ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ (1943ء – 2020ء)

رفیق احمد رئیس سلفی تاریخ و سیرت

(ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں یہ تحریر لکھی گئی تھی جو میری کتاب ”اہل حدیث فضلاء کی قرآنی خدمات“، شائع کردہ خلیق احمد نظامی سنٹر فار قرآنک اسٹڈیز، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں شامل ہے۔ انتہائی افسوس ناک خبر ملی ہے کہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی کا آج ریاض کے کسی اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور ان کی ہمہ جہت خدمات کو شرف قبول بخشے۔ آمین۔ برادر عزیز شیخ ارشد فہیم الدین مدنی سے تعزیت کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اس مصیبت کی گھڑی میں وہ ڈاکٹر صاحب کے اکلوتے صاحب زادے بیرسٹر عبداللہ کے ساتھ کھڑے رہیں اور جس جامعہ کو ڈاکٹر صاحب نے اپنی پوری زندگی دے دی، اس کو حسب سابق رواں دواں رکھیں،شاید ان کے بسائے ہوئے علمی شہر کی آبادی وشادابی ہی ڈاکٹر صاحب کو بہترین خراج عقیدت ہوگی۔]

رفیق احمد رئیس سلفی، علی گڑھ، 5/مارچ 2020ء بوقت 6.37 بجے شام


مختصر سوانحی خاکہ
تیسیر الرحمن لبیان القرآن،ڈاکٹر محمد لقمان سلفی کی تفسیر ہے۔ڈاکٹر سلفی کئی ایک کتابوں کے مصنف اور مشرقی چمپارن،بہار کے ایک بڑے دینی تعلیمی ادارے جامعہ امام ابن تیمیہ کے بانی وموسس ہیں۔ریاست بہار کے اسی ضلع کے ایک گاؤں ”چندن بارہ“میں 23/اپریل 1943ء کو ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔(1) ان کے دادا غازی محمد یسین ایک عرصے تک تحریک شہیدین کی جماعت کے ساتھ سرحد پار رہے تھے۔وہ ایک صاحب تقوی بزرگ تھے۔ڈاکٹر صاحب کی ابتدائی تعلیم وتربیت ان کے داد ا کی نگرانی میں ہوئی ،ان کے والد کا اسم گرامی بارک اللہ تھا،وہ بھی اپنے علاقے کے ممتاز لوگوں میں شمارکیے جاتے تھے۔مقامی اور علاقے کے دینی مکاتب ومدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1956ء میں دارالعلوم احمدیہ سلفیہ،دربھنگہ میں داخلہ لیا اور یہاں مولانا ظہور احمد رحمانی، مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی،مولانا صوفی عبدالرحمن سلفی،مولانا عین الحق سلفی ڈاکٹر حبیب المرسلین شیدا سلفی،مولانا محمد اکمل اعظمی اور مولانا محمد عمیس اختر سلفی وغیرہ سے عربی کی مختلف جماعتوں میں تعلیم حاصل کی۔
دارالعلوم احمدیہ سلفیہ سے فراغت کے بعد 1962ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ مل گیا اور وہاں انھوں نے 1967ء تک تعلیم حاصل کرکے بی اے کی سند حاصل کی۔جامعہ اسلامیہ سے فراغت کے بعد ان کو دارالافتاء ریاض میں مترجم کی ملازمت مل گئی۔دوران ملازمت انھوں نے معہد العالی للقضاۃ سے ایم اے کیا اور پھر کئی سالوں بعدجامعہ امام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض سے ڈاکٹر محمد ادیب صالح کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
انھیں سعودی عرب کے سابق مفتی شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی صحبت میں رہنے اور ان سے استفادے کے مواقع حاصل رہے۔ان کے آفس میں ڈاکٹر محمد لقمان ان کے بہت قریب اور معتمد علیہ رہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ عالم اسلام اور دیگر ممالک میں اسلامی دعوت کی توسیع واشاعت اور مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے میں کافی دل چسپی لیتے تھے،اس طرح کے کاموں میں وہ عام طور پر ڈاکٹرمحمد لقمان سلفی کو اپنا نمایندہ بناکر بھیجتے تھے۔باہر سے آنے والے وفود کی ترجمانی کے فرائض کی انجام دہی بھی ان کے ذمہ ہوا کرتی تھی۔
ڈاکٹر محمد لقمان سلفی نے اپنی خود نوشت ”کاروان حیات“کے نام سے لکھی ہے جس میں انھوں نے اپنی زندگی کے تمام حالات تفصیل سے لکھے ہیں۔ انھوں نے سعودی عرب میں جن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
شیخ عبدالعزیزابن باز، شیخ محمد ناصرالدین البانی، شیخ امین بن محمد مختار شنقیطی، شیخ عبدالرزاق عفیفی، شیخ مناع القطان، شیخ عبدالقادر شیبہ الحمد، حافظ محمد گوندلوی، شیخ عبدالمحسن، شیخ عبداللہ بن حمید، مولانا عبدالغفار حسن رحمانی، علامہ ابوعلی محمد منتصر کتانی، شیخ محمد مجذوب، شیخ عطیہ محمد سالم، شیخ محمد اشقر، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی، شیخ محمد ابراہیم شقراء وغیرہم۔
