تبلیغی جماعت کے لیے لمحہ فکریہ

شمیم احمد ندوی سماجیات

یہ ایک عام رجحان ہے کہ تبلیغی جماعت سیدھے سادھے، بھولے بھالے، جبہ پوش اللہ والوں کی جماعت ہے اور اس رائے میں کوئی شبہ بھی نہیں۔ انھوں نے نہ صرف بھارت میں بلکہ پوری دنیا میں اپنی یہی امیج بنائی، ان کی دنیا مساجد تک محدود رہی بلکہ مساجد سے شروع ہوکر مساجد تک ختم ہوگئی۔ یہ گوشہ نشین تارک الدنیا حضرات دنیا کی کسی سیاست سے واسطہ نہیں رکھتے، دنیا میں ان کی یہی پہچان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ہر ملک میں بے ضرر سمجھا جاتا ہے اور ان کی ذات یا ان کی تنظیم سے دنیا کا کوئی ملک نہ تو خطرہ محسوس کرتا ہے، نہ ان سے کوئی تعرض کرتا ہے اور نہ ہی ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کو ہر ملک کا ویزا بھی بآسانی مل جاتا ہے۔
ہندوستان کی حکومت نے بھی کسی بھی دور حکومت میں ان کے کاموں اور ان کی نقل وحرکت سے کبھی تعرض نہ کیا بلکہ جب دوسری کئی مسلم تنظیموں کو جہادی و طالبانی کا خطاب دے کر انھیں ملک کے امن وامان کے لیے خطرہ قرار دیا جاتا رہا اور انھیں دیش دروہی اور ملک دشمن اور غدار وطن کے خطاب سے نوازا جاتا رہا تب بھی کسی نے ان کی طرف انگلیاں نہیں اٹھائیں۔ لیکن اب چونکہ حکومت وقت کو کورونا وائرس پر قابو پانے میں ناکامی اور اپنی نا اہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے کسی آسان ہدف کی تلاش تھی تو اس کو تبلیغی جماعت سے بہتر کوئی اور ہدف نہ مل سکا اور چونکہ اندیشے اور خدشات یہ کہتے ہیں کہ آئندہ چند ہفتوں میں (اللہ نہ کرے) اس بیماری کا زور اور بڑھے گا اور متاثرین ومہلوکین کی تعداد میں اضافہ ہوگا جیسا کہ پوری دنیا کا ٹریند ہے کہ بعد کے ہفتوں میں یہ وائرس تشویشناک حد تک تیزی کے ساتھ بڑھتا ہے تو آج ہی سے میڈیا اور حکومت کے ذمہ داران نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مودی جی نے اس بیماری پر قابو پا ہی لیا تھا اگر درمیان میں تبلیغی جماعت نہ کود پڑتی۔ کچھ اسی طرح کا یوگی کا بیان آج کے اخبارات میں چھپا ہے۔ اب اس موقع پر میں تبلیغی جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ جو ہمیشہ زمین سے نیچے اور آسمان سے اوپر کی بات کرتی ہے کبھی زمینی حقائق کا سامنا کرنے کی بات بھی اسے کرنی چاہیے تھی۔ ٹھیک ہے وہ ایک خالص دینی جماعت ہے اپنے اپنے ملکوں کی سیاست سے اس کا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا لیکن دنیا کے مسلمانوں کے مسائل نماز، روزہ، ذکر واذکار اور چلہ کشی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہیں اور ایسے ہی لوگ ابلیسی طاقتوں کا سب سے آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ ابلیس نے اپنی مجلس شوری میں بزبان اقبال یہ کہا تھا:
مست کردو ذکر وفکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے
خانقاہوں میں گوشہ نشین ان مست قلندر اللہ والوں سے ابلیسی طاقتوں کو نہ کبھی کوئی خطرہ محسوس ہوا نہ حکومت وقت نے کبھی ان کی سرگرمیوں کو لائق اعتنا سمجھا لیکن آج ان کے خلاف جو محاذ کھڑا کیا گیا ہے اور ان کو ملک میں کورونا پھیلانے کا قصور قرار دیا جارہا ہے اس سے ان کی خوش فہمیوں کا بت یقینا پاش پاش ہوگیا ہوگا جبکہ حکومت کی نظر میں یہ جماعت ہمیشہ بے ضرر اور مسکین رہی ہے۔
اس جماعت نے کبھی اپنے ملک میں مسلمانوں کو درپیش مسائل و مشکلات سے کوئی واسطہ نہیں رکھا، کبھی ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز نہیں بلند کی، کبھی فسادات میں مسلمانوں کی جان ومال، عزت وآبرو اور املاک کی تباہی کے خلاف کوئی بیان تک جاری نہیں کیا، مسلمانوں کو تعلیم اور سرکاری نوکریوں میں پیچھے ڈھکیلنے کو معیوب نہیں سمجھا، اور حکومتوں کے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ان کی حالت دلتوں سے بد تر بنانے کا کبھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔ یہاں تک کہ ملک میں سی اے اے اور این آر سی کے ذریعہ مسلمانوں کی شہریت چھیننے کے حکومتی منصوبوں کے خلاف کبھی صدائے احتجاج بلند نہیں کیا اور کبھی شاہین باغ اور اس جیسے احتجاج کی علامت تحریکوں کی تائید میں اسے ایک بار کلمہ خیر کہنے کی توفیق نہیں ملی۔

