قاری نثار احمد فیضی نہ رہے

عبدالسلام صلاح الدین مدنی تاریخ و سیرت

۲۶ فروری ۲۰۲۰ء (مطابق ۲ رجب ۱۴۴۱ ھ ) کو سعودی وقت کے مطابق تقریبا ایک بجے (بعد نماز ظہر ) جب اپنا موبائل کھولا تو پیغامات کی بھر مار تھی، ان میں ایک میسج جناب شیخ عامر ارشاد فیضی کا (ابنائے قدیم جامعہ فیض عام گروپ) کچھ یوں تھا: “السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ، استاذ محترم قاری نثار احمد فیضی كا ابھی انتقال ہوگيا ہے”-
زبان سے بے ساختہ (انا للہ و انا الیہ راجعون ) نکلا۔ خبر غیر متوقع نہ تھی، آج سے دو دن قبل ہی جناب شیخ عامر ارشاد فیضی نے اچانک آپ کی طبیعت بگڑنے اور ہاسپیٹل میں ایڈمیٹ ہونے کی خبر گروپ میں دی تھی۔

قاری نثار احمد فیضی بن حافظ ابراہیم بن حافظ محمد سعید بن بدھو ۔ رحمہ اللہ ۔ نے شہر علم و فن (مئو ناتھ بھنجن) کے محلہ مرزا ہادی پورہ میں ۲۰ جون ۱۹۴۲ ء کو آنکھیں کھولیں۔ عہد طفولیت ہی میں والد کا سایۂ عاطفت سر سے اٹھ گیا، آپ ۔ رحمہ اللہ ۔ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اور شہر مئو کی ایک عظیم شخصیت، شیخ الکل فی الکل محدث نذیر دہلوی ۔ رحمہ اللہ ۔ کے ایک بے مثال شاگرد، مرزا ہادی پورہ کے ممتاز، تہجد گزار، شبِ زندہ دار عالم دین حکیم محمد سلیمان بن داؤد (۱۲۹۴ھ۔۱۳۷۸) مئوی کے پاس تعلیم و تعلم کے لیے بٹھا دیا، آپ کے پاس آں ۔ رحمہ اللہ۔ نے قرآن مجید، ابتدائی فارسی، گلستاں، بوستاں وغیرہ جیسی کتابیں پڑھیں۔
پھر آپ کے پھوپھی زاد بھائی مولانا مختار احمد ندوی ۔ رحمہ اللہ ۔ کے مشورے پر جامعہ عالیہ عربیہ مئو میں داخلہ ہوا۔ وہاں آپ نے حافظ احمد اللہ ۔ رحمہ اللہ ۔ کے پاس صرف تین سال میں قرآن کریم مکمل کرلیا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے قاری صاحب (رحمہ اللہ) کو حدت ذکاوت و شدت فطانت سے مالا مال فرمایا تھا۔ کوئی بھی چیز بہت جلدی ازبر کر لیا کرتے تھے۔ تکمیل حفظ قرآن کریم کے بعد جامعہ عالیہ ہی میں پرائمری درجات پڑھا، پھر عربی درجات میں داخلہ لیا اور جماعت رابعہ تک جامعہ عالیہ کے لائق فائق اساتذہ سے کسب فیض کیا جن میں مولانا عبد العلی، مولانا عبد الحکیم فیضی بن مولانا عبد العلی، مولانا فضل الرحمن، مولانا الیاس فیضی اور مولانا اسحاق فیضی قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد شہر کے معروف و مشہور اور جماعت کے مرکزی ادارہ (جامعہ اسلامیہ فیض عام) میں داخل ہوئے اور وہیں سے سندِ فراغت حاصل کی یہ ۱۹۶۷ء۔۱۳۸۷ھ کی بات ہے۔ آپ نے جامعہ فیض عام میں وقت کے مایہ ناز علماء کے علم و فضل سے خوب خوب فیض اٹھایا جن میں علامہ ابو عبیدہ بنارسی، شیخ الحدیث شمس الحق بہاری سلفی، علامہ جمیل فیضی، مولانا عظیم اللہ فیضی، مولانا صفی الرحمن فیضی مبارکپوری، مولانا و مفتی حبیب الرحمن مئوی فیضی ۔ رحمہم اللہ ۔ قابل ذکر ہیں۔ اول الذکر دونوں شخصیات سے بخاری شریف جلد دوم کے کچھ حصے ہی پڑھ سکے تھے کہ دونوں شخصیات عالم اسلام کی مشہور درسگاہ، جماعت اہل حدیث کی مرکزی دانش گاہ (مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس) منتقل ہوگئے۔
آپ کے ساتھیوں میں حافظ اسماعیل مدنی، مولانا یحییٰ فیضی، جامعہ فیض عام سابق شیخ الجامعہ و شیخ الحدیث و مفتی حضرت مولانا محفوظ الرحمن فیضی، مولانا ارشاد احمد فیضی اور مولانا فضل الرحمان فیضی قابل ذکر ہیں۔