علمی وتصنیفی خدمات
ڈاکٹر محمد لقمان سلفی نے کئی ایک کتابیں تصنیف کی ہیں، ان کی بعض کتابیں جامعات کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔چند مشہور کتابیں یہ ہیں:
(1) مکانۃ السنۃ وحجیتھا فی التشریع الاسلامی
(2) اہتمام المحدثین بنقد الحدیث سندًا ومتنًا، ودحض مزاعم المستشرقین وأتباعہم
(3) السلسلۃ الذھبیۃ للقراء ۃ العربیۃ
(4) ھدی الثقلین فی أحادیث الشیخین
(5) تحفۃ الکرام شرح بلوغ المرام
(6) رحلۃ مریم جمیلۃ الأمریکیۃ من الکفر الی الاسلام
(7) الصادق الأمین(عربی،اردو)
(8) سید المرسلین (عربی،اردو)سیرت نبوی پر مختصر کتاب
(9) رش البرد شرح الأدب المفرد (عربی،اردو)
(10) أرکان الاسلام
(11) مشعل راہ
(12) اذکار وادعیہ
(13) رہنمائے حج وعمرہ
ان کے علاوہ انھوں نے کئی ایک کتابوں کے ترجمے،تحقیق وتخریج کی ہے اور بہت سی کتابیں ان کی نگرانی میں لکھی گئی ہیں جن پر انھوں نے نظر ثانی کی ہے اور ان کی طباعت کا انتظام کیا ہے۔(2)
فیوض العلام علی تفسیر آیات الأحکام
تفسیر کے علاوہ ان کی ایک اہم قرآنی خدمت ”فیوض العلام علی تفسیر آیات الأحکام“ بھی ہے۔ امام شوکانی کی تفسیر ”فتح القدیر“ میں آیات احکام کی جو تفسیر کی گئی ہے، ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس کتاب میں اسے بڑے سلیقے سے مرتب کردیا ہے۔احکام سے متعلق 500/ سے زائد آیات کی یہ تفسیر دو جلدوں میں 1200/صفحات پر مشتمل ہے۔ اپنی اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر سلفی نے لکھا ہے:
”میری عربی تفسیر ”فیوض العلام فی تفسیر آیات الأحکام“ سعودی عرب کی کئی جامعات کے کلیۃ الشریعۃ وغیرہ میں زیر نصاب ہے۔اس تفسیر میں میں نے ہر چند آیات کی تفسیر بیان کرنے کے بعد ان آیات سے ماخوذدینی اور فقہی احکام کا ذکر کیا ہے جو طلبہ وطالبات اور دیگر علماء کے لیے بہت ہی مفید ثابت ہوا ہے“۔ (3)
ڈاکٹر محمد لقمان دعوت وتبلیغ، تصنیف وتالیف اور انتظام وانصرام کی کئی ایک ذمہ داریوں سے وابستہ ہیں اور بھرپور علمی زندگی گزار رہے ہیں۔انھیں سعودی عرب کی شہریت حاصل ہے اور وہیں مع اہل وعیال مقیم ہیں۔
تیسیر الرحمن لبیان القرآن
ذیل میں ان کی تفسیر ”تیسیر الرحمن لبیان القرآن“ کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جارہا ہے۔ تفسیر کا طبع دوم اس وقت میرے سامنے ہے جو علامہ عبدالعزیز بن باز اسلامک اسٹڈیز سنٹر، چندن بارہ، مشرقی چمپارن، بہار سے 2001ء میں شائع ہوا ہے۔ صفحات کی تعداد مع فہرست مضامین تفسیر 1838 ہے۔
تفسیرکا انگریزی اور ہندی ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔اردوتفسیر کے ایڈیشن اور اس کی مقبولیت کے تعلق سے ڈاکٹر صاحب نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے: میری اردو تفسیر قرآن کریم ”تیسیر الرحمن لبیان القرآن“ گیارہ باہ سال میں چودہ بار سعودی عرب میں چھپ چکی ہے اور ہندوپاک میں بھی چھپ کر قرآن وسنت پر مبنی تفسیر کی حیثیت سے خاص وعام کو فائدہ پہنچارہی ہے۔ یورپ، امریکہ، سعودی عرب اور ہندوپاک کے سیکڑوں مساجد میں ائمہ مساجد اسے پڑھ کر درس قرآن دے رہے ہیں اور مسلم خواتین گھروں میں اسی تفسیر کے ذریعے درس دے رہی ہیں۔بے شمار لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اس تفسیر کے ذریعے تفسیر قرآن کریم اور اردو زبان بھی سیکھ رہے ہیں۔(4)
منہج تفسیر
ڈاکٹر محمد لقمان سلفی نے اپنی اس تفسیر کا دیباچہ ”چند باتیں: اس ترجمہ وتفسیر سے متعلق“ کے عنوان سے لکھا ہے۔ وہ تفسیر اور ترجمہ سے متعلق اپنے طریقہ کار اور اپنی ترجیحات کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں:
”میں نے اس کام کے لیے وہی منہج اور طریقہ کار اختیار کیا جو صحابہ کرام کے زمانہ سے کتب تفسیر کی تالیف کے لیے سلف صالحین کا رہا ہے، یعنی قرآن کی تفسیرقرآن، صحیح احادیث، صحیح اقوال صحابہ اور ان سے مروی تفسیروں کے ذریعے کروں، آیات کا شان نزول بیان کروں جو صحیح احادیث سے ثابت ہو، آیتوں کے درمیان ربط تلاش کروں جس سے ماقبل اور ما بعد کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
