کوررونا وائرس نے دنیا کی فولادی طاقتوں کا بھی پتہ پانی کردیا ہے، لحظہ بہ لحظہ بڑھتے ہوئے لاشوں کے ڈھیر اور موت کے تانڈو نے سب کے اوسان خطا کردیے ہیں، خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والے سپرپاور بے بس ہوکر لاشیں گننے میں مصروف ہیں، بات بات پر عالمی برادری پر دھونس جمانے والا امریکہ بزرگ تو ملک میں لاکھوں کی اموات کا خدشہ ظاہر کررہا ہے، دنیا کے وہ جنت نظیر شہر جو اپنی چمک دمک اور برقی قمقموں سے آنکھوں کو خیرہ کردیا کرتے تھے، ان طلسماتی شہروں کی نیرنگیاں بھی قبرستان کے پراسرار سناٹوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔
ایک معمولی وائرس نے کیسا محشر بپا کیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بھاگ رہے ہیں، ایک کھانسی کی آواز کسی بم بلاسٹ کی طرح بھیڑ میں بھگدڑ پیدا کردیتی ہے، دنیا کے کج کلاہوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں، خدا کے لہجے میں بات کرنے والوں کے لہجے سے بے چارگی جھانک رہی ہے، اندازہ لگائیے کہ قدرت نے ایک جھٹکے میں دنیا کو کس مقام پر لاکر کھڑا کردیا ہے؟
ایک ایسے وقت میں جبکہ دنیا ترقی اور طاقت کے نشے میں دھت تھی، انسان خاموش لب ولہجے میں قدرت کو چیلنج کرتا نظر آرہا تھا، طاقت کے اہنکار میں ڈوبے ملکوں کے صدر اور وزراء کسی کو خاطر میں نہیں لارہے تھے، ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر پر بیٹھ کر “من اشد منا قوۃ” کا نعرہ لگا رہے تھے، پھر وہ اسی طاقت کے نشے میں فرعون اور نمرود کے راستے پر چل پڑے تھے، وقت نے تیور بدلا اور ایک غیر مرئی وائرس نے ان کی زندگیاں اجیرن بنادی ہے۔ جی ہاں ایک ایسا وائرس جو خالی آنکھوں سے نظر بھی نہیں آسکتا ہے، وہی آج سب پر دہشت طاری کیے ہوئے ہے، سچ ہی تو کہا ہے میرے رب نے “وما يعلم جنود ربك الا هو”۔
احوال وظروف کا دینی تجزیہ بتاتا ہے کہ یہ مہاماری انسانی ہاتھوں کی کمائی اور دنیا میں بڑھتے ہوئے ظلم وجور کا خمیازہ ہے، دنیا کے وہ بڑے حکمران جن کی چودھراہٹ پوری دنیا پر قائم ہے، پورے کرۂ ارض پر جن کا طوطی بولتا ہے، جن کے اشارۂ ابرو پر جیتی جاگتی بستیاں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوجاتی ہیں، یہ وقت ان کے لیے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنے کا ہے، کیونکہ دنیا میں ہونے والی بے انصافیوں اور حق تلفیوں کے وہ سب سے بڑے ذمے دار ہیں، گذشتہ تاریخ میں بے پناہ انسانی بربادیوں کا کریڈٹ انہی کے سر جاتا ہے۔
ماضی قریب میں مہذب دنیا کے ہاتھوں کمزوروں پر کیسی کیسی قیامتیں گذر گئی ہیں، انسانی زندگیوں پر کتنے خون آشام شب وروز آئے ہیں، یہ صرف وہ سینے ہی محسوس کررہے ہیں جو ایک دھڑکتا ہوا دل دردمند رکھتے ہیں، عالمی امن وانصاف کے قیام کے لیے دنیا میں اقوام متحدہ جیسا ادارہ موجود ہے لیکن وہی اقوام متحدہ اب طاقتور اور مغرور ممالک کا زر خرید غلام بن چکا ہے، اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی نگرانی میں ہی دنیا میں معصوموں کا خون بہتا رہا، انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح ہلاک ہوتے رہے، جگر خراش چیخیں ہواؤں میں تحلیل ہوتی رہیں، انسانی آہ وکراہ مکانات کے خوفناک ملبوں میں دم توڑتی رہیں، معصوم زندگیاں حکمرانوں کی انا اور ضد کے بھینٹ چڑھتی رہیں، ایک ملک کے بعد دوسرا ملک قہرمانیت کا مشق ستم بنتا رہا، لیکن امن وانصاف کے ٹھیکیدار صرف زبانی مذمت پر اکتفا کرتے رہے، فلسطین میں یہودی جارحیت کا تماشا پوری دنیا مل کر دیکھتی ہے، تباہی کے اعدادو شمار سماعتوں پر بار لگنے لگے ہیں، اب تک لاکھوں نہتے مسلمان اسرائیل کے مہلک ہتھیاروں کی خوراک بن چکے ہیں، لاکھوں بے گناہ قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، ان بے بس مسلمانوں پر خطرناک قسم کے سائنسی تجربات بھی کیے جارہے ہیں۔
