نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کے متعلق یہ پیشن گوئی کی ہے کہ یہاں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
“عَلَى أَنْقَابِ الْمَدِينَةِ مَلَائِكَةٌ لَا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُ”
(مدینہ کے راستوں میں فرشتے ہیں، نہ اس میں طاعون داخل ہو سکتا ہے اور نہ دجال) [البخاري (1880) ومسلم (1379)]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر پیشن گوئیوں کی طرح اس پیشن گوئی کے متعلق بھی ہمیں اسی طرح یقین ہے کہ مدینے میں طاعون ودجال داخل نہیں ہو سکتا جس طرح اس بارے میں یقین ہے کہ رات کے بعد دن آنے والا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے علاوہ بھی بہت ساری پیشن گوئیاں کی ہیں جن میں سے بعض کا ظاہر ہونا باقی ہے اور بعض بالکل اسی طرح ظاہر ہو چکی ہیں جیسے آپ نے پیشن گوئی کی تھی۔
مثلا: آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کی خبر، خوارج کے سردار کی صفت، روم کا فارس پر غلبہ، عمر فاروق و عثمان غنی رضی اللہ عنہما کی شہادت کی بشارت، ایک جنگ میں مسلمانوں کی طرف سے لڑنے والے ایک شخص کے متعلق جہنمی ہونے کی خبر، غزوہ بدر میں زمین پر ہاتھ رکھ کر فرمانا: ”یہ فلاں کے مرنے کی جگہ ہے“ اور ہر ایک کا وہیں پر جاکر گرنا جہاں آپ نے ہاتھ رکھا تھا۔ اپنے نواسے حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ کہنا:
ابني هذا سيدَ، ولعل الله أنْ يُصْلحَ بهِ بينَ فئتينِ عظيمتينِ،
اور سو سال بعد روئے زمین پر کسی نفس کے زندہ نہ رہنے کی خبر جو اس وقت آپ کے زمانے میں زندہ تھے۔ وغیرہ وغیرہ
یہ تمام پیشن گوئیاں بالکل اسی طرح واقع ہو چکی ہیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔ اسی طرح مدینہ طیبہ میں طاعون کے داخلہ کا معاملہ ہے، ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ قیامت تک مدینہ میں طاعون داخل نہیں ہو سکتا۔ اور ہر مسلمان کو اس بات پر یقین ہونا بھی چاہیے، یہ اس کے ایمان کا تقاضہ بھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب، ابو مرثد الغنوی اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم کو ایک مشرکہ عورت کا تعاقب کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ آپ لوگ روضہ خاخ کی طرف نکلیں وہاں پر ایک مشرکہ عورت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ وارضاہ کا خط لے کر مشرکین کے پاس جا رہی ہے تو علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہاں آپ نے کہا تھا ہم نے وہیں اسے پکڑ لیا۔ ہم نے کہا: خط نکالو! کہنے لگی: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس کی تلاشی لی لیکن حقیقت میں کوئی خط نہ ملا۔ تب ہم نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعا جھوٹ نہیں کہا ہے، خط نکالتی ہو یا ہم تمھیں ننگا کردیں! جب اسے یقین ہوگیا کہ ہم کسی بھی صورت میں اسے چھوڑنے والے نہیں تو ازار باندھنے کی جگہ اپنا ہاتھ لے گئی اور وہ خط باہر نکالی جوکہ ایک چادر میں لپٹا ہوا تھا۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئیوں کے متعلق ایک مؤمن کو اسی طرح یقین ہونا چاہیے جس طرح علی رضی اللہ عنہ کو یقین تھا کہ اس خاتون کے پاس خط ضرور ہے گرچہ تلاشی کے باوجود وہ نہ ملا تھا۔
سلف صالحین کی زندگی میں اس طرح کے اور بھی کئی واقعات ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئیوں کے متعلق ان کے ایمان ویقین کا پتہ چلتا ہے۔
ابھی پوری دنیا کورونا وائرس کی زد میں ہے۔ تقریبا پوری دنیا میں یہ وبا پھیل چکی ہے۔ اور ہر ملک میں اس کے متعلق احتیاطیی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔ جس میں مملکت توحید سعودی عرب بھی ہے۔ یہاں دوسرے شہروں کی طرح مدینہ طیبہ میں بھی قابل اطمینان احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔ اسکول، کالج، یونیورسٹی، شاپنگ مالس، طیارے، بسیں، ٹیکسیاں، یہاں تک کہ مساجد بھی بند ہیں۔ ہر نماز کے وقت صرف اذان دی جاتی ہے لیکن مسجد میں باجماعت نماز ادا نہیں کی جاتی، لوگ حکمراں اور کبار علما کے مشورے پر مصلحت کی خاطر اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کر رہے ہیں۔
ایسے میں بعض حضرات کی طرف سے سوال آرہا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں طاعون کے داخل نہ ہونے کی پیشن گوئی کی ہوئی ہے تو یہ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی کیا ضرورت؟
ایسے تمام حضرات سے یہ عرض کرنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کے داخل نہ ہونے کی پیشن گوئی کی ہے دوسرے وبائی امراض کے داخل نہ ہونے کی نہیں۔
اس لیے آپ کی پیشن گوئی صرف طاعون کے متعلق صریح ہے کہ وہ داخل نہیں ہوگا۔ جہاں تک دوسرے وبائی امراض کا تعلق ہے تو حدیث میں اس کی صراحت نہیں۔
تاریخی واقعات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی طاعون کے متعلق ہے دوسرے وبائی امراض کے متعلق نہیں۔ چنانچہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہی مدینے میں وبا پھیل چکی ہے۔ ابو الاسود فرماتے ہیں:
“أَتَيْتُ المَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ وَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا”۔
(میں مدینہ آیا تو یہاں وبا پھیلی ہوئی تھی لوگ بڑی تیزی سے مر رہے تھے) [صحيح البخاري (3/ 169) حدیث نمبر (2643)]