جن مضامین کے ایضاح وتبیین کا میں نے خصوصی اہتمام کیا ہے (جو سلف صالحین کی تفسیروں کا طرہ امتیاز رہا ہے) وہ قرآن کریم کا بنیادی موضوع عقیدہ توحید باری تعالی ہے، اس ضمن میں شرکیہ اعمال، بت پرستی، قبرپرستی، مشائخ پرستی، نام نہاد تصوف کے انحرافات اور بدعات وضلالت کی تردید بھی ہوتی گئی ہے۔ عقیدہ رسالت، ختم نبوت اور باری تعالیٰ کے اسماء وصفات کی توحیدکو بھی میں نے خصوصی طور سے بیان کیا ہے۔ ساڑھے چار سو سے زائد آیات میں قرآن کریم نے انسانی زندگی سے متعلق سیکڑوں احکام بیان کیے ہیں، ان تمام فقہی مسائل کو میں نے آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
تفسیر کے مراجع ومصادر
چونکہ مجھے اپنے مذکورہ بالا منہج اور طریقہئ کار کا پابند رہنا تھا،اس لیے میں نے بنیادی مراجع اور مصادر کے انتخاب میں بہت ہی احتیاط سے کام لیا ہے۔چنانچہ جو تفسیریں میری میز پر ہر وقت کھلی رہیں اور جن سے میں نے بلاواسطہ استفادہ کیا ہے،وہ مندرجہ ذیل ہیں:
حافط ابن کثیر کی ”تفسیرالقرآن العظیم“، امام قرطبی کی ”الجامع لأحکام القرآن“، امام شوکانی کی ”فتح القدیر“، حافظ ابن القیم کی ”الضوء المنیر“، نواب صدیق حسن کی ”فتح البیان“، علامہ جمال الدین قاسمی کی ”محاسن التنزیل“، علامہ عبدالرحمن السعدی کی ”تیسیر الکریم الرحمن“ اور شیخ ابوبکر جزائری کی ”ایسر التفاسیر“۔ ان کتابوں کے علاوہ میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد صاحب قلم سیال حافظ ابن القیم کی متعدد مؤلفات سے بھی استفادہ کیا ہے، اکثر وبیشتر جگہ میں نے ان کتابوں کا ذکر کیا ہے اور کہیں کہیں ان کا نام لیے بغیر ان سے مستفاد افکار کو اردو کا جامہ پہنادیا ہے۔
ترجمہ کی تیاری میں میں نے اپنی تیار کردہ تفسیر کو ہر وقت سامنے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مقامات پر میں نے قدیم بزرگان ہند وپاک کی روش سے ہٹ کر ترجمہ کا اسلوب اختیار کیا ہے لیکن کسی حال میں بھی جمہور مفسرین کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے شذوذ کی راہ نہیں اختیار کی ہے۔ اپنی تفسیر کے علاوہ مولانا محمد صاحب جونا گڈھی کا مشہور ومعروف ترجمہ،شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری کا ترجمہ اور محدث عبدالقادر بن ولی اللہ الدہلوی کا ترجمہ بھی میرے سامنے رہا۔ ان ترجموں کے علاوہ سعدی شیرازی اور ولی اللہ دہلوی کے دو فارسی ترجموں سے بھی میں نے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔ مذکورہ بالا ترجموں سے میرے استفادہ کی نوعیت صرف مناسب ترین اردو الفاظ لینے کی حد تک تھی۔
میں نے ترجمہ کرتے وقت اس بات کا خصوصی لحاظ رکھا ہے کہ ہر آیت کا ترجمہ الگ ہو لیکن ترجمہ بہر حال بامحاورہ اور تشریحی ہوتاکہ اگر کوئی شخص صرف ترجمہ ہی پڑھنا چاہے تو وہ تسلسل کے ساتھ قرآن کریم کے بنیادی مقاصد ومضامین کو سمجھتا جائے“۔(5)
تفسیر کی خصوصیات
ترجمہ وتفسیر کی تکمیل کے بعد اہل علم کی ایک کمیٹی نے اس کے سلسلے میں جو رپورٹ پیش کی، اس سے اس کی خصوصیات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ مندرجہ ذیل ہے:
(۱) اردو میں موجود سابق ترجموں کے ساتھ مقارنہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ یہ ترجمہ زیادہ دقیق اور نص قرآنی سے قریب تر ہے۔
(۲) ترجمہ وتفسیر کی زبان معیاری اور آسان ہے۔
(۳) صحیح اسلامی عقیدہ کی وضاحت اور بدعات وخرافات اور شرکیات کی تردید کا قرآنی آیات اور صحیح احادیث کی روشنی میں خصوصی اہتمام کیا ہے۔
(۴) تفسیری فوائد،فقہی احکام اور آیتوں کے درمیان ربط وتعلق پیدا کرنے پر خصوصی توجہ دی ہے۔
(۵) تفسیر میں مذکور تمام احادیث نبویہ کے حوالے بیان کردیے ہیں اور ضعیف وموضوع احادیث اور من گھڑت روایات سے پورے طور پر اجتناب کیا ہے۔
(۶) مصنف نے اپنی تفسیر میں مندرجہ ذیل کتب تفاسیر سے خصوصی طور پر استفادہ کیا ہے: تفسیر طبری، تفسیر قرطبی، ہراسی کی تفسیر ”احکام القرآن“، ابن القیم کی تفسیر”الضوء المنیر“، ابن کثیر کی تفسیر ”تفسیر القرآن العظیم“، تفسیر ابی السعود، شوکانی کی ”فتح القدیر“، صدیق حسن کی”فتح البیان“، جمال الدین قاسمی کی ”محاسن التنزیل، عبدالرحمن السعدی کی ”تیسیر الکریم الرحمن“ اور جزائری کی ”ایسر التفاسیر“۔ مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مفسر نے جا بہ جا دیگر کتب تفاسیر سے بھی استفادہ کیا ہے۔(6)
مولانا محمد اسحاق بھٹی نے ڈاکٹر محمد لقمان سلفی کی تفسیر کی خصوصیات کا ذکر اس طرح کیا ہے:
٭قرآن کی تفسیر قرآن کی رو سے۔

