کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے پوری دنیا نبرد آزما ہے، یہ ہر مجلس میں موضوع بحث اور ہر گفتگو کا مرکز ہے جب کہ دنیا کے اعصاب پر بری طرح مسلط ہے جو اس کی تباہ کاریوں کے سامنے بے بس اور اس کا علاج ڈھونڈھنے میں ناکام ہے۔ ترقی یافتہ قوموں، طاقت وقوت سے سرشار ملکوں اور جدید میڈیکل سائنسی آلات سے مالا مال ڈاکٹروں نے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور انھوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کردیا ہے۔
اس بیماری نے اتنے ہی دنوں میں دنیا کی معیشت کو تہ وبالا کردیا ہے اور اس کی اقتصادیات کا جنازہ نکال دیا ہے، اور اس کے اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ بھک مری، افلاس اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے ملکوں کو اپنے شکنجہ میں کسنا شروع کردیا ہے خاص طور سے ہندوستان جیسا ملک جہاں کسی منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر دفعتاً بائیس روزہ لاک ڈاؤن کا نفاذ کردیا گیا صورت حال بہت مخدوش ہوگئی اور خستہ حال مزدوروں کو جاں بلب کرگئی اور کئی تو جان کی بازی ہار گئے۔
اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی ملکوں نے اپنے شہریوں کے تحفظ اور راحت رسانی کے لیے ضروری قدم اٹھائے جو ان کا فرض تھا۔ اس سلسلہ میں حکومت سعودی عرب نے جو مثالی راحتی اقدامات کیے اور اپنے شہریوں اور اجانب کو طبی و اقتصادی پیکج دیے اور ان کے تحفظ اور آرام وراحت کو یقینی بنایا دنیا کا کوئی اور ملک اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا، پیش ہیں اختصار کے ساتھ کچھ تفصیلات:
سعودی عرب دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے اس خطرہ کو سب سے پہلے محسوس کیا اور سنجیدہ حفاظتی اقدام کیے جن میں عمرہ پر پابندی اور حرمین شریفین میں داخلہ اور وہاں باجماعت نمازوں کو انتہائی حد تک محدود کیا جانا سب سے اہم تھا۔ پھر مملکہ کی تمام مساجد کو باجماعت نمازوں کے لیے بند کرنے کا بروقت فیصلہ جب دنیا کے بیشتر مسلمان ان فیصلوں پر تنقید کر رہے تھے، ان تابڑتوڑ جرأت مندانہ فیصلوں سے اس نے ثابت کیا کہ جب پوری دنیا بشمول ترقی یافتہ ممالک سورہے تھے تو وہ جاگ رہا تھا اور دنیا کو راستہ دکھا رہا تھا۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو اس بیماری سے لڑنے کے لیے اسی نے سب سے پہلے ایک خطیر رقم کا عطیہ دیا جس کا ڈبلو ایچ او نے بھی اعتراف کیا۔
سب سے پہلے سعودی عرب نے اس بیماری سے عالمی معیشت اور مستقبل میں خود اس کی اقتصادیات پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس کے نقصانات کے ازالہ یا اسے کم سے کم کرنے کے لیے انتہائی مؤثر اور فوری ضروری اقدامات کیے۔
بیس مارچ کو جب اس کے یہاں متاثرین کی تعداد سو تک بھی شاید نہیں پہنچی تھی اور ہلاکت ایک بھی نہیں ہوئی تھی اس نے اس بیماری سے مقابلہ اور اس کے اثرات سے نپٹنے کے لیے ایک کھرب بیس ارب ریال کا فنڈ جاری کیا جس کے لیے خادم حرمین شریفین نے وزیر کامرس اور وزیر مالیات کو بذات خود احکامات صادر کیے جس میں سے ستر ارب ریال اس بیماری سے لڑنے کے لیے درکار ضروری میڈیکل آلات اور اسپتالوں کو وینٹی لیٹر سمیت دیگر طبی سازوسامان اور ضروری ادویات کی فراہمی کے ساتھ ڈاکٹروں کی پروٹیکشن کے لیے حفاظتی ملبوسات وغیرہ کے لیے مختص کیے گئے۔
