ذمہ داران مساجد کی خدمت میں چند گذارشات

سرفراز فیضی

اسلام میں مساجد کی حیثیت دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی طرح محض عبادت کی ادائیگی کےلیے مختص کی گئی ایک عمارت کی نہیں بلکہ مساجد اسلامی معاشرہ کی دینی ، سیاسی ، معاشرتی ، اخلاقی، رفاہی قیادت کا مرکز ہیں۔ دنیا کی ظلمتوں میں اسلام ہدایت کا نور ہے اور مساجد وہ چراغ ہیں جہاں سے یہ نور اپنی کرنوں سے معاشرہ کے گوشہ گوشہ کو منوّر کرتا ہے ۔ مساجد کی حیثیت اسلامی معاشرہ میں دل کی ہے جہاں سے علم و ہدایت کا خون معاشرہ کی رگوں میں پہنچتا ہے ۔ مسجد ایک معاشرہ میں اسلام کے زندہ ہونے کی علامت ہے ۔ اسلام کا اعلیٰ ترین شعار ہے ۔
بندے کا اللہ سے رابطہ دو حوالوں سے ہے ۔ ایک بندے کی طرف سے عبادت کا دوسرا اللہ کی طرف سے ہدایت کا ہے ۔ مسجد رابطہ کے ان دونوں حوالوں کا مرکز ہے ۔ مسجد کی ایک جہت مصلّیٰ کی ہے ۔ نماز جو اللہ کے سامنے بندگی کے اظہار کا اعلیٰ ترین وسیلہ ہے نماز اس عبادت کی اجتماعی ادائیگی کا مقام ہے ۔مساجد کی دوسری جہت منبر کی ہے ۔ منبر اللہ کی طرف سے اتاری گئی ہدایت کی اشاعت کا مرکز ہے ۔ منبر تعمیر کردار اور افراد سازی کا سب سے بڑا مرکز ہے ۔ مسجد دعوت و اصلاح اور سماجی رابطہ ( social connectivity) کا ایسا زبردست نظام ہے جس کو اگر اُس کی صحیح بنیادوں پر استوار کرلیا جائے تو امّت کو کسی اور نظام کے ایجاد یا امپورٹ کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی ۔
مساجد کی اِس اہمیت ہی کے پیش نظر مساجدکی تعمیر پر خصوصی فضیلتوں اور انعامات کے وعدے کیے گئے ہیں ۔ اگر اسلامی ریاستیں موجود ہیں تو مساجد کی تعمیراور انتظام کی ہر ذمہ داری ریاست کی ہوگی ۔ اسلامی ریاست کی غیر موجودگی میں یہ ذمہ داری علاقہ کے مسلم افراد کی ہے کہ وہ مسجد کی تعمیر کا انتظام کریں اور اس کو مطلوبہ بنیادوں پر قائم رکھنے کی کوشش کریں۔
الحمد للہ دین سے دوری کے اس دور میں بھی مساجد کے معاملہ میں اہل اسلام کی حساسیت قائم ہے ۔ ملک بھر میں پھیلی لا تعداد مساجد اس بات کی گواہ ہیں ۔ دنیا پرستی کے اس دور میں بھی مسلمان اپنی گاڑھی کمائی سے مساجد کی تعمیرکرتے ہیں اور ان کے رکھ رکھاؤ کاسارا خرچ بھی برداشت کرتے ہیں ۔ وہ مخلصین یقینا مبارکبادی کے مستحق ہیں جو مساجد کی تعمیر اور اس کے انتظام میں اپنا قیمتی مال اور وقت صرف کرتے ہیں ۔ اُن کو اُن کی محنتوں کا حقیقی صلہ یقینا اللہ دینے والا ہے ۔ذیل میں مساجد کے انتظام ، ائمہ کے حقوق اور دعوتی امور کی ترتیب کے حوالے سے موجودہ حالات کے پیش نظر مساجد کے ذمہ داران کی خدمت میں کچھ مشورے اور گذارشات عرض کیے جارہے ہیں ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مسجد صرف عمارت نہیں ایک نظام کا نام ہے۔ مسلم معاشرہ کی اصلاح کا بہت کچھ انحصار نظام مساجد کی اصلاح پر ہے ۔ یہ مشورے اس نظام کی تعمیر اور اصلاح کے کی نیت سے دیے گئے ہیں ۔ اللہ ہم سب کو اصلاح کی توفیق نصیب فرمائے۔
