“مصنف عبد الرزاق“ کا مفقود حصہ اور…..

فاروق عبداللہ نراین پوری حدیث و علوم حدیث

”مصنف عبد الرزاق“ کا مفقود حصہ اور اس میں موجود نور نبوی پر دلالت کرنے والی”حدیث جابر“ کی حقیقت


گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر نور نبوی پر دلالت کرنے والی ”حدیث جابر“ کافی گردش کر رہی تھی اور بعض احباب کی طرف سے اس کے متعلق سوالات آ رہے تھے کہ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اور کیا یہی عقیدہ درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور سے پیدا کیے گئے ہیں؟
اس مزعوم حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:

عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أول شئ خلقه الله تعالى، فقال: هو نور نبيك يا جابر! خلقه الله، ثم خلق فيه كل خير، وخلق بعده كل شيء… الحديث“.

(جابر بن عبد اللہ رضی ا للہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پہلی چیز جسے اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے اس کے متعلق دریافت کیا۔ تو آپ نے فرمایا: اے جابر وہ تیرے نبی کا نور تھا، اللہ تعالی نے اسے پیدا کیا، پھر اس میں ہر طرح کی بھلائی پیدا کی اور اس کے بعد ہر چیز کو پیدا کیا…الحدیث)۔
ایک خاص فرقہ کی طرف سے اس حدیث کی کافی تشہیر اور اسے صحیح ثابت کرنے کی بڑی کوشش کی گئی۔
اگر کوئی اس کی ظاہری سند کو دیکھے تو دھوکہ کھا سکتا ہے اور اسے صحیح کہہ سکتا ہے کیونکہ بظاہر اس کی سند پر کوئی غبار نہیں۔ لیکن حقیقت کچھ اورہی ہے۔ اس مضمون میں اسی چیز کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔
تلاش بسیار کے باوجود یہ حدیث احادیث کی معتمد اور مُسنَد کتابوں میں نہیں ملی۔ البتہ سن 1425ھ- 2005ء میں ”الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف لعبد الرزاق الصنعانی“ کے نام سے بیروت سے ایک کتاب چھپی ہے جس کے غلاف پر ”بتحقیق الدکتور عیسی بن عبد اللہ بن محمد بن مانع الحمیری“ لکھا ہوا ہے۔ محقق کتاب نے اسے مصنف عبد الرزاق کا مفقود حصہ ثابت کرنے کی پر زور کوشش کی ہے۔ اور اس پر ڈاکٹر محمود سعید ممدوح مصری شافعی نے تقریظ لکھ کر اس کی تائید کی ہے۔
اس کتاب میں یہ حدیث موجود ہے۔ لیکن در حقیقت یہ مصنف عبد الرزاق کا مفقود حصہ نہیں بلکہ امام عبد الرزاق صنعانی کی طرف ایک جھوٹی نسبت ہے۔ اور اس نسبت میں ناسخ مخطوط کے ساتھ ساتھ محقق اور مقرظ بھی شریک ہیں۔
محقق کتاب نے اسے صحیح ثابت کرنے کے لیے بہت سارے جھوٹ اور بے بنیاد دلیلوں کا سہارا لیا ہے۔
اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ”مصنف عبد الرزاق“ شیخ حبیب الرحمن اعظمی کی تحقیق سے چھپی ہوئی ہے۔ کتاب کی ابتدا ” کتاب الطہارہ“، ”باب غسل الذراعین“ سے ہوتی ہے۔ اس طبعہ میں شروع کتاب سے ایک یا دو ورقے ساقط ہیں۔ (ملاحظہ فرمائیں: مجموع فی کشف حقیقۃ الجزء المفقود من مصنف عبد الرزاق للشیخ محمد زیاد التکلہ ص69)۔
اس سقط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عیسی بن عبد اللہ الحمیری نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نور نبوی پر دلالت کرنے والی حدیث جابر رضی اللہ عنہ انہی ساقط حدیثوں میں سے ہے۔ اس کے لیے انھوں نے ایک مخطوط کا سہارا لیا ہے۔ جس کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ اسے سنہ 933 ہجری میں بغداد میں اسحاق بن عبد الرحمن السلیمانی نامی ایک ناسخ نے لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں یہ مخطوط ایک ہندوستانی بھائی ڈاکٹر سید محمد امین برکاتی قادری سے ملا تھا۔ انہی کے مطابق اس نسخہ پر کوئی سماع ہے نہ اسناد۔ اس مخطوط میں مطبوعہ نسخے پر دس ابواب کی زیادتی ہے۔ جس میں سے پہلا باب ”تخلیق نور محمد“ کے تعلق سے اور باقی نو ابواب وضوء کے تعلق سے ہیں۔
لیکن در اصل یہ مخطوط جعلی ہے۔ مصنف عبد الرزاق سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ اسی وجہ سے جب یہ کتاب مارکیٹ میں آئی تو متخصصین علماء کی ایک جماعت نے اس پر کافی ردود لکھے۔ جن میں سے سب سے مفصل اور قوی رد شیخ ڈاکٹر محمد زیاد بن عمر التُکلہ کا تھا۔ شیخ نے اس تعلق سے دو مستقل رسالے لکھے:
پہلا:

دفاع عن النبي صلى الله عليه وسلم وسنته المطهرة وكشف تواطؤ عيسى الحميري ومحمود سعيد ممدوح على وضع الحديث (تفنيد القطعة المكذوبة التي أخرجها ونسباها لمصنف عبد الرزاق).

اور دوسرا:

الإزهاق لأباطيل الإغلاق.

پھر جن علماء اور محدثین نے اس تعلق سے مقالات لکھے یا بیانات جاری کیے انھیں بھی جمع کیا اور مذکورہ دونوں رسالوں کے ساتھ اسے ”مجموع في كشف حقيقة الجزء المفقود (المزعوم) من مصنف عبد الرزاق، بيانات لجماعة من العلماء والمحدثين“ کے نام سے نشر کیا۔
اس مضمون کو تیار کرنے میں ان رسالوں سے کافی مدد لی گئی ہے۔ فجزاہ اللہ عنی وعن المسلمین خیر الجزاء
عیسی الحمیری نے جس مخطوط پر اعتماد کرتے ہوئے مذکورہ کتاب کی نسبت امام عبد الرزاق صنعانی رحمہ اللہ کی طرف کی ہے اس کی حقیقت سے خود ان کے ہی ایک قریبی شیخ ادیب الکمدانی حفظہ اللہ نے پردہ اٹھایا ہے۔ شیخ کمدانی اوقاف دبی میں جب تک عیسی الحمیری کو وہاں سے بھگایا نہیں گیا تھا ان کے زمیل عمل تھے۔ دوران رفاقت انھیں اس مخطوط کی عیسی الحمیری سے ہی جانکاری ملی۔ شیخ کمدانی کا کہنا ہے کہ عیسی الحمیری کی ”حدیث نور“ کے متعلق بے انتہا شغف دیکھ کر ایک ہندوستانی بریلوی نے انھیں یہ خود ساختہ جعلی مخطوط بطور ہدیہ دیا تھا۔ جب ہندوستان سے انھیں یہ مخطوط موصول ہوا تو انھوں نے ایک بڑی پارٹی بھی دی تھی۔
حمیری نے کمدانی کے سامنے جب اس مخطوط کو پیش کیا تو اس کے اوراق اور خط کو دیکھ کر انھوں نے فورا اس کےجعلی ہونے کی بات کی۔ بلکہ شیخ کمدانی کے مطابق اس کی عمر دو سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ لیکن حمیری اپنے موقف پر اڑے رہے۔
پھر شیخ کمدانی نے حمیری سے یہ طلب کیا کہ جس ہندوستانی شخص نے آپ کو یہ مخطوط فراہم کرایا ہے ان سے پوچھیں کہ اس کا اصل نسخہ کہاں ہے جس سے اس مخطوط کو نسخ کیا گیا ہے۔ جب اس ہندوستانی سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ اسے سویت یونین کی ایک لائبریری سے نسخ کیا گیا ہے جو کہ دوران جنگ نذر آتش ہوگئی ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں شیخ محمد بن زیاد کا مذکورہ مجموعہ ص 72-73)۔
غور فرمائیں ایک طرف خود مالک مخطوط کا یہ بیان ہے اور دوسری طرف حمیری یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس مخطوط کو دسویں صدی میں لکھا گیا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں: الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف ص 10)۔