جبکہ پچاس ارب ریال اس بیماری سے مستقبل قریب میں ہونے والے اقتصادی خسارہ سے نپٹنے کے لیے مخصوص کیے گئے۔ اس میں کرفیو، لاک ڈاؤن اور کاروبار کی بندش سے مرتب ہونے والے نقصانات کی بھرپائی شامل ہے اور شاہی فرمان کے مطابق یہ فوری طور پر جاری کی گئی وہ ابتدائی رقم ہے جو خاص طور سے چھوٹے کاروباریوں، خردہ فروشوں، مالیاتی اداروں میں کام کرنے والے لوگوں اور اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی فرموں کو دی جاۂے گی، اور یہ صرف اصلاحات کے لیے اٹھایا گیا خیالی و تصوراتی قدم نہیں تھا بلکہ فوری طور پر متعلقہ اداروں کو یہ رقوم دے دی گئیں۔
اس نے جہاں سرکاری سیکٹر کے مستقل ملازمین کی ملازمتیں برقرار رکھیں بلکہ ان کی سیلری میں کسی طرح کی تخفیف بھی نہیں کی، ایسا تو شاید اور کچھ ملکوں نے بھی کیا ہو لیکن اور ملکوں سے الگ ہٹ کر اور آگے بڑھ کر اس نے ایک فیاضانہ قدم یہ اٹھایا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ملازمین کی فلاح وبہبود کا بھی بھر پور خیال رکھا۔ لہذا خادم الحرمین الشریفین ملک سلمان بن عبد العزیز ایدها الله ملكه نے اپنے وزیر تجارت محمد بن عبداللہ الجدعان کو احکامات صادر کیے كہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے تمام سعودی شہریوں کی ملازمتیں بھی اسی طرح بحال رکھی جائیں۔ ان کی تنخواہوں کے ساٹھ فیصد حصہ کی ادائیگی سعودی حکومت کرے گی، صرف چالیس فیصد سیلری کا بار ہی کمپنیوں پر ڈالاجائے گا۔ اس سے جہاں کمپنیوں کو راحت ملے گی وہیں کسی کی ملازمت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا۔ جب کہ اپنے ملک میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروباری حلقوں کو جن نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس سے کروڑوں ملازمتوں کو خطرات لاحق ہیں جو ایک سنگین مسئلہ کے طور پر آئندہ بہت بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور کساد بازاری کی شکل میں ملک کے سامنے آسکتا ہے اور نہیں کہا جاسکتا کہ ملک نے اس سے نپٹنے کے لیے کیا حل سوچا ہے۔
سعودی حکومت نے اس مسئلہ کے حل کے لیے جو پیکیج جاری کیا ہے اس سے اس کے خزانہ پر نو ارب ریال کا اضافی بوجھ پڑے گا جو ہندوستانی سکہ میں تقریباً ایک کھرب پچہتر ارب روپیہ ہوتا ہے اور اس اسکیم کا فائدہ ان بارہ لاکھ سعودی ملازمین کو ہوگا جوپرائیویٹ سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ ان کی سیلری کے فی کس نو ہزار ریال ماہانہ تک کی ادائیگی کی ذمہ داری سعودی حکومت نے لی ہے اور اس کا اطلاق اسی ماہ اپریل سے ہوگا جو آخر جون تک جاری رہے گا اور ان کی کمپنیوں کو اس بات کے لیے بھی پابند کیا گیا ہے کہ اس دوران کمپنیاں ان ملازمین سے کوئی بھی کام نہیں لے سکتیں۔
رہ گیا مسئلہ باہری ملازمین کا تو ان کو کئی طرح کی فوری سہولیات و مراعات دینے کے ساتھ ان کمپنیوں کو جہاں یہ کام کر تے رہے ہیں پابند کیا گیا ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ان کی تنخواہیں بلا توقف اور بلا تخفیف جاری رکھی جائیں البتہ ان کمپنیوں کو ہونے والے نقصانات کے لیے کوئی لائحہ عمل اور روڈ میپ جلد تیار کیا جائے گا۔
