ماہ رمضان کی آمد آمد ہے، عنقریب یہ مبارک مہینہ اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ سایہ فگن ہونے والا ہے، اس بابرکت مہینے کے متعلق بہت سے ایسے مسائل ہیں جو علماء کے درمیان مختلف فیہ ہیں، انہی میں سے ایک مسئلہ اس ماہ کی مبارک بادی کا ہے۔
محترم قارئین! سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ مبارک بادی عبادات کے باب میں آتی ہے یا عادات کے باب میں، حق یہی ہے کہ مبارک بادی عادات میں داخل ہے۔ اور جو چیزیں عادت میں شمار ہوتی ہوں وہ مباح ہوتی ہیں الا یہ کہ کوئی ایسی خاص دلیل دلیل پائی جائے جو اس کے اوپر کوئی دوسرا حکم لگائے۔
علامہ عبد الرحمن بن سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: “یہ اور ان جیسے بہت سے مسائل (یعنی مبارک بادی اور ان جیسے مسائل) کی بنیاد ایک عظیم شی پر ہے، وہ یہ کہ تمام عادات چاہے قولی ہوں یا فعلی وہ اصلا جائز اور مباح ہوتی ہیں، چناں چہ ان اشیاء میں سے کسی چیز پر بغیر شرعی دلیل کے حرام یا مکروہ ہونے کا فتوی نہیں لگایا جاسکتا، اس بنیادی ضابطہ پر کتاب وسنت میں بکثرت دلائل موجود ہیں، اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اس امر کا ذکر کیا ہے۔
یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر مبارک بادی کو عبادت کے باب میں داخل کیا جائے تو بہت ساری مناسبات جیسے کسی کو امتحان میں کامیابی پر، یا کسی مؤلف کو اس کی اچھی تالیف پر، یا کسی کو گھر یا گاڑی خریدنے وغیرہ پر مبارکباد دینا غیر شرعی ہو جائے گا۔
عرف عام میں اگر کوئی چیز بہتر سمجھی جاتی ہو نیز وہ شریعت سے متصادم بھی نہیں ہو تو شریعت نے بھی اسے مستحسن سمجھا ہے۔ (المجموعۃ الکاملۃ قسم الفتوی)
کعب بن مالک رضی اللہ کی توبہ جب قبول ہوئی تھی بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے انھیں توبہ کی قبولیت کی خوشخبری دی اور بعض نے مبارک باد دی۔ (صحیح بخاری 4418)
امام نووی رحمہ اللہ کعب بن مالک رحمہ اللہ کے واقعہ پر تعلیق لگاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: اگر کسی کو ظاہری، دینی یا دنیوی کوئی بھی نعمت حاصل ہو، یا اسے کسی بڑی مصیبت وپریشانی سے نجات ملی تو ایسے موقع پر اسے خوشخبری اور مبارک باد دینا مستحب ہے۔ (شرح صحيح مسلم 17/ 95)
اور ابن القیم رحمہ اللہ اس واقعہ سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کسی کو دینی نعمت حاصل ہو تو اسے مبارکباد دینا مستحب ہے۔ (زاد المعاد 585/3)
ایک مسلمان کے لیے بلاشبہ ماہ رمضان کا حصول عظیم دینی نعمت ہے، چناں چہ اس نعمت کے حصول کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا یا قبول کرنا مشروع عمل ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ماہ رمضان آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اصحاب کو خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے کہ: “تمھارے پاس رمضان آیا ہے جو کہ ایک مبارک مہینہ ہے، اللہ رب العالمین نے اس ماہ کے روزے تمھارے اوپر فرض کیے ہیں، اس ماہ مبارک میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اور سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، اس ماہ مبارک میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے، جو اس کی خیر وبھلائی سے محروم رہ گیا حقیقی معنوں میں وہی محروم ہے۔ (سنن النسائی 250/5، حدیث نمبر 2106)
حافظ ابن رجب الحنبلی فرماتے ہیں: بعض علماء کہتے ہیں کہ آپس میں ایک دوسرے کو ماہ رمضان کی مبارک باد دینے کے متعلق یہ حدیث اصل اور بنیاد ہے۔ (لطائف المعارف 148/1)
علامہ محمد امین الشنقیطی، شیخ محمد بن صالح العثيمين، شیخ ابن باز، رحمہم اللہ اور شیخ عبد العزیز آل الشيخ اور شیخ صالح الفوزان حفظہما اللہ وغیرہم نے ماہ رمضان کی مبارک بادی کو مشروع قرار دیا ہے۔
قارئین کرام! مذکورہ سطور سے پتہ چلتا ہے کہ ماہ رمضان کی مبارک بادی دینا ایک مباح ومشروع عمل ہے، اس لیے اس مہینہ کی آمد کے موقع پر اگر مسلمان آپس میں خوشی کا اظہار کرتے ہوں یا ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
آپ کے تبصرے