1. اخلاص سے کام کریں۔ مسجد کی تعمیر اور اس کی خدمت بڑا ثواب کا کام ہے۔ اس عمل کا اجر اگر آخرت میں اللہ سے چاہتے ہیں تو دنیا میں اس عہدہ کو نام کمانے ،رعب جمانے ، حکم چلانے اور دھاک بٹھانے کا ذریعہ نہ بنائیں ۔
2. سب کو ساتھ لے کر چلیں ۔ خاص کر علاقہ کے اہل علم ، دین دار، اہل ثروت اور بااثر لوگوں کو مشورہ میں شامل رکھیں ۔ مسجد مسلمانوں کے اتّحاد کا مرکز ہے اس کو گروپ بندی کی سیاست کا اکھاڑا نہ بنائیں۔
3. عہدہ کو نعمت کے بجائے ذمہ داری سمجھیں ۔ مسجد کا مقام دین میں بہت بلند ہے اس لیے اس کی تولیت کی ذمہ داری بھی بہت بڑی ہے ۔ اللہ کے یہاں جواب دہی کا احساس ہمیشہ زندہ رکھیں۔ لوگوں میں شبیہ حاکمانہ نہیں خادمانہ بنائیں۔
4. علاقہ کے نوجوانوں کو نظر انداز نہ کریں ۔ مشورہ اور ذمہ داریوں میں کسی نہ کسی طرح سے ان کو بھی شامل رکھیں ۔ نوجوانوں کو اگر نظرانداز کیے جانےکا احساس ہوگا تو وہ مسجد سے الگ گروپ بنالیں گے ۔ اس سے مسائل پیدا ہوں گے ۔
5. غیر منہجی بالخصوص تحریکیوں سے ہوشیار رہیں ۔ یہ پہلے تعاون کے بہانے مسجد اور اس کے ذمہ داروں کے قریب آتے ہیں پھر آہستہ آہستہ اپنے لوگوں کو مسجد میں داخل کرکے مسجد اور خاص کر منبر پر قبضہ جمانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
6. مسجد کے دعوتی امور کی ترتیب کے لیے مستند اور تجربہ کار علماء سے مسلسل رابطہ میں رہیں ۔ علاقہ یا علاقہ سے قریب رہائش رکھنے والے کسی ایک مستند عالم کو مسجدکے دعوتی امور کا نگراں بنا لیں۔
7. منبر اللہ اور بندوں کےبیچ سب سے گہرا ربط ہوتا ہے ۔ منبرکا تقدس ہمیشہ ذہن میں رکھیے ۔ غیر مستند ، غیر منہجی اور غیر متشرع لوگوں کو منبر پر جگہ دے کر ہدایت اور اصلاح کے اس منبع کو آلودہ نہ کریں ۔
8. مسجدکے منبر پر غیر علماء کو کھڑا نہ کریں ۔ مسجدکے منبر پر کھڑے ہونے کا حق یا تو جماعت کے مستند ادارہ سے فارغ عالم دین کا ہے یا پھر ایسے شخص کا جو کسی مدرسہ سے فارغ نہ بھی ہو تو جماعت کے علماء اور جمعیت کے ذمہ داران اس کی توثیق کرتے ہوں ۔اگر منبر پر کھڑا ہونے کے لیے علم ، استناد اور ثقاہت کے بجائے زور بیان اور شور خطابت کو معیار بنا لیا جائے گا تو اپنے بدعتی منہج پر زور دار خطابت کا پردہ ڈالے ہوئے غیر منہجی مفسدین کے لیے جماعت میں گھسنے اور فساد پھیلانے کا دروازہ کھل جائے گا۔
