نقطہ اور نکتہ عربی زبان کے دو الگ الگ الفاظ ہیں۔ دونوں ہم وزن ضرور ہیں، لیکن حروف اور معانی دونوں اعتبار سے ان میں کافی مغایرت ہے۔ ’’نقطہ‘‘ کا ماخذ (ن ق ط) ہے تو ’’نکتہ‘‘ کا (ن ک ت) یعنی تین میں سے صرف ایک حرف دونوں میں مشترک ہے اور دو حرف مختلف۔ چوں کہ اردو داں طبقہ میں صوت اور مخرج پر خاص توجہ نہیں دی جاتی، وہ ’ق‘ اور ’ک‘ میں اور ’ط‘ اور ’ت‘ میں ادائیگی کے اعتبار سے زیادہ فرق نہیں کرتے اس لیے وہ مذکورہ دونوں لفظوں کو یکساں پڑھتے اور بولتے ہیں۔
لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ بعض حضرات لکھتے وقت بھی ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کردیتے ہیں اور دونوں کے درمیان معنی کا جو فرق ہے اسے ملحوظ نہیں رکھتے، گویا وہ دونوں کو مترادف سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ کو میں نے دیکھا کہ طلبہ کو اکثر اس پر تنبیہ فرماتے رہتے تھے۔
سطور ذیل میں دونوں کے لغوی اور معنوی فرق کو واضح کرتے ہوئے اس سلسلے کی کچھ دل چسپ حکایات درج کی جارہی ہیں۔ امید کہ قارئین محظوظ بھی ہوں گے نیز اس نوعیت کی غلطیوں سے پرہیز کی کوشش کریں گے۔
لغوی معنی:
نُقْطَہ: (عربی۔۱سم۔مذکر)
(۱)بندی، صفر
(۲) مرکز (فیروز اللغات، ص:۶۸۵)
نُکْتَہ: (عربی۔۱سم۔مذکر)
(۱)باریکی، تہ کی بات
(۲)لطیفہ، چٹکلہ
(۳)وہ چمڑا جو گھوڑے کے منہ میں رہتا ہے۔ (ایضا،ص:۶۸۶)
امیر حمزہ، نایاب حسن کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ ’’نقطہ‘‘ اور ’’نکتہ‘‘ کے بارے میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں۔ قلم جب ہم صفحے پر رکھ کر اٹھاتے ہیں تو ایک نقطہ بنتا ہے، یعنی ڈاٹ۔ نقطہ (۰)، یہ کسی جگہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس کے علاوہ مرکز کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نقطۂ نظر، یعنی کسی کا مرکز نگاہ یا دیکھنے کا ڈھنگ، نقطہ کی جمع نِقاط ہے۔
جب کہ ’’نکتہ‘‘ کسی باریک بات کو کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر فلاں شعر میں غالب نے بہت اہم نکتہ بیان کیا ہے، یا اس جملے میں مصنف نے فلاں نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے وغیرہ۔ نکتہ کی جمع نکات ہے۔ یہ کہنا کہ آپ کا بیان کردہ ’’نقطہ‘‘ قابل غور ہے، غلط ہے۔ اسی طرح میرا ’’نکتۂ نظر‘‘ بھی کہنا یا لکھنا غلط ہوگا۔‘‘ (mutala1989.blogspot.com)
ایک دل جلے عربی کے نکتے:
کسی عربی نے نقطے کے نکتے اس انداز میں بیان کیے ہیں:
عنوان اس طرح لگایا:
ھل النقطۃ جعلتنا نکتۃ
فھل الفرق بین الغرب والعرب
ھو فقط في (النقطۃ)
فھم غرب – ونحن عرب فقط بالنقطۃ
وھم شعب یختار- ونحن شعب یحتار نفس النقطۃ مجددا
وھم تحالفوا- والعرب تخالفوا عادت النقطۃ مرۃ أخری
ھم تعلموا بالأقلام- ونحن تعلمنا بالأفلام
ھم یصنعون الدبابۃ- ونحن نخاف الذبابۃ…