درس و تدریس:
آپ نے ۱۹۶۷ء میں فراغت حاصل کرنے کے بعد ممبئی کا رخت سفر باندھا۔ وہاں آپ مسجد اہل حدیث مومن پورہ میں ایک سال رہے۔ ممبئی کی آب و ہوا آپ کو راس نہ آئی تو واپس مئو آگئے اور آپ کے صدیق حمیم اور رفیقِ مکرم شیخ محفوظ الرحمن فیضی ۔ حفظہ اللہ ۔ (سابق شیخ الجامعہ وشیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو) نے اس وقت کے درویش صفت ناظم علامہ محمد احمد مئوی قاسمی (۱۴۰۲ھ۔۱۹۸۲ء) (المعروف بہ : ناظم صاحب) سے سفارش کرکے ۱۹۶۹ء میں جامعہ فیض عام کے عربی درجات میں تعلیم و تدریس کے لیے تقرر کرادیا، جس کے لیے آں رحمہ اللہ ہمیشہ شیخ الحدیث (صدر صاحب مولانا محفوظ الرحمن فیضی) کا ممنون و مشکور رہا کرتے تھے۔

جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو سے منسلک ہوئے تو پھر آپ زندگی بھر جامعہ کے ہوکر رہ گئے۔ ریٹائر منٹ(۲۰۰۳ء) کے بعد بھی آپ کا دامن جامعہ نے نہ چھوڑا، اور یہ سلسلہ تدریس و تعلیم ۲۰۱۸ ء تک بلا انقطاع جاری و ساری رہا۔ یہ آپ کی صلاحیت، صالحیت، تقوی شعاری اور علمی لیاقت کی بین دلیل تھی۔ حتی کہ آپ کے ذمہ کلیہ ام المؤمنین فیض عام گرلس اسکول کی بعض گھنٹیاں بھی دی گئیں اور آپ نے انھیں بخوبی نبھایا۔ اس درمیان آپ سے خلقِ کثیر نے استفادہ کیا اور ملک و بیرون ملک میں دینی، علمی اور رفاہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان میں قلم کار، انشاء پرداز، مدرس، معلم، داعی، محدث، مفتی اور بے شمار علوم و فنون کے شناور پیدا ہوئے جن میں شیخ ڈاکٹر عبد الباری فتح اللہ مدنی، شیخ مقصود الحسن فیضی، شیخ ظفر الحسن فیضی، شیخ قاری نجم الحسن فیضی، مولانا مقیم فیضی، مولانا عبید الرحمن مدنی، مولانا مظہر علی مدنی (شیخ الجامعہ جامعہ فیض عام )، مولانا شمیم احمد عمری مدنی، مولانا ابراہیم مدنی، مولانا عبد الحمید فیضی، مولانا حماد الرحمن فیضی سلفی، مولانا عبد الغنی فیضی (سابق شیخ الجامعہ جامعہ فیض عام) مولانا ڈاکٹر عبد المنان فیضی مدنی، شیخ مفیض الدین مدنی، شیخ عبد السلام منیر الدین فیضی مدنی، مولانا لیث محمد مکی، مولانا شفاء اللہ فیضی دمکاوی، مولانا خالد فیضی، مولانا ڈاکٹر فاروق عبد اللہ اشرف الحق نراین پوری مدنی، مولانا عامر مصطفی فیضی مدنی اور کاتبِ سطور وغیرہم قابل ذکر ہیں۔
آپ کے زیر تدریس کتابوں میں کافیہ تھی جو کہ نحو کے فن میں انتہائی ادق کتاب مانی جاتی ہے لیکن استاد محترم بہترین اسلوب میں اس کی عبارتیں حل کرتے اور نحو کے مباحث کو بیان کرتے تھے چنانچہ شیخ کو اس فن پر اس قدر دسترس حاصل تھی کہ آپ صرف “الكلمة لفظ وضع لمعنى مفرد” پر ایک ہفتے تک مسلسل بحث کیا کرتے تھے۔ مادر علمی جامعہ فیض عام میں آخری سال تھا تو آپ سے صحیح مسلم پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، صحیح مسلم آپ محدثانہ شان سے پڑھاتے تھے۔ آپ ایک منجھے ہوئے کہنہ مشق معلم ہی نہیں ایک عظیم مربی بھی تھے، طلبہ کو دورانِ درس بھی مستقبل میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے راز بتلاتے اور کتابوں کے مطالعہ کا شوق دلاتے تھے۔ کلاس میں برابر یہ نصیحت کرتے تھے کہ اگر اچھا عالم بننا ہے تو کتابوں کے کیڑے بنو، اپنے اوقات کو پڑھائی میں لگاؤ اور وقت کو ضائع کرنے سے بچو اس کے بعد یہ شعر پڑھ کر سنایا کرتےتھے:
بقدر الكد تكتسب المعالى
ومن طلب العلا سهر الليالي
آپ کی تدریس کا انداز انتہائی جدا گانہ تھا، بغیر مطالعہ کے درس دینا حرام قرار دیتے تھے۔ جس دن مطالعہ کرنے کا موقعہ نہ مل پاتا تھا درس نہیں دیا کرتے۔ وقت پر کلاس میں پہنچنے کے انتہائی حریص تھے، بلا ناغہ جامعہ آتے، درس دیتے اور بغیر کسی ضیاعِ وقت کے پوری گھنٹی درس میں صرف کرتے تھے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو میں آپ کی شان نرالی تھ۔ اساتذہ، طلبہ، معلمین اور متعلمین سب ہی آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ شیخ الجامعہ شیخ محفوظ الرحمن فیضی ۔ حفظہ اللہ ۔ آپ کی علمی لیاقت کے معترف تھے اور ہمیشہ آپ کی عزت و توقیر کیا کرتے۔ کبھی کبھار لطیف نوک جھونک بھی ہوجاتی جو آپ دونوں کے رشتہ کی وجہ سے مزید لطافت میں تازگی پیدا کرتی تھی۔

