تجارت سے کمائے ہوئے مال پر زکوٰۃ کب فرض ہوتی ہے؟
اس مال میں فرضیت زکوۃ کے لیے شارع علیہ السلام کی جانب سے متعینہ نصاب کیا ہے؟
متعینہ نصاب میں سے کتنا کچھ بطور زکوۃ فی سبیل اللہ خرچ کرنا پڑے گا؟
زکوۃ نکالنے کا طریقہ کار کیا ہے؟
اس مختصر سے مضمون میں ان تمام سوالات کے مختصر و ملخص جوابات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
اول: کرنسیوں میں زکات کب فرض ہوتی ہے؟
تو اس کے لیے شریعت کی جانب سے دو شرائط ہیں:
(1) مال نصاب تک پہنچ جائے۔
(2) اس پر ایک سال کا عرصہ بھی گزر جائے۔ کیونکہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے: “لا زكاة في مال حتى يحول عليه الحول”۔ رواه إبن ماجه (1449) وصححه الألباني رحمه الله في الإرواء (787 )
دوم: نصاب کیا ہے؟
نصاب سونے یا چاندی میں سے کسی ایک کے نصاب کی قیمت ہے۔ سونے کا نصاب: بیس دینار جو ساڑھے سات تولہ سونا یعنی 85 گرام سونا ہوتا ہے۔
چاندی کا نصاب: پانچ اوقیہ چاندی جو دو سو درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی برابر 595 گرام ہوتا ہے۔
البتہ روپیوں میں زکات کے سلسلے میں سونے کے نصاب کا اعتبار کیا جائے یا چاندی کے نصاب کا؟ اس سلسلے میں علما و فقہائے ملت کا اختلاف ہے۔ تین اقوال ہیں:
پہلا: چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا کیو نکہ چاندی کا نصاب متفقہ ہے اور چاندی کے نصاب کا اعتبار کرنا فقرا و مساکین کے حق میں بھی بہتر ہے۔
دوسرا: سونے کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ عہد نبوی کے بعد چاندی کی قیمت یکسر مختلف ہوگئی ہے حتی کہ عہد نبوی کے بالمقابل دور حاضر میں چاندی کی کوئی قابل ذکر قیمت ہی نہیں رہی ہے جبکہ سونے کی قیمت تقریباً اسی طرح ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی کہ سونے کا نصاب دوسرے اموال کے نصابات کے قریب تر ہے جیسا کہ پانچ اونٹ میں ایک بکری، چالیس بکری میں ایک بکری، تیس گائے میں ایک گائے وغیرہ چنانچہ یہ بات غیر معقول ہے کہ شارع علیہ السلام چار اونٹوں اور انتالیس بکریوں کے مالک کو فقیر قرار دے کر ان میں زکات واجب نہ کرے۔ مگر چاندی کی قیمت کے برابر مال والے کو مال دار قرار دے کر اس پر زکوۃ واجب الادا قرار دے جس سے کہ ایک اونٹ یا پانچ دس بکریاں خریدنا بھی ممکن نہیں۔
تیسرا : سونے اور چاندی میں سے جس کا نصاب کم ہو اسی کے اعتبار سے زکات نکالا جائے گا کیونکہ یہ فقرا کے حق میں فائدہ مند ہے۔
ان تمام میں راجح دوسرا قول ہے کیونکہ یہی حکمت شارع کے موافق ہے۔
لہذا اگر کسی کے پاس 85 گرام سونے کی قیمت کے برابر روپے ہوں تو اس کو ان میں سے چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد نکالنا واجب ہوگا۔
ایک توضیحی مثال:
آج پٹنہ میں سونے کی قیمت فی گرام 4450 روپے ہے تو 85 گرام کی قیمت / 3,78,250 روپے ہوگی۔ چنانچہ اگر کسی کے پاس اتنا روپیہ ہو تو اس کا ڈھائی فیصد یعنی 9,456.25 (نو ہزار چار سو چھپن) ہے۔
سوم: بطور زکات کتنا ادا کرنا ہوگا؟
اگر اموال نصاب تک پہنچ جائے یا نصاب سے زائد ہوں اور ان پر ایک سال کا عرصہ بھی گزر جائے تو اس مال کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد بطور زکوۃ نکالنا پڑے گا۔
چہارم: روپیوں کی زکات نکالنے کا طریقہ
1. جس مال پر ایک سال گزر جائے اس کو چالیس پر تقسیم کر دیں جو مقسوم علیہ (بھاگ پھل) ہوگا وہی اس مال کی زکات ہوگی۔ مثال: 10,00000 دس لاکھ مال پر ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے تو حساب اس طرح ہوگا: 1,000,000÷40 : 25,000 یعنی ہر ہزار روپے میں پچیس روپے (25)
2. جس مال پر سال گزر جائے اس کو سو (100) پر تقسیم کر دیں پھر اس مقسوم علیہ کو 2.5 سے ضرب دیں (گنا کریں) جو مضروب ہوگا (جتنا نتیجہ نکلے گا) وہی اس مال کی زکات ہوگی۔
مثال :1,000,000÷100×2.5 = 25,000
اب جس کو بھی اپنے روپیوں کی زکات نکالنی ہو وہ مذکورہ طریقے پر عمل کرے۔
ایک بات بطور فائدہ عرض ہے کہ چاندی کی زکات کا نصاب 52.5 تولہ یعنی (595 ) گرام چاندی ہے اور آج پٹنہ میں چاندی کی قیمت فی گرام بیالیس روپے ترپن پیسے (42.53) اور فی کیلو بیالیس ہزار پانچ سو تیس روپے (42,530 )ہے۔ چنانچہ اس حساب سے 595 گرام چاندی کی قیمت :42.53×595 = 25,305.35 یعنی پچیس ہزار تین سو پانچ روپے ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
آپ کے تبصرے