9. امام مسجدکے ادارےکا سربراہ اور مسجد کے اجزائے ترکیبی کا سب سے اہم جز ہے ۔ کسی بھی مسجد کے مصلیان اور سامعین کے دینی مزاج اور علمی معیار پر سب سے گہرا اثر امام کا ہوتا ہے ۔ امامت کا منصب بہت اعلیٰ ہے ۔ اس کو ہلکا نہ سمجھیں ۔ آخری حد تک مسجد کو اچھے سے اچھا امام فراہم کرنے کی کوشش کریں ۔
10. منتظمین اور مصلّیان کی بداخلاقی ، قلیل تنخواہ اور ضروری سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ذہین اور اعلیٰ صلاحیتوں سے لیس مدارس کے فارغین مسجد کی امامت سے منسلک نہیں ہونا چاہتے ۔ اچھا امام چاہتے ہیں تو حسین اخلاق، اچھی تنخواہ اور مناسب سہولیات کا انتظام کریں ۔ یہ صحابہ کا دور نہیں ۔ لوگوں میں تقویٰ اور للہیت اب ایسی نہیں رہی کہ آپ علماء سے اُمّید رکھیں کہ وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر کام کریں گے۔ مناسب تنخواہ، سہولتیں اور اچھا رویّہ پیش نہیں کیا جائے گا تو مساجد میں اچھے ائمہ کا قحط جو شروع ہو چکا ہے بڑھتا چلا جائے گا۔ دعوت و اصلاح کا کام بڑی ذمہ داری ہے ۔ مالی طور پر تنگ دست اور ذہنی طور پر پریشان شخص اتنی بڑی ذمہ داری نہیں نبھا سکتا۔
11. اس مہنگائی کے دورمیں کم از کم اتنی تنخواہ دیں جس سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ایک عالم دین اور اس کے بال بچوں کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوسکیں ۔ ممبئی جیسے شہر میں رہائش کے ساتھ کم از کم بیس ہزار مناسب تنخواہ ہے ۔ علاقہ کے اعتبار سے یہ فیگر کم زیادہ ہوسکتا ہے ۔ مساجد میں امامت کرنے والے اکثر علماء اپنا گھر بار چھوڑ کر آتے ہیں ۔ اپنی فیملی کے علاوہ گائوں میں رہ رہے ماں ، باپ ، بھائی بہن کی ذمہ داریاں بھی ان کے کندھوں پر ہوتی ہیں۔ امامت کا کام بھی ذہنی اور جسمانی دونوں اعتبار سے مشقت طلب ہے۔ ڈیوٹی کی حیثیت سے بھی دیکھیں تو یہ ایک فل ٹائم جاب ہے ۔ جس میں کسی کوتاہی کی بھی گنجائش نہیں ۔ ان ساری باتوں کو سامنے رکھیں گے تو بیس ہزار کا امائونٹ کم ہی لگے گا۔
اتنی تنخواہ فراہم کرنے کے لیے مالی تنگدستی بہانہ ہوسکتی ہے حقیقت نہیں ۔ اُمّت کے پاس مال کی کمی نہیں ، ذہن بنانے کی ضرورت ہے ۔ مشاہدہ یہی ہے کہ مختلف علاقوں میں جو لوگ امام کو بیس پچیس ہزار تنخواہ دینے کے لیے تنگدستی کا بہانہ کرتےہیں وہ سال میں ایک اجلاس کے پیچھے دو تین لاکھ روپیے بہادیتے ہیں ۔
