اس سال حرم میں 10 رکعت تراویح کیوں؟

ابو احمد کلیم الدین یوسف رمضانیات

مسجد نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کتنی رکعت تراویح پڑھتے تھے؟
بجواب: امسال مسجد حرام و مسجد نبوی میں 10 رکعت تراویح کیوں؟
قارئین کرام!
جب بھی ماہ رمضان کی آمد ہوتی ہے بر صغیر میں آٹھ اور بیس رکعت تراویح کا مسئلہ چھڑ جاتا ہے، اور زور دے کر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جو لوگ آٹھ پڑھتے ہیں وہ اجماع کی اور عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی نماز پڑھی، اگر پڑھی تو کتنی رکعت پڑھی، اور لوگوں کو کتنی پڑھنے کی تلقین کی؟
تراویح کی نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انفرادی پڑھی(صحیح بخاری:١١٤٧) جماعت کے ساتھ پڑھائی(صحیح بخاری:٢٠١٢) انفرادی طور پر (صحیح بخاری:٢٠٠٨) اور جماعت کے ساتھ (جامع ترمذی:٨٠٦/اس کی سند صحیح ہے) پڑھنے کی ترغیب بھی دلائی۔

جب یہ ثابت ہوگیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی تراویح پڑھی، باجماعت پڑھائی اور پڑھنے کی ترغیب بھی دی تو اب ایک مسئلہ اور رہ جاتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کتنی رکعت پڑھی اور کتنی رکعت پڑھائی؟
اس کا جواب فقیہۃ الامۃ، أم المؤمنين عائشہ صدیقہ عفیفہ رضی اللہ عنہا دیا ہے کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری:٢٠١٣)

