کورونا وائرس اور سعودی حکومت کے قابل رشک اقدامات

شمیم احمد ندوی سماجیات

کورونا وائرس اور سعودی حکومت کے دور اندیشانہ و فیاضانہ اقدامات بھی پڑھیں

یوں تو ہر حکومت کا فرض ہے کہ اپنے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنائے، ان کے مسائل ومشکلات میں ہاتھ بٹائے اور اگر وہ کسی پریشانی اور آفت ناگہانی کے شکار ہوں تو ان کی راحت رسانی کے لیے آگے آئے۔ اگر چہ بعض حکومتیں اپنی ذمہ داریوں کا کماحقہ احساس نہیں کرتیں یا اس وقت احساس کرتی ہیں جب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
سعودی حکومت نے کرونا وائرس کے مسئلہ کی نزاکت اور اس کی حساسیت کو اس وقت بھانپ لیا جب دنیا کے بیشتر ممالک خواب خرگوش میں مگن اور “ہنوز دلی دور است” کے وہم کے شکار تھے۔
حکومت سعودیہ نے نہ صرف خطرہ کا بروقت ادراک کیا بلکہ اس کے تدارک کے لیے جنگی پیمانہ پر اقدامات کیے۔ بطور خاص غیر ملکی مقیمین کے لیے جو انتہائی قابل رشک ہیں۔
سعودی حکومت کی وزارت صحت، وزارت انسانی فلاح وبہبود اور منسٹری آف ہیومن رسورسز اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ نے شاہی فرمان کی روشنی میں یہ اعلان کیا کہ تمام کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج بلا تفریق رنگ ونسل اور بلا اختلاف جنسیت وقومیت یکساں طریقہ سے کیا جائے گا، ان کو تمام تر طبی خدمات اور میڈیکل سہولیات حکومت کی طرف سے بلا معاوضہ فراہم کی جائیں گی، جن میں علاج وادویات سے لےکر ہر طرح کے ٹیسٹ کے مصارف شامل ہیں۔ ان تمام اخراجات کی ادائیگی سے ان سبھی مریضوں کو معاف کیا جائے گا جو کوویڈ 19 کے شکار ہوں گے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک اور کسی بھی مذہب سے ہو۔ یہ انسانیت نوازی اور مذہبی رواداری کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ بلکہ اس اسکیم کا فائدہ ان لوگوں کو بھی ہوگا جو غیر قانونی ڈھنگ سے وہاں مقیم ہیں یعنی حکومت نے ایسے لوگوں کو ہمدردی اور توجہ کا مستحق صرف ایک مریض سمجھا اور ان کی غلطیوں و کوتاہیوں کو نظر انداز کردیا۔ حالاں کہ سعودی عرب اور دنیا کے دیگر ملکوں میں اس مرض کے بڑھتے دائرہ نے دنیا کی پیشانی پر فکر و تشویش کی لکیریں ڈال دی ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کا خود ساختہ سپر پاور امریکہ اس قدر حواس باختہ اور خود اپنے مسائل میں اس طرح الجھ چکا ہے کہ امریکی صدر نےآج ہی یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ عالمی ادارہ صحت میں اپنی حصہ داری سے قاصر ہے۔ جب ایک طرف اس تباہ کن بیماری کے سامنے سپر پاور نے ہتھیار ڈال دیے ہیں سعودی عرب اپنے حواس بحال رکھتے ہوئے جی ٹوئنٹی ملکوں کا اجلاس بلا چکا ہے۔ چنانچہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ ماہ کے آخری ہفتہ یعنی چھبیس مارچ کو سعودی عرب کی پیش قدمی اور اس کی قیادت اور میزبانی میں جی ٹوئنٹی ملکوں کا ایک اہم اجلاس ملک سلمان بن عبدالعزیز کی صدارت میں ملک کی راجدھانی ریاض میں منعقد ہوا، جس کا ایجنڈا کرونا وائرس کے خطرات کا عالمی سطح پر مقابلہ کرنے اور اس سے دنیا کو درپیش بےروزگاری وکساد بازاری سے نپٹنے کے لیے ضروری اقدامات پر غور کرنا تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے جی ٹوئنٹی دنیا کے بیس امیر ملکوں کی ایک معروف تنظیم ہے، جس کا سعودی عرب بھی ایک ممبر اور موجودہ وقت میں صدر ہے۔ اس نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے یہ اہم کانفرنس طلب کی تاکہ کرونا وائرس کی ہلاکت خیزیوں سے نپٹنے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔
اس کانفرنس کو بروقت طلب کر کے اور دنیا کے سر پر منڈلاتے سنگین خطرات کو محسوس کرکے سعودی عرب نے یہ ثابت کردیا کہ وہ دنیا کی قیادت کا کس قدر اہل ہے۔
سعودی حکومت نے اس بیماری سے لڑنے کے لیے انتہائی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت محدود وقت میں ایک ہزار ایمبولینس بلکہ بیشتر طبی سہولیات سے لیس موبائل ہاسپٹل تیار کرکے وزارت صحت کو ہینڈ اوور کردیے ہیں۔ ان چلتے پھرتے اسپتالوں میں کرونا مریضوں کے علاج کی تمام سہولیات موجود ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی حالت سے نپٹا جاسکے اور بلاتاخیر علاج شروع کیا جاسکے۔
اسی طرح سے ڈاکٹروں کی تربیت کے لیے تیرہ مراکز اور علاج کے لیے چار سو پچاسی مراکز اور تیرہ ایسے مرکز قائم کیے گئے ہیں جہاں اس مرض سے مقابلہ کے لیے ریسرچ کا کام ہوتا ہے۔ واضح ہوکہ یہ سب کام اتنے جنگی پیمانہ پر اس وقت ہورہے ہیں جب سعودی عرب میں مریضوں کی تعداد بہت زیادہ تشویشناک نہیں ہوئی ہے۔ بیس ہزار سعودی شہری اعزازی طور پر اس بیماری سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنی خدمات مختلف مجالات میں پیش کر رہے ہیں۔
سعودی شہریوں اور وہاں کے اصحاب خیر کا یہ جذبہ بھی قابل ستائش ہے کہ وہ بھی بڑھ چڑھ کر راحت رسانی کے کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ مشہور سعودی سرمایہ دار اور مخیر شیج سلیمان الراجحی نے اس بیماری سے لڑنے کی لیے ایک سو ستر ملین ریال ریلیف فنڈ میں جمع کرائے ہیں، ساتھ ہی مکہ مکرمہ میں اپنے دو فائیو سٹار ہوٹلوں کو کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے دے دیے ہیں۔ دیگر کئی اصحاب خیر اس سلسلے  میں اس طرح خاموش مدد کر رہے ہیں کہ میری اطلاعات کی حد تک کم ازکم مکہ میں اب کوئی ضرورت مند شخص اشیاء خورد ونوش کا لینے والا بھی باقی نہیں بلکہ لوگ اپنا حاصل کردہ سامان دوسروں تک پہنچارہے ہیں۔
سعودی عرب میں مستقل مقیمین کے لیے اقامہ فیس اور وزٹ ویزہ کے لیے ویزا فیس لی جاتی ہے، جو بہت لوگوں کے لیے گراں بار ہوتی ہے۔ ملک میں نافذ کرفیو کی وجہ سے یا مالی پریشانیوں کی وجہ سے لوگوں کو اس کی تمدید یا رینیول کا موقع نہیں مل سکا۔ عام حالات میں اس پر بھاری جرمانہ عائد ہوتا ہے، لیکن مصیبت کی اس گھڑی میں حکومت اور وزارت خارجہ نے ایسے لوگوں کا بھی خیال رکھا ہے، چنانچہ نہ صرف ان کو جرمانوں سے راحت دی گئی ہے بلکہ ساڑھے تین ماہ تک کے لیے ان کے ویزوں کی بلا معاوضہ تمدید کردی گئی اور ان کو ہر طرح کے جرمانہ اور فیس سے معاف کردیا گیا ہے۔ اس فیصلہ کا اطلاق اٹھارہ مارچ سے تیس جون تک ہوگا ایسے لوگ چاہے ملک میں مقیم ہوں یا وہاں سے اپنے وطنوں کو لوٹ چکے ہوں۔