غرض اس جماعت نے ملک میں مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں اور ان کے وجود کو لاحق خطرات پر کبھی بھی اپنی فکروتشویش کا اظہار نہیں کیا۔ یہ اپنی مساجد اور خانقاہوں کی دنیا تک محدود رہتے ہوئے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر یہ سمجھتے رہے کہ سارے خطرات کے بادل خود کار طریقے سے چھٹ جائیں گے۔ حالانکہ جس مسلک دیوبند کی یہ نمائندگی کرتے ہیں اسی کے ایک بڑے عالم دین بلکہ عالمی شہرت یافتہ مفکر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اسی طرح کی صورت حال پر بڑے ہی پتہ کی بات کہی تھی کہ آج اگر ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے خلاف آپ نے آواز نہیں بلند کی اور اپنے زاویوں، خانقاہوں اور مساجد کی دنیا تک محدود رہ گئے اور اس سرزمین ہند پر سجدہ کی اجازت کو اسلام کے آزاد ہونے کے لیے کافی سمجھ لیا تو اللہ نہ کرے وہ دن دور نہیں کہ تم مساجد میں اذانوں، نمازوں اور رکوع و سجود کو بھی ترس جاؤ گے۔
کیا آج جس طرح مساجد میں نمازوں کی ادائیگی پر گرفتاریاں ہو رہی ہیں اسی صورت حال کی اس سے عکاسی نہیں ہورہی ہے؟
آج میڈیا کے بنائے ہوئے ماحول کے زیر اثر جس طرح ان کو ایک ولن اور خطرناک مجرم بنا کر پیش کردیا گیا ہے، تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی دھڑا دھڑ گرفتاریاں ہو رہی ہیں ان کی بھی جو مرکز کے حالیہ پروگرام میں شریک تھے اور ان کی بھی جنھوں نے مہینوں یا برسوں سے مرکز نظام الدین کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا، اس کا مطلب واضح ہے کہ وجہ صرف کورونا پھیلانے کے ناکردہ گناہوں کی سزا ان کو نہیں مل رہی ہے بلکہ صرف تبلیغی جماعت سے تعلق ہی ان کا جرم عظیم ہے۔
آج حکومت وقت کے اس ظلم کے خلاف ہندوستان کی تمام جماعتیں اور تنظیمیں بلا اختلاف مسلک ومنہج تبلیغی جماعت کے ساتھ کھڑی ہیں لیکن کیا یہ بھی کبھی ملک کے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے بلکہ اظہار ناپسندیدگی کے لیے بھی سامنے آئے؟ کبھی انھوں نے اپنے کسی قول وفعل سے یہ تاثر دیا کہ ظلم و ناانصافی کے خلاف وہ بھی ملک کے عام مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ فسادات کے شکار مسلمانوں کی باز آبادکاری میں یا ناگہانی آفات کے شکار لوگوں کی مدد میں بھی انھوں نے کبھی حصہ لیا ہو۔ انھوں نے اپنی دنیا مساجد تک محدود کرلی ہے تو آج انھیں مساجد ومدارس سے ان کی گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں، یہ سزا ہے اس جرم کی کہ انھوں نے عام ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل و مشکلات کو کبھی اپنے لیے درد سر نہیں سمجھا لیکن ان کو سمجھنا چاہیے تھا کہ:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
Yahiya Khan

السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ ،
مضمون کے زیادہ تر حصہ سے اتفاق کیا جاسکتا ہے، اس مصیبت سے قبل کسی نے کیوں تبلیغی جماعت والوں کو مشورہ نہیں دیا کہ وہ صرف اپنی آخرت سنوارنے کے کاموں کے علاوہ انسانیت قوم اور ملک کی خدمت کو بھی ترجیح دیں ! قوم کی تعلیمی ، سیاسی ، سماجی اور معاشی خدمات کیلئے بھی آگے آئیں !!
خیر جو ہونا تھا ہوچکا اب مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہو اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ورنہ
” ؎ چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں “

Syed Affan

تبلغی جماعت کے کاموں اور ان کا اپنے کاموں کے تئیں جذبے کی سراہنا کرتے ہوئے کچھہ جائز تنقید بھی ضروری ہے ، اور یہ تنقید خیر خواہی کا ہی ایک عنصر ہے، 1) کاش کے تبلیقی جماعت اپنے دینی سمجھہ میں وسعت لائے اور دین کی صحیح فکر پیدا کرے یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ اپنا بنایا ہوا ڈاھنچابالکل درست اور صد فیصد صحیح ہو۔ 2) جس طرح اجتماعات میں شرکت کرنے اور اس پر خرچ ہونے والے لاگت میں شریک ہونے کے لیئے فضائل بیان کیئے جاتے ہیں اسی طرح کے فضائل رفاہی کامو‎ں مثلا ( اچھے… Read more »

Irfan shaikh

As rahi hai. Jo Islam ki khidmat aur tableeg ka kaam is jamat ne kiya hai
Wo photo khinchane wali jamato ne nahi kiya. mazmoon me jamat se hasad ki boo