وبائی بیماریاں اور اسلامی تعلیمات

رفیق احمد رئیس سلفی صحت

چاند پر کمندیں ڈالنے والا، خلاؤں میں اڑنے والا، سمندر اور خشکی پر اپنا اقتدار جمانے والا اور ہواؤں کی لہروں پر تصاویر اور آواز آن واحد میں دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچادینے والا انسان بسااوقات کتنا مجبور اور بے بس ہوجاتا ہے، اس کے فراہم کردہ تمام وسائل وذرائع بے معنی بن جاتے ہیں اور اس کی تمام ترقیات اس کی کوئی مدد نہیں کرپاتیں۔ اللہ کی بنائی ہوئی اس دنیا میں وہ خود کو خدا سمجھ لیتا ہے، اسے یہ یاد نہیں رہتا کہ اس کی زندگی پانی کے ایک حقیر قطرے سے شروع ہوئی تھی اور ایک دن مٹی کے ڈھیر میں بدل جائے گی۔ وہ اپنے تمام مادی سازوسامان کو انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال کرنے کی بجائے انسانوں کو غلام بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے۔ اس نے اپنے ملک اور قوم کی حفاظت کے نام پر ایسے ہتھیار ایجاد کرلیے ہیں جو آن واحد میں ملکوں اور شہروں کو آگ کے گولے میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ سائنس نے ترقی کی تو اس نے جراثیمی ہتھیار بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا جو جب بھی استعمال ہوں گے، ہنستے کھیلتے معصوم انسانوں کو ایسے امراض اور تکالیف میں مبتلا کردیں گے جن کو برداشت کرنے کی طاقت کسی انسان میں نہیں۔ آج کے تعلیم یافتہ حضرات کہتے ہیں کہ دنیا پہلے سے کہیں زیادہ مہذب ہوگئی ہے، اس کے فکر وفلسفہ نے اسے انسانیت کا دکھ درد سمجھنے کا ملکہ عطا کردیا ہے، اب وہ انسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں دنیا نے مختلف ملکوں میں جو عام تباہی دیکھی ہے اور جس کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے، اس کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے مہذب ہونے اور انسانیت نواز ہونے کا مفہوم کیا ہے۔
انسانیت کی بقا اور تحفظ کے لیے جو نسخۂ کیمیا اللہ نے آسمان سے اتارا تھا اور جو اس آخری ہدایت نامے کے امین تھے، کہیں سے نہیں لگتا کہ وہ دنیا میں موجود بھی ہیں اور اگر کہیں دکھائی بھی دیتے ہیں تو عالمی مسائل میں ان کے کردار کی کوئی جھلک کہیں نظر نہیں آتی۔مصنوعی تقوی اور تدین کی گرم بازاری نے اہل اسلام کی زبانوں پر پہرے بٹھادیے ہیں، عالمی مسائل میں اسلام کے موقف کی وکالت کرنے سے ہمارے نمائندوں کو شرم آتی ہے۔ بعض درباری قسم کے لوگوں نے عیسائیت کے تصور مذہب کو گلے لگالیا ہے جس کا کام صرف چرچ کی چہار دیواری تک محدود ہے۔ باہر کی دنیا انسانوں کی ہے، وہ اپنے حساب اور مفادات کے نقطۂ نظر سے اپنے مسائل خود حل کرتے رہیں گے، ان میں مذہب کی دخل اندازی قابل قبول نہیں۔
قرآن اور حدیث میں اسلام کی جو تصویر ابھرتی ہے، وہ آج کی دنیا میں کہیں صاف نظر نہیں آتی بلکہ دنیا کی تمام شیطانی قوتوں نے متحد ہوکر یہ اعلان کردیا ہے کہ ہماری خواہشات کی تکمیل میں ایک آخری روڑا اسلام بچا ہے، اس کو اگر ختم نہ بھی کرسکیں تو اس کی تعبیر وتشریح اس طرح بدل دیں کہ اس کا سرے سے کوئی کردار باقی ہی نہ رہے۔ اعدائے اسلام کی کوششیں بڑی حد تک کامیاب ہوچکی ہیں، جگہ جگہ مسلمانوں کے ظل الٰہی اسلام کے حقیقی ترجمانوں کا ناطقہ بند کیے ہوئے ہیں اور اعدائے اسلام کی طرح وہ بھی ان کے سلسلے میں یہی کہتے ہیں کہ ان کے افکار وخیالات دہشت گردی کی طرف لے جاتے ہیں یا اس کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اسلام کی وہ روشنی جو تاریکیوں میں انسانوں کو صحیح راستہ دکھاتی تھی، اس کی لو مدھم پڑچکی ہے۔برائی کو ہاتھ اور زبان سے ختم کرنے کی طاقت نہیں رہی، ایمان کا کمزور ترین درجہ برائی کو برائی سمجھنا تھا، یہ احساس بھی دن بہ دن ختم ہوتا جارہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی ترجیحات اور اہل اسلام کی بے چارگی اور بے بسی کا نظارہ دیکھنا ہو تو جدید متعدی بیماری کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیاں اور اس کی دہشت دیکھیں، اس کے منظر اور پس منظر پر غور کریں، ناگہانی آفات وبلیات سے نمٹنے کے لیے جو تیاری مطلوب ہے، اس کی صورت حال کا مشاہدہ کریں۔ ہمارا اسلام تو یہ کہتا ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں انسانوں کی مسیحائی کا فریضہ ہمیں انجام دینا ہے اور کہاں یہ نوبت آچکی ہے کہ ہم دوسروں کے دروازوں پر کاسۂ گدائی لیے کھڑے ہیں۔ ہمارے اپنے ملکوں کے وسائل پر چند فیصد لوگوں کا قبضہ ہے جو اعدائے اسلام کے ساتھ مل کر تجارت کرتے ہیں اور اپنے نفع ونقصان کے اعتبار سے اپنا لائحہ عمل طے کرتے ہیں، انھیں نہ اسلام کی سربلندی مطلوب ہے اور نہ مسلم ممالک کی خودداری اور عزت ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ان کی قساوت قلبی کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے تجارتی شراکت داروں کی مرضی کے بغیر زبان پر ایک حرف نہیں لاسکتے۔ آج جگہ جگہ آفت مچی ہوئی ہے، علاج ومعالجہ کے لیے وسائل بھی نفع ونقصان دیکھ کر فراہم کیے جارہے ہیں۔
تادم تحریر جہاں جہاں اس وبائی مرض کی نشان دہی ہوچکی ہے، وہاں کی حکومتیں اور رعایا دونوں کی زندگی اجیرن ہے۔ میڈیکل سائنس کی تمام تر ترقیوں کے باوجود ماہرین کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس کا علاج کیسے کریں اور اس کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کیسے روکیں۔ دنیا کے اسپتال اور ڈاکٹر موجود دواؤں سے مریضوں کا علاج کررہے ہیں۔ جس مریض کا اندرونی دفاعی نظام مضبوط ہے اور جسے اللہ چاہتا ہے، اسے شفا مل جاتی ہے اور جس کی تقدیر میں موت لکھی ہے، وہ زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ ریسرچ اور تحقیق کا کام زوروں پر ہے اور انسان اس وائرس کو شکست دینے کے جتن میں مصروف ہے لیکن ابھی تک اسے کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ متعدی مرض کب ختم ہوگا اور ختم ہوتے ہوتے کتنے انسان موت کی آغوش میں جاچکے ہوں گے۔
اسلام اس زمین پر اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا دین ہے، اس کی تمام تعلیمات عین اس فطرت کے مطابق ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی بنائی ہے۔ اس کے عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات میں ترجیحی طور پر جو اصول اور مقاصد پیش نظر رکھے گئے ہیں، ان میں انسان کی روحانی اور مادی تربیت اور نشوونما کو اولیت حاصل ہے۔علمائے اسلام نے مقاصد شریعت بیان کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت ان میں سرفہرست ہے۔ جب اصولی طور پر ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ کتاب وسنت زندگی کا ہدایت نامہ ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس میں اس طرح کے متعدی امراض اور وبائی بیماریوں کے بارے میں رہنما اصول موجود نہ ہوں۔ اس پہلو سے جب ہم اسلام کی تعلیمات اور اس کی ہدایات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں کئی ایک بنیادی باتیں ملتی ہیں جن کی موجودہ بیماری کے تعلق سے دنیا کو سخت ضرورت ہے اور ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ آگے بڑھ کر اللہ کے بندوں تک اس کی تعلیمات کو پہنچائیں۔ یہ ہماری منصبی ذمہ داری ہے، ہمیں تو دنیا میں اسی لیے پیدا کیا گیا ہے کہ ہم دنیا کو صحیح راستہ دکھائیں۔ خاص طور پر اس مشکل گھڑی میں جب کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے اور دنیا میں ایک کہرام مچا ہوا ہے۔ منصبی ذمہ داری کے حوالے سے قرآن کہتا ہے:

{کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ} (آل عمران:110)

’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
قرآن کی اس آیت میں لفظ ’’الناس‘‘ پر غور کریں، اس کے عموم میں دنیا کے تمام انسان آجاتے ہیں، وہ بھی جو کسی مذہب کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ بھی جو مذہب اور خدا سے اظہار بے زاری کرتے ہیں۔ مصیبت اور مشکل کی گھڑی میں سب کے لیے کھڑا ہونا مسلمانوں کی وہ ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کی ہے۔ اسی طرح اس آیت میں معروف اور منکر کے الفاظ کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ اس کے ذیل میں صحت، صفائی، بیماری اور گندگی سب کچھ شامل ہے۔ لہذا دنیا کی تمام قوموں سے بڑھ کر ذمہ داری مسلمانوں کی بنتی ہے کہ اس کی صفوں میں موجود مختلف صلاحیتوں کے لوگ اپنا اپنا کردار اسی ایمانی جذبہ سے ادا کریں جو قرآن کی اس آیت کا تقاضا ہے۔ دنیا میں تقریباً ایک ہزار سال تک انسانوں کی مسیحائی کا فریضہ مسلمان حکماء اور اطباء ادا کرتے رہے ہیں جب کہ اس وقت ان کے وسائل محدود تھے اور انسان نے علوم وفنون کی دنیا میں اتنی ترقی بھی نہیں کی تھی۔ حفظان صحت کے لیے بڑی بڑی تجربہ گاہیں آج ان لوگوں کے پاس ہیں جن کو دنیا لامذہب اور خدا بے زار کہتی ہے۔ اسلام کی آفاقی تعلیم کا یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر ہماری عوام اور ہماری مسلم حکومتوں کو غور کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم راہ فرار اختیار کرکے اللہ کی مخلوق سے خود کو دور کرچکے ہیں اور اپنی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے۔

اسلامی عقیدہ وفکر کی معراج
اسلام نے جن عقائد کو اپنی تعلیمات میں اہمیت دی ہے، ان سے ہماری پوری زندگی مربوط ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں عقیدۂ آخرت کو شامل کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا ایک دن ختم ہوجائے گی، ہر انسان کو مرنا ہے، موت ایک اٹل حقیقت ہے، اسی وقت آئے گی جب اللہ چاہے گا، کسی کی زندگی وقت سے پہلے ختم نہیں ہوتی۔ ایک مسلمان کو اس کا یہ عقیدہ سکھاتا ہے کہ موت سے گھبرانا نہیں چاہیے، اگر اللہ نے ہماری تقدیر میں یہی لکھ دیا ہے کہ ہم کسی وبائی بیماری کا شکار ہوجائیں گے تو ہم لاکھ جتن کرلیں، موت اسی طرح آئے گی۔ اس عقیدہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے ہاتھ پیر ڈھیلے کرلیں اور بستر پر پڑ کر موت کا انتظار کریں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی بھی حال میں اپنے فرائض سے پہلو تہی نہ کریں۔ ہم پوری دل جمعی اور تن دہی سے اپنے اور دوسروں کی صحت کی حفاظت میں لگ جائیں۔ بغیر کسی خوف اور لالچ کے یہ فریضہ انجام دیں۔انسانوں کا احترام کریں، بیماروں کی تیمار داری کریں، ان کی غذا اور دوا کا انتظام کریں، ان کی زندگی کو بچانے کے لیے آخری حد تک جانے کی کوشش کریں۔ یہ عقیدہ صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ جب آپ میدان میں نہیں ہیں تو دیکھیے اس مصیبت کی گھڑی میں انسانیت کی کیسی تذلیل ہورہی ہے، بیماروں کے ساتھ کیا کیا جارہا ہے، ان کی زندگی بچانے کے بجائے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ جلد سے جلد ان بیماروں سے دھرتی کو پاک کردیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کو کسی نے یقین دلادیا ہے کہ بیماروں کو ماردینے سے وبائی بیماری ختم ہوجائے گی اور پھر اس بیماری سے کوئی دوسرا انسان متاثر نہیں ہوگا۔ موت وحیات کے سلسلے میں قرآن نے جو اصولی باتیں بیان کی ہیں، وہ اسلامی عقیدہ کی معراج کہی جاسکتی ہیں:

(۱){کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ}(آل عمران:185)

’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے‘‘۔

(۲){کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ} (الرحمن:26-27)

’’زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں، صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی‘‘۔

(۳){أَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکْکُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِی بُرُوجٍ مُشَیَّدَۃٍ} (النساء:78)

’’تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمھیں آپکڑے گی، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو‘‘۔

(۴){وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَائََ أَجَلُہُمْ لَا یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً وَلَا یَسْتَقْدِمُونَ}(الأعراف:34)