٭احادیث کی رو سے۔

٭اقوال صحابہ کی رو سے۔

٭اقوال سلف کی روسے۔

٭ترجمے میں الفاظ قرآن کے معانی ومطالب کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔

٭مشکل الفاظ کی تشریح کی گئی ہے۔

٭صرف ونحو کے قواعد کو پیش نگاہ رکھا گیا ہے۔

٭ہر سورت کے آغاز میں اس کی وجہ نزول کی وضاحت کی گئی ہے۔

٭ سورتوں کی وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے۔

٭احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں ہر سورت کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔

٭صفات باری کے بیان میں مسلک سلف کو پیش نگاہ رکھا گیا ہے۔

٭استخراج مسائل کیا گیا ہے۔٭مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔

٭مستشرقین اور استشراق زدہ لوگ قرآن مجید کو جس انداز سے محل تنقید ٹھہراتے ہیں، اس کا مناسب اور بہتر الفاظ میں دفاع کیا گیا ہے۔(7)
تفسیر کا تجزیاتی مطالعہ
سورہ فاتحہ قرآن کریم کا دیباچہ اور اس کے مضامین کا خلاصہ ہے۔اس کی بہت سی خصوصیات ہیں جو اس کے مختلف ناموں سے بھی نمایاں ہوتی ہیں۔ڈاکٹر محمد لقمان سلفی لکھتے ہیں:
قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں اس سورت کے کئی نام آئے ہیں۔ امام قرطبی نے اس کے بارہ نام بتائے ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔
الصلاۃ: جیسا کہ حدیث قدی میں آیا ہے: قسمت الصلاۃ بینی وبین عبدی نصفین۔ الحدیث۔ یعنی میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ اس حدیث میں صلاۃ سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ اس سورت کا ابتدائی نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کی ربوبیت، الوہیت اور ملوکیت کا اعتراف ہے، اور دوسرا نصف حصہ اللہ سے دعا و مناجات ہے۔
الحمد: اس لیے کہ اس سورت میں حمد کا ذکر ہے۔
فاتحۃ الکتاب: اس لیے کہ قرآن کریم کی تلاوت، مصحف کی کتابت اور نماز کی ابتدا اسی سورت سے ہوتی ہے۔
ام الکتاب: امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التفسیر کے شروع میں لکھا ہے کہ اس کا نام ام الکتاب اس لیے کہ مصحف کی کتابت اور نماز میں قراء ت کی ابتدا اسی سے ہوتی ہے۔ ایک توجیہہ اس کی یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سورت میں قرآن کریم کے تمام معانی و مضامین کا ذکر اجمالی طور پر آگیا ہے۔
ام القرآن:امام ترمذی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:سورۃ الحمد للہ، ام القرآن ہے، ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے۔
السبع المثانی: اس لیے کہ یہ سورت سات آیتوں پر مشتمل ہے اور نماز کی ہر رکعت میں ان آیتوں کا اعادہ ہوتا ہے۔
القرآن العظیم: اس لیے کہ اس میں تمام قرآنی علوم کا ذکر کیا گیا ہے۔
الشفاء: امام دارمی نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:فی فاتحۃ الکتاب شفاء من کل داء۔ یعنی سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لیے شفا رکھی ہے۔
رقیہ: یعنی دم، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس صحابی سے جس نے ایک سردارِ قبیلہ پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا اور اس کے جسم سے سانپ کا زہر اتر گیا تھا)کہا کہ تجھے کس نے بتایا کہ یہ دم ہے؟ تو صحابی نے کہا یا رسول اللہ! میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی تھی۔
الاساس: امام شعبی رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ قرآن کی اساس سورہ فاتحہ ہے، جب کبھی بیماری پڑو تو اس سورہ کے ذریعہ شفا حاصل کرو۔
الوافیۃ: سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ نماز میں سورہ فاتحہ کی تقسیم نہیں ہوسکتی۔ یعنی دیگر سورتوں کی طرح اسے نصف نصف دو رکعتوں میں پڑھنا جائز نہیں اس لیے اس کا نام الوافیہ ہے۔
الکافیہ: یحیی بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ یہ سورہ دوسری سورتوں کے بدلے میں کافی ہوجاتی ہے لیکن دوسری سورتیں اس کے بدلہ میں کافی نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے اس کا نام الکافیہ ہے۔(8)
ڈاکٹر سلفی نے احادیث میں مذکور سورتوں کے فضائل بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے اور جن سورتوں کے فضائل میں ضعیف روایات منقول ہیں،ان کی بھی نشان دہی کی ہے۔ سورہ بقرہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس سورت کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ کی چند چیدہ احادیث کا ذکر یہاں کردیا جائے۔
(الف) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبر نہ بناؤ جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے، اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا (مسند احمد، صحیح مسلم، ترمذی، نسائی)
(ب) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفا اور مرفوعاً روایت ہے کہ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے، جس میں سورۃ البقرہ کی تلاوت سنتا ہے (مستدرک حاکم، نسائی فی الیوم واللیلہ)
(ج) ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہتے سنا:قرآن پڑھا کرو، اس لیے کہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔ دونوں روشنی پھیلانے والی سورتیں ”سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران“ پڑھا کرو، دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے دو بادل ہوں، یا چڑیوں کے دو جھنڈ ہوں، صف باندھے ہوئے، اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے دفاع کر رہی ہوں گی۔ سورۃ البقرہ پڑھو، اس لیے کہ اس کا حاصل کرنا برکت ہے اور اس کا چھوڑ دینا باعث حسرت ہے، اور جادوگر لوگ اس کے پڑھنے والے پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ہیں۔(9)
بعض سورتوں کے فضائل میں منقول احادیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہیں بلکہ وہ موضوع کے ذیل میں بھی آتی ہیں۔ڈاکٹر سلفی نے سورہ یس کی فضیلت کے تعلق سے لکھا ہے:
”صاحب محاسن التنزیل نے لکھا ہے کہ اس سورت کی فضیلت سے متعلق جتنی حدیثیں مروی ہیں، سب موضوع، باطل یا ضعیف ہیں“۔(10)

