ملک شام مذہبی ، قومی اور سیاسی مفادات کے شکنجے میں

عبدالوحید عبدالقادر سلفی

مستقبل کامؤرخ جب موجودہ ملکِ شام کی داستان قلمبند کررہا ہوگا تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کو ملک شام کے معصوموں کی آہ و فغاں، چیخ و پکار اور جلتی کٹتی لاشیں متحرک نہ کرسکیں، ان کی ایمانی غیرت کو للکار نہ سکیں، ان کی بے حس ضمیروں کو جھنجھوڑ نہ سکیں اور انھیں خود غرضی اور مفاد پرستی کے خول سے باہر نہ نکال سکیں ۔ کہنے کو تو چھپن (۵۶) سے زائد مسلم ممالک اس روئے زمین پر بستے ہیں مگر ان کی حیثیت سمندر کے جھاگ کے سوا کچھ نہیں ۔ اختلاف و انتشار کے ایسے عمیق دلدل میں غوطہ زن ہیں کہ انھیں اپنے آپ سے فرصت نہیں ۔ اسلامی اخوت و بھائی چارگی کا فقدان، اسلامی شعائر کا استہزاء و مذاق اور اہلِ اسلام پر عرصۂ حیات تنگ کرنا مسلم حکمرانوں کا شیوہ بن چکا ہے ۔ ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر اسلامی تانے بانے کو درست کرنے، اتحاد کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے اور مشترکہ ایجنڈے پر یکسو ہو کر آگے بڑھنے کا دور دور تک نام ونشان نہیں، اور کبھی کوئی مسلم ملک اسلامی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اتحاد کی بات کرتا ہے، ایک پلیٹ فارم سے متحدہ جہود و مساعی کی آواز بلند کرتا ہے تو بہتوں کے چہروں سے نفاق کا پردہ اٹھ جاتا ہے ۔ اتحاد کے ایجنڈے کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن عیاری، مکاری اور چالبازی کے ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں ۔

ملک شام کی موجودہ صورتِ حال کسی بھی صاحبِ ضمیر سے مخفی نہیں ۔ جس طرح سے ایک ظالم و جابر ڈکٹیٹر کے ہاتھوں لاکھوں معصوم تہہ تیغ کردیے گئے، اجباری ہجرت پر مجبور ہوئے، دردر کی ٹھوکریں کھانا ان کا مقدر بن گیا اور ظلم و بربریت کی تمام حدود کو پار کرکے وحشت و تباہی کا جو ننگا ناچ قائم ہے اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس جدید انسانی حقوق کی دنیا میں انسانیت کو سرِ راہ پھانسی دے دی گئی ہو ۔ خاک و خون کا منظر بپا ہے۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے ۔حلب کو ملبوں میں تبدیل کردیا گیا، حمص کو معصوموں کی چیخ و پکار کے حوالے کردیا گیا، مشرقی غوطہ کو کیمیاوی زہرپلا کر گھٹ گھٹ کر دم توڑنے پر مجبور کردیا گیا ۔ کہیں بلند عمارتوں کے نیچے معصوموں کی چیخ و پکار، کہیں ملبوں کے ڈھیر سے ماؤں کی آہ و فغاں تو کہیں جلی کٹی اور ٹکڑوں میں منتشر لاشوں کا دلدوز منظر ۔ لیکن پھر بھی حقوقِ انسانی کے ٹھیکیداروں کو سوائے مذمتی قرارداد کے کچھ اور نہیں سوجھتا ۔ اقوامِ متحدہ طاقتور ممالک کے آلۂ کار کے طور پر استعمال ہورہا ہے ۔ صرف مذمتی قرارداد کے لیے اس کی کوششیں رنگ لاتی ہیں اور کبھی تو کوشش کے مرحلے ہی میں دم توڑ دیتی ہیں ۔ ان سب سے زیادہ مضحکہ خیز پہلو مسلم ممالک کی تہی دامنی اور ذمہ دارانہ اقدام سے فرار ہے ۔ ہرکوئی اپنے سیاسی آقاؤں پر نظر جمائے ہوئے ہے کہ ان کے ایوانوں سے کیا صادر ہوتا ہے کہ اس کی ہاں میں ہاں ملا دیں ۔

ملکِ شام کی صورتحال جدید دنیا کی سب سے بدترین جنگی تاریخ کا آئینہ ہے جو جبینِ انسانیت پر عار اور بدنما داغ ہے جسے انسانی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ گزشتہ چند دہائیوں میں کئی ممالک ظلم و بربریت کا شکار ہوئے، معصوموں کی جانیں گئیں، ملک کا سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور تعلیمی نظام تباہ و برباد ہوا مگر ملک شام کو جس آتش فشاں کا سامنا ہے اور گولہ و بارود کے سایے میں جس کسمپرسی کے عالم میں لوگ
سانسیں لینے پر مجبور ہیں مہذب دنیا میں تو اس کی کوئی مثال نہیں ۔ حیرت انگیز سوال یہ ہے کہ آخر ملک شام کی یہ جنگ کیوں اتنی طویل ہورہی ہے؟ کیوں آئے دن اس کی شدت و تمازت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے؟ اور کیوں ظالم بشارالأسد آزادی کے ساتھ اپنے ہی شہریوں اور معصوموں کو بھون رہا ہے اور اپنے ہی ہاتھوں ملک کو کھنڈر میں تبدیل کررہا ہے؟ اس کا دوٹوک جواب یہ ہے کہ یہ ملک مذہبی، قومی اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے ۔

