یہ مضمون میں نے صرف اس غرض سے لکھا تھا کہ تحقیق وجستجو سے دلچسپی رکھنے والے علم دوست حضرات کو اس مسئلے کے تعلق سے کچھ کتابوں اور حوالوں کے بارے میں معلومات فراہم کر دوں تاکہ “لیهلك من هلك عن بینة ویحیىٰ من حی عن بینة “اور بلغوا عني ولو آية ” کا فریضہ انجام پا جائے اور جو اس قضیے پر مفصل بحث کا خواہاں ہو وہ ان کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی غرض کو پورا کرے اور علی وجہ البصیرۃ کسی موقف کو اختیار کرے اسی وجہ سے مضمون کا آغاز کتابوں کے ناموں سے ہوا , اللہ سے دعا ہے کہ وہ مجھے صحیح کہنے اور قارئین کو درست سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.
قصر الصلاۃ سے متعلق معلومات ڈھونڈنے والوں کے لیے مظان اور کتابوں کے بارے میں بتانے سے قبل میں یہ تنبیہ کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم کسی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ ہم متبع کتاب وسنت علی فہم السلف ہیں اس لیے کسی بھی کتاب کو پڑھنے کے بعد ہمیں صاحب کتاب کے افکار سے بالکلیہ متاثر نہیں ہونا ہے بلکہ ان حضرات نے کتاب وسنت سے جو دلائل ذکر کیے ہیں ان کا جائزہ لینا ہے اور ان ہی دلائل کی روشنی میں حقیقت تک پہنچنا ہے ورنہ اگر ہر کسی کی بات سے متاثر ہونے لگے تو پھر وفی طغیانھم یعمھون کی مثل ہم پر صادق آ جائے گی. اور ہم تجري به الريح حيثما جرت سے مختلف نہیں ہوں گے..
(1) مجموع الفتاوي لابن تيمية
(2) مجموع الفتاوي لابن عثيمين .
(3) إعلام المسافرين ببعض آداب وأحكام السفر وما يخص الملاحين والجويين …. لابن عثيمين ..
(4) صحيح فقه السنة للكمال بن السيد سالم .
(5)الصبح السافر في حكم صلاة المسافر تقي الدين الهلالي المراكشي.
(6) الجيش الجرار من آحاديث النبي المختار في أن الرباعية ركعتان في جميع الأسفار تقي الدين الهلالي المراكشي .
(7) مدة قصر الصلاة في السفر عبد الله بن محمد زقيل
(8)قصر الصلاة للمغتربين للدكتور ابراهيم بن محمد الصبيحي.
(9) أحكام السفر في الفقه الإسلامي للدكتور عبد الله بن عبدالعزيز العجلاني.
(10) فقه الحديث حافظ عمران لاهوري.
(11) الشرح الممتع على زاد المستقنع ، للشيخ محمد بن صالح العثيمين،
نوٹ : ان کتابوں میں مذکور کتاب وسنت اور آثار سلف کے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ طلبہ مدارس مسافر ہیں اور یہ کہ قصر کی کوئی مدت محدود نہیں ہے بلکہ انسان جتنے دنوں تک گھر سے دور رہے وہ مسافر ہوگا بشرط یہ کہ اس نے اس شہر کو اپنا وطن نہ بنا لیا ہو جس کی طرف وہ سفر کرکے گیا ہے , اس طور پر کہ اسے اس ملک کی بھی شہریت مل گئی ہو اور وہ مستقل طور پر وہاں مقیم ہو گیا ہو. البتہ اس کے علاوہ جو بھی سفر کرتے ہوئے گھر سے نکل گیا ہو وہ مسافر ہے خواہ اس نے دس دن رہنے کی نیت کی ہو یا بیس دن یا ایک سال یا وہ سرے سے مدت متعین کیا ہی نہ ہو. علاوہ ازیں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے ڈیٹ فکس کر لیا ہو کہ وہ ایک مہینہ کہیں رہے گا پھر گھر لوٹ جائے گا تو وہ مقیم ہے کیونکہ اس نے مدت معین کر لی ہے اور اگر وہی شخص بغیر ڈیٹ فکس کیے ایک مہینہ رہے تو وہ مسافر ہوگا کیوں کہ اس نے مدت کی تحدید وتعین نہیں کی ہے. یہ تفریق بالکل غلط ہے کیونکہ کتاب وسنت کی کوئی دلیل اس کی موافقت نہیں کرتی یہ محض قیاس آرائی ہے اور اللہ کے نبی کے مختلف اسفار سے استدلال ہے جبکہ ان اسفار سے استدلال کرنے میں وجہ استدلال اور مستدل بہ ومستدل لہ کے ما بین کوئی مطابقت نہیں ہے. ان حضرات کے دلائل میں سے چند یہ ہیں :
(1) اللہ کے رسول نے حجة الوداع کے موقع پر منی میں چار دن قیام کیا آپ اس دوران وہاں قصر کرتے رہے. (رواہ البخاری ومسلم ) چنانچہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی چار دن قیام کا ارادہ کرے تو وہ قصر کرے گا اور اگر اس سے زیادہ کی نیت ہو تو اتمام کرے گا.
