کیا رمضان کریم کہنا جائز ہے؟

ابو احمد کلیم الدین یوسف رمضانیات

رمضان کا چاند نظر آیا، پھر مبارکبادی کا ایک سلسلہ چل پڑا، جامعہ اسلامیہ کی طرف سے ایک لنک موصول ہوا جس میں اگر آپ اپنا نام ڈالتے ہیں تو آپ کے نام سے مبارک بادی کا پوسٹر تیار ہوجاتا ہے، جسے آپ اپنے احباب سے شئر کر سکتے ہیں.
میں نے بھی پوسٹر بنایا اور لوگوں سے مبارک بادی شیئر کی، ہمارے ایک مخلص اور قریبی جاننے والے نے مجھے خاص پر میسیج کیا کہ آپ کے پوسٹر میں رمضان کریم لکھا ہے اور رمضان کریم کہنے کو بعض علماء نے درست قرار نہیں دیا ہے، اس لئے اسے ڈیلیٹ کر دیا جائے.
میں نے سوچا کہ اس مسئلہ کی تحقیق ہوجائے تاکہ ہماری اصلاح بھی ہوجائے اور ایک علمی فائدہ قارئین کی نذر ہو جائے، اللہ جزائے خیر عطا فرمائے ہمارے اس محترم بھائی کو جن کا اعتراض ایک علمی مسئلہ کی تحقیق کا سبب بنا.
در اصل ہمارے محترم بھائی کا اشارہ شیخ ابن عثيمين رحمہ اللہ کے فتوے کی طرف تھا جس میں شیخ نے کہا ہے کہ رمضان کریم کہنا صحیح نہیں ہے، رمضان مبارک کہا جائے.
اسی طرح جب شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ رمضان کریم کہنے کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ملتی.
جبکہ شیخ صالح العصیمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ ماہ رمضان کی کچھ صفات شریعت میں وارد ہوئی ہیں، جیسے مبارک اور رحمت والا مہینہ وغیرہ.
اور کچھ صفات ایسی ہیں جن کا شریعت میں ذکر نہیں ملتا، اگر اس کا معنی صحیح ہے تو اس کا استعمال جائز ہے، لوگوں کے درمیان اس ماہ کو کریم کہنا مشہور ہے، جبکہ شریعت میں لفظ کریم رمضان کی صفت کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے، کریم عربی زبان میں فعیل کے وزن پر آتا ہے جو کبھی اسم مفعول کے معنی میں ہوتا اور کبھی اسم فاعل کے معنی میں ہوتا ہے، اگر اسم مفعول کے معنی میں استعمال کرتے ہیں تو جائز ہے، کیوں کہ اس کا معنی ہوگا کہ ایسا مہینہ جس کی تکریم کی گئی ہو، جسے شرف حاصل ہو، اور یقیناً ماہ رمضان شرف وعزت والا مہینہ ہے.
اور اگر اس کا استعمال اسم فاعل کے معنی میں ہوگا تو درست نہیں کیونکہ اس کا مطلب ہوگا کہ رمضان عزت دینے والا، شرف بخشنے والا ہے اور یہ صحیح نہیں ہے.
شیخ صالح العصیمی حفظہ اللہ کا جواب اس لنک پر سنا جا سکتا ہے.

شیخ صالح العصیمی حفظہ اللہ کا جواب حد درجہ انصاف سے قریب اور راجح معلوم ہوتا ہے، اور اس کی تائید بھی کتاب اللہ سے ہوتی ہے.
چنانچہ اللہ رب العالمین نے فرمایا:

قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ (النمل:29)
وَكُنُوزٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ (الشعراء:58)
أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الْأَرْضِ كَمْ أَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ (الشعراء:7)
فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (الحج:50)
إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ (يّـس:11)

مذکورہ آیات میں کتاب، مقام، رزق اور اجر کی صفت کریم کے طور پر استعمال ہوئی ہے.
کتاب کا مطلب پیغام یا خط وغیرہ ہے.
قارئین کرام: آپ غور فرمائیں کہ اللہ رب العالمين نے خط، مقام، اجر اور رزق کو کریم کی صفت سے متصف کیا ہے، جب کہ یہ چیزیں بذات خود کسی کی تکریم نہیں کرتی اور نہ کسی شرف بخشتی ہیں، کریم تو صرف اللہ ہے، معلوم یہ ہوا کہ یہاں پر کریم اسم مفعول کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی یہ ان چیزوں کو عزت وشرف عطا کیا گیا ہے، جیسا کہ شیخ صالح العصیمی نے اس کی تفصیل بیان کی، اس لئے رمضان کیلئے کریم کی صفت استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں.

بلکہ شیخ ابن عثيمين رحمہ اللہ جنہوں نے اس کے استعمال کو غیر صحیح قرار دیا ہے انہوں نے خود اس لفظ کو رمضان کیلئے بطور صفت استعمال کیا ہے، چنانچہ ایک کتاب “الضیاء اللامع من الخطب الجوامع” کے نام سے مشہور ہے، جس میں شیخ ابن عثيمين رحمہ اللہ کے جمعہ کے خطبات جمع کئے گئے ہیں، شیخ نے دوران خطبہ کہا:

“عباد الله: لقد أظلكم شهر عظيم، وموسم كريم”. (2/ 165).

اللہ کے بندو، تمہارے اوپر ایک مہینہ اور کریم موسم سایہ فگن ہوا ہے.
ایک جگہ فرمایا:

“لقد أظلكم شهر مبارك كريم”. (٤/ ٤٥٧).

تمہارے اوپر ایک بابرکت اور کریم مہینہ سایہ فگن ہو چکا ہے.
ان کی ایک دوسری کتاب” مجالس شہر رمضان” کے نام سے مشہور ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ:

“لقد اظلنا شہر کریم”. (صفحہ:٧).

ہمارے اوپر ایک کریم مہینہ سایہ فگن ہو چکا ہے.

معلوم یہ ہوا کہ رمضان کیلئے اس لفظ کا استعمال مفعول کے معنی میں درست اور جائز ہے، یعنی یہ مہینہ شرف وعزت اور والا مہینہ ہے، اور اسی کو شیخ صالح العصیمی حفظہ اللہ نے جائز قرار دیا ہے اور جن علماء نے رمضان کے ساتھ کریم کی صفت کا استعمال کیا ہے اسے بھی اسی معنی پر محمول کیا جائے گا، جیسا کہ خود شیخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے استعمال کیا ہے.

واللہ تعالیٰ اعلم، وعلمہ اتم واحکم

آپ کے تبصرے

3000