مذہبی پہلو اس قدر مضبوط ہے کہ شیعہ و سنی کے درمیان صلح و اتفاق کی امید تقریباً معدوم ہے ۔ یہ ملک کئی دہائیوں سے علوی شیعوں کے آہنی چنگل میں رہا ہے، حکومت کے تمام کلیدی عہدے علویوں اور نصیریوں کے قبضے میں ہیں، یہاں سنی مسلمان کو تہہ تیغ کرنے یا تختۂ دار پر چڑھانے میں دیر نہیں لگتی – فوج، عدلیہ، پولیس اور بزنس کا محور انہی علوی و نصیری ظالموں کے اردگرد گردش کرتا ہے، یہ طبقہ کل آبادی کا محض پندرہ فیصد یا اس سے بھی کم ہے مگر ہر جگہ جلوہ انہی کا ہے ۔ حافظ الأسد سے لے کر بشار الأسد تک یہی کارستانی جاری ہے اور منظم طور پر سنی نسل کشی اور سنی اکثریتی علاقوں کی جغرافیائی حالت کو پوری طرح سے تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے ۔ لبنان کی حزب اللہ دہشت گرد تنظیم اور ایران کی ظالم فیلق القدس بٹالین اس ظالم و جابر ڈکٹیٹر کی پشت پناہی بلکہ باقاعدہ میدانی جنگ میں شامل ہے جن کا مقصد ہی سنی مسلمانوں کا خاتمہ ہے تو بھلا یہ کیسے امید کی جائے کہ اس جنگ میں صلح و آشتی کی کرن نمودار ہوگی ۔

اس جنگ میں ایک دوسرا بڑا پہلو قومیتوں کا ٹکراؤ اور اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے کے لیے کسی بھی حدتک جانا، چاہے اس کے لیے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے ۔ مثلاً: کرد قومیت، ترک قومیت اور فارسی قومیت ۔ اسی لیے یہ بارہا دیکھنے کو مل رہا ہے کہ کُرد اپنی شناخت اور قوت کے نفوذ کے لیے ترکوں سے الجھا ہوا ہے اور ترک اپنی سرحد و حدود کی دہاہی اور کرد دہشت گردی کے بہانے گولہ و بارود کی بارش سے نہیں چوکتا حالانکہ دونوں قومیتیں سنی مسلمانوں ہی سے تعلق رکھتی ہیں مگر قومیت کی تعلّی اور انا پرستی کے جنون نے عقل و فہم کے تمام دروازوں کو مقفل کررکھا ہے ۔

فارسی قومیت جس کے ساتھ مذہبی تشیع کا عنصر غالب ہے اس کی سربلندی کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے چاہے ملک باقی رہے یا اسٹون ایج(Stone age) میں تبدیل ہوجائے ۔

مذکورہ بالا دونوں عناصر کو جو چیز سب سے زیادہ توانائی فراہم کررہی ہے اور جس سے قومیت اور مذہبیت کو خوب شہہ مل رہی ہے وہ ہے سیاسی مفاد کا زہر جس کی پشت پناہی سپر پاور کررہے ہیں جن کا مقصد جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانا ہے چاہے ملکِ شام روئے زمین پر رہے یا صفحۂ ہستی سے مٹ جائے ۔ اس خونخوار منظر نامے کا سب سے بڑا مجرم روس ہے جس کی من مانی سے مصالحت اور جنگ بندی کے آثار معدوم ہیں ۔ ملک شام کے خزانے اور تیل پر قبضہ جمانا اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنی فوجی قوت منوانے کے لیے فوجی اڈے قائم کرنا اس کے ہدفِ اساسی میں سے ہے ملک تباہ ہو یا برباد اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ۔ ملک شام تو اس کے جدید اسلحہ جات کی تجربہ گاہ اور جولان گاہ بن چکا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ ظالم بشارالأسد حزب اللہ اور ایرانی شیعی مسلحہ گروپوں کا روس کی قیادت واشراف میں جنگ لڑنا اور منظم پلاننگ کے ساتھ سنی مسلمانوں کا خاتمہ کرنا۔

