گزشتہ کل اپنے تھیسیس (فتح الباری کی تحقیق) پر کام کے دوران حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ایک عبارت آئی جسے انھوں نے ابوعبیدہ معمر بن المثنی کی” کتاب الخیل“ سے نقل کیا ہے۔ کمپیوٹر پر کافی سرچ کرنے کے باوجود وہ عبارت نہ ملی۔ پھر انٹرنیٹ سے پی ڈی ایف کاپی ڈاون لوڈ کرکے اس عبارت کو ڈھونڈنا شروع کیا تاکہ اپنے تھیسیس میں اس کی توثیق کر سکوں، لیکن پوری کتاب دیکھ ڈالی مطلوبہ عبارت نہ ملی۔ البتہ اس بہانے ایک عظیم علمی خزانے سے روبرو ہوا۔ مناسب معلوم ہوا کہ آپ حضرات کو بھی مختصرا اس کی سیر کرا دوں۔
یہ کتاب یا اسی طرح متقدمین علما کی دوسری کتابوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ علم کے کس اونچے درجے پر فائز تھے۔ اسی طرح اس کتاب سے عربی زبان کی وسعت اور گہرائی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ زبان کتنی دھنی ہے۔
اس کے مصنف ابوعبیدہ معمر بن المثنی التیمی ہیں۔ محدثین کے نزدیک یہ حسن الحدیث ہیں، البتہ بعض محدثین نے ان پر خوارج کے راستے پر چلنے کا الزام لگایا ہے۔ یہ تاریخ، اشعار اور عربی زبان کے بہت بڑے عالم مانے جاتے تھے۔ علما فرماتے ہیں کہ ”غریب الحدیث“ کے موضوع پر سب سے پہلی تصنیف انہی کی ہے۔ اسی طرح ”غریب القرآن“ پر بھی انھوں نے کتاب لکھی ہے لیکن قرآن مجید کی تفسیر میں رائے اور تاویل میں وسعت سے کام لینے کی وجہ سے ان کی اس کتاب سے ابوحاتم وغیرہ نے تحذیر کی ہے۔ یہ کثیر التصنیف تھے، یاقوت حموی وغیرہ نے ان کی بے شمار کتابوں کے نام ذکر کیے ہیں۔ بعض مؤرخین نے کہا ہے کہ ان کی تصنیفات کی تعداد دو سو سے زائد ہے۔ دو چار کتابیں مثلا: الخیل، شرح نقائض جریر وفرزدق، مجاز القرآن، الدیباج وغیرہ صرف مطبوع ہیں، باقی مفقود ہیں۔ بلکہ الدیباج کے مطبوعہ نسخے کے بارے میں یہ اعتراض ہے کہ یہ ابوعبیدہ کی کتاب نہیں ہے، کسی دوسرے کی کتاب ان کی طرف غلط منسوب ہوکر چھپ گئی ہے۔ سنہ 210 ہجری یا اس سے ایک سال پہلے یا ایک سال بعد تقریبا سو سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ [دیکھیں: «طبقات النحويين واللغويين» لأبي بكر الزبيدي (ص175-178), و«نزهة الألباء» لأبي البركات الأنباري (ص85), و«معجم الأدباء» لياقوت (6/2704-2708)وغیرہ]
کتاب کا مختصر تعارف:
اس کا عنوان: ”کتاب الخیل“ ہے۔
جو پی ڈی ایف نسخہ مجھے ملا ہے وہ دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدر آباد دکن انڈیا کا چھپا ہوا ہے۔ آج سے تقریبا اسی سال پہلے سنہ 1358 ہجری میں یہ چھپا تھا۔ کل صفحات 197 ہیں۔ صفحہ نمبر 173 پر اصل کتاب ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد کتاب پر کام کرنے والوں کے مقدمات ہیں۔ اس کتاب سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں یہ چیزیں آخر میں رکھی جاتی تھیں، شروع میں نہیں۔ اس کی تدوین کا اصل کام ایک جرمن مستشرق عالم ڈاکٹر سالم الکرنکوی نے کیا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ انھوں نے اپنے ایک دوست محمد حمید اللہ سے مدینہ طیبہ کی ایک قدیم لائبریری ”مکتبہ شیخ الاسلام“ سے حاصل کیا ہے۔ جسے کسی کاتب نے اصل نسخے سے اپنے ہاتھ سے نقل کرکے ان کو بھیجا تھا۔ اصل نسخۃ 353 ہجری میں لکھا گیا تھا۔ ڈاکٹر سالم الکرنکوی نے جب یہ کتاب ایڈِٹ کرکے دائرۃ المعارف العثمانیہ کے ذمہ داران کو طباعت کے لیے دی تو ادارے والوں نے کتاب کی اہمیت اور اس کے موضوع کو دیکھتے ہوئے شیخ عبد اللہ بن احمد العلوی الحسینی کو نظر ثانی کی ذمہ داری دی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اس پر تصحیح اور مشکل الفاظ کی شرح وغیرہ کے تعلق سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر اس پر ان کے ساتھ اس زمانے میں دائرۃ المعارف میں موجود امام المحققین شیخ عبد الرحمن بن یحیی المعلمی اور مولانا زین العابدین موسوی نے تصحیح وتعلیق کا کام کیا۔ اپنے کام سے فراغت کے بعد انھوں نے کتاب ”مکتبہ شیخ الاسلام“ کے مدیر شیخ ابراہیم حمدی کے پاس مدینہ طیبہ بھیجا تاکہ اس کے اصل نسخے سے پھر دوبارہ مقابلہ کا کام کیا جاسکے، جسے شیخ ابراہیم حمدی نے بحسن وخوبی انجام دیا۔ وہاں سے کتاب واپس آنے کے بعد اس کے اصل محقق ومدون ڈاکٹر سالم الکرنکوی کو دکھائی گئی جسے انھوں نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ پھر اس کی طباعت کا کام شروع ہوا۔ اس طرح سخت نگرانی کے بعد یہ کتاب منظر عام پر آئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علمی کتابوں کی تحقیق وتدوین کا کام کتنا قدیم ہے، اور زمانہ قدیم میں وطن عزیز میں ہمارے علما نے کتابوں کی تحقیق وتدوین میں کس طرح باریک بینی سے کام لیا ہے۔
