ميت کی طرف سے روزہ داروں کو افطاری کرانے کا حکم

مامون رشید ہارون رشید رمضانیات

محترم قارئین یہ مہینہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ لوگ قسم قسم کی عبادتیں انجام دے کر اس ماہ مبارک کی رحمتوں اور فضیلتوں سے بہرہ مند ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ روزہ افطار کرانا بھی بڑے ثواب کا کام ہے اور لوگ اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ہیں ایک تو کچھ لوگ خود اپنے لیے حصول ثواب کی خاطر افطاری کراتے ہیں اور دوسرے کچھ حضرات اپنے فوت شدہ احباب واقارب کو ایصال ثواب کے لیے افطاری کراتے ہیں۔

اول الذکر مسئلہ یعنی خود حصول ثواب کے لیے افطار کرانا تو حدیث سے ثابت ہے اور رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے اس کی ترغیب بھی دی ہے جیسا کہ آگے اس کا ذکر آ رہا ہے لہذا یہ بالاتفاق مشروع ومستحب اور کار ثواب ہے۔
استاذ محترم فضیلۃ الشیخ سیف الرحمن الصلیح المدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: “تنبیہ: موجودہ دور میں مساجد یا دیگر جگہوں پر جو اجتماعی افطار پارٹیاں دی جاتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و سلف کا زمانہ ان سے خالی نظر آتا ہے لہذا یہ عمل بھی غلط ہے۔ نیز فرماتے ہیں: اجتماعی افطار عمل رسول و سلف سے خارج ہے۔ انفرادی طور پر کسی کو کھلانا یا کسی کے گھر کھانا پہنچانا درست ہے، کیونکہ یہ فطری عمل ہے، اور اجتماعیت عمل زائد… لہذا عمل زائد محتاج دلیل ہے۔”
رہا دوسرا مسئلہ کہ میت کی جانب سے افطار کرا سکتے ہیں یا نہیں تو اس سلسلے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے بنا بریں مسئلہ ہذا بھی ان دنوں اہل نظر کے ہاں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جس کا جواب اللہ کی توفیق سے درج ذیل ہے:
شرعی تعلیمات اور نصوص قرآن و حدیث کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ میت کی طرف سے افطاری کرانا جائز نہیں ہے۔ یہی ہمارے استاد محترم شیخ ابو عبد العزیز محمد یوسف مدنی حفظہ اللہ، فضیلۃ الاستاذ سیف الرحمن الصلیح المدنی حفظہ اللہ اور مفتی جامعہ اسلامیہ دریاباد شیخ محمد جعفر الہندی حفظہ اللہ وغیرہما کا موقف ہے اور یہی درست اور راجح بھی ہے۔ اس ترجیح کی بنیاد چند باتوں پر ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

پہلی بات:
ایصال ثواب اور افطاری ایک عبادت ہے اور عبادت کے لیے ثبوت درکار ہے مگر قرآن و سنت اور آثار سلف میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ نہ تو اللہ کے رسول نے کبھی کسی مردے کی جانب سے افطاری کروائی ہے اور نہ ہی صحابہ یا تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حالانکہ افطار کروانے کی فضیلت پر حدیث وارد ہے اور سلف صالحین اس کا غایت درجہ اہتمام بھی کرتے تھے۔ حضرت زيد بن ثابت رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مَن فطَّر صائماً كان له مثل أجره غير أنه لا ينقص من أجر الصائم شيء”
(جس نے کسی روزہ دار کو افطاری کروائی اسے بھی اتنا ہی اجر وثواب حاصل ہوگا اور روزہ دار کے اجر وثواب میں سے کچھ بھی کمی نہيں ہوتی) سنن ترمذي حدیث نمبر:807، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر:1746، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی صحیح الجامع (6415) میں درج کیا ہے۔
سلف صالحین رحمہم اللہ تعالی کھانے کھلانے کی حرص رکھا کرتے تھے اور اسے افضل عبادات میں سے خیال کرتے تھے۔
بعض سلف رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے:
مجھے اسماعیل کی اولاد سے دس غلام آزاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اپنے دس بھوکے ساتھیوں کو بلا کر کھانا کھلاؤں۔
بہت سے صحابہ کرام اور سلف حضرات تو روزہ کی حالت میں اپنی افطاری کسی اور کو دینے پر ترجیح دیتے تھے، جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور داود الطائي، مالک بن دینار، احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالی عنہم شامل ہيں۔ اور ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما تو یتیموں اور مسکینوں کے بغیر افطاری ہی نہیں کرتے تھے۔
اور بعض سلف حضرات تو اپنے مسلمان بھائیوں کو کھانا کھلاتے اور خود روزہ کی حالت میں ان کی خدمت کرتے تھے، ان میں حسن بن مبارک شامل ہيں۔
ان تمام باتوں کے باوجود کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ صحابہ کرام نے یا تابعین عظام نے کسی میت کی جانب سے افطار کرایا ہو۔ اور یہ اصول ہے کہ“کل خير في اتباع من سلف وكل شر في اتباع من خلف” یعنی ہر قسم کی بھلائی سلف صالحین کی اتباع میں ہے اور ہر قسم کا شر وفساد اتباع خلف میں ہے۔ لہذا میت کی جانب سے قرآن خوانی، قربانی اور روزہ افطاری یہ سب غیر ثابت شدہ اعمال ہیں جن کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے اور جب بغیر دلیل کسی عمل کو عبادت سمجھ لی جائے تو وہ بدعت بن جاتی ہے۔

