جمعیت و جماعت کے ایک بے لوث خادم، مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک، خوش اخلاق ومہمان نواز، جمعیت اہل حدیث نیپال کی ترقی کی فکر میں سر گرداں اور جماعت کے لیے ہمہ تن خدمت کے جذبہ سے سرشار ڈاکٹر قمر الہدی انصاری اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ لیکن ان کی یادوں کی خوشبو ہمارے سینوں میں باقی رہے گی، انھوں نے ایک طویل علالت سے نبرد آزما رہنے اور مختصر عرصہ تک صاحب فراش رہنے کے بعد آج شب ساڑھے بارہ بجے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
ڈاکٹر صاحب نیپال کے معروف سرحدی شہر بیرگنج سے متصل ایک مشہور اہل حدیث بستی بہوری کے رہنے والے تھے۔ یہ بستی الحمدللہ خطہ میں دیوبندیت، بریلویت اور تحریکیت کے سمندر میں ایک اہل حدیث جزیرہ کی طرح ہے، مختصر سی آبادی والی اس بستی کے تقریباً سبھی افراد موحد، اور کتاب وسنت کے پابند اہل حدیث ہیں، اور یہ خطہ میں اہل حدیثوں کی قدیم آبادی ہے۔
ڈاکٹر صاحب جمعیت و جماعت کی تعمیر وترقی سے گہری دلچسپی رکھتے تھے، اور اس کے بنیادی ممبروں میں سے تھے، جمعیت کے ساتھ ان کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے ان کو ہمیشہ جمعیت کی مجلس عاملہ کا ممبر نامزد کیا جاتا رہا اور یہ اعزاز حاصل کرنے والے وہ چند لوگوں میں سے ایک تھے۔ وہ پابندی کے ساتھ ہمیشہ جمعیت کی میٹنگوں میں شریک ہوتے تھے اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتے تھے۔ جمعیت کی میٹنگیں ملک کے شرق وغرب یا دارالحکومت کھٹمنڈو میں کہیں بھی ہو وہ اپنی گوناگوں مصروفیات کو ترک کے ان میں شرکت کے لیے ضرور پہنچتے تھے۔
وہ ایک خوش اخلاق، مہمان نواز اور ایک اچھے انسان تھے، ان کے دل میں انسانیت کا درد تھا۔ میری ان سے پہلی ملاقات سرہا رمول میں جمعیت کے ایک انتخابی اجلاس میں ہوئی۔ اس سے قبل میرا ان سے کوئی تعارف نہیں تھا، اسی اجلاس میں خطیب الاسلام علامہ عبد الرؤوف رحمانی جھنڈا نگری رحمہ اللہ نے جو جمعیت کے مؤسس اور اس وقت تک امیر تھے، اپنی پیراں سالی، صحت کی کمزوری اور نقل وحرکت سے معذوری کی وجہ سے مزید اس بوجھ کو اٹھانے سے معذرت کردی تھی، جس کے بعد شوری نے اتفاق رائے سے مجھ بے بضاعت کو امیر جمعیت منتخب کیا۔ مولانا عطاء الرحمن مدنی ناظم اور مولانا عبد الخالق مدنی نے نائب امیر کی ذمہ داریاں قبول کیں۔ جمعیت کی نئی باڈی نے اپنا کام شروع کیا، جس کے پہلے مرحلہ میں ملک گیر دوروں کا پروگرام مرتب ہوا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب برابر ہمارے رابطہ میں رہے۔ میں نے مشرقی نیپال کے دورے سے ابتدا کی اور ناظم جمعیت مولانا عطاء الرحمن مدنی کی دعوت پر اپنے دورے کی شروعات ان کے آبائی وطن سرہا سے کی، پھر مشرق میں سبتری، سنسری وغیرہ کا دورہ ہوا اور اہل حدیث مدارس کے حالات کی ایک رپورٹ مرتب کی گئی، پھر جنکپور، روتہٹ وغیرہ ہوتے ہوئے ہمارا یہ مختصر سا قافلہ بہوری پہنچا جہاں سے ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بڑے ہی خلوص کے ساتھ دعوت دے رکھی تھی، دنھوں نے ہماری پرتکلف ضیافت کی اور ہمارے قیام وطعام کا انتظام کیا۔ اس علاقے کے مدارس جو رنگ پور کلیا وغیرہ میں ہیں ان کے حالات معلوم کرنے کے دوران ہمارا قیام ڈاکٹر صاحب کے گھر رہا، انھوں نے ہماری میزبانی کا فریضہ بڑے اعلی پیمانے پر انجام دیا اور علاقہ میں جمعیت و جماعت کی سرگرمیوں سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا، اس سے ہمیں ان کی جماعتی وابستگی کی گہرائی کا احساس ہوا۔
اس پہلی تفصیلی ملاقات نے میرے دل پر ان کے اخلاق اور مہمان نوازی نے انمٹ نقوش مرتب کیے۔ اس کے بعد دو بار اور ان کے دولت خانہ واقع بہوری جانے کا اتفاق ہوا، ہر بار اسی تپاک سے ملے اور ہماری میزبانی کا فریضہ انجام دیا۔
اس کے بعد بھی وہ ہر ملاقات پر مجھے بہوری آنے کی دعوت دیتے رہے۔ ایک بار انھوں نے اپنے یہاں ایک دینی اجلاس میری صدارت میں رکھا لیکن اسی دوران ماؤنوازوں کی ہڑتال کی وجہ سے میرا جانا ممکن نہ ہوا، جس کا انھیں عرصہ تک ملال رہا، بلکہ وہ مجھ سے نالاں رہے لیکن پھر میں نے کھٹمنڈو کی ایک ملاقات میں اپنی مجبوریاں بتاکر انھیں راضی کرلیا۔