حروف مقطعات
کتب تفاسیر میں حروف مقطعات کی بحث بڑی معرکۃ الآراء سمجھی جاتی ہے۔ہر مفسر نے اس سلسلے میں اپنے خیالات پیش کیے ہیں،ڈاکٹر سلفی نے اس مسئلے میں بڑی عمدہ گفتگو کی ہے،ان کی تحریر ملاحظہ فرمائیں:
”قرآن کریم کی انتیس سورتوں کی ابتدا حروف مقطعات سے ہوئی ہے۔ اس کے معنی و مفہوم کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ پہلا مشہور مذہب تو یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے۔ اس کا معنی کسی کو معلوم نہیں۔ اسی لیے ان حضرات نے اس کی تفسیر بیان نہیں کی ہے۔
دوسرا مذہب ان لوگوں کا ہے جنھوں نے اس کی تفسیر بیان کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں سے اکثر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ ان حروف کے ذریعہ بہت سی قرآنی سورتوں کی ابتدا اہل عرب جن کے لیے قرآن کریم ایک چیلنج بنا کر بھیجا گیا،کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانے کے لیے کی گئی کہ یہ قرآن انہی حروف سے مرکب ہے، جن سے تمہاری تقریر و تحریر کے کلمات بنتے ہیں، لیکن تم اس جیسی ایک آیت بھی لانے سے عاجز ہو، کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، کسی انسان کا نہیں؟
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اوائل سورہ میں ان حروف کے لائے جانے کی حکمت یہی بیان کی ہے کہ ان کا مقصد قرآن کریم کا اعجاز ثابت کرنا ہے کہ اللہ کی کتاب انہی حروف سے مرکب ہے جن سے تمہاری گفتگو کے کلمات بنتے ہیں، لیکن پھر بھی تم اس جیسا کلام لانے سے عاجز ہو۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہ کلام الٰہی ہے!!
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ جن سورتوں کی ابتدا ان حروف سے ہوئی ہے ان میں قرآن کی عظمت اور اس کے اعجازی کلام ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ الم ذالک الکتاب لاریب فیہ۔ المص، کتاب انزل الیک فلا یکن فی صدرک ھرج منہ۔ الم تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العالمین۔ حم تنزیل من الرحمن الرحیم۔ اور اسی طرح وہ تمام سورتیں جن کی ابتدا حروف مقطعات سے ہوتی ہے، آپ دیکھیں گے کہ ان سب میں قرآن کی عظمت اور اس کے اللہ کا کلام ہونے پر زور دیا گیا ہے۔(11)
جادو کی شرعی حیثیت
جادو کی شرعی حیثیت اور جادوگر کے شرعی حکم پر مفسر نے سورہ بقرہ کی آیت:(102) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
”یہ آیت دلیل ہے کہ جادو کی حقیقت ہے اور وہ اللہ کے ارادہ کے مطابق نقصان پہنچاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس میں صراحت کردی ہے کہ جادوگر دنیاوی تعلقات میں سب سے قوی اور مضبوط رشتہ یعنی میاں بیوی کے تعلقات کو بھی توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
٭معلوم ہوا کہ جادو میں کسی طرح کی کوئی دینی یا دنیوی منفعت نہیں۔
٭اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے جادو کو جان بوجھ کر اختیار کیا تھا، ایسی بات نہیں تھی کہ وہ لوگ جادو کے نقصانات سے ناواقف تھے۔
(إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ) سے بعض علماء نے جادو سیکھنے والے کے کفر پر استدلال کیا ہے، اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو کوئی کسی کاہن یا جادوگر کے پاس آیا اور اس کے کہے کی تصدیق کی، اس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ دین اسلام کا انکار کیا، اس حدیث کو حافظ بزار نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کی ہے، اور اس کے دیگر شواہد بھی پائے جاتے ہیں۔
جادوگر کی تکفیر پر استدلال (وَلَوْ أَنَّہُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا)، سے بھی کیا جاتا ہے کہ ان سے ایمان کی نفی کردی گئی ہے، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر سلف صالحین کی یہی رائے ہے۔
بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ جادوگر کافر نہیں ہوتا، لیکن بطور تعزیری سزا اس کی گردن مار دی جائے گی، امام بخاری اور احمد بن حنبل نے بجالہ بن عبدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں لکھ بھیجا کہ ہر ساحر اور ساحرہ کو قتل کردیا جائے، بجالہ کہتے ہیں کہ ہم نے تین جادوگروں کو قتل کیا۔یہ بھی صحیح روایت سے ثابت ہے کہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہاکو ان کی ایک لونڈی نے جادو کردیا تو آپ نے اس کے قتل کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ قتل کردی گئی۔ ترمذی نے جندب الازدی سے روایت کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جادوگر کی سزا تلوار سے قتل کردینا ہے“۔(12)
تقلید شخصی کی شرعی حیثیت
سورہ النحل کی آیت:43 (فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)سے بعض لوگوں نے تقلید شخصی پر استدلال کیا ہے،ڈاکٹر سلفی نے ان کی تردیدکی ہے اور بتایا ہے کہ آیت کی صحیح تفسیر کیا ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”تقلید شخصی کے قائلین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے جن کے پاس علم نہ ہو انہیں حکم دیا ہے کہ وہ اہل علم سے پوچھ لیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کا سیاق و سباق دلالت کرتا ہے کہ یہ آیت ایک خاص موضوع کے بارے میں سوال کرنے سے متعلق ہے، جس کا تقلید شخصی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، ابن جریر، بغوی اور اکثر مفسرین کی یہی رائے ہے۔ سیوطی نے اپنی تفسیر ”در منثور“ میں اسے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اگر فرض کرلیا جائے کہ آیت کریمہ سے مراد عام سوال ہے تو اہل ذکر سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کلمہ ذکر سے مراد صرف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہے، یعنی ان لوگوں سے پوچھا جائے جو قرآن و سنت والے ہوں، اور جن سے پوچھا جائے وہ جواب میں اللہ کا قول یا رسول اللہ کا قول بیان کردیں اور سوال کرنے والا اس پر عمل کرے۔ ایسی صورت میں یہ آیت مقلدین کے خلاف حجت بن گئی، اس لیے کہ ان کا دعوی یہ ہے کہ لوگوں کے اقوال بغیر دلیل مانگے قبول کرلیے جائیں، جبکہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن و سنت کا علم رکھنے والے سوال کرنے والوں کو قرآن کی آیت یا رسول اللہ کی حدیث بتا دیں، اور اگر کوئی مقلد اپنے امام کا مذہب نہیں بلکہ قرآن و سنت کا سوال کرتا ہے تو وہ مقلد نہیں رہتا، بلکہ وہ قرآن و سنت کا متبع ہوجاتا ہے۔معلوم ہوا کہ یہ آیت تقلید شخصی کی نہیں بلکہ اتباع قرآن و سنت کی دلیل ہے اور تقلید شخصی کے قائلین کے خلاف دلیل و حجت ہے۔ باللہ التوفیق“۔(13)
طلاق دینے کا صحیح طریقہ
طلاق کے سلسلے میں قرآن مجید میں کئی ایک ہدایات ہمیں ملتی ہیں۔ان میں ایک خاص ہدایت یہ ہے کہ طلاق ایسے طہر میں دی جائے جس میں شوہر نے اپنی بیوی سے جماع نہ کیا ہو۔اسی طرح قرآن یکے بعد دیگرے صرف دو طلاق کا ذکر کرتا ہے جس میں شوہر کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد وہ اپنے اس حق سے محروم ہوجاتا ہے۔قرآن یہ بھی حکم دیتا ہے کہ طلاق دینے سے پہلے کئی ایک اقدامات کیے جائیں لیکن ان سب ہدایات کو نظر انداز کرکے اسلام کے نظام طلاق کو اغیار کی نظر میں ایک ظالمانہ نظام بنادیا گیا ہے۔اس سلسلے میں فقہی مکاتب فکر کے باہمی اختلافات بھی وجہ آزمائش بن گئے ہیں۔قرآن اورحدیث میں طلاق دینے کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے،اس کے خلاف طلاق دینے کو طلاق بدعی بھی کہا جاتا ہے اور بعض فقہی مکاتب فکر اسے نافذ بھی کردیتے ہیں۔ڈاکٹر سلفی نے سورہ طلاق کی پہلی آیت: (یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنّ) کی مفصل تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”(فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنّ) کی جو تفسیر اوپر بیان کی گئی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ طلاق ایسے طہر میں دی جائے جس میں اس کے ساتھ جماع نہ کیا گیا ہو۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ فقہاء نے اسی سے استفادہ کرتے ہوئے طلاق کی تین قسمیں بتائی ہیں: پہلی طلاق سنت ہے یعنی آدمی اپنی بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو، یا وہ حاملہ ہو جس کا حمل ظاہر ہوچکا ہو دوسری طلاق بدعت ہے یعنی شوہر اپنی بیوی کو حالت حیض میں یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس کے ساتھ جماع کیا ہو اور تیسری قسم نہ طلاق سنت ہے نہ طلاق بدعت یعنی مطلقہ نا بالغہ ہو، یا بوڑھی ہوگئی ہو یا جوابھی اپنے شوہر سے نہ ملی ہو۔
طلاق بدعی کے بارے میں علمائے اسلام کی دورائے ہے:جمہور کا خیال ہے کہ طلاق واقع ہوجائے گی اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، ان کے شاگرد امام ابن قیم الجوزیہ اور اکثر محدثین کی رائے ہے کہ طلاق بدعی حرام ہے اور واقع نہیں ہوتی ہے نیز ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے گا تو صرف ایک ہی واقع ہوگی، اس لیے کہ جس طرح حیض میں اور ایسے طہر میں طلاق دینا ناجائز ہے جس میں شوہر نے جماع کیا ہو اور طلاق واقع نہیں ہوتی، اسی طرح ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی حرام ہیں اس لیے صرف ایک ہی واقع ہوگی، باقی دو طلاقیں لغو قرار دے دی جائیں گی“۔ (14)
فرض نمازمیں سورہ فاتحہ
فرض نماز میں مقتدی پر سورہ فاتحہ پڑھنا لازم ہے یا نہیں؟اہل حدیث اور احناف کے درمیان یہ ایک بڑی فقہی بحث ہے۔دونوں طرف سے اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔یہ مسئلہ صرف جہری نماز تک محدود نہیں ہے بلکہ سری نمازوں میں بھی یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے کہ مقتدی کے لیے اس کا پڑھنا واجب ہے یا واجب نہیں ہے؟ ڈاکٹر سلفی چوں کہ اہل حدیث ہیں،اس لیے انھوں نے اس مسئلے پراحناف نے قرآن کی جس آیت سے استدلال کیا ہے،اس کی تفسیر کرتے ہوئے احناف کے موقف کی تردید کی ہے۔چنانچہ وہ سورہ مزمل کی آیت: (فَاقْرَءُ وا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ) کے ذیل میں لکھا ہے:
”اصحاب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نماز میں سورۃ الفاتحہ پڑھناضروری نہیں ہے، بلکہ اگر قرآن کی ایک آیت بھی پڑھ لے تو کافی ہوگی اور انہوں نے اپنی رائے کی تائید میں صحیحین میں مروی اس حدیث کو پیش کیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی سے جسے نماز پڑھنا نہیں آتا تھا، کہا تھا: ثم اقراء ماتیسرمن القرآن،”پھر تم کو قرآن کا جو حصہ یاد ہو اسے پڑھو“۔
جمہور محدثین نے ان کی رائے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس آیت سے استدلال ہرگز صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں قرأت سے مراد صلاۃ ہے، اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جتنی رکعتیں آسانی کے ساتھ پڑھ سکو، پڑھو۔
دوسری بات یہ ہے کہ آیت کریمہ میں ”ماتیسر“ کی تشریح شارع علیہ السلام نے اپنی صحیح احادیث کے ذریعہ فرما دی۔ جن کا ذکر سورۃ الفاتحہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے، انہی میں سے ایک حدیث صحیحین میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بغیر سورۃ الفاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی“۔(15)

