دین اسلام کا پاسباں صلاح الدین ایوبی

رشید سمیع سلفی

حق وباطل کی آویزش ابتدائے آفرینش سے جاری ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد یہ کشمکش اور زیادہ خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔یاد کیجیے جب اسلام نے دنیا کی تمام طاقتوں کو چاروں شانے چت کردیاتھا اسلام کے سیلاب نے کائنات کی تمام چھوٹی بڑی تہذیبوں کو خس وخاشاک کی طرح بہا دیاتھا اور نصف دنیاپر ہلالی پرچم لہرا دیا تھا – لیکن ماضی کے دشمن کبھی چین سے نہیں بیٹھے ہرزمانے اور ہر دور میں یہ اسلام کے آہنی قلعے میں نقب لگاتے رہے۔اسلام پر ہونے والے حملوں کا دفاع ہمیشہ اسلام کے جیالےکرتے رہے ہیں۔صلاح الدین ایوبی اسلامی تاریخ کا وہ کردار ہے جسے رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا۔اسلام کا یہ وہ عظیم سپوت ہے جس نے اپنی پوری زندگی دفاع اسلام کے لیے وقف کردی۔اس کے بے مثال کارناموں کو بیان کرنے کے لیے طویل وقت درکار ہے۔قوم مسلم کا یہ وہ سرخیل ہے جس نے جیتے جی آبروئے اسلام کو لٹنے نہیں دیا۔میدان کارزار میں اس وقت تک طاغوتی طاقتوں سے نبرد آزما رہا جب تک کہ ان کی طاقت پاش پاش نہیں ہوگئی۔
قارئین کرام! غور کیجیے رینالڈ جیسا فرعون وقت جو حجاز پر ناپاک نظر رکھتا تھا صلاح الدین نے اس کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیا۔وہ مسلمانوں کے قافلے پر حملہ کرکے ایک مسلمان سے کہتا ہے بلا اپنےاللہ کو وہ تجھ کو مجھ سے بچا لے اور پھراسے بے رحمانہ قتل کرڈالتا ہے – صلاح الدین ایوبی یہ سن کر تڑپ اٹھا اور رینالڈ کی فوج کو شکست دے کر اسے گرفتار کیا اوراس کے ہاتھوں میں تلوار دے کر کہا تو ہمارے پروردگار تک کیوں جاتا ہے آج تیرے سامنے اس کا ایک ادنی غلام کھڑا ہے اگر بچا سکتا ہے تو بچالے اپنی جان اورچشم زدن میں اس کا سر تن سے جدا کردیا۔
اسلامی تاریخ اس مرد مجاہد کے احسان کو فراموش نہیں کرسکتی۔کون نہیں جانتا کہ عہد ایوبی میں قبلہ اول عیسائیوں کے دست تسلط میں قید تھا بیت المقدس صلیبیوں سے آزادی کے لیے تڑپ رہا تھا اسلامی دنیا ایک مسیحا کی منتظر تھی۔نورالدین زنگی نے پوری زندگی اسی مشن کے لیے قربان کردی کامیاب نہیں ہوا لیکن موت کے وقت ایک منبر صلاح الدین کے حوالے کرتا ہوا کہا یہ منبر میں نے بیت المقدس کے لیے بنوایا تھا شاید یہ میرا نصیب نہیں تھا لیکن تم میرے خواب کو شرمندۂ تعبیر کروگے۔سلطان نے کئی سالوں کی محنت جفاکشی اور انتہائی خونریز معرکے کے بعد قبلہ اول کو بازیاب کیا عیسائیوں کے لاکھوں کے لشکر کو شکست فاش دیا اور ایک بار پھر مسلمانوں کا پہلا قبلہ مسلمانوں کا ہو گیا – صلیبی طاقت پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ پوری صلیبی دنیا بلبلا اٹھی۔عالم عیسائیت اس ذلت وشکست کو ہضم نہیں کرپائی اور پورے مشرق ومغرب میں جوشیلی تقریروں سےآگ لگا دی پھر کیا تھا لاکھوں کا ایک لشکر جرار ایک مقدس جنگ اور بیت المقدس کو مسلمانوں سے واپس لینے کے لیے سلطان کی طرف بڑھا ایسا لگتا تھا کہ یہ لشکر پورے عالم اسلام کو بیخ بن سے اکھاڑ پھینکے گا۔
