دلی فسادات میں پولیس نے تعصب وفرقہ پرستی کا مکھوٹا پوری طرح سے نوچ کر پھینک دیا ہے، جامعہ اور جے این یو میں جو کچھ کیاگیا وہ پولیس کی شبیہ کو خراب کرنے کے لیے کم نہ تھا، اب دہلی فساد میں پولیس پوری طرح ننگی ہوچکی ہے،ایک نہیں سیکڑوں واقعات ہیں جو پولیس کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، یوپی میں احتجاجیوں پر گولی چلانا، لاٹھی چارج کرنا، دھرنے پر بیٹھی خواتین کے کمبلیں چرالے جانا، گھروں میں گھس کر مسلمانوں کو زدوکوب کرنااور لوٹ پاٹ کرنا،بچوں پر بھی گولیاں برسانا، جامعہ میں انکی بربرتا اور جارحیت،بسوں میں خود آگ لگاکر طلبہ پر الزام دھرنا، جامعہ کی لائبریری میں توڑ پھوڑ اور مسجد کی بے حرمتی، کیمرے کو توڑنا پھر جے این یو میں ان کی نگرانی میں اے بی وی پی کے طلبہ کا حملہ اور توڑ پھوڑ اور پھر نعرہ لگاتے ہوئے چلتے بننا، ان واقعات سے تو پولیس ڈپارٹمنٹ کی تھو تھو ہو ہی رہی تھی،اب دلی فسادات میں پولیس اور دنگائیوں میں کوئی فرق نہیں رہا، ویڈیوز تو ایسے آئے ہیں کہ پولیس کہیں منہ دکھانے لائق نہیں رہ گئی، دنگائیوں کےساتھ پتھر چلانا، سی سی ٹی وی کیمرہ کو نقصان پہونچانا،دنگائیوں کا پولیس کے سامنے مکانات کوجلانا، بے گناہوں پر تشدد کرنا، ایسے سیکڑوں واقعات ہیں جو پولیس کو کٹگڑے میں کھڑا کرتے ہیں اورپولیس پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں پولیس کی ذہنیت ایک مخصوص رنگ میں رنگی جاچکی ہے، وہ ایک مخصوص آئیڈیالوجی کےلئے کام کررہے ہیں،یہ مسلمانوں کے خلاف درندہ بن جاتے ہیں، پولیس کسٹڈی میں جب یہ مظلوموں کواپنے بس میں کرلیتے ہیں تو بند کمروں میں ہی چیخیں دفن ہوجاتی ہیں، وہ ایذارسانی کےرونگٹے کھڑے کردینے والے انوکھے طریقے اختیار کرتے ہیں،عدالتوں میں قیدی جج سے رورو کر ان کےمظالم کی داستان سناتے ہیں،لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنے؟
وہ ویڈیوز پوری دنیا نے دیکھیں ہیں جن میں یہ چند مسلمانوں کو ادھ موا کرنے کے بعد ان سے قومی گیت پڑھا رہے ہیں،ان کی بربریت کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ کسی دشمن ملک کے خطرناک مجرموں سے کوئی انتقام لے رہے ہیں۔
حالات دیکھ کر اس نتیجے پر پہونچنا ذرا بھی مشکل نہیں کہ پولیس کا بھگواکرن ہوچکا ہے،یہ فکر وسوچ کے اعتبار سے زعفرانی رنگ میں رنگ چکے ہیں،حیرت ہیکہ فساد کرنے اور کروانے میں بھرپور کردار نبھانے والی پولیس اب گنہگاروں کو تلاش تلاش کر پکڑ رہی ہے،کتنا عجیب لگتا ہیکہ جو پولیس فسادات کی سب سے بڑی گنہگار ہے وہی اب کمال بے شرمی کیساتھ گنہگاروں کو پکڑ رہی ہے،کورٹ نے بازپرس کی تو جج کو ٹرانسفر کردیا گیا،دوسرے جج نے لمبی تاریخ پر ٹال دیا،کیا اب بھی اصل سازش کو سمجھا نہیں جاسکتا؟