12. امام کے لیے فیملی کے ساتھ رہائش کا بندوبست لازمی کریں ۔مسجدکی تعمیر کے وقت ہی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ امام کے لیے علیحدہ کمرے کا انتظام بھی مسجد کی عمارت میں ہوجائے ۔ اپنے بال بچّوں کے ساتھ زندگی گذارنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ ائمہ جو ہمارے دینی رہنما ہیں ہم ان کو زندگی کا یہ بنیادی حق بھی فراہم نہیں کرتے ۔ مہاجر بھی کم سے کم اپنے گھر والوں کے ساتھ ہجرت کرتا ہے۔ ائمہ کا معاملہ تو ان سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ تیس سال امامت کرنے والے امام کو سال میں ایک مہینے کے حساب سے اپنے گھر والوں کے ساتھ گذارنے کے لیے کل ملا کر تین سال بھی پورے میسر نہیں ہوتے ۔
دینی رہنمائی اور اصلاح کاکام کرنے کے لیے جس ذہنی سکون اور سماجی شعور کی ضرورت ہے وہ قیدی کی طرح زندگی بسر کررہے کسی امام کو میسر نہیں ہوگا۔ اہل خانہ سے اتنی لمبی مدّت تک دور رہنا شرعی نقطہ نظر سے بھی ٹھیک نہیں ۔ اولاد کی تربیت کے حوالے سے بھی یہ غلط ہے اور جسمانی صحّت کے اعتبار سے بھی نقصاندہ ۔ بے راہ روی کے دروازے بھی اس سے کھلتے ہیں ۔ سال سال بھر اپنی بیوی سے دور رہنے والا امام کس منہ سے نوجوانوں کو جلدی شادی کرنے کا حکم دے گا تاکہ ان کی نظریں جھک جائیں اور ان کی شرم گاہ محفوظ ہوجائے۔
13. امامت پیشہ نہیں منصب ہے۔ امام مسجد کے ذمہ داران اور مصلیان کا نوکر یا غلام نہیں پورے علاقہ کا دینی رہنما ہوتا ہے ۔ اس منصب کے تقدس کا خیال رکھیں ۔امام کی عزّت نفس کو مجروح کرکے اس منصب کے تقدس کو تار تار نہ کریں ۔ اس کو مشورہ دینے، ذمہ داریاں بتانے اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرنے میں عزّت سے پیش آئیں ۔ سلیقہ سے گفتگو کریں ۔ بھری مجلس میں حکم دینے اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے اکیلے میں مل کر محبّت سے بات کریں ۔
14.امام کی ذمہ داری صرف نماز پڑھانے کی نہیں ہوتی ۔ وہ مرحلہ وار خطبے ، دروس اور میل جول کے ذریعہ عوام کی تربیت کرتا ہے ۔ ہمارے یہاں آہستہ آہستہ امامت کے لیے حافظ سے کام چلانے اور خطبہ کے لیے باہر سے خطباء کو بلانے کی جو روایت بنتی جارہی ہے اس کے بہت سنگین نقصانات ہیں جو گہری نظر رکھنے والوں کو وقت کےساتھ دکھائی دے رہے ہیں ۔
ہم نے خطبات جمعہ کو اصلاح اور دعوت کا وسیلہ سمجھنے کے بجائے تفریح کا ذریعہ بنا لیا ہے اور تفریح بغیر تنوّع کے تو حاصل کی نہیں جاسکتی ۔ اس لیے بڑے شہروں میں تیزی کے ساتھ یہ مزاج بنتا جارہا ہے کہ امام صرف نماز پڑھانے کے لیے ہوتا ہے اور خطبے کی ذمہ داری ائمہ کے بجائے بدل بدل کر الگ الگ خطباء انجام دے رہے ہیں ۔ تربیت کے نقطہ نظر سے یہ طریقہ نقصاندہ ہے ۔ اصلاح اور تربیت ایک مدّت طلب اور مرحلہ وار عمل ہے ۔ آپ کے بیچ رہنے والا، آپ کا مزاج سمجھنے والا، آپ کی خوبیوں اور خامیوں سے واقف امام جتنی موثر اصلاح آپ کی کرسکتا ہے ، دو چار مہینے میں ایک بار آکر تقریر کرکے جانے والا خطیب نہیں کرسکتا۔ لہذا مسجد میں خطبہ دینے کا حق امام کو دیجیے ۔ وقفہ دینا ضروری ہو تو مہینے میں ایک خطبہ کے لیے خطیب باہر سے بلا لیجیے۔ بہت نا گزیر ہوتو مہینے میں دو خطبے باہر کے خطباء کے لیے اور بقیہ خطبے امام کےلیے رکھیے۔
15. بات بات پر امام بدلنا بطور منتظم آپ کے ناکام ہونے کی دلیل ہے ۔دنیا میں کوئی انسان کامل نہیں ۔ ائمہ سے بھی سو فی صد پرفیکشن کی اُمّید نہ رکھیں ۔ کچھ نہ کچھ خامیاں ہر کسی میں ہوتی ہیں ۔ ائمہ میں بھی رہیںگی ۔ امام کی صورت میں ہر مسجد کے ذمہ داران کو قرات میں شیخ سدیس ، علم میں ابن تیمیہ ، خطابت میں احسان الہی ظہیر اور تحقیق شیخ الالبانی کی تلاش ہوتی ہے ۔ ایسی آرزئیں پوری نہیں ہوسکتیں ۔ لہذا چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں پر امام بدلنے کا مزاج نہ بنائیں ۔ علاقہ اور مسجد کی ضرورت کے حساب سے مناسب علم اور صلاحیت والا امام رکھیں ۔ اس کو مسجد کی ضرورتوں کے مطابق بننے اور ڈھلنے کا موقع دیں ۔ نئی صلاحیتوں کو نئے کام اور نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ وقت اور تجربہ آدمی کو بڑا بناتا ہے ۔
16. مسجدکے ٹرسٹی ہونے کامطلب مفتی ہونا نہیں ہوتا ہے ۔ مسجدکی انتظامی ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر رکھیں ، دینی اور علمی رہنمائی کا کام امام پر چھوڑ دیں ۔ دینی مسائل میں اس کی بات مانیں ۔ مسجد کا مفتی امام ہی ہوتا ہے، دینی رہنمائی کا مرکز امام ہی کو رہنے دیں ، یہ ذمہ داری نہ خود اپنے سر پر لیں نہ کسی دوسرے کو لینے دیں ۔ ایک مسجد میں ایک سے زیادہ رہنمائی کے مرکز ہونے سے ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوتی ہے ۔ کسی مسئلہ میں اگر آپ کو یا کسی مصلی کو امام کے فتویٰ سے اطمینان نہ ہوتو بجائے امام سے الجھنے اور لڑائی کرنے کے جماعت کے بڑے علماء سے رابطہ کرکے تصفیہ کریں ۔
17. مسجد کی صفائی بہت ثواب کا کام ہے۔ یہ ثواب خود کمائیں یا پھر اس کے لیے مسجد میں علٰیحدہ خادم رکھیں ۔ امام صاحب کو اس کام کے لیے زحمت نہ دیں۔ ہمارے دور کے عرف کے حساب سے امام کو مسجدکی صفائی ستھرائی کا کام دینا اس کے مرتبہ اور مقام کے خلاف ہے ۔
18. علم اور صلاحیت کسی جامعہ ،ادارے یا علاقہ کی جاگیر نہیں ۔ مسجد کی امامت کے لیے مکّی مدنی نسبتوں سے دھوکہ نہ کھائیں۔ ہندستان کی سرزمین بہت زرخیز ہے۔ یہاں کے با صلاحیت علماء خلیج سے فارغ کسی مکّی مدنی سے کم نہیں ہوتے۔ امامت کے لیے صلاحیت کے بجائے نسبتوں کو معیار بنانا جہالت ہے ۔ اس جہالت سے دور رہیں ۔