’’اور ہر گروہ کے لیے ایک میعاد معین ہے سو جس وقت ان کی میعاد معین آجائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے‘‘۔
مذکورہ بالا آیات میں موت کی جس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے، اس پر مضبوط عقیدہ ہی انسان کے بدن میں وہ قوت وتوانائی بھردیتا ہے، جس سے وہ مشکل ترین حالات میں بھی ہمت نہیں ہارتا اور اس کے جسم کا اندرونی دفاعی نظام بیماری کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ جسم کے اندر دفاعی صلاحیت صرف اچھی غذا سے پیدا نہیں ہوتی ورنہ کوئی خوش حال انسان دون ہمتی کا شکار نہیں ہوتا اور نہ موت کی آہٹ سن کر اپنے ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ دیتا بلکہ اس کا یہ دفاعی نظام اس کی سوچ، فکر اور عقیدہ سے مستحکم ہوتا ہے جو اسے سنگین حالات میں بھی ہمت اور حوصلہ عطا کرتا ہے۔میڈیکل سائنس میں جسم کے اندرونی دفاعی نظام کی جو حیثیت ہے اور اس سے کسی بیماری سے لڑنے کی جو ہمت ملتی ہے، اس سے آج سائنس کا ہر طالب علم واقف ہے۔

صبروشکر کا اسلامی تصور
اسلام کی تعلیمات میں صبر اور شکر کی بڑی اہمیت ہے۔دنیا ابتلاء اور آزمائش سے بھری پڑی ہے۔ یہاں سکھ دکھ زندگی کے ساتھ ہے۔ گھروں میں خوشیاں بھی آتی ہیں، شادیانے بھی بجتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ماتم بھی ہوتا ہے اور درد والم کی کیفیات بھی طاری ہوتی ہیں۔ انسان کی کوششیں محدود ہیں، بہت کچھ اس کے اختیار میں نہیں ہے، وہ جو کھ چاہتا ہے، بہت کم اس کی تکمیل ہوپاتی ہے۔ یہ وبائی بیماری جس طرح تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے، اس کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم صبروبرداشت کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ بسااوقات اللہ کی طرف سے ایسی آزمائشیں آتی ہیں، وہ ہمارا امتحان لے کر یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ پریشانیوں اور مصیبتوں میں ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں کتاب وسنت کی مندرجہ ذیل تعلیمات پر غور کرنے کی ضرورت ہے:

(۱){وَالصَّابِرِینَ فِی الْبَأْسَائِِ وَالضَّرَّائِِ وَحِینَ الْبَأْسِ أُولَٰئِکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَأُولَٰئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ}(البقرۃ:177)

’’۔۔۔۔اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں‘‘۔
کئی ایک صحابہ کرام اور تابعین عظام نے ’’الضَّرَّائُ‘‘ کی تفسیر امراض اور بیماریوں سے کی ہے۔ بیماریوں کے اسباب کئی ایک ہوسکتے ہیں، ان اسباب پر قابو پانا ایک فطری تقاضا ہے لیکن ان پر صبر کرنا ایک دوسرا رویہ ہے جو انسان اگر اپناتا ہے تو خود تو سکون پاتا ہی ہے، اپنے متعلقین کو بھی الجھنوں سے بچاتا ہے۔
(۲)ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے بندۂ مومن کا امتیاز بتاتے ہوئے فرمایا:

عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَہُ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَہُ ۔(صحیح مسلم:2999)

’’مومن کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے، اس کے سارے معاملات خیر وثواب پر مبنی ہیں۔ مومن کے علاوہ یہ شرف کسی کو حاصل نہیں ہے اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی تو وہ شکر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے اور اگر اس کو بیماری لاحق ہوئی تو صبر کرتا ہے، اس میں بھی ثواب ہے‘‘۔

(۳){وَلَنَبْلُوَنَّکُم بِشَیْئِ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیبَۃٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ أُولَـٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَأُولَـٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ}(البقرۃ:155-157)

’’اور ہم کسی نہ کسی طرح تمھاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے، جنھیں، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔

(۴){یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ إِنَّ اللَّـہَ مَعَ الصَّابِرِینَ}(البقرۃ:153)

’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، اللہ تعالی صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے‘‘۔

(۵){أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَأْتِکُمْ مَثَلُ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْہُمُ الْبَأْسَائُُ وَالضَّرَّائُ وَزُلْزِلُوا حَتَّی یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ مَتَی نَصْرُ اللَّہِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّہِ قَرِیبٌ }(البقرۃ:214).

’’کیا تم یہ گمان کیے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے، حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے۔ انھیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے‘‘۔
ابتلاء اور آزمائش کے سلسلے میں سنن ابن ماجہ (4024) کی ایک حدیث بھی ملاحظہ فرمالیں، جسے علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے:

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ،قَالَ:دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُوعَک،فَوَضَعْتُ یَدِی عَلَیْہِ ،فَوَجَدْتُ حَرَّہُ بَیْنَ یَدَیَّ فَوْقَ اللِّحَافِ،فَقُلْتُ:یَا رَسُولَ اللَّہِ،مَا أَشَدَّہَا عَلَیْکَ ،قَالَ:إِنَّا کَذَلِکَ یُضَعَّفُ لَنَا الْبَلَائُ وَیُضَعَّفُ لَنَا الْأَجْرُ۔قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللَّہِ ،أَیُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَائًً؟ قَالَ:الْأَنْبِیَائُ،قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللَّہِ ،ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ الصَّالِحُونَ ،إِنْ کَانَ أَحَدُہُمْ لَیُبْتَلَی بِالْفَقْرِ حَتَّی مَا یَجِدُ أَحَدُہُمْ إِلَّا الْعَبَائَ ۃَ یُحَوِّیہَا،وَإِنْ کَانَ أَحَدُہُمْ لَیَفْرَحُ بِالْبَلَائِِ کَمَا یَفْرَحُ أَحَدُکُمْ بِالرَّخَائِِ۔.