برما میں مسلح ظلم وجور سے بھی دنیا گاہے بگاہے محظوظ ہوتی رہتی ہے، روہنگیا سے بھاگ کر مختلف ممالک میں قسمت کے رحم وکرم پر زندگی گذارنے والے روہنگیائی مسلمان غیرمحفوظ مستقبل کی طرف زندگی کی گاڑی دھکیل رہے ہیں، افغانستان پر حملہ ہوتا ہے اور پھر عراق پر یلغار ہوتی ہے، دھیرے دھیرے دونوں ممالک عبرت کا نشان بنا دیے جاتے ہیں، ملک شام میں کئی ممالک مل کر اندھادھند بمباری کرتے ہیں، ہنستی کھیلتی آبادیوں اور خوبصورت شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا جاتا ہے، قیامت کےگذرجانے کے بعد کانوں کو کھنڈرات میں دبی انسانی چیخیں سننا بھی نصیب نہیں ہوتیں۔
جان بچاکر ہجرت کرنے والے لاکھوں رفیوجی اگر خوفناک سمندری موجوں سے بچ گئے تو کیمپوں میں گھٹ گھٹ کر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، قسطوں میں مرنے کا تجربہ کوئی ان سے معلوم کرے، بخت کی کالک یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی ہے، مہاجر کیمپوں سے لیک ہوتی خبروں کے مطابق شادی کے نام پر خواتین کی خرید وفروخت اور استحصال بھی چلتا رہتا ہے، حالات اتنے دگرگوں ہیں کہ کہیں کہیں کیمپوں میں زندگی موت پر رشک کررہی ہوتی ہے، کلیجے شق کردینے والی ایسی دردناک داستانیں ہیں کہ حساس دل ودماغ سننے کی تاب نہیں لاسکتے، بے چارے کریں تو کیا کریں؟ بس اپنے زندہ بچ جانے کی سزا بھگت رہے ہیں، آخر اس دلدوز انسانی بحران کا ذمے دار کون ہے؟ خون مسلم کی ارزانی اور تاحد نظر لاشوں کی بے توقیری کا قصوروار کون ہے؟آخر اقوام متحدہ کا حقوق انسانی کمیشن کس مرض کی دوا ہے؟ سلامتی کونسل کے ناپاک وجود کا مطلب کیا ہے؟وقفے وقفے سے چھوٹے چھوٹے مسائل کو بنیاد بنا کر دنیا پر اپنا رعب جھاڑنے والے عالمی چودھری کیا گونگے اور بہرے ہوگئے تھے؟ پھرقدرت کو جلال کیوں نہیں آئے گا؟
چائنا میں لاکھوں مسلمان ڈٹیشن سینٹروں میں قیدو بند کی مصیبت کاٹ رہے ہیں، اپنی تہذیب وکلچر پر جان چھڑکنے والے مسلمانوں پر چینی کلچر مسلط کیا جارہا ہے، انسانی تاریخ کا جو بدترین ظلم ان پر ہورہا ہے اس کی کربناک تفصیل ابھی تک راز ہے، خیر سے کورونا وائرس نے وہیں سے اپنے عالمی ٹور کا آغاز بھی کیا ہے۔
حال میں کشمیر کا المیہ اور درد وکرب میں ڈوبے واقعات بڑے روح فرسا ہیں، بند انٹرنیٹ کے پیچھے آہوں اور سسکیوں کا طوفان ہلکورے لے رہا ہے، کئی مہینوں سے پورا کشمیر ایک قید خانے میں بدل دیا گیا ہے، ساتھ ہی ملک ہندوستان میں ایک بہت بڑی انسانی تباہی کا منصوبہ تیار کھڑا ہے، آرایس ایس کا سو سالہ مسلم کش منصوبہ اب شرمندہ تکمیل ہوا چاہتا ہے، ملک کی دوسری بڑی اکثریت اپنے جسم پر بربادی کا ناسور لیے ایک نئی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، اقتدار کی تبدیلی نے موسم ایسا تبدیل کیا کہ پانچ سال تک خونیں بھیڑ کے ہاتھوں انسانیت لہولہان ہوتی رہی، رونگٹے کھڑے کردینے والے ویڈیوز بتا رہے تھے کہ انسانی رگوں میں خون نہیں بلکہ آر ایس ایس کا پلایا ہوا نفرت کا زہر جوش مار رہا ہے۔ دوسرے الیکشن نے مزید حوصلہ دیا تو ملک کے مسلمانوں پر ہٹلر کا تجربہ دہرانے کے لیے کالے قوانین بنائے جانے لگے، ہولناک فسادات کی تاریخ سے رستا ہوا خون مسلم پیاسی حسرتوں کے لیے ناکافی تھا، دہلی سمیت ماضی کی بربادیوں سے جارح ہندتوا کا کلیجہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا، دانت میں لگا ہوا خون مزید انسانی بلیدان کا خواہاں تھا۔
عدالتی چارہ جوئی کی کہانی مصیبت بالائے مصیبت ہے، ہر زخم کے بعد عدالتوں سے گہار لگائی گئی تھی لیکن ایک تھکا دینے والی دوڑ دھوپ کے بعد بھی انصاف ندارد، انصاف کے مندر ناانصافی کا سب سے بڑا اڈہ بن چکے ہیں، تبھی بابری مسجد ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے ہاتھ سے چلی گئی، قید خانوں میں ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہے نوجوان بوڑھے ہوکر جیلوں سے باہر آرہے ہیں۔ یہ سب تو ہو ہی رہا تھا اب اکثریت کے بل پر ظالمانہ قوانین بنا کر قوم کو اجتماعی ہلاکت کے دہانے پر پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس کی پہلی کڑی این پی آر تھی جس کی کارروائی شروع ہونے ہی جارہی تھی کہ کورونا وائرس آجاتاہے۔ یہ کیسا اتفاق ہے کہ این پی آر کی سرحد سے تھوڑا پہلے ہی کورونا وائرس ملک عزیز میں آدھمکتا ہے، مسلمانوں کی تباہی کا سفر این پی آر سے شروع ہوکر این آر سی اور سی اے اے سے ہوتا ہوا سیدھا ڈٹینشن سینٹر کی طرف جاتا تھا، بائیکاٹ کا اعلان کس طرح کے نتائج سے روبرو کراتا؟ وہ تو ایک انچ پیچھے نہ ہٹنے کا چیلنج بتا ہی رہا تھا، این آر سی کے پل صراط سے گذارنے کے لیے حکومت ہر حد سےگذرنے کے لیے تیار تھی۔ راجدھانی میں فساد کروادیا گیا تو باقی اور کس چیز کا حوصلہ نہیں ہے؟ ابھی تک تو اندیشوں اور وساوس میں صرف ایک قوم جگر کا خون پی رہی تھی لیکن کورونا نے مساوات کا بڑا خیال کیا ہے، خوف سب کو بانٹ دیا ہے، ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک خوف وہراس کی چادر تان رکھی ہے، سب کو مصیبت میں دیکھ کر چوطرفہ گھٹن کچھ ہلکی ضرور ہوئی ہے۔
سچ پوچھو تو کورونا وائرس پوری دنیا کے ظالم حکمرانوں کے لیے تازیانہ عبرت ہے، یہ عالمگیر عذاب عالمی ناانصافیوں اور چیرہ دستیوں پر قدرت کا انتقام ہے، دنیا کا خالق انسانوں کو ظلم پر ڈھیل دیتا ضرور ہے لیکن پاپ کا گھڑا بھر جانے کے بعد گرفت بھی کرتا ہے، مکافات عمل کا چابک وہ مجرموں پرضرور برساتا ہے لیکن مظلوموں سے انتظار کرواتا ہے، اس وقت پوری دنیا کورونا کی شکل میں قدرت کے غیظ وغضب کو جھیل رہی ہے، رہی بات مسلمانوں کے بھی مبتلائے عذاب ہونے کی تو وہ دور گیا جب کشتئی نوح ہوا کرتی تھی یا پیغمبر کو عذاب سے پہلے بستی سے نکال دیا جاتا تھا، اس خون چکاں دورانیے میں مسلمانوں کا سرد رول اور بے حسی رحمتوں کے در وا نہیں کرےگی؟ ظالموں کے ساتھ شریک ظلم کو بھی چند تھپیڑے لگتے ہیں، گیہوں کے ساتھ گھن بھی پیسا جاتا ہے، قانون قدرت یہی ہے، ہاں اگر اس زوال پذیر انسانی بھیڑ سے وہ صاحب کردار مومن نکل آئیں جن کے کرشماتی دعائے موسوی سے عذاب ٹل جایا کرتے تھے تو خیر کی امید کی جاسکتی ہے۔
یہ کاپی پیسٹ نہیں ہو رہاہے برائے کرم کوئی لنک دیجئے جس سے کاپی پیسٹ ہوگا۔