امامت و خطابت:
آپ کے محلہ (مرزا ہادی پورہ) کی جامع مسجد میں ۱۹۶۹ء تک جمعہ کی نماز قائم نہیں تھی۔ اس سے قبل جامعہ عالیہ عربیہ میں طالب علمی کے زمانہ ہی سے آپ کبھی کبھار کوئی نماز پڑھا دیا کرتے تھے، آپ کی آواز انتہائی سریلی اور کانسے جیسی تھی، سننے والے کو مسحور کر دیتی تھی۔ اللہ نے بلا کی ذہانت سے نوازا تھا، خطابت میں کشش تھی، آواز میں جادو تھا اور صوت انتہائی مترنم ہوا کرتی تھی۔ آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کو کتنے لوگ تڑپا کرتے تھے۔ چنانچہ جب ۱۹۶۹ء میں جامعہ فیض عام میں آپ کی تقرری ہوئی حسن اتفاق کہیے کہ اسی سال جامع مسجد اہل حدیث مرزا ہادی پورہ میں خطبہ جمعہ کا سلسلہ بھی قائم ہوا اور کچھ مدت کے پس و پیش بعد آپ کو مستقل طور پر وہاں کا امام و خطیب مقرر کر دیا گیا جہاں سے آپ عمر بھر جڑے رہے اور تقریبا ۴۵ سال اسی ایک ہی مسجد سے منسلک ہوکر اس کی خدمت کرتے رہے۔
آپ کے خطباتِ جمعہ انتہائی پر کشش ہوا کرتے تھے۔ جامعہ فیض عام، جامعہ اثریہ اور جامعہ عالیہ عربیہ کے طلباء بھی آپ کے خطبات سننے کے لیے حاضر ہوا کرتے تھے۔ فللہ درہ

تبلیغی دورے
چونکہ اللہ تعالی نے آپ کو ملکۂ خطابت کے حظ اوفر سے نواز رکھا تھا اس لیے آپ مختلف موقعے پر مختلف صوبہ جات کے دورے کیا کرتے تھے۔ جہاں آپ کے لیے خطبے، تقریریں، وعظ و نصیحت کی مجلسیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ اور آپ ان میں خطابت کے عظیم جوہر دکھاتے تھے اور خلقِ عظیم مستفید ہوتی تھی۔
۲۰۱۷ء میں رب کریم نے خاکسار کو اپنی بستی میں ایک پر شکوہ اور عظیم الشان مسجد (جامع مسجد) کی تعمیر کی سعادت بخشی تھی۔ اس کے افتتاح کے موقعے پر آپ کو بطور خطیب دعوت دی، آپ نے خاکسار کی دعوت نہ صرف قبول فرمائی بلکہ نقاہت و کمزوری کے باوجود حاضر ہوئے اور اپنے بیش قیمت خطاب سے اہالیانِ جھارکھنڈ کو محظوظ فرمایا۔ اس موقعہ سے آپ کے ہزاروں شاگردوں نے آپ سے ملاقات کی اور شاید آپ کے کتنے شاگردوں کی وہ آخری ملاقات ہوگی اور آج وہ سب اس آخری ملاقات کو یاد کر رہے ہوں گے۔

مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ استاذ محترم خاکسار کو بہت عزیز رکھتے تھے، انتہائی شفقتوں سے نوازتے تھے۔ ۱۹ جنوری ۱۹۹۵ء کو جب جامعہ فیض عام سے میری فراغت ہوئی تو دستارِ فضیلت آپ کے دست مبارک سے باندھی گئی (واضح ہو کہ فارغین آپ کے ہاتھ سے دستار باندھنے کو ترستے تھے) دستار باندھتے ہوئے شیخ محترم نے مجھ سے فرمایا: “بیٹے! اس دستار کا خیال رکھنا‘‘
اور یہی وجہ ہے کہ جب جب خاکسار نے شیخ محترم کو دعوت دی حاضر ہوئے۔ اس سے قبل مرکز آزاد التعلیمی الاسلامی بلاقی روڈ گریڈیہہ (جھارکھنڈ) بھی خاکسار کی دعوت پر تشریف لا چکے تھے۔
خطابت، پند و موعظت کے لیے آپ نے کئی صوبوں کے سفر کیے جن میں یوپی کے علاوہ مہاراشٹر، آندھرا پردیش، بہار اور جھارکھنڈ جیسے صوبہ جات شامل ہیں۔

اخلاق و عزائم
آپ رحمہ اللہ انتہائی خلیق، متقی، شب ِ زندہ دار ‘پرہیزگار، عالی وقار، ملنسار، اوصاف جمیلہ اور خصائل حمیدہ سے متصف بلندپایہ کردار کے تعلیمی سلسلہ کے چشیدہ کار، مجرب کہنہ مشق مدرس، بے باک خطیب اور دین کے مخلص خدمت گزار تھے۔ اللہ نے آپ کی زبان میں وہ تاثیر رکھی تھی کہ آپ جب بولتے تھے تو سیدھے دل کو وہ بات لگتی تھی۔
وقتا فوقتا طلبہ جامعہ کو نصیحت کرتے رہتے تھے۔ آپ کی نصیحت مختصر اور پراثر ہواکرتی تھی، تعلیم پر زور دیا کرتے تھے، شفقت پدری کے ساتھ ہمیشہ طلبہ کے ساتھ پیش آتے تھے۔ مشفق، مہربان اور طلباء کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھنے والے اساتذہ کرام میں سے آپ کا شمار ہوتا تھا۔ مرجع کی کتابوں کے مطالعہ کی طرف رہنمائی فرماتے، اس کی تلقین و تاکید کرتے، وقت کی قدر کرنے پر بے تحاشہ زور دیا کرتے اور نہایت ہی سادگی پسند تھے۔ شیخ الجامعہ محفوظ الرحمن فيضی حفظہ اللہ بھی ان کا نہایت ہی احترام فرماتے۔
بالآخر علم و عمل کا یہ روشن چراغ ۲ رجب ۱۴۴۱ ھ مطابق ۲۶ فروری ۲۰۲۰ ء کو بجھ گیا اور اپنے پیچھے ہزاروں سوگواروں کو روتا بلکتا چھوڑ کر چلا گیا۔ اس طرح ایک شاندار، لا جواب اور بے مثال تعلیم و تدریس کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔
اللہ رب العالمین مرحوم کی نیکیوں کو شرف قبولیت عطا کرے، بشری لغزشوں کو معاف فرمائے، انھیں جنۃ الفردوس کا مستحق بنائے اور ان کے اہل خانہ، تلامذہ، متعلقین اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے۔ آمین
جنازہ کی نماز ہندوستانی وقت کے مطابق ۹ رات ادا کی گئی اور نماز آپ کے ہم نوالہ و ہم پیالہ شیخ محفوظ الرحمن فیضی (سابق شیخ الجامعہ و شیخ الحدیث جامعہ فیض عام مئو) نے پڑھائی۔
استاذ محترم کی پہلی شادی ڈومن پورہ حبہ میں مولانا مظہر اعظمی کی بہن سے ہوئی تھی۔ انتقال کے بعد دوسری شادی کیاری ٹولہ میں ہوئی۔ استاذ محترم نے ایک مرتبہ مجھ سے بتایا تھا کہ میرے بیٹے اور بیٹیوں کی تعداد کل 14 ہے جن میں سے کچھ تو انتقال کرگئے ہیں اور باقی بقید حیات ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000