’’سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کو بخار آ رہا تھا، میں نے اپنا ہاتھ آپ پر رکھا تو آپ کے بخار کی گرمی مجھے اپنے ہاتھوں میں لحاف کے اوپر سے محسوس ہوئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو بہت ہی سخت بخار ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا یہی حال ہے ہم لوگوں پر مصیبت بھی دگنی (سخت) آتی ہے، اور ثواب بھی دگنا ملتا ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن لوگوں پر زیادہ سخت مصیبت آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء پر، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر کن پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر نیک لوگوں پر، بعض نیک لوگ ایسی تنگ دستی میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک چوغہ کے سوا جسے وہ اپنے اوپر لپیٹتے رہتے ہیں کچھ نہیں ہوتا، اور بعض آزمائش سے اس قدر خوش ہوتے ہیں جتنا تم میں سے کوئی مال و دولت ملنے پر خوش ہوتا ہے‘‘۔
ان آیات اور احادیث کا مطالبہ اور تقاضا ہے کہ ہم ہمت سے کام لیں، مصائب ومشکلات میں صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ عزم وحوصلہ ہی وہ ہتھیار ہے جو آزمائشوں میں ہمیں ٹوٹنے نہیں دیتا بلکہ ثابت قدم رکھتا ہے۔ مشکل حالات ہی میں تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے عقیدے اور فکر کا کیا حال ہے، زبان نے زندگی بھر جس چیز کا اقرار کیا ہے، آزمائش کے مواقع پر اس کو زمین پر عمل کرکے دکھانا ہے۔اپنے اس ملک میں اگر آپ ہی ہمت ہار جائیں گے تو دوسرے بندگان خدا کا کیا ہوگا، اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے لانے کا یہی وقت ہے۔ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟
خورد ونوش کے سلسلے میں اسلام کی اہم ہدایات
اللہ نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے، اس کو جسمانی قوت وتوانائی بخشی ہے۔ ہماری زندگی کئی ایک فرائض سے مربوط ہے۔ کئی ایک ذمہ داریاں ایسی ہیں جو جسم وعقل کو صحت مند بنائے رکھنے کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس کے لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سب سے اہم ہدایت یہ دی ہے کہ خورد ونوش کے سلسلے میں طیب اور حلال اشیاء کا استعمال کریں۔ گندی اور حرام چیزوں سے خود کو دور رکھیں۔ انسان کی یہ کتنی بڑی بدبختی ہے کہ وہ اپنے اس خالق کو فراموش کرکے جس نے اسے پیدا کیا ہے، اس کے جسم کے سانچے کو ڈھالا ہے اور اس میں نشوونما کا ایک پورا نظام کھڑا کیا ہے، اس کی ہدایات پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ صحت کے لیے مضر اشیاء کی بھی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ سانپ، مینڈھک، بچھو، چوہے، چھچھوندر، چمگادڑ، کیڑے مکوڑے، کیچوے، سور، کتے، بلی، گیدڑ، بھیڑیا، شیر، چیتا سب کچھ کھانے کو اپنے لیے جائز سمجھ بیٹھا ہے۔ شراب اور نشہ آور مشروبات و ماکولات اس کی عیش ومستی کے سامان بن چکی ہیں۔ جنسیات کے باب میں اس کی بے اعتدالی، بے حیائی اور بے شرمی اپنی آخری حد تک پہنچ چکی ہے۔ ان سب کے نتیجے میں جو بیماریاں پھیل رہی ہیں، اس نے دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ آزادی کے نام پر ایسے کام کیے جارہے ہیں جن سے دوسروں کی آزادی خطرے میں پڑگئی ہے۔ اب یہ کون طے کرے گا کہ انسان کی آزادی کی حدود کیا ہیں۔ دنیا کے طاقت ور اور سرمایہ دار ممالک اپنے مفادات کے حساب سے آزادی کی حدود کا تعین کرتے ہیں، غریب ملکوں کے اندر اتنا دم کہاں کہ وہ ان سے اس کی معقولیت پر کوئی سوال کرسکیں۔
اسلام خورد ونوش اور جنسی زندگی کے لیے جو اصولی ہدایات دیتا ہے، ان میں سے بعض یہ ہیں:

(۱){یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ}(المومنون:51)

’’اے پیغمبرو! حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں‘‘۔

(۲){یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُلُوا مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُوا لِلَّہِ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ}(البقرۃ:172)

’’اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمھیں دے رکھی ہیں انھیں کھاؤ، پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو‘‘۔
(۳)نبی امی ﷺ کے سلسلے میں قرآن کہتا ہے:

وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ (الأعراف:157)

’’اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں‘‘۔

(۴){حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِیرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْرِ اللَّہِ بِہِ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیحَۃُ وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَٰلِکُمْ فِسْقٌ}(المائدۃ:3)

’’تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو یہ سب بدترین گناہ ہیں‘‘۔

(۵){وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاء َ سَبِیلًا}(الاسراء:32)

’’خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘۔

(۶){أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَۃَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ أَئِنَّکُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِنْ دُونِ النِّسَائِِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُونَ}(النمل:54-55)

’’اور لوط کا (ذکر کر) جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ کیا باوجود دیکھنے بھالنے کے پھر بھی تم بدکاری کر رہے ہو؟ یہ کیا بات ہے کہ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت سے آتے ہو حق یہ ہے کہ تم بڑی ہی نادانی کر رہے ہو ‘‘۔

۷){فَلَمَّا جَاء َ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُودٍ مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ہِیَ مِنَ الظَّالِمِینَ بِبَعِیدٍ}(ھود:82-83)

’’پھر جب ہمارا حکم آپہنچا، ہم نے اس بستی کو زیر وزبر کر دیا اوپر کا حصہ نیچے کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے۔ تیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور وہ ان ظالموں سے کچھ بھی دور نہ تھے‘‘۔
(۸)ایک طویل حدیث جو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں نبی اکرم ﷺ نے پانچ باتوں کا تذکرہ فرمایا ہے، ان میں سے ایک بات آپ نے یہ ذکر کی:

لَمْ تَظْہَرِ الْفَاحِشَۃُ فِی قَوْمٍ قَطُّ،حَتَّی یُعْلِنُوا،بِہَا إِلَّا فَشَا فِیہِمُ الطَّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ،الَّتِی لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِی أَسْلَافِہِمُ الَّذِینَ مَضَوْا ۔(سنن ابن ماجہ : 4019)

’’جب کسی قوم میں علانیہ فحش ( زناکاری اور بدفعلی) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں‘‘۔
(۹)سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ما ظہرَ فی قومٍ الزِّنا والرِّبا ؛ إلَّا أحلُّوا بأنفسِہِم عذابَ اللہِ۔(صحیح الترغیب:1860)

’’جب کسی قوم میں زناکاری اور سودخوری عام ہوجاتی ہے تو وہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتی ہے‘‘۔
(۱۰)سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إذا ظہرَ الزِّنا و الرِّبا فی قَریۃٍ ، فقد أَحَلُّوا بأنفسِہم عذابَ اللہِ۔(صحیح الجامع الصغیر:679)

