اسلام اتحاد کی تعلیم دیتا ہے، اختلاف اور مخالفت سے بچنے کی تلقین کرتا ہے، تاحال اختلافِ رائے فطری امر ہے، خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین کئی معاملات میں اختلاف ہوا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختلاف رائے دراصل صحیح معنوں میں نبی کریم ﷺکی اطاعت کرنا مقصود تھا۔ ان کے بعد تابعین، تبع تابعین، فقہاء اور مجتہدین کے درمیان فقہی و سیاسی مسائل میں اختلاف رہا، لیکن ان اختلافات کے باوجود وہ ایک دوسرے کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے تھے۔ ان کے باہمی ادب و احترام کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھی ان کا تذکرہ ادب و احترام ہی سے کیا جاتا ہے۔
اختلاف احکام کی تعبیر و تشریح میں ہوتا ہے۔ اسلاف جب کسی مسئلے کی تحقیق میں اختلاف کرتے تو دوسرے کو دین سے خارج قرار نہیں دیتے تھے، اختلاف کا ہونا ناگزیر ہےمگر ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے اور نہ ہی ہر اختلاف محمود ہوسکتا ہے۔ ایسا اختلاف جو حق کی تلاش میں اخلاص و للہیت اور اصولوں پر مبنی ہو شریعت میں اس کی اجازت ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
بنیادی طور پر اختلاف کی دوقسمیں ہیں ایک محمود دوسرا مذموم، ان میں سے ہر ایک کے کئی اسباب ہیں۔
محمود اختلاف کے اسباب:
ممدوح اختلاف قرآن کریم کی قرأتوں کے مختلف ہونے سے شروع ہوکر احادیث کی صحت وضعف سے گزرتا ہوا فقاہت و فراست کے ساتھ احکام کی عملی تطبیق تک جاری رہتا ہے، تاہم تمام اختلافات کی غرض و غایت احقاق حق اور ابطال باطل ہی ہوتی ہے۔ جو اختلاف صدق نیت سے تلاش حق کی راہ میں ہوتا ہے محمود ہے، اس جگہ اس کی تفصیل بیان کرنا تو مشکل ہے البتہ مختصر وضاحت کے ساتھ صرف چند اہم اسباب کا بطور عناوین ذکر کرتا ہوں۔
قرآن کریم کی بعض آیات میں مختلف قرأتوں کے ثبوت کی وجہ مفسرین کے اقوال میں اختلاف ہوتا ہے۔
نصوص شرعیہ کے بعض کلمات لغوی و اصطلاحی معانی میں مشترک ہونے کی وجہ سے معنی اور مفہوم میں اختلاف ہوتا ہے۔
راوۃ پر جرح وتعدیل کے بعد سند روایت اور درایت میں اختلاف کی وجہ سے استدلال میں اختلاف ہوتا ہے۔
کبھی مسئلہ کا تعلق عموم خصوص سے ہوتا ہے اس کو سمجھنے میں مختلف آراء جمع ہوجاتے ہیں۔
بعض دفعہ حضورﷺ کے کسی عمل کا مقصد و منشاء متعین کرنے میں اختلافِ رائے ہوتا تھا۔
بعض نصوص کے ناسخ منسوخ میں جمع وتطبیق کرتے ہوئے یا دلائل کے ظاہری تعارض کو حل کرتے ہوئے ترجیحی رائے کے اختیار میں اختلاف رائے ہوجاتا ہے۔
کتاب و سنت کے منصوص احکام محدود ہیں اور مسائل بے شمار ہیں، کسی مسئلے میں کتاب وسنت کا کوئی صریح حکم موجود نہ ہونا بھی فقہاء کے درمیان اختلاف کا سبب بن جاتا ہے، ایسی صورت میں ہر مجتہد اخلاصِ نیت کے ساتھ اجتہاد کرتا ہے جس میں اختلاف ہونا فطری بات ہے۔
احادیث کے رد وقبول کے اصول اور قواعدِ فقیہ کے مختلف قواعد اختلاف رائے کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے، ایک مجتہد کا استنباط انہی قواعد کے تحت ہوتا ہے، ان اصول و قواعد کا اختلاف بھی فروعات میں اختلاف کا سبب بنتا ہے۔
کبھی ایک حدیث ایک امام تک پہنچتی ہے تو وہی حدیث دوسرے امام تک نہیں پہنچی ہوتی ہے اسی لیے ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال میں اختلاف کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے، اسی لیئمے ہر امام اپنی علمی کم مایگی کو تسلیم کرتے ہوئے صحیح حدیث کے مقابلے میں اپنی رائے سے برأت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی امانت داری اور دیانت داری نامہ اعمال میں اور کتب فقہ میں محفوظ کرچکے ہیں۔ (رحمھم اللہ رحمۃ واسعة)
مذموم اختلاف کے اسباب:
اور وہ اختلاف جس کا منشاء و سبب قبیح ہو، یا وہ اختلاف جس کی بنیاد ریاکاری اور انانیت پر ہو جو شر اور فساد کا سبب بنے وہ یقینا مذموم ہے۔ ایسے اختلافات سے اللہ کی رحمت اٹھ جاتی ہے اور مختلف صورتوں میں عذاب کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔
ضد و عناد اور انانیت یہ خصال اگر اختلاف کے محرکات میں سے ہیں تو کوئی بھی متفق علیہ حل محال ہے۔
وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍعَنِيدٍ (إبراهيم: 15)
کچھ لوگ دوسروں کی عزت و شہرت کو دیکھ کر جلتے ہیں اور بلاوجہ اختلاف کر تے ہیں، ایسے لوگ حسد کی آگ میں خود کو جلاتے ہی رہیں گے۔
أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ (النساء: 54)
شخصیت پرستی اور غیر اسلامی رسومات پر اس حد تک مصر رہتے ہیں کہ اسے کفر و ایمان کے درمیان حدِفاصل ٹہرا لیتے ہیں۔
بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّهْتَدُونَ (الزخرف: 22)
کم ظرفی، تنگ نظری، خوش خیالی اور خوش فہمی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنی قیل وقال میں مست ہے، ان کے ذہنوں میں پتھر کی لکیر کی طرح یہ بات نقش کر دی گئی ہے کہ صرف ان کی جماعت ہی دین پر کماحقہ عمل کر رہی ہے اور فقط وہی صحیح معنوں میں قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔
مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (الروم: 32)
بے روزگاری اورمعاشی مجبوری، بعض لوگ صرف اس لیے متحد نہیں ہوتے کہ اختلافی مسائل ہی ان کے لیے ذرائع معاش ہیں، انھیں ان مسائل پر بحث و مباحثہ کے علاوہ کچھ آتا بھی نہیں۔ جاہل عوام میں ان کی طلب اور شہرت صرف اور صرف اختلافی موضوعات پر ان کی شعلہ بیانی کی وجہ سے ہوتی ہے جن کا وہ منہ مانگا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔
اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَصَدُّوا عَن سَبِيلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (التوبة: 9)
مذموم اختلافات کے وجوہات پر غور کیاجائے تو “جہالت” بھی ایک اہم سبب معلوم ہوتی ہے۔ مذہبیات سے ناواقفیت اور علمی مہارت کافقدان، یہ ایسا خطرناک مرض ہے جس نے امت کو اختلاف وانتشار کا شکار بناکر رکھ دیا ہے۔ دینی مسائل میں محض عقل سے یافت نہیں ہوتی بلکہ دین کے اصول کی دریافت کے بعد ہی صحیح راہ ملتی ہے، بلا علم رائے زنی اور ہما شما کی فتویٰ بازی نے امت کا شیرازہ پارہ پارہ کیا ہے۔ ایک حدیث میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
عن عبدالله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله لا يقبض العلم انتزاعًا ينتزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يُبقِ عالِمًا اتخذ الناس رؤوسًا جهالًا، فسُئلوا، فأفتوا بغير علم، فضلُّوا وأضلُّوا(بخاری: کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم)
اللہ تعالیٰ بندوں سے یک لخت علم کو سلب نہیں کرے گا بلکہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا لوگ اپنا پیشوا جاہلوں کو بنالیں گے۔ پس ان سے سوال کیا جائے گا وہ بھی بلا علم فتویٰ دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
متشابہات کی تاویلات بھی مذموم اختلافات میں شمار کی گئی ہیں۔ متشابہات کے حقیقی معانی و مطالب کی معرفت کا انسان مکلف ہے ہی نہیں، بلکہ اس میں کلام کرنا تک ممنوع ہے۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کو “اہل زیغ وضلال” سے تعبیر کیا ہے:
هُوَالَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ(آل عمران: 7)
مذکورہ بالا تمام اسباب پر مسائل کی مثالیں پیش کی جائیں تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا۔ اختصار کے پیش نظر ذیلی عناوین کے طور پر کچھ اسباب درج ذیل ہیں۔
اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ باحثین و مناظرین صرف خود کی رائے کو ہی درست اور اصولوں پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ اس طرح كا ذہن رکھنے والوں کے لیے میرا مشورہ ہے کہ ایک بار “بداية المجتهد ونهاية المقتصد” کا مطالعہ ضرور کریں اور اس کتاب سے طرز استدلال کا اسلوب سیکھیں۔
مذموم اختلافات کی وجہ سے غیر قومیں اسلام سے بدظن ہو رہی ہیں، اغیار کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر بدنما ہو رہی ہے، اختلافی موضوعات پر دوران گفتگو یہ بات کوئی نہ بھولے کہ کراماً کاتبین بھی مجلس میں موجود ہیں اور یہ آیت کریمہ بھی ذہن میں رہے:
مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ(ق: 18)
حق پسندی تو یہ ہے کہ اختلاف رائے کے باوجود دوسروں کی خوبیوں کو سراہنا چاہیے اور غلطیوں پر نیک نیتی کے ساتھ اصلاح کی خاطر اشارہ کرنا چاہیے۔
اجتہادی مسائل میں حق وباطل کا اختلاف نہیں ہوتا بلکہ صواب واحتمال خطا کا اختلاف ہوتا ہے۔ اجر کے مستحق دونوں ہوتے ہیں کسی کو لعن طعن کرنا جائز نہیں ہے۔ علمی اختلاف خواہ کتنا ہی شدید ہو اگر دلوں میں کجی و کدورت نہ ہو تو علمی اختلاف کے باوجود شخصی مخالفت کبھی نہیں ہوسکتی۔
زمان و مکان کی رعایت کرتے ہوئے مصالح عامہ کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ بسا اوقات ایسا نہ ہونے کی وجہ سے اختلاف رائے ہوجاتا ہےجبکہ فریقین کے دلائل اور استدلال بھی صحیح اور مستند ہوتے ہیں۔ فریقین زیر بحث مسئلہ کی فرضیت ووجوب کے قائل رہتے ہیں اس کے باوجود وجہ اختلاف بس زمان و مکان کی رعایت اور مصالح عامہ کے تقاضوں کی رعایت کا فقدان ہوتی ہے۔
بسا اوقات اختلاف صرف راجحیت اور افضلیت تک محدود رہتا ہے اس صورت میں تشدد اور اصرار نہیں ہونا چاہیے بلکہ وسعت نظری اور کشادہ ذہنی سے اختلافِ رائے کو قبول کرنا ضروری ہے۔
عصری معاشی معاشرتی اور سیاسی مسائل میں باہمی تبادلہ خیال میں نوک جھوک سے مفر بھی نہیں ہے۔ مگر دوران گفتگو دائرۃ اخلاقیات سے خارج نہیں ہونا چاہیے بلکہ فریقین کے مابین جو امور متفق علیہ ہیں ان سے مذاکرات کا آغاز کیا جائے تاکہ صرف تنقید برائے تنقید نہ ہو بلکہ مصالح عامہ کے پیش نظر فروعی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جاسکے اور مشاورتی مجلس میں صرف ان دانشمندوں کو شریک کیا جائے جن کا تعلق موضوع سے ہو یا کم ازکم ان میں وسعت نظری اور معاملہ فہمی کی صلاحیت ہو۔
ہارون رشید نے امام مالکؒ سے مشورہ کیا کہ “مؤطا” کو کعبہ میں رکھا جائے اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا جائے، امام مالکؒ نے کہا:
“لاتفعل فان اصحاب رسول اللہﷺاختلفوا فی الفروع، وتفرقوا فی البلد ان وکل سنة مصنت، قال:وفقک اللہ یاابا عبداللہ (السیوطی، الانصاف فی بیان سبب الاختلاف)
ایسا نہ کیجیے، اس لیے کہ مختلف فروعی مسائل میں اصحاب رسول اللہﷺ کے درمیان اختلاف ہے اور تمام صحابہؓ مختلف شہروں میں منتشر ہوگئے ہیں اور ان کے ساتھ تمام حدیثیں بھی پھیل گئی ہیں۔
اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ سراسر باطل رائے کو تسلیم کرلیا جائے یا اس مسئلہ میں اختلافِ رائے کی گنجائش روا رکھی جائے۔ اس کی عمدہ مثال مرتدین کے استیصال میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے استقامت کی ہے جب عمر رضی اللہ عنہ جیسے باہمت اور باطل کے خلاف شمشیر بے نیام کو بھی صدیقی صلابت کا اقرار واعتراف کرنا پڑا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا تھا:
جبار في الکفر خوار في الاسلام (مسلم، باب الامر بقتال الناس)
(کفر میں تو بڑے سورما تھے، اسلام میں اتنا بزدل ہوگئے)
آپ کے تبصرے