کولہو کا بیل

شمس الرب خان

بیل ہی تھا، ایک دن وہ ہوگیا جس کو اودھی زبان میں کہتے ہیں: “چُھٹَاے گَوَا”…یہ کوئی انہونی بات نہ تھی، ایسا ہوتا رہتا ہے۔۔۔لیکن اس میں انہونی یہ تھی کہ رسی تڑاکر بھاگا ہوا بیل کولہو کا بیل تھا۔۔۔
رسی تڑاکر جو بھاگا بھی تو اپنی عادت سے مجبور گول گول چکر کاٹتا ہوا بھاگا۔۔۔
آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہی تھی۔۔۔بس کونے پر پٹی تھوڑی سی سرک گئی تھی۔ اسی سے پوری کائنات دیکھتا تھا، بائیں دیکھتا تو داہنا دکھائی نہیں دیتا، داہنے دیکھتا، تو بایاں دکھائی نہیں دیتا۔۔۔
الغرض جو بھی ہو، جیسا بھی ہو، بھاگ ہی آیا تھا تو کہیں نہ کہیں جانا ہی تھا۔۔۔ایک جانب چلا۔۔۔ چونکہ ایک ہی سمت دیکھ سکتا تھا اس لیے پہلے داہنی سمت سے چلا۔۔۔
چلتے چلتے اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں پہونچ گیا۔۔۔وہاں پہونچ کر اپنے ہی جیسے دکھائی دینے والے ایک بیل کو دیکھا۔۔۔قریب گیا اور پوچھا:
“تم کون ہو؟ تم تو میرے ہی جیسے دِکھتے ہو؟”
بیل نے جواب دیا:
“ہاں، میں بھی بیل ہی ہوں۔”
“تم کیا کرتے ہو؟” کولہو کے بیل نے پوچھا۔
” میں کھیتی باڑی میں کسان کی مدد کرتا ہوں. ہل چلاتا ہوں۔”
” یہ کیا ہوتا ہے؟ اس کا کیا فائدہ؟” کولہو کے بیل کی سمجھ میں نہیں آیا۔
” ہل سے کھیتوں کی جُتائی کرتا ہوں۔ میرے ذریعہ جتائی ہونے کے بعد کھیتوں میں بیج کی بوائی ہوتی ہے۔ اس کے بعد فصل اگتی ہے، اور لوگوں کی غذا کا سامان بہم ہوتا ہے۔”
” ہونہہ۔۔۔یہ بھی کوئی کام ہے، جس میں نہ کوئی کولہو، نہ کولہو کا جَوٹَھا۔۔۔نہ سرسوں، نہ سرسوں کا تیل۔۔۔نہ آنکھ پر پٹی، نہ گلے میں گھنٹی۔۔۔نہ گول گول گھومنا۔۔۔بس، ہل چلانا اور لوگوں کی غذا کا سامان کرنا۔۔۔یہ تو سراسر دنیا پرستی ہے۔۔۔!”، کولہو کا بیل پورے جلال میں تھا۔۔۔
” ٹھیک ہے، بھائی جان! اپنی اپنی سمجھ۔۔۔”، بیل نے بات بڑھانا مناسب نہیں سمجھا اور استفسار حال کے طور پر پوچھا:
“لیکن یہ آپ چلتے ہوئے گول گول کیوں گھومتے رہتے ہیں؟ آپ کی آنکھوں پر پٹی کیوں ہے؟ آپ کے گلے میں گھنٹی کیوں ہے؟ اور آپ کے جسم پر اتنا زیادہ تیل کیوں لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے ایک عجیب قسم کی بو آ رہی ہے۔۔۔؟ ”
” مردود کہیں کا۔۔۔دنیا پرست، بد دین۔۔۔ فرشتوں جیسی میری چال پر تنقید کرتا ہے۔۔۔میری بصیرت افروز نگاہوں کا مذاق اڑاتا ہے۔۔۔ میرے ناقوس اکبر کی اہانت کرتا ہے۔۔۔میرے خوشبودار بدن کی توہین کرتا ہے۔۔۔ناہنجار، خبیث کہیں کا۔۔۔تجھ جیسے منافقوں کے منہ نہ لگنا ہی بہتر ہے۔۔۔”
یہ کہہ کر کولہو کا بیل غصہ سے تمتماتا ہوا وہاں سے آگے بڑھا اور گول گول چلتا ہوا ایک دوسرے گاؤں پہونچ گیا۔۔۔