’’جب کسی بستی میں زناکاری اور سودخوری عام ہوجاتی ہے تو وہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتی ہے‘‘۔
دنیا کے دیانت دار اور حق پرست میڈیکل سائنس سے وابستہ حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام وخواص کو بتائیں کہ کیڑے مکوڑں، سور اور درندں کو غذا بنانے سے کون کون سی بیماریاں جنم لیتی ہیں، اسی طرح غیر فطری انداز میں جنسی خواہش کی تکمیل اور زنا کاری کے نتیجے میں دنیا کو کس قسم کی تباہی کا سامنا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو بیماریاں ختم کرنے سے مطلب نہیں ہے بلکہ اسے مطلب صرف صرف اس بات سے ہے کہ کوئی نئی بیماری پیدا ہو اور ہمارے لیب میں اس کی دوا ایجاد ہو اور پھر پوری دنیا میں سپلائی کرکے ہم اپنی تجوریاں بھریں۔ ہمارا عالمی ادارۂ صحت بھی سرمایہ دارانہ نظام ہی کا کل پرزہ ہے، وہ تو اسی کمپنی سے بنی ہوئی کسی دوا کو منظوری دے گا جس سے اس کی سانٹھ گانٹھ پہلے ہوچکی ہوگی۔
صفائی ستھرائی کے باب میں اسلام کے زریں اصول
عام طور پر بیماریاں گندگی اور غلاظت سے پھیلتی ہیں۔جسم، کپڑے، جائے قیام، کھانے پینے کی اشیاء میں اگر صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو ان میں طرح طرح کے جراثیم پیدا ہوتے اور اچھے خاصے صحت مند انسان کو بیمار بنادیتے ہیں۔
انسان کے جسم سے خارج ہونے والے فضلات مثلاً پیشاب اور پاخانے کے سلسلے میں ہمیں معلوم ہے کہ اسلام بہت حساس ہے۔ ذرا سا چھینٹا بدن یا کپڑے پر آجائے تو اس کو صاف کرنے کے بعد ہی کوئی شخص پاک کہلاتا ہے۔ دنیا میں شاید مسلمان قوم ہی وہ واحد قوم ہے جو پیشاب کرنے کے بعد اس کی صفائی کو ضروری قرار دیتی ہے۔ عام طور پر دنیا کا حال یہ ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد ابھی قطرات کا تسلسل تھما ہی نہیں ہے کہ آدمی کھڑا ہوجاتا ہے اور اس کا جسم اور کپڑے پیشاب میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ کس نوعیت کے جراثیم پیشاب سے خارج ہوتے ہیں، وہ تو کوئی میڈیکل سائنس کا ماہر ہی بتائے گا لیکن کیا یہ آپ کو عجوبہ نہیں لگتا کہ دنیا میں کچھ پاگل ایسے بھی ہیں جو پیشاب پینے کو صحت کی علامت قرار دیتے ہیں۔
راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹادینا ایک مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔ کچھ تو مسلمانوں کی سستی، ان کی غربت اور بڑی حد تک متعصب حکومتوں کی کرم فرمائی کے نتیجے میں مسلم آبادیوں میں وہ صفائی نہیں ہوپاتی جو صحت کے لیے ضروری ہے۔ اپنے دین سے واقفیت رکھنے والے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروں اور آس پاس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں، صاحب حیثیت لوگ اس کے لیے اپنا پیسہ صرف کریں، سماجی اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے حضرات اپنا الو سیدھا کرنے کی بجائے سماج کے ان کاموں پر توجہ دیں۔ اگر ہمارا میر اور میونسپلٹی کے ممبران اس کا خیال نہیں رکھتے تو ان سے درخواست کرکے سماج کے ان بنیادی کاموں کو مکمل کرانا چاہیے۔

وبائی امراض اور اسلام
بسااوقات بعض وبائی بیماریاں کئی ایک بستیوں، شہروں بلکہ ملکوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور پھر مرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اللہ ہی کی حکمت اور اسی کے فیصلے کے تحت بعض بیماریاں ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور بیماری سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ سب اپنے آپ نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی مرضی اور اس کے حکم سے ہوتا ہے۔ امراض کے متعدی ہونے اور نہ ہونے کے سلسلے میں جو بحث ہمیں کتابوں میں پڑھنے کو ملتی ہے، اس کا خلاصہ یہی ہے کہ یہ سب اپنے آپ نہیں ہوتا بلکہ حکم الٰہی سے ہوتا ہے۔ کورونا وائرس کے سلسلے میں جو تفصیلات آرہی ہیں، ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک متعدی مرض ہے، کہیں سے کسی ایک انسان میں پہلے یہ بیماری آئی اور پھر اس سے دوسروں تک منتقل ہوتے ہوتے آج دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیل گئی۔ جو احتیاطی تدابیر اپنانی چاہیے تھی، بعض ملکوں نے اس تعلق سے سستی دکھائی اور باہر سے متاثر ہونے والوں کی صحیح سے چانچ نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے اس نے مہا ماری کی شکل اختیار کرلی۔اسلام نے اس سلسلے میں جو باتیں بتائی ہیں، ان کے مطابق بیماری کا علاج کرنا ضروری ہے، ہر بیماری کا اللہ نے علاج بھی پیدا کیا ہے، شرط یہ ہے کہ انسان اپنی عقل اور تجربے کا استعمال کرکے اس دوا تک پہنچے اور اس کا استعمال کرے۔ بعض بیماریاں ایسی ہیں جن سے دوسرے انسانوں کو طبعی طور پر گھن آتی ہے، ایسی صورت میں فقہائے اسلام کی تصریحات ملتی ہیں کہ وہ دوسرے لوگوں کے سامنے آنے سے پرہیز کریں کہ نماز کے لیے جماعتوں کی حاضری بھی ان کے لیے ضروری نہیں ہے۔ ان کے علاوہ کچھ خاص بیماریوں کے لیے احادیث میں واضح ہدایات ملتی ہیں، ان سے بھی اسلام کے موقف کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے، ذیل میں ایسی چند ایک احادیث ملاحظہ فرئیں:

(۱)عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ، وَلَا ہَامَۃَ وَلَا صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ۔

’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوت لگنا، بدشگونی لینا، الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں البتہ جذامی شخص سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو‘‘۔ (صحیح بخاری:5707)

(۲)عن أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ، یُحَدِّثُ سَعْدًا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ:” إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوہَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْہَا”، فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَہُ یُحَدِّثُ سَعْدًا وَلَا یُنْکِرُہُ؟، قَالَ: نَعَمْ.

’’اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ سعد رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت‘‘۔(صحیح بخاری:5728)

(۳)عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہَا أَخْبَرَتْنَا:” أَنَّہَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ، فَأَخْبَرَہَا نَبِیُّ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہُ کَانَ عَذَابًا یَبْعَثُہُ اللَّہُ عَلَی مَنْ یَشَاء ُ، فَجَعَلَہُ اللَّہُ رَحْمَۃً لِلْمُؤْمِنِینَ، فَلَیْسَ مِنْ عَبْدٍ یَقَعُ الطَّاعُونُ فَیَمْکُثُ فِی بَلَدِہِ صَابِرًا یَعْلَمُ أَنَّہُ لَنْ یُصِیبَہُ إِلَّا مَا کَتَبَ اللَّہُ لَہُ، إِلَّا کَانَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِ الشَّہِیدِ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے متعلق پوچھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب تھا اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا اس پر اس کو بھیجتا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مومنین (امت محمدیہ کے لیے) رحمت بنا دیا اب کوئی بھی اللہ کا بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے جہاں طاعون پھوٹ پڑا ہو اور یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے اس کے سوا اس کو اور کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور پھر طاعون میں اس کا انتقال ہو جائے تو اسے شہید جیسا ثواب ملے گا۔(صحیح بخاری:5734)
صحت اور زندگی اللہ کی نعمت ہے۔ اس کی حفاظت کرنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔ اللہ کی اس نعمت کو اپنے ہاتھوں ختم کرلینا خود کشی ہے جو اسلام میں حرام ہے۔کسی سے بغیر کسی شرعی جواز کے اس کی زندگی چھین لینا خود اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا ہے۔ قصاص اور دیت کا ایک مکمل نظام اسلام میں موجود ہے۔