کتاب کا موضوع اس کے نام سے ہی ظاہر ہے۔ اس میں گھوڑے کے متعلق ان تمام زاویوں پر مفصل بحث کی گئی ہے جس کی امید اس طرح کی کتابوں سے کی جاتی ہے۔
کتاب کی شروعات مؤلف نے زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کے نزدیک گھوڑے کی اہمیت اور اس کے مقام ومرتبہ سے کی ہے کہ کس طرح یہ ان کے نزدیک عزت وشرافت کی علامت تھی یہاں تک کہ وہ اپنے نفس پر اور آل واولاد پر گھوڑے کی دیکھ بھال کو فوقیت دیتے تھے، خود بھوکے سوجاتے گھوڑے کو بھوکا رکھنا گوارہ نہ کرتے۔ اگر کسی کا گھوڑا عدم اہتمام کی وجہ سے کمزور ہو جاتا تو شعرا اپنے اشعار میں ان کو عار دلاتے۔ اس طرح کے بعض اشعار کو انھوں نے نقل بھی کیا ہے۔
اس کے بعد مؤلف نے اسلام میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اور اس باب میں وارد احادیث وآثار کو اپنی سند سے ذکر کیا ہے۔ یہ اس زمانے کی کتابوں کی سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ وہ اپنے متقدمین کی کوئی بھی بات مع سند نقل کرتے ہیں، چاہے وہ کتاب کسی بھی فن میں لکھی گئی ہو۔ اس موقع پر انھوں نے احادیث وآثار کے استیعاب کا اہتمام نہیں کیا ہے، البتہ اس موضوع پر اچھے خاصے نصوص ضرور جمع کر دیا ہے۔ یہاں پر جو سب سے بڑی کمی محسوس ہوتی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑوں کی تفصیلات کا نہ ہونا ہے، لیکن الحمد للہ کتاب کے مصحح شیخ عبد اللہ بن احمد العلوی الحسینی نے کتاب کے آخر میں اپنے مقدمہ میں اس کمی کو پورا کر دیا ہے۔
پھر اس کے بعد گھوڑے کی اہمیت و فضیلت پر جاہلی شعرا کا کلام پیش کیا ہے۔
پھر صلب موضوع پر بحث شروع ہوتی ہے اور گھوڑے کے مختلف اوصاف کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔ سال در سال ان کے کون کون سے حالات بدلتے ہیں، کون سی چیزیں ان میں معیوب شمار کی جاتی ہیں، اور کن اوصاف کے گھوڑے عمدہ مانے جاتے ہیں اسے بیان کیا گیا ہے۔
پھر گھوڑوں کے نام اور ان کے مختلف رنگوں کا تذکرہ ہے۔ پھر ان کے اوصاف، کھڑے ہونے، چلنے بیٹھنے کو بیان کیا گیا ہے۔ اور آخر میں ان کی مختلف آوازوں کا تذکرہ ہے۔
ہر مبحث میں بے شمار الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے، اور مؤلف نے انھیں کلام عرب سے خصوصا ان کے اشعار سے ثابت کیا ہے جس سے اس فن میں ان کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے۔
اللہ تعالی طالبان علوم نبویہ کو اس کتاب سے کما حقہ استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وسلم
جزاکم اللہ خیرا دکتور
ما شاء الله، جزاكم الله خيرا، فائدة عظيمة
ماشاء الله ! رائع جدا
مقال قيم يحمل في طيه كثيرا من العلوم والحكم وخاصة من تعليق وجيز على كتاب الخيل مما استفدت منه بكثير و زدت علما بما كنت جاهلا في وقت قليل…
زادكم الله علما وعملا ونفع بكم الاسلام والمسلمين… آمين
ماشاء الله
شاید الخیل کے لئے خصوصی اہتمام ” الخيل معقود بنواصيها الخير إلى يوم القيامة ” (حدیث) کی بنیاد پر ہو ۔
بعد میں جاحظ – جو ابو عبیدہ معمر بن مثنی کے شاگرد بھی تھے – نے تمام جانوروں پر کتاب لکھی جس کا نام کتاب الحیوان رکھا ۔
جزاكم الله خيرا على الإرشاد الي هذا
و ما احسن استعابك زادك الله علما و عملا
و ادع لي لحصول العلم المفيدة و حسنة الدنيا والآخرة
ما شاء اللہ ـــ تبارک اللہ
بارک اللہ فیکم و زادکم علما و تقی و صلاحا
بہت عمدہ تحریر
جزاکم اللہ خیرا
جزاکم اللہ خیرا واحسن اللہ الیک، ابھی شیخ عزیر شمس ؒ سے اس کتاب کا تذکرہ سن رہا تھا تو سوچا کہ تھوڑا کتاب اور اس کے مولف کے بارے میں پڑھ لوں تو آپ کی یہ قیمتی تحریر سامنے آگئی