اس گاؤں کے تالاب پر پہونچا۔۔۔ وہاں بھی اپنے ہی جیسے ایک بیل کو دیکھ کر گویا ہوا:
” اخاہ، حبیبی! تم تو مجھ جیسے لگتے ہو… تم کون ہو؟”
” جی ہاں، میں بھی ایک بیل ہوں۔ آپ ہی کی طرح!”
” اچھا، تو کیا کرتا ہے؟”
” میں فصلوں کی کٹائی کے بعد بیل گاڑی کی مدد سے اناج کسان کے گھر پہونچاتا ہوں۔”
” اناج گھر پہونچاتا ہے؟ یہ کیا ہوتا ہے؟ اس کا کیا فائدہ؟”
” اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے کسان کی محنت محفوظ ہوجاتی ہے۔ وہ جی توڑ محنت کرکے جو اناج اگاتا ہے، وہ اس کے گھر میں ایک محفوظ جگہ پر میری ہی بدولت پہونچتی ہے۔ اس کے بعد کسان اس اناج کا استعمال اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے کرتا ہے۔۔۔”
” ہونہہ۔۔۔یہ بھی کوئی کام ہے، جس میں نہ کوئی کولہو، نہ کولہو کا جَوٹَھا، نہ سرسوں، نہ سرسوں کا تیل۔۔۔نہ آنکھ پر پٹی، نہ گلے میں گھنٹی۔۔۔نہ گول گول گھومنا۔۔۔بس، اناج ڈھونا اور پیٹ کی آگ بجھانا۔۔۔یہ تو سراسر پیٹ پرستی ہے۔۔۔!” کولہو کے بیل نے جیسے رٹی رٹائی بات دہرائی۔۔۔
” ٹھیک ہے بھائی جان! نظر اپنی اپنی، خیال اپنا اپنا۔۔۔لیکن یہ بتائیں کہ آپ چلتے ہوئے گول گول کیوں گھومتے رہتے ہیں؟ آپ کی آنکھوں پر پٹی کیوں ہے؟ آپ کے گلے میں گھنٹی کیوں ہے؟ اور آپ کے جسم پر اتنا زیادہ تیل کیوں لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے ایک عجیب قسم کی بو آ رہی ہے۔۔۔؟”
” بد تہذیب۔۔۔حرام خور۔۔۔میری مست خرامی کا مذاق اڑاتا ہے۔۔۔میری پاکیزہ نگاہی پر طعنے کستا ہے۔۔۔میرے خوش نوا بربط کو گھنٹی کہتا ہے۔۔۔میرے جسم اطہر سے اٹھنے والی بھینی بھینی خوشبو کو عجیب قسم کی بو کہتا ہے۔۔۔ مادہ پرست خبیث بیلو۔۔۔ تم سب بدکردار ہو۔۔۔تم سب اتنے گمراہ ہو کہ تم جیسوں سے بات کرنا بھی گناہ ہے۔۔۔”
کولہو کے بیل کو اس بیل سے بھی مایوسی ہوئی۔۔۔سوچا کہ چلو سمت بدل کر دیکھتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ کوئی اپنے کام کا بیل مل جائے۔۔۔اس لیے اب اس نے سمت بدل کر بائیں جانب سے گول گول گھوم کر چلنا شروع کیا۔۔۔چلتا رہا، چلتا رہا لیکن راستہ میں کوئی بھی بیل نہ ملا۔۔۔بہت دیر تک چلنے کے بعد، اس کے پاؤں سے کوئی چیز ٹکرائی، کولہو جیسی۔۔۔اور ساتھ ہی چاروں طرف سے آوازیں بلند ہوئیں:
” جُمّن کا بیل لوٹ آیا، جمن کا بیل لوٹ آیا۔۔۔”
شور سن کر جمن گھر سے باہر نکلا، بیل کے پاس پہونچ کر اس کی گردن پر کولہو کا جَوٹَھا پہنایا، اس کی آنکھوں سے سرک گئی پٹی کو ٹھیک کیا اور ایک سونٹا جڑتے ہوئے بولا:
” تَتَا تتا۔۔۔تتا تتا۔۔۔وَہَا وَہَا۔۔۔ہٹ رے ہٹ!”

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Waseem

بہت خوب شمس الرب بھائ تتا تتا ہو ہو ہٹ رے ہٹ