جبکہ یہاں اس طرح کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اگر اللہ کے رسول اس موقع پر چار دن سے زیادہ قیام کرتے تو قصر نہیں کرتے … اسی طرح جو لوگ آپ سے دو چار دن پہلے مکہ پہنچ چکے تھے انہیں بھی آپ نے قصر کا حکم نہیں دیا جبکہ متفقہ اصول ہے کہ تاخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز چنانچہ یہ دو حال سے خالی نہیں : ایک تو یہ کہ ایسے لوگ مسافر تھے اسی لیے آپ نے انہیں اتمام کا حکم نہیں دیا بلکہ انہیں اپنے ساتھ لیکر قصر کرتے رہے. دوسری یہ کہ وہ لوگ مقیم تھے مگر آپ نے ان سے قصر کروایا اور یہ مستحیل وناممکن ہے:
وأحلاهما مر في حق المحددين ..
(2) حضرت ابن عباس کی حدیث:
أقام النبي صلى الله عليه وسلم تسعة عشر يقصر، فنحن إذ سافرنا فأقمنا تسعة عشر قصرنا، وإن زدنا أتممنا” (رواہ البخاری 1080)
چنانچہ کچھ لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص 19 دن تک قیام کرنے کا ارادہ کرے تو وہ قصر کرے گا اور اگر اس سے زیادہ کی نیت کرے تو وہ اتمام کرے گا. حالانکہ یہاں بھی اس طرح کی کوئی بات نہیں ہے کہ اگر اللہ کے رسول مکہ میں اس سے زیادہ ایام تک ٹھہرتے تو قصر نہ کرتے. مزید یہ کہ اللہ کے رسول غزوہ تبوک کے موقع پر تبوک میں بیس ایام تک ٹھہرے دورانیہ ایں مدت آپ وہاں قصر کر رہے تھے , جیسا کہ حدیث :
أن النبيَّ أقام بتبوكَ عشرينَ يومًا يَقصرُ الصلاةَ. أخرجه أبو داود وصححه الألباني (١٤٢٠ هـ)، إرواء الغليل 574)
مزید یہ کہ خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں رہنے والے ایک شخص کو ایک سال تک قصر کرتے رہنے کی رخصت عطا فرمائی. جیسا کہ آگے آ رہا ہے.
لہذا یہ کہاں کی عقلمندی اور انصاف پسندی ہے کہ ایک صحابی کے ایک قول کو لے لیا جائے لیکن وہیں دوسرے کئی سارے صحابہ کے کئی سارے اقوال کو نظر انداز کر دیا جائے حتی کہ خود اسی صحابی کے دیگر اقوال اور فعل نبوی کو یکسر مسترد کر دیا جائے یہ تو مقلدین ہی کآ شیوا اور وطیرہ ہو سکتا ہے جہاں تک اہل حدیث اور مجتہدین کی بات ہے تو وہ ان موشگافیوں اور بے اصولیوں سے کلی طور پر دور رہتے ہیں
خلاصہ یہ کہ تحدید کے قائلین کے دلائل اسی طرح کی مجمل ومتشابہ روایات ہیں نا ہی ان کے پاس قرآن کی کوئی صریح آیت ہے اور نہ ہی سنت سے کوئی صحیح صریح حدیث. جبکہ اس کے مقابلے میں طلبہ جامعہ اور اس نوعیت کے لوگوں( جو تحدید مدت کے ساتھ گھر سے دور رہتے ہیں) کو مسافر قرار دینے والوں کے پاس کئی واضح دلائل ہیں :
(1) اللہ تعالی کا قول :
وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة ”
اللہ رب العالمین کا یہ قول تمام قسم کے مسافروں کو شامل ہے خواہ انہوں نے مدت کی تحدید کی ہو یا نہ کی ہو اور خواہ وہ لمبی مدت تک سفر میں رہے یا مختصر مدت کے لیے سفر کرے. ساتھ ہی اس اطلاق کی تقیید کے لیے کوئی دلیل بھی موجود نہیں ہے جو اس مطلق آیت کریمہ کو مقید کر دے.