19. ہر مسجد کے سامعین چاہتے ہیں کہ مسجدکے دروس اور خطبے مواد سے بھر پور اور تحقیقی ہوں لیکن امام کے پاس خطبہ کی تیاری کے لیے صرف گنتی کی کچھ کتابیں ہوتی ہیں ۔ ہر مہینے کتابوں کی خریداری کےلیے بجٹ امام صاحب کو فراہم کریں ۔ اس زمانہ میں علم کے حصول اور تحقیق کا بہت بڑا ذریعہ کمپیوٹر کی ڈیجٹل لائبریریز اور انٹرنیٹ ہیں ۔ لائبریریوں کے فقدان کی وجہ سے شہروں میں تو علم و تحقیق کے جویا عالم کےلیے کمپوٹر واجب کے درجہ میں ہے ۔ آپ امام سے علمی مواد سے پُر، تحقیقی بیانات سننا چاہتے ہیں تو ٹھیک ٹھاک کنفیگریشن والا ایک عدد کمپوٹر پرنٹر سے سمیت انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ فراہم کریں ۔
20. ہر شکوہ امام تک پہنچانے ، ہر ایرے غیرے کی شکایت پر امام کو تنبیہ کرنے اور بات بات پر اس کو ٹوکنے کا مزاج نہ بنائیں۔ علاقہ کے ہر آدمی ، مسجد کے ہر مصلّی بلکہ ہر ذمہ دار کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ امام پر حکم چلائے اس کو کام پر لگائے ، اس کی کوتاہیوں کی اصلاح کرے ۔ ذمہ داران میں سے ایک مہذب اور سلیقے سے گفتگو کرنے والے شخص کو منتخب کرلیں جو ذمہ داران کی طرف سے امام سے بات کرے ، مشورہ دے یا اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اس کی نشاندہی کرے ۔ ہمارے یہاں عجب مزاج بنا ہوا ہے کہ جن کے گھر میں ان کی بیوی بھی ان کی نہیں سنتی وہ بھی امام پر آکر رعب جماتے ہیں ۔
21. عناوین کے انتخاب اور خطبہ کی تیاری کے لیے امام کو آزادی دیں۔امام قوم کا نباض ہے ۔ اس کو پتہ ہے کہ اصلاح کس کی اور کیسی کرنی ہے ۔ اس کے کام میں اس کو مشورہ دیں ، دخل اندازی نہ کریں ۔ اگر وہ معاشرہ میں پھیلی کسی برائی کی اصلاح کررہا ہے تو اس کو نشانہ بنانےکے بجائے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں ۔ کئی ائمہ کو شکایت ہے کہ ان کی مسجد میں فلاں ، فلاں اور فلاں گناہ کے خلاف تقریر کرنے پر اس لیے پابندی ہے کیونکہ کوئی ٹرسٹی یا کچھ ٹرسٹیان ان گناہوں میں ملوث ہیں۔
22. ٹرسٹیان کو خود بھی چاہیے کہ وہ مسجد سے جڑے ہیں ۔ اگر نمازی ہیں تو کوشش کریں کہ ساری نمازیں یا روزانہ کم از کم دو تین نمازیں تو اپنی مسجد ہی میں ادا کریں ۔ اگرٹرسٹی خود بے نمازی ہے تو اس کو حق نہیں مسجدکی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں پر رکھے ۔ یا تو اپنی اصلاح کرے یا حق حق دار کو دے کر خود فارغ ہوجائے۔