شیخ کمدانی کے اس بیان کے علاوہ شیخ محمد زیاد التکلہ نے بہت سارے ایسے دلائل اور قرائن ذکر کیے ہیں جن سے اس مخطوط کا جعلی اور گھڑا ہوا ہونا واضح ہوجاتا ہے۔ ذیل میں اس نسخہ کے جعلی ہونے کے قرائن ذکر کیے جارہے ہیں۔ جن میں اکثر وہ قرائن ہیں جنھیں شیخ محمد زیاد التکلہ نے بیان کیا ہے۔
1 – اس نسخہ کے مشکوک ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ مذکورہ بریلوی اور حمیری کے علاوہ کہیں اور اس نسخہ کا سراغ نہیں مل سکا۔ کیونکہ بریلویوں کے نزدیک نور نبوی کا باطل عقیدہ منتشر ہے۔ اور علم حدیث میں یہ مسکین ہوتے ہیں۔ اگر اس مخطوط کی نسبت صحیح ہوتی تو دوسروں کے پاس بھی پایا جاتا۔
سچ کہا ہے امام شعبہ رحمہ اللہ نے کہ شاذ حدیثیں شاذ لوگوں کی طرف سے ہی آتی ہیں۔ (دیکھیں: مقدمہ ابن الصلاح ص119)۔
2 – اس مخطوط پر گرچہ لکھا گیا ہے کہ اسے دسویں صدی ہجری میں لکھا گیا ہے لیکن در حقیقت یہ جعلی مخطوط ہے جو کہ اس کے خط سے ہی واضح ہے۔ اس کا خط بالکل اسی طرح ہے جس طرح چودہویں صدی ہجری کے بر صغیر کے حجری طبعات میں ہمیں نظر آتا ہے۔ بلکہ برصغیر سے چھپے قرآن کے نسخوں میں آپ کو وہی خط ملے گا جو اس مخطوط میں ہے۔ مخطوطات سے شغف رکھنے والا اسے بآسانی پہچان سکتا ہے، جیسا کہ شیخ عمر بن سلیمان الحفیان – جنھوں نے معہد المخطوطات قاہرہ سے علم المخطوطات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے- کا کہنا ہے۔
اس لیے اسے دسویں صدی ہجری کا باور کرانا دھوکہ بازی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
3 – حمیری نے کتاب کے شروع میں جن دو صفحات کی فوٹو پیش کی ہے اس میں کافی غلطیاں موجود ہیں، عجمیت واضح ہے۔ اسی وجہ سے مجبورا انھیں کچھ جگہوں پر اس مخطوط پر بے اعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی طرف سے تعدیل اور حذف واضافہ کی ضرورت پڑی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اس مخطوط کا وصف بیان کرتے ہوئے اسے نہایت ہی متقن نسخہ قرار دیا ہے۔
4- اس نسخہ پر نہ کوئی سماع ثابت ہے اور نہ اس کی کوئی سند موجود ہے۔ جب کہ اس جیسی مشہور کتاب پر ان چیزوں کا پایا جانا عام بات ہے۔ ناسخ کے نسخ کرنے کا طریقہ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کی سند ہونی چاہیے۔ کیونکہ وہ ہر حدیث کی سند کو ”عبد الرزاق عن فلان عن فلان“ سے شروع کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عبد الرزاق کے نام کی تصریح ان کے راوی کی طرف سے ہے جس کا یہاں علم نہیں۔ آخر ایسا کیوں؟
5 – اس مخطوط کے آخری صفحے میں لکھا ہے