(2) دوسری دلیل یہ ہے کہ: لوگ اللہ کے رسول کے زمانے میں مسلسل سفر کرتے رہتے تھے بعض ہجرت کے خاطر بعض جہاد وجنگ کے خاطر اور بعض دوسرے مقاصد کے خاطر چنانچہ اگر یہاں کوئی ایسی مدت ہوتی کہ انسان اگر اس سے زیادہ کے لیے سفر کرے تو وہ مسافر نہیں ہوگا یا مسافر کے رخصت سفر سے استفادہ کے لیے کچھ شرائط ہوتے تو اللہ کے رسول ان چیزوں کی وضاحت ضرور فرما دیتے جیسا کہ حالت سفر میں موزوں پر مسح کے سلسلے میں آپ نے وضاحت فرما دی ہے کہ مسافر تین ایام ولیالہن سے زائد مسح نہیں کر سکتا اور کیونکہ “الیوم اکملت لكم دينكم” کے ذریعے دین مکمل ہو چکا ہے اور “بلغ ما أنزل إليك من ربك” کے تحت اللہ کے رسول نے بھی دین کے متعلق سب کچھ اپنی امت کو پہنچا دیا ہے اور “ولا يترك الله بيت مدر ولا وبر إلا أدخله الله هذا الدين” کے پیش نظر مکمل دین ہم تک بھی پہنچا ہے لہذا اگر کوئی شخص تحدید کی بات کرتا ہے تو گویا وہ دین کو مکمل وکامل نہیں مانتا یا وہ رسول کو مبلغ کامل نہیں مانتا یا وہ یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ دین مکمل طور پر ہم تک نہیں پہنچا ہے اور یہ صریح گمراہی ہے فتدبروا بارک اللہ فیکم.
(3) آثار سلف سے استدلال :
(١) فعن ابن عمر أنه «أقام بأذربيجان ستة أشهر أرتج عليهم الثلج فكان يصلي ركعتين» ( أخرجه البيهقي وصححه الألباني في الإرواء ح 577 )
حضرت عبد اللہ بن عمر چھے مہینے تک آذربیجان میں قصر کرتے رہے .
(٢) وعن أبي المنهال العنزي قال: قلت لابن عباس: إني أقيم بالمدينة حولاً لا أشد على سير؟ قال: «صلِّ ركعتين» (إسناده صحيح: أخرجه ابن أبي شيبة (٢/ ٢٠٧) .
حضرت عبد اللہ ابن عباس نے ایک سوال کے جواب میں ایک سال تک قصر کرنے کی رخصت دی .
(٣) وعن الحسن أن «أنس بن مالك أقام بنيسابور سنة أو سنتين، وكان يصلي ركعتين ثم يسلِّم، ثم يصلي ركعتين، ولا يُجَمِّع» (إسناده صحيح: أخرجه ابن أبي شيبة (٥٠٩٩)، وعنه ابن المنذر (ت/ ١٧٣٦)
حضرت انس بن مالک ایک سال یادو سال تک قصر کرتے رہے .
(٤) وعنه أن عبد الرحمن بن سمرة «شتا بكابل شتوة أو شتوتين، لا يُجمِّع، ويصلي ركعتين» ( إسناده صحيح: أخرجه ابن أبي شيبة (٣/ ١٣).
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن سمرۃ رضی اللہ عنہ نے کابل میں ایک جاڑہ یا دو جاڑے کے موسم تک قیام کیا آپ وہاں جمع بین الصلاتین نہیں کرتے تھے البتہ قصر ضرور کرتے تھے .
(٥) وعن أنس قال: «أقام أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم برام هرمز تسعة أشهر يقصرون الصلاة» (إسناده صحيح: أخرجه البيهقي (٣/ ١٥٢)، وانظر «الإرواء» (٥٧٦)
حضرت انس ہی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نے شہر رام ہرمز میں نو مہینہ قیام کیا اور اس دوران وہ قصر کرتے رہے .
(٦) عن إسرائيل، عن عيسى بن أبي عزة قال: «مكث عندنا عامر الشعبي بالنهرين أربعة أشهر لا يزيد على ركعتين ( مصنف عبد الرزاق ، حديث :4363)
نہرین نامی مقام پر امام شعبی چار مہینہ ٹھہرے اور قصر کرتے رہے.