اہل بیت سے کون لوگ مراد ہیں؟
قرآن میں اہل بیت کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے،کیا اس میں نبی اکرم ﷺکی ازواج مطہرات شامل ہیں یا اس سے صرف نبی اکرم ﷺ،سیدنا علی،سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین مراد ہیں جیسا کہ واقعہ مباہلہ کے سلسلے میں وارد حدیث اس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔شیعہ اور اہل سنت کے درمیان یہ ایک بڑی بحث ہے۔ڈاکٹر سلفی نے اس سلسلے میں بڑی جامع بات لکھی ہے۔چنانچہ وہ سورہ احزاب کی آیت (33): (إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”یہ آیت اس بارے میں صریح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں۔ صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن صبح کے وقت کالے بال کی بنی ایک چادر اوڑھے نکلے حسن آئے تو انہیں اس میں داخل کرلیا، پھر حسین آئے تو انہیں اس میں داخل کرلیا، پھر فاطمہ آئیں تو انہیں اس میں داخل کرلیا، پھر علی آئے تو انہیں اس میں داخل کرلیا، پھر آپ نے فرمایا کہ اے اہل بیت!اللہ تم سے گندگی کو دور کرنا چاہتا ہے اور تمہیں مکمل طور پر پاک کرنا چاہتا ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ چاروں افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھرانے میں شامل ہیں لیکن یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ اہل بیت کا اطلاق صرف انہی چاروں پر ہوگا۔ اسی لیے ارجح یہی ہے کہ نبی کریم کی ازواج مطہرات ”اہل بیت“ میں قرآن کی صریح نص کے ذریعہ داخل ہیں اور فاطمہ علی اور حسن و حسین صحیح حدیث کے مطابق۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بارے میں نص صریح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج اہل بیت میں داخل ہیں، اس لیے کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہی بیان کرتا ہے، اور جو بات آیت کے نزول کا سبب ہوتی ہے وہ آیت کے حکم میں بدرجہ اولیٰ داخل ہوتی ہے“۔(16)
معراج جسمانی یا روحانی؟
کتب تفاسیر میں یہ ایک بڑی بحث ہے۔یہ اختلاف دور قدیم سے چلا آرہا ہے۔دور جدید کے بھی بہت سے مفسرین معراج کو جسمانی نہیں بلکہ صرف روحانی سمجھتے ہیں یا اسے ایک خواب سے تعبیر کرتے ہیں۔ڈاکٹر سلفی نے اس سلسلے میں دونوں طرح کے خیالات کے دلائل پیش کیے ہیں اور پھر قاضی عیاض کے حوالے سے اپنا موقف ظاہر کیا ہے۔ان کی یہ بحث کافی دل چسپ ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
”اکثر و بیشتر علمائے سلف و خلف کی رائے ہے کہ نبی کریم جسم و روح دونوں کے ساتھ بیت المقدس اور پھر آسمان پر تشریف لے گئے تھے، ابن عباس، جابر، انس، حذیفہ، عمر، ابو ہریرہ، مالک بن صعصعہ، ابو حبہ البدری، ابن مسعود، ضحاک، سعید بن جبیر، قتادہ، سعید بن المسیب، ابن شہاب، ابن زید، حسن، مسروق، مجاہد، عکرمہ اور ابن جریج کا یہی قول ہے۔ طبری، احمد بن حنبل اور اکثر متاخرین فقہا اور محدثین اور متکلمین و مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ معراج صرف روحانی واقع ہوا تھا، اور انہوں نے اس سورۃ(الاسراء) کی آیت (60) (وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ إِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ) سے استدلال کیا ہے کہ قرآن نے صراحت کردی ہے کہ وہ ایک خواب تھا، اور ابن اسحاق نے عائشہ اور معاویہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ کا جسم مبارک اپنی جگہ سے مفقود نہیں پایا گیا اور رسول اللہ نے خود فرمایا ہے:بینا انا نائم۔ کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو میں سویا ہوا تھا۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ بیت المقدس تک کا سفر جسم کے ساتھ طے کیا اور وہاں سے آسمان کی طرف آپ نے روحانی سفر کیا۔ اس لیے کہ آیت میں اسراء کی تحدید مسجد اقصی تک کردی گئی ہے۔
قاضی عیاض نے اپنی کتاب ”الشفا“میں لکھا ہے کہ حق اور صحیح انشا اللہ یہی ہے کہ معراج کا واقعہ آپ کے جسم و روح دونوں کے ساتھ پیش آیا تھا۔ آیت کریمہ،صحیح احادیث اور غوروفکر سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ اور ظاہری معنی چھوڑ کر تاویل کی راہ اس وقت اختیار کی جاتی ہے جب ظاہری معنی مراد لینا ناممکن ہو۔ اور جسم کے ساتھ حالت بیداری میں معراج کا وقوع پذیر ہونا اللہ کی قدرت سے بعید بات نہیں ہے، اگر روحانی سفر ہوتا تو اللہ تعالیٰ”بعبدہ“کے بجائے ”بروح عبدہ“کہتا، اور گر خواب کا سفر ہوتا تو اس میں نہ کوئی نشانی ہوتی نہ ہی کوئی معجزہ، اور نہ کفار اسے اپنی عقل سے بعید بات سمجھتے اور نہ اس کا انکار کرتے۔ حدیث معراج میں ہے کہ آپ نے انبیا ء کو بیت المقدس میں نماز پڑھائی، جبریل علیہ السلام براق لے کر آئے، آپ آسمان کی طرف چڑھے، آپ کے لیے آسمانوں کے دروازے کھولے گئے، اور جبریل سے پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے، تو انہوں نے کہا:محمد، ان آسمانوں پر آپ کی ملاقات انبیائے کرام سے ہوئی، انہوں نے آپ کو مرحبا کہا، آپ کی امت پر نماز فرض کی گئی اور آپ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس بارے میں مشورے کیے، بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جبریل نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف چڑھے، پھر چڑھتے رہے، یہاں تک کہ میں اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں سے میں قلم سے لکھے جانے کی آوز سن رہا تھا۔ پھر آپ سدرۃ المنتہی تک پہنچے، جنت میں داخل ہوئے اور وہاں اشخاص و اشیا کا مشاہدہ کیا، ابن عباس کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، حالت خواب میں نہیں، قاضی عیاض آگے لکھتے ہیں کہ اگر یہ سب کچھ حالت خواب میں ہوا ہوتا تو”اسری“کا لفظ استعمال نہ ہوتا اس لیے کہ خواب کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا“۔(17)
قرآن میں نسخ