وقد تم الفراغ من نسخه ضحى يوم الإثنين التاسع من شهر رمضان الميمون سنة ثلاث وثلاثين وتسع مئة من هجرة سيد المرسلين وأكمل الخلق أجمعين صلى الله عليه وسلم.

اس میں اس مخطوط کی تاریخ ذکرتے ہوئے اس کے ہجری سن ہونے کی صراحت ہے۔ حالانکہ اس زمانے تک تاریخ کے ساتھ اس کے ہجری تاریخ ہونے کی صراحت نہیں کی جاتی تھی۔ صرف تاریخ لکھی جاتی، اس کے ساتھ ہجری یا عیسوی کی تعیین نہیں کی جاتی تھی۔ خلافت عثمانیہ کے آخری ایام میں جب عیسوی تاریخ کی چلن بڑھی تب لوگوں نے تمییز کے طور پر تاریخ کے ساتھ ہجری لکھنا شروع کیا تاکہ التباس نہ ہو، جیسا کہ شیخ تقی الدین ہلالی، عبد الرحمن البانی، محمود شاکر اور بکر ابو زید رحمہم اللہ وغیرہم نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں: مجموع فی کشف حقیقۃ الجزء المفقود من مصنف عبد الرزاق للشیخ محمد زیاد التکلہ ص85)۔
6 – دسویں صدی ہجری میں بغداد میں مصنف عبد الرزاق کا لکھا جانا بڑا عجیب وغریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس سے تین صدی پہلے ہی تاتاریوں کے ہاتھوں اس کی اکثر لائبریریاں ختم ہوچکی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی علم حدیث اور اس کے پڑھنے والے بھی ناپید ہونے کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ بلکہ مُسنِد بغداد السراج القزوینی رحمہ اللہ (متوفی 750ھ) نے اپنے ”مِشیخَہ“ میں ”مصنف عبد الرزاق “ کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے۔ جب کہ انھوں نے ”سنن عبد الرزاق“ کا تذکرہ کیا ہے۔ اور ”سنن عبد الرزاق“ یہ امام طبرانی کی تالیف ہے جسے انھوں نے دبری عن عبد الرزاق کے طریق سے روایت کیا ہے۔
جب امام قزوینی کے دور میں ساتویں صدی ہجری میں مصنف عبد الرزاق کی یہ حالت تھی حالانکہ اس وقت تک علم حدیث کے تعلق سے کچھ حد تک شغف باقی تھا تو دسویں صدی ہجری میں اس کی حالت کیا ہوگی؟ کیا ایسے حالات میں یہ ممکن نظر آتا ہے کہ دسویں صدی ہجری میں مصنف عبد الرزاق کے نسخے بغداد میں باقی رہے ہوں جن سے اسحاق بن عبد الرحمن السلیمانی نے نسخ کیا ہو؟ (ملاحظہ فرمائیں : مجموع فی کشف حقیقۃ الجزء المفقود من مصنف عبد الرزاق للشیخ محمد زیاد التکلہ ص85)۔
مزید یہ کہ سن 914 ہجری میں بغداد میں جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ سن 914 ہجری سے 941 ہجری تک بغداد پر صفویوں کا کنٹرول اور رافضیت کا بول بالا تھا۔ (دیکھیں: التاریخ الاسلامی للشیخ محمود شاکر 11/14-15)۔
7 – اس کے ناسخ اسحاق بن عبد الرحمن السلیمانی یہ کون ہیں؟ کیا ان کی کہیں سوانح حیات بھی موجود ہے؟ یا یہ ایک خیالی نام ہے؟
جب اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ تو آخر ایک ایسی زیادتی (اضافے) کے لیے ان پر کیسے اعتماد کیا جائے جو پوری امت میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ اور جس میں احادیث بھی ایسے ذکر کی گئی ہوں جو شرعی نصوص سے متصادم ہیں؟ بلکہ جن کے توسط سے یہ مخطوط ملا ہے ان کے بارے میں پتہ ہے کہ ان کا عقیدہ ومنہج ہی شان نبوت میں غلو کرنا ہے۔