(۷) عن هشام، عن الحسن قال: «يصلي ركعتين وإن أقام سنة » (مصنف عبد الرزاق ، حديث : 4360)
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا :کہ مسافر قصر کرے گا گرچہ وہ سال بھر ہی کیوں نہ ٹھہرے .
(۸)عن معمر، عن أبي إسحاق قال: ” أقمنا مع وال – قال: أحسبه بسجستان – سنتين، ومعنا رجال من أصحاب ابن مسعود، فصلى بنا ركعتين ركعتين حتى انصرف “، ثم قال: «كذلك كان ابن مسعود يفعل» ( مصنف عبد الرزاق ، حديث : 4358)
ابو اسحاق کہتے ہیں کہ ہم لوگ سجستان میں ایک والی اور امیر کے ساتھ دو سال تک ٹھہرے, ہمارے ساتھ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے کچھ شاگردان بھی تھے اس مدت میں وہ والی ہمیں قصر کرواتے تھے…
(۹)عن الثوري، عن الأعمش، ومنصور، عن إبراهيم، عن علقمة، أنه أقام بخوارزم سنتين فصلى ركعتين ، ( مصنف عبد الرزاق ، حديث :4355)
امام علقمہ جو ابن مسعود کے شاگرد تھے ان کے بارے میں ابراھیم نخعی فرماتے ہیں کہ وہ خوارزم نامی مقام میں دو سال قیام پذیر رہے اور دورانیہ ایں مدت قصر کرتے رہے.
(١۰) عن الثوري، عن يونس، عن الحسن، عن عبد الرحمن بن سمرة قال: «كنا معه في بعض بلاد فارس سنتين، وكان لا يجمع، ولا يزيد على ركعتين» (مصنف عبد الرزاق ، حديث : 4353 )
سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ بھی دو سال تک قصر کرتے رہے.
(١١)عن ابن جريج قال: حدثني زكريا بن عمر، أن سعد بن أبي وقاص وفد إلى معاوية فأقام عنده شهرا يقصره، أو شهر رمضان فأفطره ( مصنف عبد الرزاق ، حديث : 4351)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو وہاں ایک مہینے تک قصر کرتے رہے.
(١۲) وعن أبي وائل قال: «كنا مع مسروق بالسلسلة سنتين وهو عامل عليها فصلى بنا ركعتين حتى انصرف» إسناده صحيح: أخرجه ابن أبي شيبة (٨/ ٢٠٨)، وعبد الرزاق (٤٣٥٧)
مسروق رحمہ اللہ حضرت ابن مسعود کے شاگرد سلسلہ نامی مقام میں دو سال رہے آپ اس مدت میں قصر کرتے تھے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس مدت میں وہ وہاں کے عامل تھے .
ان تمام واضح صحیح اور صریح دلائل سے پتہ چلتا ہے کہ انسان جب اپنے اصلی جائے اقامت سے کہیں دور چلا جائے تو وہ مسافر ہوگا چاہے مدت اقامت کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو اسی بنا پر طلبہ مدارس اور ان جیسے مسافرین مسافر ہوں گے اور انہیں رخصت سفر حاصل ہوگا
وهذا هو الراجح بمقتضى الدليل الذي لا محيد عنه ولا مرية فيه.
اور اسی کے قائل حسن بصری ، قتادة ، اسحاق بن راهويه ، ابن تيمية ، عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب ،تقي الدين الهلالي المراكشي ، عبد الرحمن بن ناصر السعدي ، محمد بن صالح العثيمين وغیرہم رحمہم اللہ جمیعا ہیں .
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ صحابہ کرام جہاد میں تھے اور انہیں معلوم نہیں تھا کہ جہاد کب تک جاری رہے گا اس لیے انہوں نے قصر کیا اگر وہ مدت متعین کر لیتے تو قصر نہ کرتے ,
یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے :
(1) پہلی بات تو یہ کہ صحابہ نے کہیں بھی اس طرح کی صراحت نہیں کی بلکہ اس کے برخلاف جب حضرت ابن عباس سے پوچھا گیا کہ میں مدینے میں ایک سال ٹھہرتا ہوں اور مجھ میں کہیں جانے کی استطاعت بھی نہیں ہوتی , تو آپ نے کہا کہ قصر کرو ! جیسا کہ اوپر گزرا. معلوم ہوا کہ مدت متعین ہونے کے باوجود بھی صحابہ کرام قصر کرتے تھے اور قصر کرنے کا حکم بھی دیتے تھے.