اسی طرح ایک طویل فہرست تیار کردی ہے ۔ پھر کچھ دوسرے ناحیوں سے بھی عرب اور غرب میں موازنہ کیا ہے۔(دنیا المسلم Facebook)
بخیل کا نقطہ:
مولانا جمیل احمد صاحب، ابن مولانا عبد اللہ شائق، سابق ناظم جامعہ اثریہ دار الحدیث مئو نے ایک بار ایک صاحب کی بخیلی پر ظریفانہ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ کا معاملہ اس بخیل جیسا ہے جو ہر موقع پر اپنے بخل کو عملی جامہ پہنا لیتا ہے۔ جیسے ایک بخیل شخص کو کاتب سے لفظ ’’حَسَنْ‘‘ کی کتابت کروانی تھی۔ وہ کاتب کے پاس گیا اور اس سے حق المحنت کے بارے میں سوال کیا۔ اس نے بتایا کہ ایک حرف کا ایک پیسہ لیتا ہوں۔ بخیل شخص نے سوچا کہ لفظ ’’حسن‘‘ میں تین حرف ہیں، یہ تین پیسہ لے لے گا۔ اسے فوراً ایک تدبیر سوجھی، کاتب سے کہا کہ ہمارے لیے لفظ ’’خس‘‘ لکھ دو۔ (واضح رہے کہ لفظ ’’خس‘‘ میں صرف دو حروف ہیں، اس طرح اس کا دو پیسہ لگے گا) کاتب نے ’’حس‘‘ لکھا اور خا پر نقطہ رکھنے جارہا تھا کہ بخیل نے کہا کہ رکو! یہ نقطہ سین کے پیٹ (س) میں رکھ دو۔ اس طرح اس نے ایک پیسہ بچا لیا۔
کاتبوں کے نقطوں کے نکتے:
مولانا وحید الدین خاں نے قرآن کی حفاظت اور اس کے تحریف وتبدل سے محفوظ رہنے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہیں لکھا ہے کہ ایک کاتب کسی کتاب یا مضمون کی کتابت کررہا تھا، مسودے میں ایک جگہ ’’ہیلی کاپٹر‘‘کا لفظ آیا۔ کاتب نے اسے ’’املی کا پیڑ‘‘ لکھ مارا۔ ایک مقام پر ’’ابو دعاد‘‘ لکھا تھا، اسے ’’ابو داؤد‘‘ لکھ دیا۔
’’کاتب کی کاٹ چھانٹ‘‘ والا واقعہ بہت مشہور ہے۔ لیکن ادب اور شائستگی اسے زیر تحریر لانے سے مانع ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی کا نقطہ:
مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک مرتبہ اشتہار شائع کیا کہ میں نے براہین احمدیہ نام کی ایک کتاب تالیف کی ہے جس کی پچاس جلدیں ہیں، اور اس میں اسلام کی حقانیت اور قرآن کی صداقت پر تین سو ایسے دلائل درج ہیں جن کا جواب کسی مخالف اسلام سے ممکن نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
اس نام پر انھوں نے خوب چندہ جمع کیا اور ان کی مالی حالت جو پہلے ڈاواں ڈول تھی کافی حد تک سدھر گئی۔ پھر کئی کئی سال کے وقفے سے چھوٹے چھوٹے چار یا پانچ حصے شائع کیے۔ اور اگلے حصوں کو نہ چھاپنے کا ایک حیلہ پیش کرکے بقیہ حصوں کی طباعت بند کردی۔
میں نے اس تعلق سے کہیں پڑھا تھا کہ جب مرزا صاحب سے سوال کیا جاتا تو فرماتے کہ میاں (۵۰) اور (۵) میں ایک نقطے ہی کا تو فرق ہے۔ لیکن جس کتاب کے بارے میں ظن غالب ہے کہ میں نے اس میں یہ بات پڑھی تھی وہ فی الحال میرے پاس موجود نہیں ہے اس لیے حوالہ درج کرنے یا قطعیت کے ساتھ یہ بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ البتہ براہین احمدیہ اور اس کے اشتہار کی بات اور چار پانچ جلد میں چھپنے کی بات متحقق ہے۔ ملاحظہ ہو ’’قادیانیت اپنے آئینہ میں‘‘ از مولانا صفی الرحمن مبارک پوری،( ص:۲۷-۲۹)