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ پورا ڈپارٹمنٹ بے راہ روی کا شکار ہےاور اچھے پولیس افسران کا فقدان ہے، ایماندار اور فرض شناس افسران بھی ہیں،بسااوقات ان کے ایمانداری اور انصاف پسندی کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں،لیکن وہ تعدادمیں بہت کم ہیں،اس لئے وہ یاتو خاموش رہتے ہیں یا پھر کسی سازش کا شکار بن جاتے ہیں،ماضی کے واقعات اس پر دلیل ہیں۔
پولیس کے کرتوت کو دیکھ کر اب ان سے نفرت اور وحشت سی ہوتی ہے،پولیس ہمارے سماج کا ایک بدنما داغ ہے،پبلک کی حفاظت پر مامور وردی میں چھپے یہ غنڈے سفاکیت کی ہر حد کو پار کرجاتے ہیں،ماضی کی تاریخ میں بھی پولیس کے لباس میں ایسے انسان نما بھیڑئیےہمیں نظرآئینگے جو اپنا زور بازو معصوم اور نہتے عوام پر آزماتے ہیں،لاٹھی اور بندوق کا بھر پور استعمال کرتے ہیں،رہی سہی کسر ریمانڈ میں لے کر پوری کرلیتے ہیں،فسادات میں پولیس کے ہاتھ معصوموں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں،بے غیرتی اور بے شرمی میں ان سے کوئی بازی نہیں لے جاسکتا،گجرات میں تو انہوں نے پولیس چوکیوں میں لے جاکر خواتین کی عصمت دری کی تھی،ان کی نگرانی میں مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی تھی،بلکہ اگر یہ کہاجائے کے انکی اور سرکار کی مشترکہ سرپرستی میں گجرات کئی دنوں تک جلتا رہا،سڑکوں اور گلیوں میں بے دریغ خون بہتا رہا،تو غلط نہ ہوگا،سوال یہ ہیکہ اگر پولیس پبلک کی سرونٹ ہے تو پولیس پبلک پر ظلم کیوں کرتی ہے؟اور پھر ایسے مبینہ گنہگار پولیس والوں کو کڑی سے کڑی سزا کیوں نہیں دیجاتی؟ایک صرف تبادلہ سزا ہے،تاکہ وہ وہی ظلم وجبر دوسرے مقام پر بھی انجام دے،آج یہ بات پوری طرح سے عیاں ہیکہ سسٹم غیرمعمولی بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے۔
ملک کی تمام مشنریاں دستور کے تقاضوں کو پیروں سے روند رہے ہیں،ایک مخصوص آئیڈیالوجی کو دھیرے دھیرے پائہ تکمیل تک پہونچارہے ہیں،ملک میں چھ سالوں سے چل رہی تخریب وفساد کی ہوا اور دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اسی منصوبے کا شاخسانہ ہے،بدقسمتی سے حکومت بھی انھیں کی ہے،حزب مخالف کمزور ہےیا پھر انتقامی کارروائی کے ڈر سے خاموش ہے،عدالتوں کے انصاف پسند جج بھی بدلے اور انتقام سے محفوظ نہیں رہ گئے،سپریم کورٹ کا اختیار صرف تاریخ پرتاریخ دینے تک محدود ہوگیاہے،صدر تانا شاہ حکومت کے سامنے سر خمیدہ ہے،یہ وہ خطرہ ہے جس نے آزادی پارٹ 2 کی تحریک کو ملک کے طول وعرض میں پھیلا دیا ہےاور جو گاندھی کے طریقے پر منزل کی طرف بڑھ رہی ہے، ایک بار پھرملک میں ایک نئی تاریخ کی داغ بیل پڑی رہی ہے۔
آپ کے تبصرے