دعائیں اور اذکار
مصیبت کی اس گھڑی میں ہمیں زیادہ سے زیادہ اپنے خالق اور مالک کو یاد کرنا چاہیے، اسی سے صحت وسلامتی کی دعا کرنی چاہیے اور اپنے گناہوں کا اس کے حضور اعتراف کرتے ہوئے اس سے معافی مانگنی چاہیے۔دعاؤں سے انسان کو سکون قلبی میسر آتا ہے اور قلبی سکون صحت کی حفاظت اور سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اللہ پر اعتماد اور توکل میں اضافہ ہوتا ہے، اس کی عظمت وکبریائی کا حقیقی نقش سامنے آتا ہے اور بے اختیار بندہ اپنے رب کے سامنے خود کو جھکادیتا ہے۔نظام کائنات جس عظیم ہستی کے ہاتھ میں ہے، کیا اس سے بعید ہے کہ آن واحد میں حالات کی کایا پلٹ دے۔
دعاؤں اور اذکار کی اہمیت، افادیت اور ضرورت پر سوال کھڑے کرنا ایک غیر معقول کام ہے، جب اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں دعا کرنے کا حکم دے رہا ہے اور نبی اکرم ﷺ اس کی نہ صرف ترغیب دے رہے ہیں بلکہ اپنے اسوۂ حسنہ سے اس کی عملی تصویر بھی پیش فرمارہے ہیں، تو اس سے انکار ایک مومنانہ کام ہر گز نہیں ہوسکتا ہے۔سائنسی ترقی اور تعقل پسندی کی حدود پرواز کا دنیا کو علم ہے، آفاق وانفس کے کئی ایک مظاہر اس کی گرفت سے باہر ہیں۔ دیانت دار سائنس دانوں اور عقل سلیم رکھنے والے عصری علوم کے ماہرین کا قبول اسلام تعقل پرستی اور تجدد پسندی کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لیے کافی ہے۔ اللہ سے دعا کرنے کے حکم سے متعلق قرآن کی ایک آیت کریمہ اور نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:

(۱){وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ }(غافر:60)

’’اور تمھارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمھاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وہ ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے‘‘۔
(۲)سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ لَّمْ یَسْألِ اللّٰہَ یَغْضَبْ عَلَیْہِ۔(صحیح الجامع الصغیر:2418)

’’جو اللہ تعالیٰ سے مانگتا نہیں، اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہوتا ہے‘‘۔
دعاؤں اور اذکار کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے نامۂ اعمال پر نظر ڈالے، اپنا احتساب کرے اور اپنی صبح وشام کی زندگی کی کارکردگی پر غور کرے۔ ایسا کرکے اسے اپنے گناہوں پر ندامت ہوگی، اس کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے احکام ومسائل میں جو بے اعتدالی راہ پاگئی تھی، اسے دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ مصائب وآلام اور ابتلاء وآزمائش کے اس کٹھن اور جان لیوا مرحلے سے باہر آنے کے لیے اللہ کے حضور گریہ وزاری کرے گا۔ زندگی میں بعض ٹھوکریں ہمیں متنبہ کرنے کے لیے لگتی ہیں، ابھی موقع ہے کہ سنبھل جائیں، اللہ نے مہلت دے رکھی ہے۔ کل جب زندگی کی بساط لپیٹ دی جائے گی تو یہ موقع ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:

{وَمَا أَرْسَلْنَا فِی قَرْیَۃٍ مِّن نَّبِیٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَہْلَہَا بِالْبَأْسَائِِ وَالضَّرَّائِِ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُونَ}(الأعراف:94)

’’اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا کہ وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف میں نہ پکڑا ہو، تاکہ وہ گڑ گڑائیں‘‘۔

دعاؤں اور اذکار سے متعلق دو اصولی باتیں
ذکر ودعا کا تعلق بھی عبادت سے ہے، اللہ کی عبادت بندے کو اسی طرح کرنی ہے، جس طرح اس کے فرستادہ رسول محمد عربی ﷺ نے بتائی ہے۔ اس میں کسی طرح کی کمی بیشی کرنا جائز نہیں ہے۔ اس سے یہ لازم آئے گا کہ ہمارے نبی محترم ﷺ کی بات میں کوئی کمی رہ گئی تھی جس کو ہم پورا کررہے ہیں، اضافے کی صورت میں یہ لازم آئے گا کہ ہمارے نبی ﷺ نعوذباللہ ایک ضروری چیز بتانے سے چوک گئے تھے۔ یہ دونوں باتیں نبی پر ایمان اور عقیدہ کے منافی ہیں۔ قرآن مجید تو ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے۔
دوسری اصولی بات یہ ہے کہ دعاؤں اور اذکار کا ورد اسی طرح کریں جس طرح ہمارے نبی نے کیا اور بتایا ہے۔ عام طور پر مشکل حالات اور مصیبتوں کی گھڑیوں میں کچھ نادان لوگ گلے میں تعویذ لٹکانے اور بازووں میں دم کردہ کالے پیلے دھاگے باندھنا شروع کردیتے ہیں، اسی طرح کچھ بے علم حضرات دعاؤں کو گھروں کے دروازوں پر لٹکانے لگتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس دروازے پر یہ دعا لٹکے گی، اس میں کسی طرح کی مصیبت داخل نہیں ہوگی اور اس کے مکین تمام آفات وبلیات سے محفوظ رہیں گے۔ یہ طرز عمل اور عقیدہ دونوں بدعت ہیں، ان سے کلی طور پر پرہیز کریں۔
قرآن اور صحیح احادیث میں آلام ومصائب، مشکلات اور پریشانیوں، ابتلاء وآزمائش اور متعدی اور وبائی امراض کے مواقع پر جن دعاؤں کو پڑھنے اور جن اذکار وتسبیحات کا ورد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، ان کو ایک ترتیب کے ساتھ لکھا جارہا ہے، آپ فرصت کے لمحات میں حضور قلب کے ساتھ ان کو زیادہ سے زیادہ پڑھیں، سمجھیں اور اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط کریں۔

(۱){رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّار}(آل عمران:16)

’’اے ہمارے رب! ہم ایمان لا چکے اس لیے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا‘‘۔

(۲){رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَیْرُ الرَّاحِمِینَ } (المومنون :109)

’’ اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لاچکے ہیں تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے‘‘۔

(۳){رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِین َ}(الأعراف:23)

’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے‘‘۔

(۴){رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَیْرُ الرَّاحِمِینَ}(المومنون:118)

’’اے میرے رب! تو بخش اور رحم کر اور تو سب مہربانوں سے بہتر مہربانی کرنے والا ہے‘‘۔

(۵){ أَنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ}(الأنبیاء:83)

’’مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے‘‘۔

(۶){لَا إِلَـٰہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنتُ مِنَ الظَّالِمِینَ}(الأنبیاء:87)

’’الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بیشک میں ظالموں میں ہو گیا‘‘۔

(۷){رَّبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَإِلَیْکَ أَنَبْنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِینَ کَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ }(الممتحنۃ:4-5)

’’اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال اور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں کو بخش دے، بیشک تو ہی غالب، حکمت والا ہے‘‘۔
(۸)سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سخت، تنگ، اضطراب اور بے چینی کی حالت میں نبی اکرم ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے:

لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ الْعَظِیمُ الْحَلِیمُ، لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ، لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیمِ۔(صحیح البخاری:6346)