8 – مخطوطات کی تحقیق سے جن کا واسطہ ہے وہ جانتے ہیں کہ عموما خطاط، وراق اور ناسخین کے لکھنے کے اسلوب وانداز اور اہل علم متخصصین کے اسلوب وانداز میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔ خطاطوں کے نسخوں میں کتابت کی خوبصورتی، سطور کےمابین زیادہ فاصلہ رکھنا اور حروف کو بڑا کرکے لکھنا اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کیونکہ ان کا مقصود فقط حصول زر ہوتا ہے، وہ گاہک کو لبھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ نیز وہ ایسی کتابوں کو نسخ کرتے ہیں جن کے خریدنے میں امراء اور اصحاب ثروت دلچسپی رکھتے ہوں۔ جیسے مصاحف، ادب اور شعر وشاعری کی کتابیں وغیرہ۔ علمی کتابیں جیسے اصول، حدیث وغیرہ کی کتابیں یہ نسخ نہیں کرتے کیونکہ یہ اہل علم کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہوتیں۔ جب کہ اہل علم کے نسخوں میں ان چیزوں کا اہتمام نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کے برعکس حرفوں کو حتی الامکان ملاکر لکھتے ہیں، بین السطور فاصلے نہیں چھوڑتے تاکہ کوشش کے باوجود بھی کوئی ان کے نسخوں میں چھیڑ چھاڑ نہ کر سکے۔ اور اگر کوئی ایسی ناپاک کوشش بھی کرے تو پکڑا جائے۔
راقم الحروف ابھی فتح الباری شرح صحیح البخاری للحافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحقیق میں مشغول ہے۔تحقیق کے لیے حافظ ابن حجر کے شاگرد ابن حرمی رحمہ اللہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ اصل نسخہ ہے۔ اس نسخہ کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ خطاطوں اور ناسخوں کے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا لکھنے والا یقینا کوئی اہل علم ہی ہے۔
مصنف عبد الرزاق کے جس نسخہ پر اعتماد کرتے ہوئے اس مفقود حصہ کو طبع کیا گیا ہے اس میں کسی اہل علم کی چھاپ نہیں ہے بلکہ اس میں خطاطوں، وراقوں اور ناسخوں کی چھاپ ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ ایسی کوئی کتاب نہیں جس کے خریدنے میں اہل علم کے علاوہ کوئی اور دلچسپی دکھائیں تو آخر خطاط اور وراق نے اسے نسخ کرنے کی زحمت کیوں اٹھائی؟
9 – یہ مزعوم نسخہ شروع ہوتا ہے ”باب تخلیق نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم“ سے۔ جس پر حمیری نے اپنی طرف سے کلمہ ”کتاب الایمان“ کا اضافہ کیا ہے۔ کیا مصنف عبد الرزاق کی یہی ترتیب ہے؟
معروف یہی ہے کہ امام عبد الرزاق نے مصنف کو فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے، جس کی پہلی کتاب ”کتاب الطہارہ“ ہے۔ جیسا کہ کشف الظنون وغیرہ کے اندر ہے۔
حافظ ابو علی الغسانی نے ابن الاعرابی عن الدبری کی روایت سے مصنف کے تمام ابواب کا ذکر کیا ہے، جس کی پہلی کتاب انھوں نے ”کتاب الطہارہ“ ذکر کی ہے، اور اس میں ”باب تخلیق نور النبی ﷺ“ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اور نہ کسی اہل علم نے مصنف کے اندر ”کتاب الایمان“ یا ”باب تخلیق نور النبی ﷺ“ کے ہونے کی طرف کبھی کوئی اشارہ ہی کیا ہے۔