نقطوں کی منتقلی کے نکتے:
جامعہ میں عالمیت اور فضیلت (کلیات) کے آخری سال کے طلبہ کو مقالہ لکھنا ہوتا ہے۔ ایسے طلبہ کی طویل فہرست ہوتی ہے اور اساتذہ مختلف امور کی رعایت اور لحاظ کرتے ہوئے ان تمام طلبہ کے لیے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں۔ منتخب موضوعات کی فہرست کئی مراحل سے گذرتے اور ایک چارٹ سے دوسرے چارٹ اور رجسٹر پر منتقل ہوتے ہوتے طلبہ تک پہنچتی ہے۔ اس نقل وانتقال میں بسا اوقات لفظوں کی ہیرا پھیری بھی ہوجاتی ہے۔
ایک مرتبہ ایک طالب علم نے مجھ سے اپنے موضوع کے بارے میں کچھ مراجع کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے کہا۔ پوچھنے پر بتلایا کہ میرا موضوع ’’فقہائے شیعہ کا تعارف‘‘ ہے۔ موضوع سن کر میں چونکا، اور مجھے اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہ لگی کہ نقطوں نے اپنا کام کردیا اور ’’فقہائے سبعہ‘‘ سے ’’فقہائے شیعہ‘‘ تک معاملہ جاپہنچا۔
ایک مقالہ جو تکمیل اور تجلید کے بعد جمع کیا جاچکا تھا اس کا عنوان دیکھ کر میں سخت حیرانی میں پڑا۔ مقالے کا عنوان کچھ اس طرح تھا: ’’شیعیت عیسویت کبری کے بعد‘‘ مقالے کے مشتملات پر نظر دوڑانے کے بعد بھی بات کچھ سمجھ میں نہ آئی۔ فوراً ذہن میں یہ بات آئی کہ یہاں نقطوں کی وجہ سے زبردست تحریف ہوگئی ہے۔ عنوان اس طرح رہا ہوگا: ’’شیعیت غیبوبت کبری کے بعد‘‘۔ شیعوں کے بارہویں امام محمد بن حسن عسکری جنھیں امام غائب کہا جاتا ہے، اور ان کی غیبوبت کا ایک پورا افسانہ ہے۔ اس تعلق سے مقالہ نگار کو لکھنا تھا، لیکن نقطوں کی ہیرا پھیری نے اسے کہیں اور پہنچا دیا۔
نقطوں کا چھڑکاؤ:
ایک صاحب کے بارے میں بتلایا جاتا ہے کہ ان کی تحریر کچھ اچھی نہیں تھی، خاص طور سے حروف پر نقطہ رکھنے میں ان کو بڑی دقت ہوتی تھی۔ اس کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ لکھتے وقت بغیر نقطے کے ہی پورا صفحہ لکھ دیتے، بعد ازاں سیاہی کی پیالی میں انگلیاں ڈبو کر پورے صفحے پر سیاہی کا چھڑکاؤ کردیتے تا کہ جگہ جگہ نقطے لگ جائیں۔ دروغ بر گردنِ راوی۔
مولانا سیالکوٹی کا جلال اور مولانا اسماعیل سلفی کے نقطے اور نکتے:
مولانا اسحاق بھٹی لکھتے ہیں:
’’ ۔۔۔۔مولانا (محمد ابراہیم) سیالکوٹی جس بات کو غلط سمجھتے اس پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔ غلطی پر ٹوکنا، برائی سے روکنا اور صحیح راہ اختیار کرنے کی تلقین کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا۔ اس ضمن میں وہ کسی کی پروا نہ کرتے تھے۔ کوئی مانے یا نہ مانے وہ ہر حال میں کلمہ حق بلند کرتے رہتے تھے۔