’’اللہ صاحب عظمت اور بردبار کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو عرش عظیم کا رب ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے اور عرش عظیم کا رب ہے‘‘۔
(۹)سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے جب کوئی سخت تکلیف اور پریشانی والی بات آتی تو آپ یہ دعا پڑھتے تھے:

یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیثُ ۔(سنن الترمذی:3524)

’’ اے زندہ اور ہمیشہ رہنے والے! تیری رحمت کے وسیلے سے تیری مدد چاہتا ہوں‘‘۔
(۱۰)سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مصیبت زدہ و پریشان حال کے لیے یہ دعا ہے:

اللَّہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُو، فَلَا تَکِلْنِی إِلَی نَفْسِی طَرْفَۃَ عَیْنٍ، وَأَصْلِحْ لِی شَأْنِی کُلَّہُ، لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ۔

’’اے اللہ! میں تیری ہی رحمت چاہتا ہوں، تو مجھے ایک لمحہ بھی نظر انداز نہ کر، اور میرے تمام کام درست فرما دے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے‘‘۔
(۱۱)سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تمھیں ایک ایسی دعا نہ سکھاؤں جسے تم تکلیف اور پریشانی کے وقت پڑھا کرو، پھر آپ نے یہ دعا سکھائی:

اَللّٰہُ، اَللّٰہُ رَبِّی لَا أُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا۔(سنن أبی داود:1525)

’’اللہ ہی میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتی‘‘۔
(۱۲)سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا، اسی طرح جب نبی اکرم ﷺ سے کہا گیا کہ آپ کے خلاف قریش نے سامان جنگ تیار کرلیا ہے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے نبی ﷺ نے مشکل اور مصیبت کے ان لمحات میں یہ دعا پڑھی:

حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ۔(صحیح البخاری:4563)

’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے‘‘۔

(۱۳)سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذوالنون (یونس علیہ السلام) کی دعا جو انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے دوران کی تھی، جب بھی کوئی مسلمان شخص اسے پڑھ کر دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا۔ ایک دوسری روایت میں آپ نے فرمایا: میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ جسے کوئی مسلمان مشکل اور پریشانی میں پڑھے گا تو اللہ اس کی مشکل اور پریشانی دور فرمائے گا، وہی کلمہ میرے بھائی سیدنا یونس علیہ السلام کا ہے، جو یہ ہے:

لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ۔(سنن الترمذی3505 ، عمل الیوم واللیلۃ:344)

’’تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو پاک ہے، میں ہی ظالم (خطاکار) ہوں‘‘۔
(۱۴)سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ انھیں خوف اور گھبراہٹ کے موقع پر ان کلمات کو پڑھنے کی تعلیم دیتے تھے:

أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّہِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِہِ وَشَرِّ عِبَادِہِ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَأَنْ یَحْضُرُونِ۔(سنن أبی داود:3893)

’’میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلموں کی اس کے غصہ سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیاطین کے وسوسوں سے اور ان کے میرے پاس آنے سے‘‘۔
(۱۵)سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بھی کسی غم اور پریشانی میں مبتلا ہو اور وہ یہ دعا پڑھے تو اللہ اس کا غم اور پریشانی دور فرمادے گا اور اس کے بدلے اسے فرحت اور خوشی عطا کرے گا:

اللَّہُمَّ إِنِّی عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ نَاصِیَتِی بِیَدِکَ مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُکَ أَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہِ نَفْسَکَ أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِی کِتَابِکَ أَوْ عَلَّمْتَہُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِہِ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیعَ قَلْبِی وَنُورَ صَدْرِی وَجِلَائَ حُزْنِی وَذَہَابَ ہَمِّی۔( مسند أحمد:4306 ،صحیح الترغیب:1822)

’’اے اللہ! بے شک میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے اور تیری کنیز کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، مجھ پر تیرا ہی حکم جاری ہے، تیرا فیصلہ میرے حق میں انصاف پر مبنی ہے، میں ہر اس نام کے ذریعے تجھ سے سوال کرتا ہوں جو تو نے خود اپنے لیے رکھا ہے، تو نے اسے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے، اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے یا تو نے اسے علم غیب میں اپنے پاس رکھنے کے لیے خاص کرلیا ہے۔ میری التجا ہے کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور، میرے غموں کا مداوا اور میری پریشانیوں کا علاج بنادے‘‘۔
(۱۶)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا داہنا ہاتھ اس پر پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے:

أَذْہِبِ الْبَاسَ، رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِی، لاَ شِفَائََ إِلاَّ شِفَاؤُکَ، شِفَائًً لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا ۔(صحیح مسلم:2191)

’’ اے مالک لوگوں کی بیماری کودور کر دے اور شفا دے، تو شفا دینے والا ہے، شفا تیری ہی شفا ہے، ایسی شفا دے کہ بالکل بیماری نہ رہے‘‘۔
(۱۷) سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:

اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبَرَصِ، وَالْجُنُونِ، وَالْجُذَامِ، وَمِنْ سَیِّْئِ الْأَسْقَامِ۔

’’اے اللہ! میں برص، دیوانگی، کوڑھ اور تمام بری بیماریوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔
(۱۸)سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص بھی یہ دعا صبح کے وقت تین بار پڑھے تو شام تک اسے کوئی بھی ناگہانی آفت نہیں پہنچے گی:

بِسْمِ اللَّہِ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْئٌٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَائِِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ۔(سنن أبی داود:5088)

’’اللہ کے نام سے میں پناہ حاصل کرتا ہوں جس کے نام سے کوئی بھی چیز آسمان یا زمین میں تکلیف نہیں پہنچاتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
(۱۹)سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح یا شام کے وقت ان دعائیہ کلمات کو پابندی سے پڑھا کرتے تھے:

اَللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ، اَللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی دِینِی وَدُنْیَایَ وَأَہْلِی وَمَالِی، اَللَّہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِی وَآمِنْ رَوْعَاتِی، اَللَّہُمَّ احْفَظْنِی مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِی وَعَنْ یَمِینِی وَعَنْ شِمَالِی وَمِنْ فَوْقِی وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِی۔(سنن أبی داود:5074)

