درد کا رشتہ

سحر محمود سماجیات

یا الہی اس طرح کی ہو کوئی ایجاد بھی

کچھ نہ میں ان سے کہوں اور سن لیں وہ فریاد بھی

یہ شعر میری ایک غزل کا مطلع ہے جو ۲۰۱۶ میں کہی تھی۔ سوچ رہا ہوں کہ جس احساس کو میں نے اس شعر میں پرونے کی کوشش کی ہے کیا اسے اس دنیا میں اللہ کے علاوہ کے بھی کوئی محسوس کرنے والا ہے؟
آج کورونا کی وجہ سے پوری دنیا کی جو صورت حال ہوگئی ہے اور اس پر لوگوں کا جو طرز عمل ہے فیس بک وغیرہ کے ذریعے دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔ اس مہاماری سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ اور بھی زیادہ بڑے ہیں۔ بھکمری تک کی نوبت آگئی ہے۔ کچھ تو اپنا درد کہہ لیتے ہیں مگر کتنے ایسے ہیں جو نہیں کہہ سکتے۔ کہے بنا ہی اللہ سن لیتا ہے۔ بندے بھی محسوس کرسکتے ہیں اگر چاہیں تو۔ تمام انسانوں سے ہمارا درد کا رشتہ بھی ہے، ہر دکھ دیکھ سکتے ہیں۔ مگر دیکھتے ہی نہیں یا دیکھتے ہیں مگر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے یا دیکھتے اور سمجھتے بھی ہیں مگر حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کی وجہ محض ایک ہی ہے کہ ہم دوسروں کے دکھ درد اور اور پریشانی کو اپنا دکھ درد نہیں سمجھتے۔
شریعت نے ہمیں اسی درد کا رشتہ یاد دلاتے ہوئے نبی کریمؐ کی زبانی بیان فرمایا ہے:

وفي الصحيحين عن النعمان بن بشير رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : {مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد إذا اشتكى شيئا تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى}.

کچھ اسی درد کو علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں یوں بیان فرمایا ہے:

قوم گویا جسم ہے ، افراد ہیں اعضائے قوم

منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ

کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

ہم ایسے سماج کا حصہ ہیں جس میں اولاد کو ان کے والدین بوجھ لگتے ہیں تو پھر دوسروں کے ساتھ ہمدردی و غم گساری یا کسی نصرت و مدد کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔

نبھائے گا کسی سے کیا وہ رشتہ

جو خود ماں باپ سے بیٹا الگ ہے

(سحر محمود)
آج ہمارا اپنوں کے ساتھ جو رویہ ہے وہ قابلِ رحم ہے۔ خواہ کسی بھی پیمانے پر ہو۔ گاؤں گھر کا جائزہ لے لیں۔ پڑوسیوں کے ساتھ سلوک دیکھ لیں۔ دوست و احباب اور رشتے داروں کے ساتھ ہمارا کیا رویہ ہوتا ہے اس پر بھی نظر ڈال لیں ہر شعبۂ حیات میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
رہبران قوم سے کیا خطاب کرنا؟ سیاست جن کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے وہ سیاست ہی کرتے ہیں۔ ان سے اخلاص و محبت کی توقع رکھنا سمجھ داری کی علامت نہیں ہے۔ بہ ظاہر ان کا رکھ رکھاؤ اور ظاہری امداد و تعاون بڑا ہی دل کش اور خوش نما معلوم ہوتا ہے مگر جو لوگ ان کے سیاسی داؤ پیچ کا شکار ہوتے ہیں یا کبھی کسی مناسبت سے اندرون میں جھانکنے کا موقع ملتا تو ساری حقیقت واشگاف ہوجاتی ہے۔
آج کی سیاست کے راستے بڑے پر پیچ ہیں۔ کسی عہدے اور کرسی تک پہنچنے کے سفر میں آدمی اپنا دامن گندا کر چکا ہوا ہے۔ بہت ہی کم رہ نماؤں کے دلوں میں خوفِ خدا اور خدمتِ خلق کا جذبہ پنہاں ہوتا ہے۔ ورنہ “اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا” کے مصداق وہ بے نیازانہ زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ انھیں اس بات کی مطلق پروا نہیں ہوتی کہ کوئی جیے یا مرے۔ وہ قوم کو چارے کو طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مصائب و مشکلات کا سودا کرتے ہیں۔ اور ان کی بھلائی کے نام پر اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔
جن نازک حالات سے ہم دوچار ہیں ان کے خطرات سے ہم سبھی واقف ہیں۔ ایسے عالم میں بھی اکثر لیڈران کا رویہ وہی پرانا ہے۔ جس طرح سے ہمارے مشروعاتی علما قربانی کے بکروں کی تقسیم کا طریقۂ کار اپناتے ہیں وہی اسلوب ہمارے سربراہ قوم غربا و مساکین کے راحتی سامان کی تقسیم کے سلسلے میں بھی اپنا رہے ہیں۔ اپنے غیر مستحقین رشتے داروں اور بہی خواہوں پر نچھاور کرنا اور مستحقین کی معمولی فہرست تیار کرکے انھیں محض ہیڈ لائن کی زینت بنانا عام ہے۔
مجھے عمرؓ بار بار یاد آتے ہیں کہ ایک وہ بھی حکم ران تھے کہ ان کی حکومت و خلافت میں کوئی بھوکا نہ سونے پائے اس لیے نگرانی و دیکھ بھال کے طور پر خود بھیس بدل کر گلیوں اور کوچوں کے چکر کاٹتے تھے۔ راتوں کو اپنی نیند حرام کرکے لوگوں کے گھروں اور ان کے حالات کا جائزہ لینا اور مستحق ملنے پر خود اس تک اسباب کی فراہمی کرنا ان کے عدل و انصاف کی ایسی مثالیں ہیں جو آج عنقا ہیں اور ایسے خواب کی صورت اختیار کر چکے ہیں جن کی کوئی تعبیر نظر نہیں آتی۔مگر پھر بھی امید کی کرن ختم نہیں ہوئی ہے۔ اسی سماج میں کچھ ایسے بھی باشعور اور نیک دل انسان بستے ہیں جنھیں آج بھی لوگوں کی پروا ہے۔ جو بغیر کسی بینر و کیمرے کے ذاتی طور پر انسانوں کی بقا و تحفظ کے لیے کوشاں ہیں اور ان کے امداد کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں۔ میرا مخاطَب ایسے ہی لوگ ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے فریضے کی ادائی میں کوتاہی نہ کریں اور آس پڑوس کے ایسے لوگوں پر بھی نظر رکھیں جن کی زبانیں شرم و حیا اور آن کی وجہ سے گنگ ہوگئی ہیں اور آوازیں حلق میں ہی دب کر رہ گئی ہیں۔ ان کے چہروں کو پڑھنے کی کوشش کریں۔
ابو ہریرہؓ بھوک سے نڈھال ہوگئے۔ دست سوال دراز کرنا ایمانی شان کے خلاف بات تھی۔ اپنی مراد کی تفہیم کے لیے انھوں نے مسئلہ پوچھنے کی راہ اختیار کی کہ شاید کوئی ان کے دل کی آواز سمجھ لے۔چند جلیل القدر صحابی بھی اس باریک نکتے کو نہ سمجھ سکے اور مسئلہ بیان کرکے آگے نگل گئے۔
مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھانپ گئے اور انھیں اپنے ساتھ لے گئے۔

آپؐ کی آنکھوں نے پہچان لیا بھوکے ہیں

بو ہریرہؓ کی طلب دل کی صدا ہو جیسے

(سحر محمود)

آپ کے تبصرے

3000