کیرلا، میں اور میری یادیں

محمد حسن سفریات

کیرلا چودہ اضلاع پر مشتمل ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے لیکن اس کا نام صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ خلیجی ممالک کے علاوہ دوسرے ملکوں بھی میں عزت و حرمت سے لیا جاتا ہے۔ کیرلا کئی چیزوں میں نہ کہ صرف ہندوستان کے سبھی ریاستوں پر فوقیت رکھتا ہے بلکہ دنیا کے کئی ملکوں سے بہتر ہے۔ کیرلا اپنی حکمت عملی اور ذمہ دار شہریوں کی ایک اعلی مثال ہے۔ کیرلا میں مسائل نہیں بلکہ وسائل کی بھرمار ہے۔ ہر شخص تعلیم یافتہ، ہر آدمی بر سر روزگار، گاؤں گاؤں، گلی گلی ہریالی و شادابی ہے۔ ناریل کے درختوں کے بیچ کھڑا یہ شہر سچ میں ‘خدا کا اپنا دیش’ معلوم ہوتا ہے۔ خدا اور بندوں کے بیچ عجیب تال میل ہے نہ بندوں کو خدا سے شکایت اور نہ خدا کو بندوں سے کوئی ناراضگی نظر آتی ہے۔ ہر شخص اپنی فکر میں مگن اور اپنی بہتر مستقبل کے لیے کوشاں ہے۔ وہاں ہر ایک چیز کا نظام ہے۔ کھانے پینے، سونے جاگنے، پڑھنے لکھنے سے لے کر بارش تک کا وقت اور مقدار طے ہے۔ چونکہ میں نے اپنی عملی کی زندگی کی شروعات وہیں سے کی ہے اور مجھے اچھا خاصہ وقت وہاں گزارنے کا موقع ملا اس لیے وہاں سے میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔
دسمبر 2010 کی بات ہے جب میں کیرلا نظام الدین اکسپریس سے گوا ہوتے ہوئے روانہ ہوا۔ یہ کسی لمبے سفر کا میرا پہلا تجربہ تھا اس لیے بہت سارے وسوسے ذہن میں گھر کیے ہوئے تھے۔ جہاں سفر کی دشواریوں کا اندوہناک خیال تھا وہیں رنگ برنگے ہرے بھرے قدرتی نظاروں کا لطف ذہن میں انگڑائیاں لے رہا تھا۔ سفر کافی لمبا تھا اس لیے شروع میں اکتاہٹ محسوس ہوئی لیکن جیسے جیسے ریل اپنی رفتار تیز کرتی گئی اور گھنی آبادیوں کی پٹریاں ختم ہوکر ویران صحراؤں کا دور شروع ہوا۔ صاف نیلا آسمان ہمیں مسکراہٹوں سے خوش آمدید کہنے لگا۔ ریل کی رفتار کے ساتھ پٹریوں کی چْھک چْھک کرتی آوازیں ہمیں بد مست کرنے لگیں۔ مختلف قسم کی ہریالیوں کا سنگم ہمیں سفر کی مبارک باد دینے لگا پھر کیا تھا ہماری فکر مندی کو راحت کا سامان ملا اور ہم کب نیند کے حوالے ہوگئے پتہ بھی نہ چلا۔ صبح جب چائے گرم! چائے گرم! کی آواز کانوں سے ٹکرائی اور جھٹ پٹ کھڑکی سے باہر نظر دوڑائی تو گوا کے مڈگاوں اسٹیشن کی بہاریں ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ گوا سیر و تفریح کی جگہ کا ایک بڑا نام ہے۔ گاہے بگاہے اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ گوا کے بیچ کا بڑا چرچا سنا تھا اور اس کے ایک بڑے شہر واسکو ڈگاما کا بھی۔ ہمیں لگا شاید اسٹیشن سے شہر کا منظر دکھ جائے یا پھر بیچ ہی نظر آجائے لیکن شہر اسیٹیشن سے کافی دور معلوم ہوا اور ہمیں جھاڑیوں اور درختوں کے درمیان نظر پھیرنے پر اکتفا کرنی پڑی۔ ریل اپنے وقت اور رفتار کے ساتھ آگے چل پڑی اور کیرلا جوں جوں قریب ہوتا گیا ہم نئی جگہ نئے لوگ اور نیا کام کے اندیشوں میں الجھنے لگے۔ کبھی ماحول اور آب و ہوا کا ڈر ستاتا تو کبھی وہاں قدم نہ جم پانے کی فکر ہماری الجھنیں بڑھاتی۔ کیرلا پہنچنے کے بعد سب سے پہلے میری ملاقات منیر کے ایم سے ہوئی اور ملاقات بھی ایسی کہ دس سال کا طویل عرصہ بھی اس پانچ منٹ کی ملاقات کو بھلا نہ سکا۔ منیر کے ایم میری علمی زندگی میں بہت سے محترم ناموں میں سے ایک باوقار نام ہے۔ عموما پہلی ملاقات پرتکلف اور رسمی ہوا کرتی ہے لیکن اس شخص کے نزدیک رسمی بات چیت کا کوئی وجود نہ تھا۔ تھوڑی بہت سفر کے متعلق اور دہلی کے حالات پر گفتگو کے بعد مجھے اپنی رہائش گاہ پہنچا دیا گیا۔ جیسا کہ ہم فریشر تھے اور بہت ساری کمیاں موجود تھیں اس کے باوجود بھی کسی نکتہ چینی کے بغیر ہمیں اپوائنٹ کر لیا گیا بس اس امید پر کہ سیکھ لیں گے اور ہم اس امید پر کسی حد تک کھرے اترے۔
منیر کے ایم اِن دنوں ملیشیا اسلامی یونیورسٹی میں اپنی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میں نے وہ جگہ ان کے ملیشیا روانہ ہونے کے کچھ دنوں بعد ہی ترک کردی کیوں کہ جو تعلقات ان سے استوار ہوئے اور جو انسیت ان سے پیدا ہوئی ان کے جانے بعد ہم اجنبی سا محسوس کرنے لگے بجائے اس کے کہ نوشاد صاحب، صافی صاحب کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا اور ڈاکٹر صافی قمر، ڈاکٹر ضیاء الرحمن اور عماد صاحب وغیرہم کا بھر پور تعاون رہا۔ضمیر، حسیب اور ہارون قاصر جیسے عزیز وہیں سے ساتھ جڑے۔
اس کے بعد ڈاکٹر حسین مڈؤر کے زیر سایہ کچھ مہینے کام کرنا نصیب ہوا اور پھر ہم نے کاسرکوڈ، کالی کٹ، مالاپرم، تری شور، کوچین اور کنور کے مختلف اسکولوں اور کالجوں میں اپنی علمی پیاس بجھانے کا عمل انجام دیا۔ یہ پانچ سال کا مکمل عرصہ ہے جس میں کئی چھوٹی بڑی علمی ہستیوں سے ملاقات ہوئی جن میں ڈاکٹر ایم ایم اکبر، ڈاکٹر عبد الرحمن سلفی کے علاوہ، موسی کویا، محمد کویا کا نام قابل ذکر ہے۔ بہت سے علمی دوست (شاگرد) بھی بنے جن میں چند ایک سے آج بھی رابطے ہیں۔ ان پانچ برسوں میں میں نے بہت سی عجیب چیزیں دیکھیں جن سے مجھے بہت سے تجربات ہوئے۔ زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے اور جاننے کا بڑا اچھا وقت ہاتھ لگا۔ بدر الدجی، نہال، راشد، شاہ جمال، عبد السمیع، پرویز، ماجد، معین الدین، سرور، نسیم، زاہد، توقیر اور آزاد کے ساتھ جہاں ہنسی قہقہوں کی محفلیں سجیں وہیں بہت سے رنج و غم کا سامنا بھی کرنا پڑا اور وقت اپنے پر پھیلا کر بہت تیزی سے اڑتا چلا گیا۔ وہاں کی زندگی میں بہت سکون اور ٹھہراؤ دکھا۔ علمی ارتقا کے ساتھ صحت بھی خوب بحال ہوئی۔ اس دوران میں نے ذاتی طور پر جو چیزیں اپنی نظروں سے وہاں دیکھیں اور محسوس کیں قابل رشک اور قابل نصیحت ہیں۔ وہاں تعلیم کا نمایاں نظام ہے۔ ہر طرح کے بچوں کے لیے سماجی اور سرکاری طور پر سہولیات فراہم ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں بھی پرائیوٹ اسکولوں جیسا عمدہ تعلیمی نظام ہے۔ اسکول اور کالج کے بچوں کے لیے پرائیوٹ اور سرکاری بسوں میں اس وقت صرف ایک روپیہ کرایہ تھا۔ گلی کوچے میں بھی بس اسٹاپ ہیں۔ سرکاری اور پرائیوٹ بسیں وہاں متعینہ ٹائم ٹیبل کا پورا خیال کرتی ہیں اس طرح سے کہ میں نے اس طویل عرصے میں کسی ایک دن بھی متعینہ وقت کی خلاف ورزی ہوتے نہیں دیکھا۔ دہلی سے کئی بار کیرلا آنا جانا ہوا تعجب ہوتا کہ جو ٹرین دہلی سے دس گھنٹے یا اس سے زیادہ تاخیر سے روانہ ہوتی وہ بھی کیرلا آتے آتے بروقت ہوجاتی۔ میں نے کبھی وہاں ٹرینوں کو لیٹ ہوتے نہیں دیکھا۔ ایک بار کی بات ہے۔ کنور اسٹیشن پر میں ٹرین میں ترکری پور جانے کے لیے بیٹھا تھا اتفاق سے صرف پانچ منٹ کی تاخیر پر ٹرین کے سارے لوگ اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں پہنچ گئے اور پھر ٹرین کو جلد ہی ہری جھنڈی مل گئی۔ بسوں میں کرائے کو لے کر سواریوں اور کنڈکٹر کے بیچ بحث و مباحثہ کبھی نظر نہیں آیا۔ ٹکٹ کنڈکٹر نے کبھی زیادہ پیسے مانگے ہوں اور سواریوں نے کبھی کم پیسے دیے ہوں ایسا نہ ہوا۔ بسا اوقات کسی بزرگ کے کم پیسے دینے پر ٹکٹ کنڈکٹر نے جلدی سے بنا کسی رد عمل کے ٹکٹ تھما دیا۔ ٹرینوں میں بنا ٹکٹ کے سفر کا دور دور تک تصور نہیں۔ بسوں اور ٹرینوں میں ایسا سکون دیکھنے کو ملتا جیسے ان لوگوں کو بحث و مباحثہ کا عمل پتہ ہی نہ ہو۔ کسی بھی عام جگہ میں چاہے مارکیٹ ہو یا پلیٹ فارم دو لوگوں کے بیچ تو تو میں میں یا کسی متنازع عمل کا منظر نظر نہیں آیا۔ چھوٹوں سے پیار اور بڑوں کی قدر کوئی ان سے سیکھے۔ تکلف سے پرے سب ایک دوسرے کو پیار محبت سے پکارتے اور مل جل کر رہتے ہیں۔ صبح چائے ناشتے سے لے کر، دوپہر کے کھانے اور شام کی چائے سے لے کر رات کے کھانے تک کا مینیو ان سب کے یہاں ایک جیسا متعین ہے۔ پورا سال پینے میں گرم پانی کا استعمال اور چائے بڑے گلاس میں نیم گرم یہ ساری عادتیں ان کی بہتر صحت کی ضمانت دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں سستی جیسی قبیح عمل کا وجود نہیں ہے اور ہر شخص جفا کش اور محنت پسند ہے۔ بچوں، جوانوں سے لے کر بوڑھوں تک کا ڈیلی، ویکلی اور منتھلی روٹین طے ہے۔ کون سی چیز کس طرح اور کتنی مقدار میں استعمال کرنی ہے ان کے یہاں سب متعین ہے۔ چاول اور روٹی کے کھانے کا وقت محدد ہے۔ وہاں لطف اور ذائقہ انہی چیزوں میں ہے جن چیزوں کا لطف اور ذائقہ اصلی اور دائمی ہے۔ ان کے یہاں عارضی چیزوں کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔ لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے کے پیچھے وقت ضائع کرنا نہیں آتا۔ ان کا سماج اور معاشرہ ایک مثالی سماج اور معاشرہ ہے جہاں ہر ضرورت مند کی ضرورتوں کو دیکھا سنا سمجھا اور پورا کیا جاتا ہے۔ بچوں کے لیے کھیلنے کا انتظام ان کی سرگرمیوں کو ہوا دینے کا عمل، ان کی اصلاح اور ان کو مصروف رکھنے کا انتظام ہر ایک کیلو میٹر میں منظم طریقے میں موجود ہے۔ وہاں لوگوں کو سماجی داؤ پیچ کا عمل پتہ نہیں ہے اور وہ ایک دوسرے کی ٹوہ میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے ہیں۔ ان کے یہاں بچوں اور بچیوں کو بچپن سے ہی صحیح اور غلط کا فرق بتایا جاتا ہے اور ان کو اس کی تمیز سکھائی جاتی ہے۔ میں اور توقیر کالی کٹ بندرگاہ دیکھنے جانے کے لیے بس میں روانہ ہوئے کچھ دوری پر ایک پانچ سال کا بچہ بس میں چڑھا اور محض ایک کیلومیٹر دور جانے کے لیے پانچ روپیہ کرایہ کنڈکٹرکو تھما دیا۔ شاید کنڈکٹر نے بچے سے یہ پوچھنے کے بعد کہ وہ کہاں جائے گا پیسہ واپس کرنا چاہا لیکن بچے نے جواب میں جو کہا میں وہیں پاس میں بیٹھا سن رہا تھا، بچے نے کہا ‘میرے ابا نے کہا ہے کہ کرائے کے پورے پیسے دینا’۔ سچ میں اولاد کی تربیت میں والدین کا بڑا رول ہوتا ہے۔ وہ چاہیں تو بچہ مہذب اور کامیاب انسان بن جائے اور ڈھیل دے دیں تو غیر مہذب اور ناکارہ ہوجائے۔
کیرلا میں چھ مہینے مسلسل بارش ہونے کے باوجود بھی سڑکوں پر ایک قطرہ پانی کا نظر نہیں آتا۔ وہاں کے لوگ بارش کے اس پانی کو ذخیرہ کرکے پورے سال اس کا استعمال کرتے ہیں۔ وہاں سب کے گھروں میں کنواں موجود ہے۔ بارش کا بھی ایک ایسا نظام ہے کہ چھ مہینہ لگاتار بارش ہونے کے باوجود بھی کسی طر ح سے کسی کام میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا ہوتی کیوں کہ بارش خوب موسلا دھار بیس سے تیس منٹ تک ہوتی ہے اور پھر تیز دھوپ بارش کے سارے اثرات کو زائل کردیتا ہے اور بارش کا سارا پانی روڈ سے بہہ کر کنارے نالی میں جا ملتا ہے۔ بارش کے ان ایام میں وہاں ہر آدمی کے ہاتھ اور بیگ میں چھ مہینہ چھتری کا ہونا لازمی ہوتا ہے اس لیے کہ دن میں بارش ہونے کا کوئی معمول نہیں ہے کسی بھی وقت سخت دھوپ ہونے کے باجود بھی اچانک موسلا دھار بارش شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن یہی میں نے غور کیا کہ رات میں بارش سب کے سو جانے کے بعد خوب موسلا دھار ہوتی اور صبح فجر ہوتے ہی ختم ہوجاتی۔ رات میں سونے کے معاملے میں بڑی اچھی عادت وہاں کے لوگوں میں نظر آئی۔ تقریبا آٹھ بجے دیہی علاقوں میں جہاں ہر طرح کے وسائل مہیا ہیں لوگ سو جاتے ہیں اور شہروں میں بھی عام طور سے تجارتی کاروباریوں کے علاوہ دس بجے تک لوگ سو ہی جاتے ہیں اور صبح فجر کے وقت سب بیدار ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ چار پانچ سال کے بچے بھی صبح جلدی جگتے ہیں اور یہی ان کی عادت بن جاتی ہے۔ وہاں کھیلنے کا وقت صبح کا ہے اور وہاں کے لوگ عام طور سے دو وقت خود بھی غسل کرتے ہیں اور بچوں کو بھی کراتے ہیں۔ مجھے حیرت تب ہوتی جب میں یہ دیکھتا کہ تین چار سال کا بچہ بھی فجر کی نماز میں اپنے والدین کے ساتھ مسجد میں رکوع اور سجدے کرتا ہوا نظر آتا۔ وہاں کے لوگوں میں بغض و حسد اور ایک دوسرے سے نفرت جیسی بری عادت نہیں پائی جاتی ہے۔ ان کے یہاں ہر چیز کا ایک حد ہے۔ اجنبی سے تعلقات میں بڑی ہوشیاری برتی جاتی ہے جو کہ ہوش مندی کی علامت ہے ورنہ عام طور سے اجنبی لوگ ہی سماجی خرابی کا باعث بنتے ہیں جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ وہاں سرکار اور عوام شانہ بشانہ چلتے نظر آتے ہیں۔ ان کے سماج کا بڑا سے بڑا شخص بھی کسی طرح کی کبرو غرور یا برتری جیسے خیالات کا شکار نہیں ہوتا ہے اور اسی طرح ان کے یہاں تقریبات میں سب کے لیے یکساں انتظامات ہوتے ہیں چاہے وہ علاقے کا بڑا آدمی ہو یا چھوٹا۔ جن دنوں میں ڈاکٹر حسین مڈؤر کے یہاں ملازمت کررہا تھا وہاں پر مطبخ میں سب کے لیے یکساں انتظام تھا جو چیزیں عام لوگوں کے لیے دستیاب ہوتی وہی ڈاکٹر مڈؤر کو بھی پیش کی جاتیں یہاں تک کہ عام لوگوں کی طرح وہ بھی اپنی پلیٹ اٹھا کر رکھتے۔ گویا کہ زندگی جینے کا ایک اعلی اور نمایاں مثال کیرلا میں موجود ہے۔ میں عام طور سے کیرلا کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے کہا کرتا ہوں کہ جس کسی کو بھی دیکھنی ہو کہ زندگی عملا کیسے جی جاتی ہے تو وہ کیرلا میں جاکر دیکھے۔ زندگی کی جو تھیوری کتابوں میں بند ہے وہاں وہ زمینی حقیقت میں موجود ہے۔ اسکول، کالج اور اسپتال، ریلوے، میڈیکل کالج، انجینرینگ کالج، پاسپورٹ آفس، انٹرنیشل ایرپورٹ کیا نہیں ہے ان کے پاس۔ وہاں کیلے کی کاشت، چائے کی کاشت، ناریل کی کھیتی کے علاوہ فیکڑیاں، کمپنیاں سب کچھ موجود ہیں۔ میں نے کتنے لوگوں سے اس بات کا تذکرہ کیا کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا وہاں کے لوگوں کی راست بازی اور دیانت داری کی وجہ سے قدرت ان پر اس قدر مہربان ہے یا قدرت مہربان ہے اس لیے وہ لوگ ایسے ہیں۔ عرب ساگر کی تو بات ہی جدا ہے۔ کئی ضلعے سمندر کے کنارے ہیں جہاں بیچ کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔ وہاں کے لوگ جھوٹ بولنا اور دھوکھہ دینا جیسی عادتوں کو نہیں جانتے ہیں اور وہاں کے بچے گالی گلوچ جیسے الفاظ سے نا آشنا اور ناواقف ہیں۔