’’یا اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی عافیت طلب کرتا ہوں۔ یا اللہ! میں تجھ سے اپنے دین، دنیا اور اہل خانہ سمیت اپنی املاک کے متعلق بھی معافی اور عافیت کا درخواست گزار ہوں۔ یا اللہ! میرے عیب چھپا دے اور مجھے میرے خدشات و خطرات سے امن عطا فرما۔ یا اللہ! میرے آگے، میرے پیچھے، میرے دائیں، میرے بائیں اور میرے اوپر سے میری حفاظت فرما۔ اور میں تیری عظمت کے ذریعے سے اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے کی طرف سے ہلاک کر دیا جاؤں‘‘۔
ان دعاؤں کے علاوہ بھی بہت سی دعائیں کتاب وسنت میں موجود ہیں، ہم اپنی قلبی آمادگی اور فرصت کے مطابق ان کو پڑھیں، قرآن کی تلاوت کریں، نمازوں کی پابندی کریں، نوافل کا اہتمام کریں، توبہ واستغفار کریں اور مصیبت کی اس گھڑی میں اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط کریں۔ اللہ ہماری نیت اور ہماری ضرورت دیکھتا ہے، اگر اس کی مشیت ہوگی تو وہ ہمیں تمام بلاؤں اور بیماریوں سے محفوظ رکھے گا۔ بندوں کا کام اللہ سے درخواست اور گریہ وزاری ہے، اللہ کا وعدہ بھی ہے کہ بندہ جب عاجزی سے اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس کی شان رحمت جوش میں آتی ہے اور بندے کرب وتکلیف سے نجات پاجاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر پھیلائی جارہی بعض غیر مستند دعائیں:
سوشل میڈیا پر بعض حضرات کچھ خاص دعاؤں کو کورونا وائرس کی دعا بتاکر پھیلا رہے ہیں، قرآن میں کورونا وائرس کی دعا ڈھونڈھ نکالنے کا دعوی کررہے ہیں، یہ سب جہالت اور بے وقوفی کی باتیں ہیں، کتاب وسنت میں عام بیماریوں اور مشکلات ومصائب سے نجات پانے کی جو دعائیں آئی ہیں، وہ سب مفید ہیں، ہمیں اپنے حسب حال اور اپنی سہولت کے مطابق ان کو پڑھتے رہنا چاہیے۔ بعض صوفیاء نے اپنی کتابوں میں بعض دعاؤں کو مجرب قرار دیا ہے اور وہ دعائیں جن الفاظ وتعبیرات پر مشتمل ہیں، ان پر عجمیت کی خاص جھلک دیکھی جاسکتی ہے، ان سے خود کو دور رکھیں۔ کسی صوفی کے پاس کوئی وحی تو آئی نہیں تھی کہ اسی دعا کو پڑھنے سے کوئی وبائی بیماری ختم ہوگئی تھی۔ یوسف بن اسماعیل نبہانی کی درود کے مسئلے پر ایک مفصل کتاب ہے جس کا نام’’ سعادۃ الدارین‘‘ ہے، اس میں امام جعفر صادق کی طرف منسوب ایک دعا انھوں نے نقل کی ہے اور اسے طاعون کی وبائی بیماری کے لیے باعث شفا قرار دیا ہے۔ میں نے اصل کتاب سے نکال کر جب یہ دعا دیکھی تو اس میں رسول اللہ ﷺ سے جس طرح وسیلہ تلاش کیا گیا ہے اور آپ کے صفاتی ناموں کے حوالے سے جس طرح شفا کی درخواست کی گئی ہے، وہ واضح طور پر شرک ہے۔ کم سے کم اس مصیبت کی گھڑی میں ہم توحید کو مضبوطی سے تھامیں اور اس کے تقاضوں پر عمل کریں۔صوفیاء کے اس طرح کے مجربات نے ہمیں صحیح احادیث میں موجود دعاؤں سے غافل کردیا ہے۔ آپ ذرا اندازہ کریں، ہمارے نبی محترم کی دعا مجرب اور تیر بہ ہدف نہیں ہے لیکن ایک امتی کے عجمی اسلوب میں خود تراشیدہ الفاظ اور جملوں پر مشتمل دعائیں مجرب اور تیر بہ ہدف قرار دی جارہی ہیں۔ عقیدہ وفکر کا اس سے بڑا فساد اور کیا ہوسکتا ہے۔

مساجد میں جمعہ اور نماز باجماعت کا مسئلہ
بعض عرب ممالک میں مساجد کے دروازے بند کردیے گئے ہیں، اب ان میں نہ پنجوقتہ نمازیں ہوتی ہیں اور نہ جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ اذان ہی میں اعلان کردیا جاتا ہے کہ نمازیں انفرادی طور پر اپنے گھروں میں ادا کی جائیں۔اس سلسلے میں شریعت کے حکم کے سلسلے میں جو متضاد آراء سامنے آرہی ہیں، وہ ہمارے لیے بڑی تشویشناک ہیں۔ کوئی حکومت اگر اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایسا کوئی حکم دیتی ہے تو رعایا کو اس پر عمل کرنا چاہیے، حکومتی اعلان کے بعد رعایا کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے لیکن رعایا کو اپنے طور پر ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جو لوگ ہمت اور حوصلہ رکھتے ہوں اور طبی نقطۂ نظر سے بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہوں تو وہ مسجد جاسکتے ہیں۔ روئے زمین پر مساجد ہی تو وہ مقامات ہیں جن کو اللہ کے گھروں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مساجد کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے، مناسب ہے کہ ہر نماز کے بعد صفیں تبدیل کردی جائیں یا ان پر جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کیا جائے تاکہ اگر یہ وائرس کسی ذریعے وہاں تک پہنچا بھی ہے، تو اس کا خاتمہ ہوجائے اور کوئی نمازی اس سے متاثر نہ ہو۔ البتہ جو حضرات اس وائرس سے متاثر ہیں یا متاثر ہونے کا شبہ ہے، وہ مساجد میں ہرگز نہ جائیں کہ مبادا کوئی دوسرا نمازی متاثر ہوجائے۔ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے، دونوں طرف رائیں ہوسکتی ہیں، آپ جس پر خود کو مطمئن کرلیں، اس پر عمل کریں، باقی اللہ کے سپرد کردیں۔ احتیاط اسی میں ہے کہ زیادہ افراد کسی ایک جگہ اس طرح جمع نہ ہوں کہ ایک دوسرے سے ان کا جسم چھو رہا ہو۔ جمعہ کی نماز کے بدلے ظہر پڑھیں، شریعت میں اس کی اجازت ہے۔جہالت کی بات یہ ہوگی کہ مسجد میں تین آدمی جمعہ کی نماز پڑھیں اور باقی لوگ اپنی اپنی چھتوں پر جمع ہوکر خطبہ سنیں اور صف بندی کرکے امام کی اقتدا اپنی چھتوں سے کریں۔ اولاً تو اس طرح نماز نہیں ہوتی اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ ایک قسم کا تکلف ہے اور ایک نیا طریقہ ہے، اس سے ہمیں احتراز کرنا چاہیے۔ جب جمعہ کے بدلے ظہر کی نماز کی شریعت اجازت دیتی ہے تو یہ مصنوعی تقوی کیا معنی رکھتا ہے؟
ہمارے ملک میں مسلمانوں کی جو تصویر بنی ہوئی ہے، خدا نخواستہ اگر ہماری اس بھیڑ بھاڑ سے بیماری مزید پھیلتی ہے تو سیاسی اور سماجی دونوں اعتبار سے مسلمان اچھوت بنادیے جائیں گے۔ اسلام دشمن عناصر کو یہ پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ملے گا کہ ملک میں کورونا وائرس زیادہ وسیع پیمانے پر مسلمانوں نے پھیلایا۔ کیا اس الزام کو سننے کے لیے آپ تیار ہیں؟ اللہ کے لیے آپ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے رحمت بنیں کیوں کہ آپ جس آخری رسول کی امت ہیں، وہ ساری دنیا کے لیے رحمت تھے۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Riaz Saeed

Very good discussion but its not copy able . could you please send me copy able format. i would be thankful.