صلاح الدین ایوبی کی بازیاب کی ہوئی مسجد اقصی ایک بار پھرصلیبی شکنجے میں چلی جائے گی۔ لاکھوں کا صلیبی سیلاب بلا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ شام کی طرف بڑھ رہا تھا اندیشہ ہائے دور دراز اہل اسلام کو خوف دلارہے تھے لیکن اسلام کا یہ مرد مجاہد اپنے رب پر بھروسہ کیے کسی چٹان کی طرح میدان کارزار میں ڈٹا رہا چار سال تک صلیبی سرکش موجیں اس آہنی چٹان سے ٹکراتی رہیں لیکن کوئی پیش نہ گئی۔ یہ تیسری عظیم صلیبی جنگ تھی جس میں براعظم یورپ کے کئی ممالک جرمنی فرانس انگلستان وغیرہ نے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی لیکن صلاح الدین ایوبی سے بیت المقدس واپس نہیں لے سکی۔
یہ تو قسمت ہے سفینے کی کہ ڈوبا ہی نہیں
ورنہ موجوں نے تو جی توڑ کے کوشش کی ہے
عظمت اسلام کا یہ عظیم پاسبان حالات کے جبر سے کبھی نہیں گھبرایا اسلام کا یہ جیالا بیک وقت کئی محاذوں پر مصروف جنگ رہا غیروں کے ساتھ اپنوں کا آزار بھی سہتے ہوئے قلعہ اسلام کی پاسبانی کرتا رہا – اپنوں کی ستم ظریفی یہ تھی کہ بسا اوقات تو سلطان دشمنوں کے محاذ کی طرف بڑھا لیکن یہ سن کراپنی فوج سمیت واپس آگیا کہ ملک میں بغاوت چھڑ گئی ہے۔ فدائین کا فتنہ بھی عروج پر تھا صلاح الدین ایوبی پر کئی بار قلعہ الموت کے حشیشیوں نے قاتلانہ حملہ بھی کیا لیکن فاتح بیت المقدس کو ہربار دست قدرت بچاتی رہی کیونکہ پاسبان اسلام کا کام دنیا میں ابھی باقی تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ چھٹی صدی عیسوی میں اسلام کے اس سپوت نے پوری صلیبی دنیا کے میدان جنگ میں چھکے چھڑا دیے ان کی سازشوں کو خاک میں ملا دیا۔ اپنوں کی مخالفتوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کے درمیان دفاع اسلام کا عظیم الشان فریضہ انجام دیتارہا۔سلطان کی قربانیوں کا اندازہ ان کی موت سے پہلے کے بیان سے لگائیے جب انھوں نے کہا تھا سلطان کی زندگی کے دو ہی مقصد تھے قبلہ اول کی آزادی اور خانہ کعبہ کا حج پہلا مقصد تو پورا ہوگیا لیکن دوسری حسرت سینے مین لے کر اس دنیا سے جارہا ہوں۔دفاع اسلام کی ذمے داری نے مہلت نہ دی کہ حج بیت اللہ کرسکوں۔ کئی بار زیارت بیت الل کے لیے روانہ ہوئے لیکن بیچ راستے ہی سے حالات کے پیش نظر رخ کسی اور جانب موڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ سلطان کا بے مثال کارنامہ بیت المقدس کی فتح ہے جو آج بد قسمتی سے پنجہ یہود میں جکڑا ہوا ہے جی ہاں آج سلطان کا مفتوحہ بیت المقدس یہودی تسلط میں کسی صلاح الدین کا منتظر ہے۔ لیل ونہار کی کتنی گردشوں نے قبلہ اول کی آہ وکراہ سنی ہوگی۔آج سلطان کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے بیت المقدس کے لیے کتنی جانیں قربان ہوچکی ہیں کتنے خون کے دریا بہہ چکے ہیں کتنی جنگیں برپا ہوچکی ہیں لیکن مسلمان دنیا جہان کی قربانیوں کے بعد قبلہ اول کو بازیاب نہ کرسکا ہے اس رب کو پکارو کہ وہ موجودہ وقت میں عالم اسلام کو سنبھالا دینے اور بیت المقدس کو ظالموں کے چنگل سے چھڑانے کوئی صلاح الدین بھیج دے کیونکہ جور وستم کی سیاہ رات اب بہت طویل ہو چکی ہے صبح امید کی تلاش اب دم توڑنے کو ہے۔
بھیج دے مرے مولا پھر سے کوئی ایوبی
پھر جہان عالم پر چرچ کی تباہی ہے

آپ کے تبصرے

3000