اس میں ان کام گاروں کے لیے بہت بڑی راحت ہے جو وہاں کام کرتے ہیں اور اپنے ویزا کی میعاد ختم ہونے کو لے کر بہت پریشان تھے۔ ہمارے ملک نیپال میں مزدوروں اور ورکرس کی بہت بڑی تعداد سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں میں کام کرتی ہے۔ سعودی حکومت کے اس فیصلے سے ان کو بہت مسرت ہوئی ہے یہاں تک کہ نیپالی حکومت نے اس فیصلہ پر بطور خاص سعودی حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
اسی طرح مؤقت طور پر ویزا سے متعلق تمام قوانین میں کافی نرمی کی گئی ہے۔ حتی کہ ویزا کی تجدید کے لیے ایسا خود کار نظام بنایا گیا ہے جس میں کسی کو درخواست دینے اور پیروی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس اسکیم کا فائدہ دنیا کے تمام ملکوں کے سعودیہ میں کام کرنے والے ورکرس کو ہوگا۔ اس پروگرام کی اہمیت کو کرونا وائرس سے پیدا شدہ تازہ صورتحال کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے، جہاں لوگوں کو اپنی ملازمتوں کے جانے اور شہریوں پر نئے ٹیکسیز عائد کیے جانے کے خطرات سروں پر منڈلا رہے ہیں وہیں حکومت سعودی عرب نے پہلے سے مقررہ قوانین میں نرمی کرتے ہوئے پرکشش مراعات کا اعلان کیا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں آن لائن سامانوں کے منگانے کا نظام رائج ہے، جس پر حکومتیں مختلف شرح سے ٹیکس بھی لیتی ہیں، لیکن سعودی حکومت نے نہ صرف یہ کہ بیماری کے اثرات ختم ہونے تک ان کمپنیوں کو اس طرح کے ٹیکسوں سے مستثنیٰ کیا ہے بلکہ ان کی مالی مدد کا بھی اعلان کیا ہے۔ جس کا فائدہ شہریوں ومقیم لوگوں کو بھی براہ راست ہوگا۔
صرف اس چھوٹے سے پروگرام پر حکومت آٹھ سو ملین ریال خرچ کر رہی ہے یعنی ڈیڑھ ارب ہندوستانی کرنسی سے زیادہ۔
ان سب کے علاوہ اور بھی راحت رسانی کے قابل ستائش اور قابل تقلید کام ہیں جو روز وشب انجام دیے جارہے ہیں اور مختلف محکمے دن رات اس پر کام کررہے ہیں تاکہ شہریوں اور مقیمین کی تکالیف کو کم کیا جا سکے۔ سب کا سرسری تذکرہ بھی طوالت سے خالی نہ ہوگا جن سے ثابت ہوگا کہ دنیا کی سوچ کی حدیں جہاں ختم ہوجاتی ہیں سعودی عرب کی سوچ وہاں سے شروع ہوتی ہے۔
اور بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ اس معاملہ میں یورپ و امریکہ کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس کے آس پاس نہیں ٹھہرتے۔ اس کا ایک ادنی سا ثبوت یہ ہے کہ سعودی عرب کی مساجد کے بند کرنے کے فیصلہ کی ہمارے ملک اور دنیا کے دیگر ملکوں کے ایک بڑے طبقے نے شدومد سے مخالفت کی اور اب اسی کی اپیلیں جاری کرتے نہیں تھکتے، اس ملک کی بیدار مغز قیادت کا ہی نتیجہ ہے کہ اس نے کوویڈ ناینٹین کے خطرہ کو وقت رہتے بھانپ لیا اور ضروری حفاظتی وراحتی اقدامات کیے۔
اللہ تعالیٰ اس حکومت کا حامی عناصر ہو اور بلاد توحید کی ہر مصیبت و پریشانی اور حاسدوں کے شر سے حفاظت فرمائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000