یہ جواب عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس شخص کے سوال پر دیا تھا جس نے ماہ رمضان کی راتوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھا تھا۔
اور یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان میں جماعت کے ساتھ صرف تین دن تراویح پڑھی۔ (صحیح بخاری:٧٢٩)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال تراویح کی نماز حجرہ میں پڑھا کرتے تھے، اور حجرہ شریفہ کے اندر کی خبر امہات المؤمنین سے بہتر کون جان سکتا ہے؟
چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر سال رمضان میں جتنی رکعات نماز پڑھتے دیکھا امت تک پہنچا دیا۔
اب دوسری بات یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی تھی وہ کتنی رکعات پڑھائی تھی؟
اس کا جواب بھی ایک صحابی رسول دیتے ہیں، چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان المبارک میں آٹھ رکعات تراویح پڑھائی اور پھر وتر ادا کی۔ (المعجم الصغير:٥٢٥)
مذکورہ دونوں حدیثوں سے پتہ چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر اور گھر کے باہر ماہ رمضان میں صرف آٹھ ہی رکعات تراویح ادا کرتے تھے، اور اسی پر پوری زندگی قائم رہے۔
چنانچہ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خلاصہ کلام یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعت تراویح ثابت نہیں، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں ایک مرتبہ بھی بیس رکعت نہیں پڑھی ہے، اگر پڑھی ہوتی تو بیس رکعت والی بات عائشہ رضی اللہ عنہا پر یہ بات مخفی نہیں رہتی(الحاوی للفتاوی:١/ ٤١٦)
ایک اور بات یہ کہ بعض حضرات کہتے ہیں تراویح اور تہجد میں زمین وآسمان کا فرق ہے، تراویح عشاء کی نماز کے فورا بعد ادا کی جاتی ہے جبکہ تہجد نیند سے اٹھ کر رات کے کسی حصے میں ادا کی جاتی ہے۔
یہ تفریق بالکلیہ صحیح نہیں، بلکہ یہ تفریق حدیث کے مخالف ہے، کیوں کہ جن تین راتوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت تراویح پڑھائی تھی ان میں سے پہلی رات میں ثلث اللیل یعنی ایک تہائی رات تک پڑھائی، جبکہ دوسرے دن آدھی رات تک اور تیسرے دن سحری کے وقت تک(مسند احمد:١٨٤٠٢)
اگر تہجد نیند سے اٹھ کر پڑھنے کا نام ہے تو پھر اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد کی نماز کب پڑھی؟ اور یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تہجد واجب تھی۔
نیز جب عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت کا اہتمام کیا تو اس وقت فرمایا کہ جو لوگ ابھی یعنی عشاء کے بعد تراویح پڑھ رہے ہیں ان سے بہتر وہ لوگ ہیں جو ابھی سو رہے ہیں اور رات میں اٹھ کر تراویح کا اہتمام کریں گے۔ (صحیح بخاری معلقا:٢٠١٠)
پتہ چلا یہ دعوی بالکل باطل ہے کہ تہجد رات میں اٹھ کر پڑھی جاتی ہے، جب کہ تراویح عشاء کے بعد پڑھی جاتی ہے۔
اور یہ دعوی قرآن کے خلاف بھی ہے، سورہ مزمل کی ابتدائی آیات مع ترجمہ وتفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ جسے ہم رمضان میں تراویح کے نام سے جانتے ہیں، اسے ہی تہجد یا قیام اللیل بھی کہتے ہیں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ مختلف اور متعدد نام متعدد نماز پر دلالت کرتے ہیں تو یہ منطق سرے سے بے کار ہے۔ کیوں کہ فجر کی نماز کو صلاۃ الفجر، صلاۃ الصبح، صلاۃ الغداۃ اور قرآن الفجر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ فجر کے وقت چار نمازیں ہیں۔
جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تراویح اور تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں تو ان سے گذارش ہے کہ ان دونوں نمازوں کی رکعات، ہیئات اور اوقات کی تفصیل کتاب وسنت میں کیا ہے وہ بتلا دیں۔ آپ تلاش بسیار کے باوجود رات میں 11 رکعت سے زیادہ نہیں پائیں گے، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تراویح بیس رکعت ہے اور تہجد آٹھ رکعت تو ان کے اوپر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میں 20 رکعت تراویح ، 8 رکعت تہجد اور 3 رکعت وتر ادا کرتے تھے، جو کہ کل ملا کر 31 رکعات ہوتی ہیں۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس اور دیگر مہینوں میں آٹھ پڑھتے تھے تو یہ بھی صحیح نہیں، کیوں کہ اگر تراویح تہجد سے منفرد اور الگ نماز ہے جیسا کہ کچھ حضرات کہتے ہیں۔ تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تہجد کا پڑھنا بھی ضروری تھا کیوں کہ نبی پر تہجد فرض تھی، تراویح کافی نہیں ہوتی، تو اس طرح ایک رات میں مع وتر 31 رکعت ہوتی ہے جسے آج تک کوئی بھی ثابت نہیں کر پائے گا۔
اس بات کا جاننا بھی نہایت ضروری ہے کہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کتنی رکعت پڑھنے اور پڑھانے کا حکم دیا؟
إمام مالک رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب موطأ کے اندر صحیح سند سے ذکر کیا ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم الدارمی رضی اللہ عنہما کو یہ حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ کعات تراویح پڑھائیں۔ (موطأ مالک:١/ ١١٥/ ٤)
قارئین کرام! ایک بات اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ اس اثر کے علاوہ جتنے بھی آثار تراویح کی رکعات کی تحدید میں عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہیں یا تو وہ مخالفت کی وجہ سے شاذ ہیں یا پھر وہ ضعیف ہیں، یہاں تفصیل کا موقع نہیں۔
مذکورہ دلائل سے یہ بھی پتہ چلا کہ تاجدار مدینہ، سید المرسلین، خاتم النبیین، احمد مجتبی، محمد مصطفی، صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک شہر “مدینہ” کی مبارک مسجد “مسجد نبوی” میں آٹھ رکعات تراویح ادا کی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی کی پابندی کرتے رہے۔
اس لیے یہ کہنا کہ چودہ سو سال سے مسجد نبوی میں تراویح کی نماز بیس رکعت ہوتی آئی ہے صریح جھوٹ ہے، کیوں بیس رکعت کا وجود نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں تھا۔

اس لیے اگر شیخ سدیس حفظہ اللہ نے رئاسہ الحرمین کے ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے حرمین شریفین میں دس رکعت تراویح کا فیصلہ لیا ہے تو یہ عین سنت کے موافق ہے، بلکہ سعودی فتوی کمیٹی نے اسے افضل بھی قرار دیا ہے۔ (فتوی نمبر:٦١٤٨)
اس فیصلے پر انگشت نمائی کرنے کی بالکل ضرورت نہیں، کیوں کہ جب صاحب تحریر خود ہی اقرار کر رہے ہیں کہ “فرض نہ ہونے کی وجہ سے تراویح کی تعداد رکعت میں یقینا گنجائش ہے، یعنی بیس رکعت پڑھنا ضروری نہیں ہے” تو پھر شیخ سدیس حفظہ اللہ کو ہدف تنقید بنانا سمجھ سے پرے ہے، کیوں کہ جب بیس پڑھنا آپ کے نزدیک ضروری نہیں اور رکعات تراویح کی تعداد میں گنجائش بھی ہے تو دس رکعت تراویح پر سیخ پا ہونا چہ معنی دارد؟