(2) دوسری بات صحابہ کرام جہاد میں جاتے تھے اور قلعوں کا محاصرہ کرتے تھے اور انہیں معلوم ہوتا تھا کہ محاصرہ چار دن یا انیس دن سے بیشک لمبا ہوگا پھر بھی وہ قصر ہی کرتے تھے, لہذا ثابت ہوا کہ تحدید وعدم تحدید کے ما بین تفریق درست نہیں ہے
(3) یہ تفریق اطلاق قرآنی کے خلاف ہے لہذا باطل ہے اور بلا دلیل محض اجتہاد وقیاس کے ذریعے مطلق کو مقید اور عام کو خاص نہیں کیا جا سکتا , وهذا مقرر في الأصول .
(4) مسروق رحمہ اللہ سلسلہ نامی مقام پر دو سال عامل بنے رہے اور قصر کرتے رہے … اور یہ بات متحقق ہے کہ جب کسی کو عامل بنا کر بھیجا جاتا ہے تو اس کی مدت بیس ایام سے زیادہ ضرور ہوتی ہے بلکہ عموما عامل سالہا سال کے لیے بھی بنائے جاتے ہیں . لہذا ثابت ہوا کہ تابعین بھی تحدید کے قائل نہ تھے .
تنبیہ: ان سب باتوں کے باوجود ہمارا سب سے اہم نظریہ یہ ہے کہ ہم صحابہ کرام کے اس مسئلہ میں اختلاف کے قائل ہیں یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس مسئلے میں باہم مختلف ہیں ، بلکہ ان کے اپنے ہی اقوال باہم متنازع ومتضاد ہیں بنا بریں ہم ان اختلافات کو ان کا اجتہاد سمجھتے ہیں۔۔ اور اپنا عندیہ یہ پیش کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کوئی حد بندی نہیں ہے، لہذا فرمان الہی اور فعل نبوی کو بلا تقید ماننا ضروری ہے قاعدہ ہے:
” المطلق يجري على إطلاقه حتى يثبت تقييده بدليل صحيح صريح دال على ذلك ، لأن الإطلاق ينافي التقييد، فإذا ادعى أحد أن لفظاً مطلقاً قُيِّد بقيد ما، فعليه الدليل لإثبات دعواه، وإلا لا يجوز ادعاء تقييد الإطلاق بغير دليل؛ لأن حكم المطلق غير حكم المقيد فكأن مدعي القيد يريد حكماً آخر غير حكم المطلق.۔۔
اور چونکہ سفر کا اعتبار عرفی ہے، اگر آپ اس معنی میں اپنے گھر سے دور ہو گئے تو آپ مسافر ہیں، اور آپ کی اصل یہ ہے کہ آپ نماز قصر کریں۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ
“قول الصحابي حجة إذا لم يخالفه فيه غيره ”
اور چونکہ یہاں ان کے اقوال باہم مختلف ومتعارض ہیں لہذا ان میں سے کسی کا قول ہمارے لئے حجت اور دلیل نہیں ہے بلکہ ہمارے لئے حجت تو صرف کتاب اللہ سنت رسول ہے صلی اللہ علیہ وسلم ، چنانچہ اس مسئلے میں ہم صحابہ کرام کے ان اقوال کو اختیار کریں گے جو کتاب وسنت کے موافق ہو. یہی اہل والجماعت کا عقیدہ بھی ہے اور محققین علمائے اصول کا اصول بھی:
فتدبروا بارک اللہ فیکم
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ طلبہ جامعہ یا غیر ملکوں میں کام کرنے والے حضرات بالکل مطمئن ہوتے ہیں انہیں بروقت کھانا ملتا ہے رہنے کے لیے گھر کمرے اور سونے کے لیے بستر دیا جاتا ہے اور سفر میں چونک مشقت پیش آتی ہے اس لیے اللہ نے لوگوں کو قصر کی رخصت عطا فرمائی یے اور یہاں تو کوئی مشقت نہیں ہے تو پھر رخصت کس بات کی اور قصر کیونکر ؟
یہ شبہ بھی کئی وجوہ سے غلط ہے :
اول : یہ کہ قصر کی علت مشقت نہیں ہے بلکہ اس کی علت سفر ہے چنانچہ جب بھی سفر پایا جائے گا قصر مشروع ومؤکد ہوگا. کیونکہ اگر علت سفر مشقت قرار دی جائے تو یہ درست نہیں ہوگا کیونکہ علت کی شرط یہ ہے کہ وہ محدود ومنضبط اور منسابمناسب وظاہر ہو ہو لوگ اس کا با آسانی ادراک کر سکیں جبکہ مشقت کا معاملہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر ایک شخص لوہار ہو اور اسے اے سی میں سفر کرنے کا موقع ملے تو اس کے حق میں سفر باعث مشقت نہیں بلکہ سبب راحت وسکون ہوگا فتدبروا بارک اللہ فینا.