۔۔۔۔ حضرت مولانا محمد اسماعیل (گوجرانوالہ) بہت بڑے عالم اور کثیر المطالعہ بزرگ تھے اور مولانا سیالکوٹی کے حلقہ تلمذ میں رہنے کا انھیں شرف حاصل تھا۔ ایک دفعہ کسی مضمون میں انھوں نے لفظ (نکتہ) کو( نقطہ) یا لفظ(نقطہ) کو (نکتہ)تحریر فرمادیا۔ یہ مضمون مولانا سیالکوٹی کے مطالعہ میں آیا تو انھوں نے مولانا محمد اسماعیل صاحب کو خط لکھا جس میں اس غلطی (یا سبقت قلم) کی طرف اس انداز سے توجہ دلائی کہ تم عالم بنے پھرتے ہو، تمھیں تو یہ تک پتہ نہیں کہ نکتے اور نقطے میں کیا فرق ہے۔ اتنا عرصہ تم مجھ سے پڑھتے رہے مگر جاہل کے جاہل رہے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ عجیب وغریب خط مولانا اسماعیل صاحب نے کتنے ہی لوگوں کو دکھایا اور سنایا جو مولانا سیالکوٹی کے ’’صاحب جلال‘‘ ہونے کا بہت بڑا ثبوت تھا۔ اس سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مولانا سیالکوٹی کی اس خط سے تسلی نہیں ہوئی وہ ایک جلسے میں گوجرانوالہ تشریف لائے اور تقریر ارشاد فرمائی تو اس میں بھی اس کا ذکر فرمایا اور کہا: اسماعیل جاہل ہے لوگو! تم بھی اسے جاہل کہو، جسے یہ معلوم نہیں کہ لفظ نقطہ کہاں استعمال کیا جاتا ہے اور نکتہ کہاں بولا اور لکھا جاتا ہےـ‘‘ (بائیس نامور فقہاء ومحدثین، تالیف: مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی،تعارف مؤلف: مولانا محمد اسحاق بھٹی،ص: ۱۵۲-۱۵۳)
ماشاء اللہ
دلچسپ مضمون
اسی طرح حدیث رسول ” في الحبة السوداء شفاء من كل داء الا السام ” کو بعض لوگوں نے ” حية سوداء ” یعنی کالا سانپ پڑھا ۔
تصخيفات المحدثين میں اس طرح کے واقعات ہیں ۔
نقطوں کی کرامت پر میں نے کچھ جمع کرنا شروع کیا تھا ۔
آپ نے تصحیف فرمادیا اور نقطوں کے جنجال سے بچ نہ سکے۔ ” تصحیفات ” کو تصخیفات لکھ مارا ہے۔😅😅😅
تصحیفات۔ تصخیفات
المحدثین
یہاں بھی ہوئی نقطہ کی ہیرا پھیری!!!
تصحیفات کی جگہ آپ سے تصخیفات تحریر ہوگئی!!! 😊😊😊😊
یعنی تصحیف ہو گئی
سلامات
اسعد صاحب نقطہ پر تنقید کر رہے تھے اور خود حرف بدل ڈالے۔ ابو دُؤاد ت ١٦٠ه کو ابو دعاد کر ڈالے۔
’’ایک کاتب صاحب کو ایک کتاب کا مسودہ کتابت کے لیے دیا گیا۔ اس مسودہ میں ایک جگہ محدث ابو دعاد کا نام تھا، کاتب صاحب ابو دعاد سے واقف نہ تھے، البتہ وہ ابوداؤد کو جانتے تھے، چنانچہ انھوں نے ابو دعاد کی جگہ ابو داود لکھ دیا۔ ‘‘
(عظمت قرآن از مولانا وحید الدین خان، ص:۸۲)
نیچے کتاب کا ربط موجود ہے، از خود تشفی فرمالیں۔
https://archive.org/stream/AzmatEQuran_201411/Azmat-e-Quran#page/n82/mode/1up
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ!!!
بہت بہت شکریہ شیخ محترم!!!
یقیناً اس جانب ہم مبتدی طلبہ کی توجہ مبذول کرانا انتہائی ضروری عمل تھا، میں بھی اس تعلق سے کافی تشویش و اضطراب کا شکار تھا، الله تعالٰی آپ کو اجر جزیل سے نوازے کہ آپ نے بہت حد تک بلکہ مکمل طور پر مجھے مطمئن کردیا۔
فجزاک الله خیرا!!!
مجھے پوری امید ہے کہ آپ اس قبیل کی مزید بحثوں کو ہم طلبہ کیلیے حیطہ تحریر میں لائیں گے۔
ان شاء الله!!!!