تحیۃ المسجد ایک اہم سببی نماز ہے جس کی کما حقہ جان کاری بہت سے لوگوں کو نہیں ہے۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر کم ہی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عامۃ الناس جب کسی کو یہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو حیرت واستعجاب کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سے مانوس نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس کے تعلق سے مختلف قسم کے سوالات اور اشکالات پیش کرتے ہیں جو اس عمل سے ان کی لا علمی کو صاف ظاہر کرتے ہیں۔
تحیۃ المسجد کیا ہے؟
تحیۃ المسجد وہ دو رکعت نماز ہے جو مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنے سے قبل پڑھی جاتی ہے۔ تحیۃ کا معنی ہوتا ہے سلام یا سلامی، گویا یہ نماز مسجد کی سلامی ہوتی ہے، جس طرح کسی کے پاس جاتے ہیں تو پہلے اس سے سلام کرتے ہیں تو اسی طرح مسجد میں داخل ہونے پر ان دو رکعتوں کے ذریعہ مسجد کو سلام پیش کرتے ہیں۔
حکم:
تحیۃ المسجد واجب ہے یا سنت و مستحب؟ اس تعلق سے فقہی مذاہب کا موقف جاننے سے پہلے ان احادیث صحیحہ صریحہ پر ایک نظر ڈالیں جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں تاکہ ان احادیث کے الفاظ اور صیغوں کے ذریعہ حکم تک رسائی آسان ہو:
عن أبي قتادۃ الأنصاري أن رسول اللہ ﷺ قال:
’’إذَا دَخَلَ أحَدُکُمُ المَسْجِدَ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ أنْ یَجْلِسَ‘‘
(بخاری: ۴۴۴، ۱۱۶۳، مسلم: ۷۱۴، ابو داود: ۴۶۷، ترمذی: ۳۱۶، نسائی: ۷۳۰، ابن ماجہ: ۱۰۱۳، دارمی: ۱۴۳۳، موطا مالک:۴۴۷، احمد: ۲۲۵۲۳)
’’جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔‘‘
صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ اضافہ ہے، ابوقتادہ کہتے ہیں:
’’دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَرَسُوْلُ اللہِ ﷺ جَالِسٌ بَیْنَ ظَھْرَانَيِ النَّاسِ، قَالَ: فَجَلَسْتُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ’’مَا مَنَعَکَ أنْ ترَکْعَ َرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ أنْ تَجْلِسَ؟‘‘ قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! رَاَیْتُکَ جَالِسًا وَالنَّاسُ جُلُوْسٌ، قَالَ: ’’فَاِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلَا یَجْلِسْ حَتّٰی یَرْکَعَ رَکْعَتَیْنِ‘‘ (مسلم: ۷۱۴)
میں مسجد میں داخل ہوا اس وقت اللہ کے رسول ﷺ لوگوں کے بیچ بیٹھے ہوئے تھے تو میں بھی بیٹھ گیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: تمھیں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھنے سے کس چیز نے روکا تھا؟ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں نے دیکھا کہ آپ بھی بیٹھے ہوئے ہیں اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں (تو میں بیٹھ گیا) آپ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو جب تک دو رکعت پڑھ نہ لے نہ بیٹھے‘‘۔
امام ترمذی اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’وفي الباب عن جابر وأبي أمامۃَ وأبي ھریرۃَ وأبي ذر وکعبِ بنِ مَالک‘‘
ابو قتادہ کے علاوہ اس حدیث کی روایت ابن ماجہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح آئی ہے۔ (حدیث نمبر:۱۰۱۲)
حالت خطبہ میں تحیۃ المسجد:
اگر کوئی شخص جمعہ کے دن اس وقت مسجد میں داخل ہو جب امام خطبہ دے رہا ہو تو بھی اسے دو رکعت پڑھ کر ہی بیٹھنا چاہیے:
عن جابر قال: دَخَلَ رَجُلٌ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالنَّبِيُّ ﷺ یَخْطُبُ، فَقَالَ: أصَلَّیْتَ؟ قَالَ لَا، قَالَ: ’’فَصَلِّ رَکْعَتَیْنِ‘‘
(بخاری: ۹۳۱، مسلم:۸۷۵، ابو داود:۱۱۱۵، ترمذی:۵۱۰، نسائی:۱۴۰۰، ابن ماجہ:۱۱۱۲، دارمی: ۱۵۹۶، احمد:۱۴۱۷۱)
احادیث مذکورہ کے الفاظ ’’فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ‘‘ میں امر کا صیغہ ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’فَلا یَجْلِسْ حَتّٰی یَرْکَعَ رَکْعَتَیْنِ‘‘ میں نہی کا صیغہ ہے جو حرمت پر دلالت کرتا ہے۔ اور یہ حکم اس قدر تاکیدی ہے کہ خطبہ جمعہ کے دوران مسجد میں داخل ہونے والے کو بھی تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے حالاں کہ اس کو جمعہ کا خطبہ سننا ہے، بلکہ اسے بیٹھنے کے بعد بھی اللہ کے رسول نے حکم دیا کہ اٹھ کر تحیۃ المسجد پڑھے۔
ان تمام تاکیدات کے بعد مذاہب فقہیہ میں اسے سنت یا مستحب کا ہی درجہ دیا گیا ہے اور اس کے لیے اپنے اپنے طور پر دلیلیں دی گئی ہیں جن کی تفصیل طول طویل ہے۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’وجوب کا قول بلا شبہہ قوی ہے اور اس کے قائلین پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ اس کے بعد وجوب کے دلائل ذکر کیے ہیں۔ پھر عدم وجوب کے قائلین کے دلائل پیش کرکے ان کے ضعف کو بتلایا۔ لیکن آخر میں کہا ہے کہ ’’میں تحیۃ المسجد کے وجوب ہی کا قائل تھا لیکن بعد میں عدم وجوب کا قول میرے نزدیک راجح ٹھہرا، اس کے باوجود اگر کوئی وجوب کا قائل ہے تو ہم اس کو برا بھلا نہیں کہتے نہ اس پر اعتراض کرتے ہیں۔‘‘ (Islalmway.net)
مختصر یہ کہ عدم وجوب کے قائلین بھی اسے سنت مؤکدہ مانتے ہیں، بہر حال واجب اور سنت کی اس بحث میں پڑے بغیراس تاکیدی حکم پر عمل اور عمل کی ترغیب کی ضرورت ہے۔ احیائے سنت، فروغ حدیث اور عمل بالحدیث جس جماعت کا امتیاز ہے اس جماعت کے افراد کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جمعہ کے خطبوں میں اور مساجد ومدارس کے دروس میں، اسی طرح دیگر دعوتی وتعلیمی نشستوں میں اس کا بیان ہونا چاہیے، ساتھ ہی عمل کے ذریعہ اسے فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
واضح رہے کہ راجح قول کے مطابق ان اوقات میں بھی تحیۃ المسجد پڑھی جائے گی جن اوقات میں نوافل پڑھنا مکروہ ہے۔
مساجد میں عیدین کی نماز اور تحیۃ المسجد:
سال رواں میں اور اسی طرح گذشتہ سال بھی کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے عیدین کی نماز بالعموم مساجد میں ہی ادا کی گئی، عیدگاہوں میں حسب معمول یہ نماز نہیں ادا کی جاسکی۔ اس موقع پر بہت سے خطباء و دعاۃ نے تقریری وتحریری طور پر وضاحت فرمائی کہ مسجد میں عیدین کی نماز ادا کرنے کی صورت میں مسجد میں داخل ہونے اور عید کی نماز ادا کرنے سے قبل بیٹھنے کی نوبت آئے تو تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھا جائے گا، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیثوں سے یہ حکم ثابت شدہ ہے۔ الحمد للہ اس پیغام کے عام ہونے پر بہت سے لوگوں نے اس سنت پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کی۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض اہل علم نے اس کے برعکس تبلیغ کی جس کی وجہ سے عوام تذبذب کا شکار ہوگئے۔ حالاں کہ یہ کوئی نزاعی مسئلہ نہیں تھا لیکن اسے نزاعی بنا دیا گیا۔ اس سلسلے میں کچھ عرض کیا جائے تو ’’چھوٹا منھ بڑی بات‘‘ والا معاملہ ہوگا، اس لیے اپنی طرف سے کچھ نہ کہہ کر میں کچھ مشہور ومعتبر علماء کے اقوال و فتاوی نقل کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔
(۱) شیخ ابن باز رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’عیدین کی نماز جب مسجد میں پڑھی جائے تو عیدین کے لیے آنے والے کو تحیۃ المسجد پڑھنا مشروع ہے اگرچہ ممنوعہ اوقات ہی میں کیوں نہ ہو، کیوں کہ یہ سببی نماز ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کا یہ قول عام ہے کہ ’’اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلَا یَجْلِسْ حَتّٰی یُصَلِّيَ رَکْعَتَیْنِ‘‘ یعنی جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔ البتہ اگر عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھی جائے تو اس سے پہلے کوئی نماز پڑھنا مشروع نہیں ہے۔۔۔۔‘‘ (مجموع فتاوی الشیخ ابن باز:۱۵؍۱۳) fatawapedia.com
(۲) اسی نوعیت کا جواب شیخ عبد اللہ بن جبرین سے بھی منقول ہے۔ (ملاحظہ ہو فتاوی ابن جبرین ibn-jebreen.com)
(۳) شیخ صالح الفوزان کا بھی یہی فتوی ہے۔ (لقاء مفتوح بالطائف: ۱۲؍۸؍۱۴۳۴ھ، شبکۃ الأثري)
(۴) فتاوی اصحاب الحدیث (حافظ عبد الستار الحماد) ج۲، ص:۱۳۲ میں ہے:
’’ہاں اگر کسی عذر کی بنا پر مسجد میں نماز عید پڑھی جائے تو وہاں تحیۃ المسجد پڑھے جاسکتے ہیں۔‘‘
(۵) فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ (حافظ ثناء اللہ مدنی بن عیسیٰ خاں) ج۳، ص:۷۶۵ میں ہے:
’’جواب: نماز عید اگر مسجد میں پڑھی جائے تو عموم حدیث کے پیش نظر ’’تحیۃ المسجد‘‘ پڑھنی چاہیے۔‘‘
(۶) نعمۃ المنان مجموع فتاوی الدکتور فضل الرحمن (جامعہ محمدیہ مالیگاؤں) ج:۲،ص:۳۸۰، سوال نمبر (۵۰۰)میں ہے:
سوال: اس سال بارش کی وجہ سے عید کی نماز لگتا ہے کہ مسجد میں ادا کرنی پڑے گی تو مسجد میں آنے والے کیا تحیۃ المسجد پڑھیں گے یا نہیں؟ کیوں کہ نماز عید سے پہلے کوئی نماز نہیں ہے؟
جواب: مسجد میں آنے والے تحیۃ المسجد کی نیت سے دو رکعت پڑھ سکتے ہیں، اس لیے کہ حدیث ہے:
’’اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلَا یَجْلِسْ حَتّٰی یُصَلِّيَ رَکْعَتَیْنِ‘‘ (صحیح البخاری:۲؍۷۰ [۱۱۶۷])
جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو دو رکعتیں پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔
اس کو عید کی سنت سمجھ کر نہ پڑھیں گے، کیوں کہ اس کا ثبوت نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ نماز عید سے قبل عید گاہ میں کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ انتہی۔
خلاصہ کلام:
۱-مسجد میں آنے کے بعد بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھنے کا تاکیدی حکم ہے۔
۲-خطبہ جمعہ کے دوران آنے والے کو بھی تحیۃ المسجد پڑھ کر ہی بیٹھنا چاہیے۔
۳-اوقات مکروہہ میں بھی تحیۃ المسجد پڑھی جاسکتی ہے۔
۴-اگر کسی وجہ سے عید کی نماز مسجد میں پڑھنا ہو اور نماز کے لیے مسجد میں جانے کے بعد نماز سے پہلے بیٹھنے کی نوبت ہو تو تحیۃ المسجد پڑھ کر ہی بیٹھیں گے۔
۵-عید کی نماز کے موقع سے تحیۃ المسجد کے طور پر پڑھی جانے والی نماز کا تعلق عید کی نماز سے نہیں بلکہ مسجد سے ہے۔
اللہ تعالی ہمیں سنت سے محبت اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ماشاءاللہ بہت خوب اللّٰہ آپکے قلم میں مزید طاقت عطاء فرمائے آمین یارب العالمین