قرآن میں نسخ واقع ہوا ہے یا نہیں؟کیا اس میں بعض آیات ایسی بھی ہیں جن کی تلاوت تو منسوخ نہیں ہوئی لیکن ان کا حکم منسوخ ہوگیا؟ اسی طرح کیا بعض ایسی آیات بھی قرآن میں تھیں جن کا حکم تو باقی ہے لیکن آیات منسوخ ہوگئیں؟ یہ بحث مفسرین کے یہاں بڑی معرکۃ الآراء رہی ہے۔علوم قرآن سے تعلق رکھنے والے اس مسئلے سے ڈاکٹر سلفی نے بھی تعرض کیا ہے اور اپنا موقف واضح کیا ہے چنانچہ وہ سورہ بقرہ کی آیت:(106) (مَا نَنسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنسِہَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّہَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ)کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں:
”عربی زبان میں کلمہ نسخ، نسخ الکتاب، سے ماخوذ ہے، جس کا معنی کسی کتاب کا دوسرا نسخہ تیار کرنا ہوتا ہے، نسخ، ابطال اور ازالہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، قرآن کریم کی اصطلاح میں ایک حکم کے بدلے دوسرا حکم لانا، یا اسے ساقط کردینامراد ہوتا ہے، اور شریعت اسلامیہ میں نسخ صرف تحریم و تحلیل اور منع و اباحت میں ہوا ہے، اخبار وغیرہ میں نسخ نہیں ہوا۔
جمہور علمائے اسلام کی رائے ہے کہ قرآن و حدیث میں نسخ واقع ہوا ہے، جیسے اللہ کا یہ قول: الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ، کہ بوڑھا اور بوڑھی اگر زنا کریں تو ان دونوں کو ضرور پتھر مار مار کر ہلاک کردو۔ اور یہ قول، لوکان لابن آدم وادیان من ذھب لابتغی لھما ثالثا، کہ اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوتیں، تو وہ تیسری وادی کی خواہش کرتا۔ابو مسلم اصفہانی معتزلی جیسے بعض باطل عقیدہ رکھنے والوں نے نسخ کا انکار کیا ہے جن کا اسلام میں کوئی اعتبار نہیں۔
یہودیوں نے قرآن کے ذریعہ احکام تورات کے نسخ کا انکار کیا، اور عیسیٰ علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا انکار اس لیے کیا کہ ان دونوں رسولوں نے تورات کے بعض احکام کو بذریعہ وحی الٰہی منسوخ قرار دیا۔
قرآن کریم نے تورات کے بعض احکام کو منسوخ قرار دیا، اور بعض کو باقی رکھا، ایسا بھی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک حکم نازل فرمایا، اور کچھ دنوں کے بعد اسے منسوخ کردیا، یا اس کے بدلے میں دوسرا کوئی حکم اتار دیا، یہودیوں نے کہا کہ محمد اپنے ساتھیوں کو آج ایک حکم دیتا ہے، اور کل اس سے روک دیتا ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا حکم دیتا ہے، اس لیے وہ نبی نہیں ہوسکتا، اور نہ یہ قرآن کلام الٰہی ہوسکتا ہے۔
قرآن کریم کی اس آیت میں یہودیوں کے اسی قول کی تردید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی آیت کو منسوخ کردیتا ہے تو اس کی جگہ اس سے بہتر یا اسی جیسا حکم لاتا ہے، اور یہ اس لیے نہیں کہ اللہ ابتدا میں ہی دوسرا حکم لانے سے عاجز تھا بلکہ بندوں کی مصلحت اسی میں تھی، اور جو اللہ کی قدرت کا کچھ علم رکھے گا وہ ایسی بات کبھی نہیں کرے گا۔
دوسری آیت میں اسی کی مزید تاکید آئی ہے کہ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے، ساری مخلوق اس کے زیر اطاعت ہے، انہیں اللہ کے اوامر و نواہی کو بہرحال بجا لانا ہے۔ اللہ انہیں جو چاہے گا حکم دے گا، اور جس کام سے چاہے گا روکے گا، اور حو حکم چاہے گا منسوخ کرے گا اور جو چاہے گا باقی رکھے گا۔
حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نسخ کا انکار صرف کفر و عناد کی وجہ سے کیا، ورنہ یہ چیز عقلی طور پر ممنوع نہیں، اس لیے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتاہے، اور گذشتہ آسمانی کتابوں میں نسخ واقع ہوا ہے، آدم علیہ السلام کے لیے اپنے بیٹے بیٹی کی آپس میں شادی حلال تھی، پھر حرام کردی گئی، نوح علیہ السلام جب سفینہ (کشتی) سے باہر آئے تو تمام حیوانات کا کھانا جائز تھا، اس کے بعد بعض کی حلت منسوخ ہوگئی، یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کے لیے بیک وقت دو بہنوں سے شادی جائز تھی، اس کے بعد تورات میں اسے حرام کردیا گیا“۔(18)
ڈاکٹر سلفی کی تفسیر کے ان تمام مقامات کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بالکل آسان اور سیدھے سادے انداز میں تفسیر کی ہے۔تفسیر کی مشکل اور دقیق بحثیں نہیں چھیڑی ہیں کیوں کہ زیادہ تر عوام کو ان کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔تفسیر میں انھوں نے احادیث اور آثار صحابہ کا التزام کیا ہے اور ماثور کتب تفاسیر پر انحصار کرتے ہوئے کلام الٰہی کے مفہوم کی وضاحت کی ہے۔
حواشی وتعلیقات
(1) کاروان حیات (خود نوشت)، ڈاکٹر محمد لقمان سلفی، علامہ ابن باز اسلامک اسٹڈیز سنٹر، مدینۃ السلام، مشرقی چمپارن، بہار، طبع اول جون 2015ء، ص:7۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی نے ان کی سنہ پیدائش1941ء لکھی ہے۔ ملاحظہ ہو: قافلہ حدیث، مولانا محمد اسحاق بھٹی، مکتبہ قدوسیہ لاہور، اشاعت 2003ء،ص: 597، برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن، مولانا محمد اسحاق بھٹی، مکتبہ قدوسیہ لاہور، اشاعت: 2005ء، ص: 606
(2) تفصیل کے لیے دیکھیں: کاروان حیات، قافلہ حدیث، (ص:591۔616) اور برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن، (ص: 606۔607)
(3) کاروان حیات، ص: 115
(4) نفس مصدر
(5) تیسیر الرحمن لبیان القرآن، ڈاکٹر محمد لقمان سلفی، علامہ عبدالعزیز بن باز اسلامک اسٹڈیز سنٹر، چندن بارہ، مشرقی چمپارن، طبع دوم 2001ء،ص: ح، ط
(6) نفس مصدر، ص: د
(7) برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن، ص 606۔607
(8) تیسیر الرحمن لبیان القرآن،ص:1 ۔ 2
(9) نفس مصدر،ص:15۔16
(10) نفس مصدر،ص:1236
(11) نفس مصدر،ص:16
(12) نفس مصدر،ص:60
(13) نفس مصدر،ص:767
(14) نفس مصدر،ص:1604
(15) نفس مصدر،ص:1604
(16) نفس مصدر،ص:1187
(17) نفس مصدر، 795۔ 796
(18) نفس مصدر،61۔62

آپ کے تبصرے

3000