غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

شمیم احمد ندوی سماجیات

مولانا سلمان حسینی ندوی کے اس موقف پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے جو انھوں نے ملک میں بے وقت کی دیوالی منانے اور لائٹ بجھا کر چراغاں کرنے کے فیصلہ کی غیر مشروط حمایت کرکے اختیار کیا ہے۔ دیوالی میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ یہ محض چراغ، موم بتی اور دیا جلائے جانے کا فرمان تھا، لیکن بھائی لوگوں نے بڑے شہروں میں خوب آتش بازی کا مظاہرہ کیا اور تیز آوازوں والے پٹاخے اور تیز روشنی والے انار اور جانے کیا کیا چلائے، اس عقیدہ کے ساتھ کہ اس سے کرونا خوفزدہ ہوکر بھاگ جائے گا۔ جیسا کہ بعض زیادہ سمجھ رکھنے والے لوگوں نے پٹاخے چلاتے ہوئے کرونا کے خلاف نعرے بھی لگائے، اب وہ کرونا وائرس بہت ہی بے شرم ہوگا جو اس بے عزتی اور بے آبرو کرکے بھگائے جانے کے بعد بھی ڈٹا رہے۔
میں لکھنؤ میں ہوں میرا ایک چار سالہ نواسہ جو پندرہ دن سے گھر میں قید رہنے کی وجہ سے بہت پریشان تھا، اس نے آج شام کو مجھ سے کہا نانا چلیے گاڑی سے کہیں گھما لائیے، تو میں نے کہا نہیں بیٹا باہر کورونا ہے، اس نے کہا کہ کرونا تو بھاگ گیا کل آپ نے دیکھا نہیں تھا کہ سب لوگ چھت پر کورونا کو زور زور سےداغ رہے تھے اس سے ڈر کر کورونا بھاگ گیا۔
وہ تو خیر بچہ ہے، ہمارے ارد گرد رہنے والے کچھ سمجھ دار بڑوں کے بھی ایسے ہی احساسات ہیں کہ ان حرکتوں سے یعنی تالی تھالی بجانے سے، دیا موم بتی جلانے سے اور فلک شگاف آوازوں والے پٹاخوں کے چلانے سے کورونا ہراساں ہوکر بھاگ جائےگا۔
ویسے تو ہر مذہب کے اپنے عقائد وتصورات ہیں اور ان مذاہب کو ماننے والوں کے اپنے احساسات و خیالات ہیں، لیکن کیا ہوگیا ہے ہمارے اپنے صاحب ایمان لوگوں کو جو دعویٰ تو توحید کا کرتے ہیں اور حرکتیں ایسی کرتے ہیں جو اسلام کے عقیدہ توحید سے قطعاً میل نہیں کھاتیں۔ جس پس منظر میں اور وقت و عدد کی سختی کے ساتھ رعایت کرنے کی تلقین کے ساتھ شاہی فرمان صادر ہوا اس سے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ضرور اس کا تعلق مشرکانہ عقائد سے ہے۔ خطاب نو بجے شروع ہوتا ہے، نو منٹ تک جاری رہتا ہے یعنی نو بجکر نو منٹ تک ہوتا ہے جس کا دورانیہ عام خطاب کے بالکل برعکس بہت مختصر ہوتا ہے۔ پھر ٹھیک رات نو بجے اور نو منٹ تک یہ کاروائی جاری رہنے کا مشورہ یا سجھاؤ یا حکم ہوتا ہے، کچھ تو اس میں ایسا ہے جس کا تعلق عقیدہ سے ہے۔ چنانچہ علماء دین کے کان کھڑے ہوئے اور انھوں نے اس کے شرک ہونے اور توحید کے منافی ہونے کا فتویٰ دیا۔ لیکن کیا ہوگیا اس قوم مسلم کو کہ سارے مشورے طاق پر رکھتے ہوئے ایک بڑی تعداد بغیر سوچے سمجھے اس مشرکانہ عمل میں شریک ہوئی، حتی کہ مسجدوں مدرسوں میں بھی چراغاں کیا گیا، نعوذ باللہ من ہذہ الخرافات۔
سب سے زیادہ تعجب مجھے مادر علمی ندوۃ العلماء میں دیے روشن ہوتے دیکھ کر ہوا۔ اس پر کچھ تفصیل سے لکھنے کا ارادہ ہے کہ یہ میرا اپنا موضوع ہے۔

مولانا سلمان حسینی ندوی کے افلاس ذہنی کا عالم یہ ہے کہ اس عمل کو اسلامی نقطہ نظر سے جائز ٹھہرانے کے لیے انھیں سورہ نور کی آیت “اللہ نور السماوات والأرض” مل گئی شاید ہی کبھی کسی نے کسی آیت کریمہ کے ساتھ اتنا بھونڈا مذاق کیا ہو۔ غنیمت ہوئی کہ انھوں نے اللہ کی جگہ “نور السماوات والأرض” اپنے ممدوح کو نہیں بنایا جن کے فرمان کو درست ثابت کرنے کے لیے قرآنی آیات کو بازیچہ اطفال بنایا گیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے قرآن کو بازیچہ اطفال بنا کر چاہیں تو کریں روز شریعت نئی ایجاد۔
سلمان حسینی ندوی کی ماضی قریب کی حرکتوں سے ہمیں کچھ بھی بعید نہیں لگتا وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، بابری مسجد کا سودا بھی کرسکتے ہیں، اس کے خلاف فیصلہ آنے پر جشن بھی منا سکتے ہیں، اور صحابہ کرام کو گالیاں بھی دے سکتے ہیں، تو نعوذ باللہ کسی کو آسمانوں و زمینوں کا نور بھی ثابت کرسکتے ہیں۔ لیکن میرا حقیر سا مشورہ عام مسلمانوں کو یہ ہے کہ ایسے ضمیر فروش ملاؤں کے فتنوں سے ہمیشہ ہوشیار اور اپنے عقیدہ وایمان کی حفاظت کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
کمال

اب کس بابری مسجد کا سودا،سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا،سعودیہ نے مودی کو ایوارڈ دیا،بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مسلسل مظالم اور کالے قانون کے خلاف ایک لفظ نہیں نکالا،بلکہ بھارت کو تعاون اور یہاں کی سرکار کو انعامات دینے میں لگاہوا ہے،اور سلفی حضرات اپنے اس عقیدہ کو پھیلانے میں لگ گئے کہ بھارت پوری دنیا کا باپ ہے۔
سلمان حسینی صاحب اب ندوہ سے وابستہ نہیں ہیں۔