کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

شمیم احمد ندوی سماجیات

گزشتہ دنوں جب یورپ و امریکہ میں مرحلہ وار لاک ڈاؤن کیا گیا تو سب سے پہلے سپر مارکیٹس اور بڑے بڑے اسٹورس کو بند کیا گیا۔ وہاں کے لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ اگلا مرحلہ باہر نکلنے پر پابندی کا ہے۔ اس وقت جب اگلے روز سے اسٹورس بند کرنے کا اعلان کیا گیا تو لوگ ضروری اشیاء کی خریداری کے لیے گھروں سے نکل پڑے۔ یہ جان کر ہمیں تعجب ہوگا کہ ایسے وقت میں جب لوگ موت کا خطرہ آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے تھے، انھوں نے سب سے زیادہ شراب کو اسٹاک کرنے پر توجہ دی، ان اسٹورس میں سے سب سے پہلے مہنگی شرابوں کی بوتلوں والے ریک خالی ہوئے۔ دوسری چیز جو اس کے بعد دوکانوں سے ختم ہوئی وہ ٹوائلٹ پیپر تھے، یہاں تک کہ یورپ و امریکہ کے بیشتر شہروں میں ٹوائلٹ پیپر کی شدید قلت ہو گئی۔ ایسے میں ان ملکوں میں موجود مسلمانوں نے ان کے سامنے ٹوائلٹ کا وہ پائپ متعارف کرایا جو حصول طہارت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ملکوں میں موجود اکثر عیسائی اس بات سے واقف بھی نہ تھے کہ ٹوائلٹ پیپر کے علاوہ بھی صفائی کے لیے کسی اور چیز کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یورپ و امریکہ کے لوگوں کو یہ تجربہ اس قدر پسند آیا کہ چند ہی دنوں میں دوکانوں اور اسٹوروں سے طہارت پائپ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئے۔ اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے، جو لوگ مغربی ملکوں کے کلچر سے واقف ہیں وہ ان کے صفائی کے طور طریقوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ بہرحال انھوں نے مسلمانوں سے صفائی کا یہ نیا انداز سیکھا، کرونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے سوشل ڈسٹنسنگ کے علاوہ جس بات کی سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ صفائی کا غیر معمولی اہتمام ہے۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ صابن اور پانی سے ہاتھ دھلیں۔ مسلمان یہ سن سن کر حیران ہوتا ہے کہ کیا پانی کے بغیر بھی ہاتھ دھلا جاسکتا ہے، لیکن یہ درس ان کے لیے ہے جو صفائی کے لیے ٹوائلٹ پیپر کو کافی سمجھتے ہیں ورنہ سچا مسلمان تو دن میں پانچ بار وضو کرتا ہے جس میں نہ صرف ہاتھوں کو کہنیوں تک بلکہ پورا چہرہ اور پیر بھی اچھی طرح دھلتا ہے، سر کا مسح کرکے بھی گردوغبار کو رفع کرتا ہے، ایک دو بار صابن کا بھی استعمال کرتا ہے، اس طرح کی صفائی اس کے لیے معمول کی بات ہے، دوسروں کے لیے ہوسکتا ہے یہ ہدایات نئی ہوں۔
قرنطینہ یا کورنٹائن یا الحجر الطبی ہوسکتا ہے لوگوں کے لیے اس میں کچھ نیا ہو، لیکن مسلمانوں کے لیے خواہ یہ اصطلاح نئی ہو لیکن طریقہ کار ہرگز نیا نہیں۔ اس کا درس تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ صدی قبل ہی دے دیا تھا کہ جہاں کوئی وبائی بیماری پھیلی ہو وہاں نہ تو کوئی صحت مند شخص جائے اور نہ وہاں سے کوئی مریض شخص باہر نکلے تاکہ بیماری کے دائرے اور اس کے نقصانات کو محدود کیا جاسکے۔ جب امریکہ کے ڈاکٹروں کو وہاں کے مسلمانوں نے بتایا کہ ہمارے مذہب میں کورنٹائن کی یہ تعلیمات پہلے سے موجود ہیں تو ایک امریکی پروفیسر حیرت کے سمندر میں غرق ہوگیا، اس نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا جس میں اس حدیث کا حوالہ دیا۔ وہاں کے لوگوں نے بہت ہی حیرت و بے یقینی کے ساتھ اس کی تحقیقات کو پڑھا کہ چودہ صدیاں قبل مسلمانوں کے پیغمبر نے کورنٹائن کا تصور دیا جب دنیا یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ لاک بندی اور الحجر الطبی کس چڑیا کا نام ہے؟
آج یہ اندھ بھکت ہم کو بتاتے ہیں کہ مودی جی نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرکے بہت عقلمندی کا ثبوت دیا۔ یقیناً اس وبائی مرض سے بچنے کے لیے سوشل ڈسٹنسنگ سب سے محفوظ طریقہ ہے لیکن اس کا تصور دنیا کو سب سے پہلے اسلام نے دیا۔ آج اسی اسلام کے ماننے والوں کو تم گنوار اور غیر مہذب سمجھتے ہو، ارے وہ اسلام ہی ہے جس نے تم کو ہی نہیں تمھارے اجداد کو بلکہ پوری دنیا کو تہذیب وتمدن، صفائی ستھرائی اور سماجی علیحدگی کا درس دیا جو اس بیماری سے لڑنے کے لیے سب سے کارگر ہتھیار ہیں۔ پھر تم کہتے ہو کہ اس بیماری سے لڑنے کے لیے مسلمانوں کا کیا یوگ دان ہے تو تمھاری عقلوں اور تمھاری متعصب ذہنیت کا ہم ماتم نہ کریں تو کیا کریں۔ تم پوچھتے ہو کہ اس بیماری کے سد باب میں ہمارا کردار کیا ہے، تو اب ان تفصیلات کے بعد ہم خود کیا کہیں؟ 
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
یہاں ہمارے ملک میں انسانی ہمدردی کا حال یہ ہے کہ بغیر تیاری اچانک لاک ڈاؤن کا نادر شاہی فرمان صادر کرکے لاکھوں مزدوروں کو سڑک پر بھوک اور تکان سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا، ان کی مجبوری کی داستانوں پر کتاب نہیں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ حتی کہ ان کی مجبوری کا نقطہ انتہا یہ ہے کہ وہ کتوں کے منہ سے نوالہ چھین کر کھانے کے لیے مجبور ہوئے۔ دوسری طرف ایک اسلامی ماڈل حکومت سعودی عرب کی حکومت ہے کہ سب کے نہ صرف پیٹ بھر کھانے کا انتظام کیا بلکہ ضرورت مندوں کو مفت بھی اناج و دیگر سامان مہیا کیا، اور سارے مریضوں کے مفت علاج کا اعلان کیا، خواہ وہ کسی بھی وطن سے تعلق رکھتے ہوں۔ صرف اپنے شہریوں کا ہی نہیں خیال کیا، وہاں کی حکومت تو اس قدر فیاض و دریا دل ہے کہ بعض یونیورسٹیوں کے ہاسٹل کے طلباء کو سوشل ڈسٹنسنگ کے مقصد سے سرکاری خرچ پر فائیو اسٹار ہوٹلوں کے علیحدہ کمروں میں ٹھہرایا جبکہ ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ کرونا ٹیسٹ کے لیے فی نفر پانچ ہزار ٹیسٹ فیس عائد کی گئی۔ ڈاکٹروں کی صحت کی ضمانت حفاظتی کٹ ہی میسر نہیں، بعض جگہوں پر رین کوٹ اور سردی سے بچانے والے گلوز پہننے کے لیے مجبور ہیں۔ تالی اور تھالی بجانے اور موم بتی جلانے سے ان کے تحفظ کی ضمانت ممکن نہیں، پھر جاہل، گنوار اور تہذیب وتعلیم سے عاری مسلمان ہیں تو اس سوچ کو کیا نام دیا جائے؟ مسلمانوں کی کردار کشی کرنے سے فرصت ملے تو اس متعصب اور تنگ نظر میڈیا کو یہ بات ضرور سوچنا چاہیے۔

آپ کے تبصرے

3000