اس طرح گزرتے وقت کے ساتھ میرے ان کے ساتھ روابط مضبوط ہوتے گئے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مجھ سے ملنےکے لیے کئی بار جھنڈا نگر اور ایک بار میرے غریب خانہ پر لکھنؤ بھی تشریف لائے، جہاں انھیں اپنے کسی مسئلہ میں مشورہ کرنا تھا جس میں انھیں میرا تعاون بھی درکار تھا۔ بہرحال میں نے بھی ان کی آمد پر اظہار مسرت کرتے ہوئے ان کی مہمان نوازی کا فریضہ انجام دیا اور ان کے مسئلہ کو حل کرنے میں اپنا تعاون دیا جو الحمدللہ آگے چل کر حل ہوگیا، اس سلسلے میں وہ میری حقیر سی کوششوں کے ہمیشہ معترف ومداح رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے جمعیت میں اپنی جگہ کو گزرتے وقت کے ساتھ مزید مضبوط کیا اور اپنی اہمیت کا احساس دلایا یہی وجہ ہے کہ وہ کچھ ہی عرصہ بعد بلا اختلاف جمعیت کے امین الصندوق (کوشا ادھیکچھ) نامزد ہوئے جو تین میقات تک اس ذمہ دارانہ منصب پر فائز رہے، پھر آخر میں صحت کی خرابی اور اپنی کاروباری مصروفیات سے زیادہ جمعیت میں اپنے مسلسل نظر انداز کیے جانے اور جمعیت کی بے ضابطگیوں سے دلبرداشتہ ہوکر اس سے علاحدہ ہوگئے یا جمعیت کے ذمہ داران نے ہی انھیں اپنی راہ کا روڑا سمجھ کر ان سے پیچھا چھڑا لیا۔
امین الصندوق رہتے ہوئے انھیں جمعیت کے آمد وصرف اور اس کے حساب وکتاب سے بالکل بے خبر رکھا گیا اور رسمی طور پر بھی ان سے کسی بجٹ کی منظوری کی ضرورت نہیں سمجھی گئی، اور یہ صرف ان کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ جمعیت کے موجودہ امین الصندوق مولانا عبد الصبور ندوی جمعیت کے حسابات سے شاید ان سے بھی زیادہ بے خبر ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو قصداً جمعیت میں بے وقعت اور عضو معطل بنا دیا گیا، جمعیت کے موجودہ سیاہ وسفید کے مالک ذمہ داران کی ایک غیر ذمہ دارانہ سوچ یہ ہے کہ جو جمعیت کے لیے چندہ کرکے لاتا ہے اسے من مانے ڈھنگ سے اس رقم کو صرف کرنے یا اس میں تصرف کرنے کا حق بھی حاصل ہے، کسی کو سوال کرنے کا حق نہیں، یہ حق جب امین الصندوق کا نہیں سمجھا گیا تو اور کسے حاصل ہوگا۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب کے نظر انداز کیے جانے کی انتہا تو اس وقت ہوگئی جب انہی کی بستی بہوری میں نام نہاد “عالمی کانفرنس” کا انعقاد ہوا تو انھیں کوئی کلیدی ذمہ داری دینا تو دور کی بات ہے ان کو مشورہ کے لائق بھی نہیں سمجھا گیا۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس کے پس پردہ اسباب کیا تھے، لیکن حقیقت یہی تھی کہ وہ کانفرنس کی پوری تیاریوں کے درمیان اور پھر اس کے انعقاد کے دوران اس سے بالکل الگ رہنے پر مجبور ہوئے اور پورے منظر نامہ سے غائب رہے، اور صرف وہی ایک مظلوم نہیں تھے، جمعیت و جماعت جو چند ہاتھوں میں کھلونا ہے اس کے تیر نیم کش کے شکار بہت سے علماء وفضلاء ہیں جن کے دل میں جماعت کا درد اور اس کی تعمیر وترقی کی خواہش ہے لیکن جمعیت میں ناقدری کے شکار ہیں۔ ایسے لوگوں کو موجودہ ذمہ داران ہمیشہ اپنا حریف سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ کانفرنس سے بے تعلقی کے اظہار پر مجبور ہوئے۔
پھر کانفرنس کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے جس نے اس کانفرنس کو نہ صرف یہ کہ قصہ پارینہ بنادیا بلکہ دنیا بھر میں جمعیت کا بھی خوب تماشہ بنایا۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب مرحوم کا حال لکھتے لکھتے یہ چند تلخ حقائق بلا ارادہ نوک قلم پر آگئے جس کے لیے احباب سے معذرت خواہ ہوں۔
اللہ سے دعا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو غریق رحمت کرے، انھیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے، ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، ان کی نیکیوں کو شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے ان کی خطاؤں ولغزشوں سے درگزر فرمائے۔
اور اللہ تعالیٰ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور زمانہ کے دستبرد سے ان کی حفاظت فرمائے۔
آپ کے تبصرے