23. ملک کی انتخابی سیاست سے مسجدکو دور رکھیں ۔ سیاست کے لیے نہ خود مسجد کا استعمال کریں نہ کسی کو استعمال کرنے کا موقع دیں ۔ علاقائی نیتاؤں کو بھی ضرورت سے زیادہ مسجد کے معاملہ میں دخل اندازی کی اجازت نہ دیں ۔
24. مساجد علاقہ کی خواتین کی اصلاح کا بھی بڑا ذریعہ ہیں ۔ خواتین میں دعوت اور اصلاح کےلیے بھی مسجد کے امام اور علماء سے مل کر لائحہ عمل ترتیب دیں ۔ ان کی ضرورت اور وقت کے حساب سے پروگرام رکھیں ۔ جمعہ کے خطبہ اور نماز میں ان کی شرکت کے لیے گنجائش بنائیں ۔ مخصوص مسائل میں ان کی تربیت اور رہنمائی کے لیے مستند عالمات کے دروس کا اہتمام کریں ۔
25. بچّوں کی تربیت اور تعلیم میں مساجدمیں قائم مکاتب کا بڑا رول ہے ۔ خاص کر ایسے ماحول میں جب بیشتر اسکول نصاب سے لے کر نظام تک ہر چیز کے ذریعہ بے دینی اور الحاد کا زہر بچوں کے دماغ میں گھول رہے ہیں یہ مکاتب اس زہر کا بڑا تریاق ہیں ۔ مکاتب کی یہ روایت کم ہوتے ہوتے آج ختم ہونے کے دہانے پر آ پہنچی ہے ۔ اس روایت کو دوبارہ زندہ کریں اور پورے نظم و ضبط اور نصاب کے ساتھ اس کو جاری کریں ۔
26. دیگر مسالک کے لوگوں اور ان کی مساجد کے ائمہ کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھیں ۔ اپنی تقریبات میں ان کو بلائیں ۔ مناظرانہ ماحول بنانے سے گریز کریں ۔ اتحاد کی فضا قائم کریں ۔ اسٹیج پروگرام میں اختلافی موضوعات پر بات کرنے سے گریز کریں ۔ اس سے دعوت کے بجائے نفرت پنپتی ہے اور دیگر لوگوں میں مسلمانوں کے انتشار کا پیغام جاتا ہے۔ خطبات میں بھی اختلافی موضوعات پر ایک حد تک ہی بات ہونی چاہیے اور جو بات ہو وہ بھی علمی لہجہ میں سنجیدگی کے ساتھ ہو۔ مناظروں سے صرف ماحول آلودہ اور تعلقات خراب ہوتے ہیں ۔ دعوت کو فائدہ کم ہی پہنچتا ہے ۔
27. کم از کم دو نمازوں کے بعد دروس کا اہتمام کریں ۔ عقیدہ ،قرآن، سیرت ، آداب ، اخلاق ، فقہ وغیرہ کے دروس کے سلسلہ کا ائمہ کو پابند بنائیں۔ درس قرآن لازمی ایک نماز کے بعد رکھیں ۔ تجربہ کار علماء سے مشورہ کرکے درس کے لیے مفید کتابیں منتخب کریں ۔ درس کا وقفہ دس یا زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ کا رکھیں۔
28. مسجد میں بیت المال کا قیام کریں خواہ چھوٹے ہی پیمانے پر ۔ مختلف موقعوں پر رفاہی کام کرتے رہیں ۔ سماجی خدمت دین میں بھی مطلوب ہے اور اس سے مسجد کی شبیہ علاقہ کے لوگوں میں اچھی بنے گی جو دعوت کے لیے بہت موثر ہے ۔
29. مالی معاملات صاف رکھیں ۔ حساب کتاب میں اتنی ٹرانسپرینسی رکھیں کہ کسی کے لیے الزام لگانے کی گنجائش نہ بچے ۔سال یا چھ مہینے میں حساب دینے کے لیے عوامی میٹنگ رکھیں ۔