دوم : یہ کہ جب اللہ کے رسول حجۃ الوداع اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر مکہ تشریف لے گیے تو وہاں آپ کے ساتھ آپ کی ازواج مطہرات بھی تھیں اور آپ کے لیے خیمے بھی نصب تھے کھانے پینے کے سامان بھی مہیہ تھے اس کے باوجود آپ نے قصر کیا …. اس سے زیادہ اطمینان اور کیا ہو سکتا ہے ؟
سوم : حضرت مسروق دو سال تک قصر کرتے رہے جبکہ آپ اس مقام کے عامل وامیر تھے اور عامل کو کتنی سہولیات مہیہ ہوتی ہیں وہ مخفی نہیں ہے.
چہارم : اس طرح کی تفریق حدیث وقرآن میں نہیں ہے.
لہذا اخیر میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ طلبہ جامعہ اور اس طرح کے دگر مسافرین مسافر ہیں چاہے مدت اقامت کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو اور چاہے مسافر نے مدت کی تحدید وتعین کی ہو یا نہ کی ہو.
میرا ارادہ تھا کہ اخوان کو معلومات کے لیے محض چند کتابوں کی طرف رہنمائی کروں تاکہ وہ ان سے استفادہ کرتے ہوئے حقیقت امر سے آگاہ ہوں مگر بات طول کھینچ گئی اور گفتگو لمبی ہو گئی.
ما شاء اللہ
بارک اللہ فی علمک
فإن هذه المسألة -أعني مسألة تحديد المدة المسموح للمسافر فيها بالقصر وما يتعلق به- من المسائل التي لم يرد فيها دليل فاصل يقطع النزاع، فلذلك اختلفت فيها أقوال العلماء فمنهم من يرى أن المسافر إذا نوى إقامة أكثر من أربعة أيام فإنه ينقطع حكم السفر في حقه ويلزمه الإتمام وهذا هو رأي الحنابلة، ودليلهم أن النبي صلى الله عليه وسلم: ” قدم مكة في حجة الوداع يوم الأحد، الرابع من ذي الحجة وأقام فيها الأحد والاثنين والثلاثاء والأربعاء وخرج يوم الخميس إلى منى، فأقام -صلى الله عليه وسلم- في مكة أربعة أيام يقصر الصلاة. الحديث متفق عليه، ومنهم من يرى… Read more »
شیخ محترم آپ ترجیح چاہے جسے دے لیں مگر وجہ ترجیح مدلل ومبرہن ہونا چاہیے…. چار والی رائی کو راجح قرار دینے کی کیا تک بندی ہے ؟ جبکہ آپ نے خود ذکر کیا ہے کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم فتح مکہ کے موقع پر انیس دنوں تک قصر کرتے رہے … کیا اللہ کے رسول نے کہیں بھی یہ کہا ہے کہ جو شخص اقامت کی نیت کر لے وہ چار روز کے بعد مسافر کے حکم سے خارج ہو جائے گا یا یہ آپ حضرات کا گھریلو استنباط ہے ؟؟ اگر کہیں ایسی کوئی… Read more »
بالکل شیخ
اسی قول پر جامعہ اسلامیہ دریاباد میں عمل ہے اور اسی کے قائل شیخ عبدالباری حفظہ اللہ بھی ہیں اس لئے جب جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں تو اتمام کرتے ہیں اور جب اکیلے پڑھتے ہیں تو قصر کرتے ہیں.. بلکہ چھٹیوں میں بعض طلبہ رکے ہوئے تھے تو وہ قصر باجماعت پڑھ رہے تھے اور مقیم اتمام کرتے.. بارک اللہ فیکم ونفع بکم
جی بلکل شیخ محترم میں بھی جب اکیلے نماز پڑھتا تھا تو قصر کرتا تھا اور ابھی بھی قصر کرتا ہوں
واضح اور مدلل تحریر
بارك الله فيكم