وہاں کی سرکار عوام کی براہ راست مدد کرتی ہے۔ سرکاری راشن کی دکانیں منظم ہیں۔ کہیں بھی لوٹ مار اور کالا بازاری نہیں ہے۔ مول بھاو کا رواج ان کے یہاں روا نہیں ہے۔ وہاں کے لوگ دنیا کے ہر کونے میں چھوٹے بڑے سارے عہدوں پر فائز ہیں۔ پرائیوٹ ہو یا سرکاری ہر جگہ کیرلا کے لوگ جن کو ملیالی کہا جاتا ہے اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں۔ چھوٹے بڑے ہر طرح کے بزنس مین ان کے یہاں پائے جاتے ہیں۔ لولو جو دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے اس کا مالک بھی کیرلا کا ہے۔ گویا کہ ان کے اندر صرف اچھائیاں ہی اچھائیاں ہیں برائیاں تو ان کے یہاں جنمی ہی نہیں۔ کیرلا میں جب 2018 میں سیلاب آیا تھا اس وقت پوری دنیا نے جس طرح کھل کر ان کی مدد کی اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں ان کی پہچان کیسی ہے۔
حالیہ دنوں میں کورونا وائرس کو لے کر جس طرح کیرلا کے عوام اور وہاں کی حکومت نے یکجہتی کا ثبوت دیا اس کا نتیجہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ جس ریاست میں سب سے پہلا کیس وارد ہوا اور جہاں شروعاتی دنوں میں پورے ملک میں سب سے زیادہ کورونا کے معاملے تھے لیکن ان کی منصوبہ بندی اور دوراندیشی نے بہت جلد اس پر قابو پالیا اور آج وہ چین کی سانس لینے میں کامیاب ہیں بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ ترقی یافتہ ریاست کا ڈنکا پیٹنے والے آج کورونا سے مزاحمت میں پھنسے نظر آرہے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ پورے ملک کو کورونا سے لڑنے میں کیرلا ماڈل اپنانے کی ضرورت ہے لیکن وہ فکر، دانشوری اور منصوبہ بندی کہاں سے آئے گی؟ اس کے لیے پورے دیش کو کیرلا ہونا پڑے گا اور دیش کے ہر بچے، جوان اور بوڑھے کو ملیالی…..کیا یہ ممکن ہے؟
کیرلا کے بعد میں نے دوبارہ دہلی کا رخ کیا اور وہاں ڈاکٹر نسیم احمد اور ڈاکٹر جاوید انور کی ماتحتی میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ پھر میرے محترم دوست فیض صاحب کی مہربانی سے قطر آنا نصیب ہوا اور یہاں بھی ملیالی لوگوں کے بیچ زندگی کا اگلا سفر شروع ہوا جن میں وینودن سرتھ اور انوپ علی جیسے اچھے ملیالی میرے دوست بنے۔ جو ہمیشہ مجھ کو اپنے سے جوڑ کر رکھتے ہیں اور یادوں اور ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
کیرلا کے لوگوں کی سوچ، ان کا رہن سہن اور ان کا زندگی جینے کا طریقہ بڑا اعلی اور نرالا ہے۔ وہ کڑی محنت کرتے ہیں اور ہر طرح کے آرام و آسائش کا سامان اپنے لیے تیار کرتے ہیں۔ ان کی عمارتیں اور گاڑیاں رشک کیے جانے کے لائق ہیں۔ ان کے بچوں کا طریقہ زندگی اور ان کا بودوباش بہت معیاری ہے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Nihal ahmad

بہت خوب دوست