(ملاحظہ فرمائیں: مجموع فی کشف حقیقۃ الجزء المفقود من مصنف عبد الرزاق للشیخ محمد زیاد التکلہ ص88)۔
10 – اس مزعوم نسخہ کی پہلی کتاب ”کتاب الایمان“ میں صرف ایک ہی باب ”باب تخلیق نور النبی ﷺ“ موجود ہے۔
اس کتاب میں صرف ایک ہی باب کا ہونا کتاب کے عام منہج کے بالکل خلاف ہے۔ حمیری کا جب یہ دعوی ہے کہ یہ مفقود حصہ ہے جس سے کتاب کی تکمیل ہوجاتی ہے تو آخر ایسا کیوں ہے؟
کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ناسخ نے جان بوجھ کر اپنی طرف سے صرف اتنے حصہ کو گھڑا جس کی انھیں اپنے باطل عقیدے کی ترویج کے لیے ضرورت تھی؟
مذکورہ قرائن کو دیکھنے کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ یہ نسخہ جعلی اور من گھڑت ہے جسے جان بوجھ کر امام عبد الرزاق صنعانی کی طرف جھوٹا منسوب کیا گیا ہے۔ امام عبد الرزاق اس سے اسی طرح بری ہیں جیسے بھیڑیا یوسف علیہ السلام کے خون سے۔
جب اس نسخہ کا جعلی ہونا واضح ہوگیا تو اس حدیث کی حقیقت بھی واضح ہو گئی کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ کی طرف محض ایک جھوٹی نسبت ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
اس حدیث کو سب سے پہلے شہرت دی ابن العربی الحاتمی صوفی نے جو بے شمار باطل عقائد ونظریات کا امام ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں: مجموع فی کشف حقیقۃ الجزء المفقود من مصنف عبد الرزاق للشیخ محمد زیاد التکلہ ص101)۔
اور پھر مؤرخین اور سیرت نگاروں نے اسے بلا سند اپنی کتابوں میں ذکر کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ یہ نسخہ ظاہر ہوا جس میں اس کی سند بھی گھڑی گئی اور عبد الرزاق صنعانی کی طرف اس کی جھوٹی نسبت بھی کی گئی۔
اس حدیث کے جھوٹے ہونے میں کبھی کسی اہل علم کو شک نہیں رہا۔ بلکہ بعض علماء نے اس کے وضع کو بیان کرنے کے لیے مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں مثلا:

1 – تنبیہ الحذاق علی بطلان ما شاع بین الانام من حدیث النور المنسوب لمصنف عبد الرزاق للشیخ محمد احمد بن عبد القادر الشنقیطی المدنی۔
2 – مرشد الحائر لبیان وضع حدیث جابر للشیخ عبد اللہ الغماری۔

اس کے علاوہ بھی بہت سارے علماء نے اس کے موضوع اور باطل ہونے کی صراحت کی ہے۔ مثلا: محمد الطاہر عاشور، شیخ شقیری، شیخ ابن باز، شیخ البانی، شیخ عبد العزیز السدحان، وغیرہم ۔ (ملاحظہ فرمائیں: مجموع فی کشف حقیقۃ الجزء المفقود من مصنف عبد الرزاق للشیخ محمد زیاد التکلہ ص105-106)۔
اس لیے اس حدیث کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا قطعا جائز نہیں۔ یہ ایک موضوع اور من گھڑت روایت ہے جسے کسی خرافی اور باطل عقیدے والے نے نبی ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح دین کی رہنمائی کرے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

آپ کے تبصرے

3000