30. دین سے دور لوگوں کو دین سے جوڑنے کا نام دعوت ہے ۔ مسجد میں جو دعوت کا کام ہوتا ہے اس کا دائرہ تو مسجد سے جڑے ہوئے لوگوں تک ہی محدود رہتا ہے ۔ ۔ وہ افراد جو مسجد سے جڑے نہیں ہیں دین سے دور ہیں ان کو مسجد سے جوڑنے اور دین سے قریب لانے کی کوشش کریں ۔ ممکن ہو تو علاقہ میں مسجد سے باھر کسی میدان ، چوک ، گھر یا کارخانہ میں بھی ہفتہ واری یا ماہانہ دروس کا اہتمام کریں ۔ انفرادی دعوتی ملاقاتیں بھی بہت مفید ہوتی ہیں ۔ اس کے لیے بھی گنجائش پیدا کریں ۔ دینی پوسٹرز اور پمفلیٹ بھی دعوت کا بڑا موثر ذریعہ ہیں ۔ اس کو بھی اپنائیں ۔
31. دعوت کے مقصد سے اور علاقہ کے لوگوں کو مسجد سے جوڑ کر رکھنے کےلیے جدید ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کریں ۔ علاقہ میں جماعت کے تمام لوگوں کا فون نمبر جمع کرنے کی کوشش کریں ۔ واٹس اپ گروپ، براڈ کاسٹ میسجز اور بلک ایس ایم ایس کے ذریعہ دعوت بھی عام کریں اور مسجد کی سرگرمیوں سے بھی جماعت کے افراد کو بھی آگاہ کرتے رہیں ۔
32. مساجد میں شعبہ حفظ کے قیام کے بہترین نتائج دیکھنے میں آرہے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی مسجدوں میں قائم غیر اقامتی حفظ کے شعبوں سے اسکول میں پڑھنے والے بچے چار پانچ سال میں حفظ مکمل کرلیتے ہیں ۔ عزم اور اخلاص کے ساتھ اپنی مسجد میں بھی ایسے حفظ کے شعبے قائم کریں ۔
33. علاقہ کے کفّار کی نظر میں بھی مسجد کی شبیہ کو مثبت بنا کر رکھیں ۔ ان کے ساتھ تعلقات اچھے رکھیں ۔ اپنی تقریبات میں ان کو مدعو کریں ۔ان کے ضرورتمندوں کا تعاون کریں ۔ رواداری اور حسن سلوک کی ایسی فضا بنائیں جو ان کو دین سے قریب لانے میں معاون ہو۔ ان میں دعوت کا کام کریں لیکن اس طریقہ سے کہ ماحول کسی طرح کے فتنہ و فساد سے خراب نہ ہو۔
34. مسجد کی تولیت اور مصلیان کی خدمت بہت سعادت کا کام ہے ، مسجد کے انتظام اور انصرام میں کوئی کوتاہی نہ کریں ۔ اپنے گھروں سے زیادہ مسجدکے میٹنیس اور نمازیوں کی سہولیات فراہم کرنے کی طرف توجہ دیں ۔
35. ملک کے سیاسی حالات جس رخ پر ہیں اس کے پیش نظر مسجد اور مدرسہ کے رجسٹریشن میں بالکل کوتاہی نہ برتیں ۔ سرکاری طور پر سارے کاغذات مکمّل کرکےرکھیں تاکہ آئندہ مسجد ہر طرح کے خطرہ سے محفوظ رہے ۔
36. مسجد اللہ کا گھر ہے ۔ اس کے انتظام اور رکھ رکھاؤ میں چوری کی گنجائش قطعی نہیں ۔ ہڑپی ہوئی زمین پر مسجد تعمیر کرنے سے پرہیز کریں ۔ تعمیر کر بھی لی ہے تو جس کا حق ہے اس کو لوٹا دیں ۔ خواہ زمین کی صورت میں یا رقم کی صورت میں ۔ چوری کی لائٹ اور پانی کا کنیکشن مسجد کے لیے استعمال کرنا بڑا گناہ ہے ۔ مناسب طریقہ سے لائٹ اور پانی کا کنیکشن لیں اور بل وقت پر بھر دیا کریں ۔

آپ کے تبصرے

3000