امریکہ جو اپنے سیاسی مفادات کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے، ملک شام میں اس کی مداخلت ڈکٹیٹر کو اکھاڑ پھینکنے اور حریت پسندوں کی پشت پناہی اور مدد کے لیے ہی ہوئی تھی مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ الٹا سنی مسلمانوں کو تشدد، دہشت گردی، انتہا پسندی اور داعش کے نام پر تہہ تیغ کررہا ہے ۔ ملک شام کے ایک حصے پر قبضہ جماکر اپنے فوجی اڈے قائم کیے ہوئے ہے اور صرف اپنے مفاد کے لیے انہی دھڑوں کو اسلحہ سپلائی اور مدد فراہم کرتا ہے جو پوری طرح اس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ۔ اسے بھی ملک کی تباہی، کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال اورمعصوموں کی جلتی کٹتی لاشوں سے کچھ مطلب نہیں حالانکہ اگر امریکہ اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ کے خاتمے اور بشارالأسد کو بے دخل کرنے کا پلان کرلے تو چند دنوں میں سوریا کا منظر نامہ ہی بدل جائے گا ۔مگر عالمی طاقتوں کے مفادات کے پیشِ نظر ایسا ہونا مستقبل قریب میں ممکن ہی نہیں۔ ادھر شام کے سرحدی علاقوں میں کردوں اور ترکوں میں کشمکش برپا ہے اور قومیت ونسلی برتری کے لیے باہم دست و گریباں ہیں ۔ یہاں دونوں طرف سے سنی مسلمان ہی مشق ستم بنے ہوئے ہیں ۔ ملک شام سے ذرا باہر نکلیں تو مصر کا بالکل الگ موقف ہے کہ وہ اخوانیوں کی مدد نہیں کرے گا یعنی ایک ہی جھٹکے میں سارے حریت پسند اخوانی ٹہرے اس لیے موجودہ ڈکٹیٹر و ظالم کے ساتھ مل کر یک طرفہ جنگی حل کی بات بھی کرتا ہے اورچونکہ ترکی اور مصر کی سیاسی کشمکش جگ ظاہر ہے اس لیے مصر بشار کی پشت پناہی کرنے سے نہیں شرماتا۔ اور دوسرے ممالک کی کیا حیثیت جب عرب لیگ اور او، آئی، سی (O.I.C)مل کر بھی کوئی فیصلہ کن قرار داد صادر کرنے سے قاصر ہیں ۔ ان تمام ممالک میں صرف سعودی عرب ایک استثناء ہے جو تمام اسلامی ممالک کی متحدہ فوج اور ایک پلیٹ فارم سے کاروائی کی بات کرتا ہے مگر

مجھے اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا

میری کشتی وہیں ڈوبی جہاں پانی کم تھا

جو آگے بڑھ کر اتحاد کا علم بلند کرنا چاہتا ہے اس کی پشت پر وار کیا جاتا ہے اس کی ٹانگ کھینچی جاتی ہے، دشمنوں کے ساتھ ساز باز کرکے اسے زیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، گویا ان تمام حربوں اور حیلوں کا استعمال ہوتا ہے جس سے اتحاد کی پکار صدا بصحرا ثابت ہو، اتحاد کی آواز جگہ ہی پر دم توڑدے ۔ مکاروں ، فریبیوں اور منافقوں کا جمِ غفیر ہے ، اور میرو صادق اور ابن علقمی کا رول اداکرنے والے بکثرت موجود ہیں لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اگرچہ سعودیہ اہل شام کی فوجی مدد نہیں کرسکا جو کہ انفرادی طور پر کرنا خودکشی سے کم نہیں مگر ان مظلومین و مقہورین کی جو مالی، غذائی، رہائشی اور سیاسی مدد سعودی کررہا ہے وہ تمام مسلم ممالک مشترکہ طور پر بھی نہیں کرسکے ۔

ظلم و ستم اپنی تمام حدود کو پار کرچکا ہے ۔ چیخ و پکار سے مظلوموں کے گلے خشک ہوگئے ہیں، کھانے کو غذا نہیں، اوڑھنے کو رداء نہیں، رونے کو اشک نہیں، سر پرچھت نہیں، کھلی فضا میں بھی امن وامان نہیں، بھلا یہ مظلوم و مقہور جائیں تو کہاں جائیں ۔ ان پر تو زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوچکی ہے ۔ اے انسانیت کے علمبردارو! یہ خون کی ہولی بند کرنے کے لیے ٹھوس اقدام کرو، بیان بازی سے کچھ ہونے والا نہیں ۔ مذہبی، قومی اور سیاسی مفادات سے اوپر اُٹھ کر اور تنازلات کو قبول کرتے ہوئے اللہ کے لیے ان مظلوموں کو امن و سکون سے جینے دو ۔ اے ظالمو! اگر تم باز نہ آئے تو تم اپنے آپ کو مظلوموں کی آہ و فغاں سے بچا نہیں سکتے، اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔

لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں

خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ

سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کا نقاب

لے کے ہربوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ

اللھم أسبغ علی المظلومین رحمتک وأنزل بالظالمین بأسک ودمِّرھم تدمیرا یا رب العالمین ۔

آپ کے تبصرے

3000