہوتا ہے اور زندگی معمول پر آجاتی ہے تب پھر ملت اسلامیہ ہند پر ایک دوسرے فساد کا دہانہ کھول دیا جاتا ہے، پھر امت مسلمہ کا وجود خون میں نہا اٹھتا ہے۔

اس ملک میں مسلمانوں کا یہی مقدر بن چکا ہے، عدالتوں کے چکر لگاتے ہوئے چپل گھس جاتے ہیں لیکن انصاف کے نام پر ایک لاحاصل جد وجہد ہوتی ہے۔ بھگوا ذہنیت انسانی خون پی پی کر اتنی خونخوار ہوچکی ہے کہ اب پورا ملک اس کی تباہ کاریوں کی قیمت چکانے پر مجبور ہے۔
دہلی فساد کا مقصد احتجاجات کو خونی کھیل میں بدلنا اور اسے ہندو مسلم رخ دینا تھا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا، دلی کی عوام کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والے گوشۂ عافیت میں چین کی بانسری بجاتے رہے لیکن بستیوں میں بہیمیت ودرندگیت کا جو ننگا ناچ ہوا ہے اس سے احساسات گھائل ہیں، بے سہارا بچوں اور عورتوں کے بہتے آنسو اور آہ وکراہ پتھروں کو بھی پگھلا سکتے ہیں لیکن وقت کے فرعونوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، صورتحال ایسی نازک ہے کہ ویڈیوز اور تصاویر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔

پولیس جو عوام کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے وہ دنگائیوں کا ساتھ دیتی نظر آرہی ہے، ان کی موجودگی میں بلوائی دکانوں مکانوں کو نذرآتش کررہے ہوتے ہیں، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے، وردی ہر فساد میں داغدار ہوتی ہے اور اپنی متعصبانہ کارکردگی کے لیے مورد الزام ٹھہرتی ہے، بلکہ اب تو یہ نعرہ ہی لگنے لگا ہے کہ یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے۔

رپورٹس اور خبروں کو دیکھنے کے بعد یہی بات ابھر کر سامنے آرہی ہے کہ بلوہ کرنے والے مقامی لوگ نہیں تھے، کہیں اور سے آئے تھے۔ پھر دوطرفہ جانی ومالی نقصان بھی ہوا، بہت سے مقامات پر ہندؤوں نے مسلمانوں کو بچایا اور مسلمانوں نے ہندؤوں کو بچایا ہے، ہندومسلم ایکتا کی ریلی نکال کر یہ پیغام دیا ہے کہ ہم اپنے یہاں فسادات کے ارادوں کو کامیاب نہیں ہونے دین گے۔

یہ سچ ہے کہ ملک کی اکثریت امن چاہتی ہے ایکتا اور ترقی چاہتی ہے، بس چند لوگ ہیں جو سیاستدانوں کے مفادات کے لیے دنگا بھڑکاتے ہیں، تشدد کرتے ہیں، ملک کی اکثریت کو پوری ہوشمندی کے ساتھ ایسے لوگوں سے ہی نمٹنا ہوگا، جہاں جہاں اکثریت نے اپنے علاقے میں اقلیتوں کو بچایا ہے وہ جگہیں کشت وخون سے بچی رہیں اور وہاں پر فسادی کامیاب نہیں ہوئے۔ پورے ملک میں مقامی لوگوں کو اسی طرز فکر سے اپنے لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا، اسی مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، آج سرکاریں اور پولیس عوام الناس کو تحفظ دینے میں ناکام ہوتی جارہی ہیں، پبلک ہی کو ایسی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی کہ وہ اپنی جان و مال کو تحفظ فراہم کریں، کیونکہ جو فساد کراتے ہیں ان کو آپ کی جان و مال سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، آپ کی تکلیفوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، وہ تو دوسروں کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔ تصور کیجیے جو لوگ یہ ہنسا کراتے ہیں وہ اپنے عیش گاہوں سے نکل کر مزاج پرسی کرنے بھی نہیں آتے، وہ بس ہڈیوں اور لاشوں پر اپنے اقتدار کا محل تعمیر کریں گے۔ یہ دلی میں سیاسی ہار کا بدلہ تھا جو لے کر اپنے غصے اور جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا گیا ہے اور خاموش پیغام دیا گیا ہے کہ اگر سکون سے رہنا ہے تو ہم کو سپورٹ کرو وگرنہ ہم ایسے ہی بستیاں اجاڑیں گے، اور تمھارا چین وسکون غارت کریں گے۔

ہندو بھائی یہ نہ سمجھیں کہ حکومت ان کی خیر خواہ ہے یا ان کی مسیحا ہے، نعرے بس ایک ڈھکوسلا ہیں، فساد بھڑکا کر یہ دونوں قوموں کا نقصان کرتے ہیں، دونوں ہی تباہی سے دوچار ہوتے ہیں، یہ ہماری جانوں کو بے وقعت سمجھتے ہیں، اور ان کی اپنی جانیں بہت قیمتی ہوتی ہیں، کڑے پہرے میں یہ باہر نکلتے ہیں، کہیں اگر ہنسا ہو تو اپنا دورہ منسوخ کردیتے ہیں، لیکن پبلک ان کے نزدیک کیڑے مکوڑے کی طرح ہوتی ہے جو مارے جائیں یا کاٹے جائیں انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا، طوفان گذرنے کے بعد چند لفظی دلاسے اور تسلی دے دیتے ہیں مگر ان دلاسوں سے کوئی اپنا لوٹ کر نہیں آتا ہے، زخموں کی ٹیسوں پر ہمیں ہی بلکنا ہے۔

یہ قانون قدرت ہے کہ ظالم اپنے کیفر کردار کو پہنچتے ہیں، تانا شاہوں کی عمر لمبی نہیں ہوتی، قدرت انصاف کرتی ہے لیکن ظالموں کو پہلے ڈھیل دی جاتی ہے، مہلت کے دنوں میں ان کے پاپ کا گھڑا بھرنے دیا جاتا ہے، جب پانی سر سے گذرنے لگتا ہے تب شروع ہوتا ظالم طاقتوں کا زوال۔ ہمارا یقین ہے کہ مکافات عمل کی زد ان پر پڑے گی اور ظلم وزیادتی کا خمیازہ ایک دن ان کو بھگتنا ہوگا۔

آپ کے تبصرے

3000