اسی طرح منسٹری آف ہیومن رسورسز اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ کو بھی شاہی فرمان صادر کیا گیا جس کے تحت لوگوں کی راحت رسانی کے لیے فوری طور پر ضروری اقدامات کرنے کے لیے کہا گیا جن میں کام کے اوقات اور کام کے بوجھ میں کمی، فیسوں اور جرمانوں سے راحت دلانے جیسے فیصلے اہم ہیں تاکہ معاشی مسائل سے بے فکر ہوکر کورونا وائرس جیسے خطرناک دشمن سے متحد ہوکر مقابلہ کیا جاسکے۔
مکہ، مدینہ، ریاض، جدہ، دمام اور ہفوف سمیت کئی بڑے شہروں میں کرفیو نافذ ہے لیکن شہریوں کی ضروریات اور ان کی مشکلات کا حکومت نے پوری طرح خیال رکھا ہے اور پوری منصوبہ بندی اور تیاری کے ساتھ کرفیو کا نفاذ کیا ہے۔ لوگ روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء اور ضروری ادویہ بے خوف وخطر باہر نکل کر متعینہ اوقات میں خرید سکتے ہیں، بلکہ بعض ایسی اشیاء جو مقامی طور پر دستیاب نہیں ہیں انھیں فون کرنے پر پولیس اور انتظامیہ کے اہل کار گھروں تک پہنچا دیتے ہیں، یہاں کی پولیس سے وہاں کی پولیس کس قدر مختلف اور شہریوں کے ساتھ متعاون ہے وہ یہاں کی پولیس کے سفاکانہ اور انسانیت سوز رویہ کی روشنی میں دیکھنے پر ناقابل یقین اور افسانوی کردار جیسا لگتا ہے۔ کیونکہ یہاں کی پولیس اپنے آقاؤں کے احکامات اور ڈنڈے کی زبان کے علاوہ کچھ نہیں جانتی۔ بہرحال اگر کوئی شخص کسی دوسری بیماری میں بھی گرفتار ہو جائے یا اسے میڈیکل چیک اپ کے لیے کہیں دور جانا پڑ جائے تو سرکاری ایمبولینس فری خدمات کے لیے فورا حاضر ہوتی ہے،
ضروری اشیاء کی فراہمی کے لیے ایک طرف جہاں کئی وزارتیں اپنی اپنی فیلڈ اور دائرہ کار میں مستعد اور چاق و چوبند راحت رسانی کے لیے موجود ہیں وہیں رفاہی ادارے بھی مثالی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ضروری اشیاء کی ترسیل کو یقینی بنا رہے ہیں۔ ایک ایک شہر میں کئی درجن پک اپ اور چھوٹی بڑی گاڑیاں سامان کے ساتھ گشت کرتی رہتی ہیں اور جہاں کہیں بھی جس کو بھی ضرورت ہو اسے ڈلیور کرتی رہتی ہیں۔ قیمتا یا بلا قیمت اس کے لیے کسی کو اپنی غربت یا محتاجی کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں پیش کرنا پڑتا۔ سامان مفت حاصل کرنے کے لیے صرف اس کا یہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے کہ وہ ضرورت مند ہے یا قیمت کی ادائیگی سے قاصر ہے جس کا نتیجہ ہے کہ اشیاء خورد ونوش کی ایسی بہتات اور فراوانی ہے کہ عام دنوں میں ایسی نہ تھی۔ سامان بھی نہایت معیاری اور عمدہ کوالٹی کا ہوتا ہے اور کھچڑی یا دال روٹی نہیں یعنی فقراء و مساکین کا کھانا نہیں بلکہ متوسط اور اونچے طبقہ کی ضرورت کا ہوتا ہے حتی کہ کئی کئی کلو گوشت مفت ملتا ہے۔ غرض کہ حکام وقت کی نیک نیتی اور رعایا پروری کا نتیجہ ہے کہ چار سو برکتوں کا نزول ہوتا ہے نہ کسی چیز کی قلت نہ کوئی بدامنی و بے چینی۔ ایسے میں کس کو یاد رہ جائے گا کہ کورونا وائرس ایک خطرناک اور جان لیوا وبا ہے۔ یہاں کی طرح نہیں کہ لوگ کورونا وائرس سے زیادہ فقرو فاقہ، بھوک افلاس، جاتی ہوئی نوکریوں اور بے روزگاری سے فکر مند ہیں۔
آپ کے تبصرے