خلاصہ کلام یہ کہ آٹھ رکعات تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی سنت ہے جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوری زندگی عمل کرتے رہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی اسی پر عمل پیرا رہے۔
البتہ نفلی نماز ہونے کی وجہ سے گیارہ سے زیادہ پڑھنے کو علماء نے یہ کہہ کر جائز قرار دیا ہے کہ افضل نبی کی سنت پر اکتفا کرنا ہے، البتہ اگر کوئی زیادہ پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ لیکن جو لوگ بیس پڑھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آٹھ رکعت کے قائلین رات کی نماز کو رکعات میں محدود کر دیتے ہیں جب کہ رات کی نماز عام ہے، حالانکہ خود بیس رکعت پڑھنے والوں کا عمل ان کے قول سے متعارض ہوتا ہے، یعنی آٹھ رکعات کی تحدید کی نفی کرتے اور خود بیس پر اصرار کیے جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آٹھ سے شروع کرکے چالیس تک یا اس سے زیادہ تک جاتے تب ایسا لگتا کہ آپ رات کی نفلی نماز میں رکعات کی تحدید کے قائل نہیں ہیں، لیکن آپ کا بیس پر مداومت کرنا اس کی تحدید کا اشارہ دیتا ہے۔
رات کی عام نماز کے رکعات کی تحدید فقہاء کے قول سے زیادہ بہتر ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے؟
نیز جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس رکعت تراویح پر اجماع ہو گیا تھا ان کا یہ دعویٰ بھی باطل ہے، کیوں کہ امام مالک رحمہ اللہ 36 رکعات تراویح پڑھنے کے قائل ہیں، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ جس بات پر عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں “مدینہ” میں اجماع ہوا ہو اسی “مدینہ” کے اندر اس اجماع کے خلاف امام مالک رحمہ اللہ فتوی دیں؟
اس لیے اجماع کا دعوی باطل ہے۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں نبی کی صحیح سنت کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہر قسم کی ضلالت وگمراہی سے محفوظ رکھے۔
واللہ اعلم بالصواب

7
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
5 Thread replies
2 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
Modassir Hasan

جزاکم اللہ خیرا۔۔۔ لیکن شیخ پہلے تو آٹھ اور بیس کا مسئلہ تھا لیکن اب یہ آٹھ اور دس کا کیا معاملہ ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آیا۔ کیونکہ ایک طرف تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ: “خلاصہ کلام یہ کہ آٹھ رکعت تراویح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی سنت ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوری زندگی عمل کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی اسی پر عمل پیرا رہے۔” پھر آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ “شیخ سدیس حفظہ اللہ نے… Read more »

Noorul Hasan

جناب کو سنت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ سعودی حکومت کی چاپلوسی کرنا انکی فطرت ہے تاکہ ان کی دنیا رنگین ہوتی رہے

محمد مقیم

جیسے ماضی میں بعض فقہا نے جن کی فقہ عین کتاب و سنت کے مطابق تھی، شراب، زنا، چوری اور سود کو حلال کررکھا تھا۔ امرا اور خلفا کی چاپلوسی میں۔

محمد مقیم

اور بعض جدید دور کے ائمہ نے تو خلافت قائم کرنے کے لیے صحابہ کو گالی دینا بھی جائز کررکھا ہے۔

محمد مقیم

سمجھ کا پھیر ہے۔ دس رکعت کے بعد ایک رکعت وتر پڑھ گیارہ رکعت مع وتر سنت ہے۔ باقی دعوے تو کچھ بھی کرلے کوئی دعویٰ کرنے میں کیا جاتا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے تراویح کہاں ہوتی تھی اور کتنی رکعت تھی۔ وہ عہد چودہ سو سال کی تاریخ میں شامل ہے یا نہیں۔ اور وہ رکعتیں افضل اور سنت ہیں یا نہیں۔

Peer Basha Shaik

جب فلم کا جواز دے سکتے ہیں تو اس میں کونسی بڑی بات ہے کہ تروایح میں بیس کی جگہ دس کردیے ہیں

محمد مقیم

فلم کا جواز تو یوسف القرضاوی بھی دے چکے ہیں۔ ان کے خلیفۃ المسلمین تو ہم جنس شادی بھی کرواتے ہیں۔