پھر ان کی طرف سے سوال آتا ہے کہ طاعون کی طرح کورونا وائرس بھی ایک متعدی اور مہلک وبا ہے جو بہت تیزی سے ایک دوسرے تک پھیلتا ہے اور سینکڑوں لوگ چند دنوں کے اندر لقمہ اجل بن جاتے ہیں لہذا طاعون کی طرح اس کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے یا نہیں کہ یہ مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات مبارکہ سے امید یہی ہے کہ ان شاء اللہ العزیز اس کے فضل وکرم سے یہ مدینہ میں داخل نہیں ہوگا۔ لیکن طاعون کی طرح یقین کے ساتھ کچھ کہنا ممکن نہیں۔
محدث مدینہ شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ سے یہی سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اللہ کی ذات سے امید یہی ہے کہ یہ مدینہ میں داخل نہ ہوگا۔
اس لیے کورونا وائرس طاعون کی طرح مدینے میں داخل ہو سکتا ہے یا نہیں یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔
نیز یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ حدیث میں مدینہ میں داخلہ کی نفی کی گئی ہے۔ اب اس سے صرف حدود حرم مراد ہیں یا پورا شہر مدینہ یا پورا منطقہ مدینہ، اللہ تعالی اعلم۔
اگر–اللہ نہ کرے- یہ مدینہ میں داخل ہو جائے تواس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی پر ذرہ برابر آنچ نہیں پڑتی۔ دوسری پیشن گوئیوں کی طرح آپ کی یہ پیشن گوئی بھی دو دو چار کی طرح برحق ہے۔ ہاں یہ عین ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصود کو سمجھنے میں ہم امتیوں سے غلطی ہو جیسے کہ آپ کی ایک پیشن گوئی کو سمجھنے میں ازواج مطہرات سے بھی غلطی ہوگئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرض الموت میں آپ کی ازواج نے سوال کیا کہ ہم میں سے سب سے پہلے آپ سے کون ملنے والا ہے؟ یعنی آپ کے بعد ہم میں سے سب سے پہلے کس کی وفات ہونے والی ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ جس کا ہاتھ سب سے لمبا ہے۔
پس ہم آپ کی وفات کے بعد کسی کے گھر میں جمع ہوتیں تو دیوار میں ایک دوسرے کا ہاتھ ناپنے لگتیں، یہاں تک کہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی حالانکہ وہ ہم میں سے سب سے لمبی نہیں تھیں۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ آپ کا مقصود جسم کا ظاہری ہاتھ نہیں تھا، صدقات وخیرات میں ہاتھ کا لمبا ہونا مقصود تھا۔ [(مستدرک حاکم (4/26، حدیث نمبر 6776)۔ امام حاکم نے مسلم کی شرط پر اسے صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ اس کی اصل صحیح مسلم (2452) میں موجود ہے۔]
لہذا اسی طرح دوسری پیشن گوئیوں کے سمجھنے میں بھی کسی سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ اور غیب کی چیزیں جب تک ظاہر نہ ہو جائیں تب تک کسی کے لیے بھی یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ کورونا وائرس مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتا تو کیا اس کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیا جانا چاہیے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کا طریقہ ہمیں اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ ہم اس کے باوجود احتیاطی اسباب و تدابیر اختیار کریں۔
مثلا:
بِسْمِ الله الَّذِي لا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الأرْضِ وَلا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السميع الْعَلِيمُ
والی دعا کے بارے آیا ہے کہ جس نے اسے پڑھا اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے والا اللہ کے ذمہ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑھ کے مریض سے بیعت نہیں کی۔ اور صحابہ کرام ملک شام میں طاعون کی وجہ سے داخل نہ ہوئے۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں بیٹھ کر ہی صحابہ کرام سے “فِرَّ من المجذوم فرارك من الأسد” جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کرتے تھے، اور آپ نے کبھی ان تدابیر کے سلسلے میں اہل مدینہ کو مستثنی نہ کیا۔
اس لیے ایک مؤمن کا طریقہ یہی ہونا چاہیے کہ بشارت ملنے کے باوجود اسباب اختیار کرنے سے پیچھے نہ رہے۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو تو سب سے بڑی بشارت ملی ہوئی تھی کہ جیش العسرہ کی تیاری کے بعد آپ نے ان کو خوش خبری سنا دی تھی کہ آج کے بعد عثمان اگر کوئی عمل نہ بھی کریں پھر بھی انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے باوجود کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو زار وقطار روتے۔
بدری صحابہ کرام کو اللہ تعالی نے یہ بشارت دی ہوئی تھی کہ جو جی چاہے کرو، میں نے تمھیں معاف کر دیا ہے۔ اس کے باوجود وہ حد درجہ قیامت وآخرت کو لے کر خوفزدہ رہتے اور دخول جنت کے اسباب اختیار کرنے میں پیش پیش رہتے۔
لہذا اگر اہل مدینہ بھی کورونا وائرس کی وجہ سے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں تو ان کا یہ عمل عین سنت کے مطابق ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے ہمیں ہر طرح کے امراض سے پاک وصاف رکھے۔
اللهم إني أعوذ بك من البرص، والجنون، والجذام، ومن سيئ الأسقام
Jab madin me waba faili thi to masjido ko ahtiyat ke tour par band kyo nahi kiya gaya tha
ماشاء اللہ بہت ھی عمدہ تحریر ھے بھائ صاحب
جزاک اللہ احسن الجزا