دوسری بات:
یہ ہے کہ انسان دوسروں کے صرف انہی اعمال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جن کا اس کے لیے مفید ہونا شریعت اسلامیہ میں ثابت ہو خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ کیونکہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کے اندر فرمایا ہے: “وأن ليس للإنسان إلا ما سعى” یعنی انسان کے لیے صرف وہی کچھ ہے جسے اس نے خود کی کوشش سے حاصل کیا ہو۔ لہٰذا یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ کوئی بھی عمل جو میت نے نہیں کیا ہے اس کا ثواب یا عقاب اس تک نہیں پہنچے گا سوائے ان اعمال یا اشیا کے جن کی استثنا شریعت اسلامیہ میں موجود ہے۔ اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میت کو دوسروں کا ثواب بالکل نہیں پہنچے گا کیونکہ کتاب وسنت میں بہت سارے نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ میت کو دوسرے کے عمل کا ثواب پہنچے گا۔ اسی لیے محققین علمائے کرام کا یہ کہنا ہے کہ میت کو دوسروں کے صرف انہی اعمال سے فائدہ ہوگا جن کا میت کے حق میں مفید ہونا شارع علیہ السلام نے بتا دیا ہو۔ اسی توجیہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قول “وأن ليس للإنسان إلا ما سعى” اور ایصال ثواب کے ثبوت میں وارد دیگر نصوص شرعیہ کے مابین تطبیق ممکن ہے۔

وہ اعمال جن کا ثواب میت تک پہنچنا شریعت میں ثابت ہے:
(1)دعا:
کیوں کہ دوسروں کی دعا سے مدعو لہ کا فائدہ اٹھانا قرآن و سنت اور اجماع امت کے دلائل سے ثابت ہے:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{واستغفر لذنبك وللمؤمنين والمؤمنات} اسی طرح ایک دوسرے مقام پر اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: {والذين جاءوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان ولا تجعل في قلوبنا غلاً للذين آمنوا ربنا إنك رءوف رحيم} یعنی بعد میں آنے والے مومنین اپنے اور گزرے ہوؤں کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ تو ہمیں بخش دے اور ہمارے ان مومن بھائیوں کو بھی بخش دے جو ایمان میں ہم پر سبقت لا چکے ہیں۔
اس آیت میں دوسروں کے حق میں دعا کرنا مومنوں کی علامت بتائی گئی ہے۔ لہذا میت کے لیے کوئی بھی دعا کرسکتا ہے۔
(2)میت کی جانب سے صدقہ:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: أَنَّ رجلا قال لِلنّبِيّ صلَّى اللَّه عَليْه وَسلَّم إِنّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وأَظُنّهَا لَوْ تكلّمتْ تَصَدَّقَتْ فَهَلْ لها أَجْرٌ إِنْ تصدّقْت عنْها قال نعم”
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انھیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کردوں تو کیا انھیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں ملے گا۔( صحيح البخاري: 1388، صحيح مسلم)

(3)میت کی طرف سے فرض یا نذر کا روزہ جو اس سے چھوٹ گیا ہو:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اللہ کے رسول نے فرمایا: “من مات وعليه صيام صام عنه وليه” یعنی: جو آدمی انتقال کرجائے اور اس پر کچھ روزے لازم ہوں تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔ (متفق عليه)
( ولی وارث کو کہتے ہیں اور یہ قرآن و حدیث کی دلیل سے ثابت ہے)

(4) میت پر اگر حج فرض ہو تو اس کی طرف سے حج کی ادائیگی کے ذریعے اس تک ایصال ثواب جائز ہے:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں: أن امرأة جاءت إلی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فقالت: إن أمي نذرت أن تحج فماتت قبل أن تحج، أفأحج عنها؟ قال،نعم حجی عنها، أرأیت لو کان علی أمك دین أکنت قاضیته؟ قالت: نعم۔قال: فاقضوا الذی له، فإن اللّٰه أحق بالوفاء”
ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے فوت ہوگئی ہے تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ تمھارا کیا خیال ہے اگر تمھاری والدہ پر قرض ہوتا تو اسے ادا کرتی؟ اس نے کہا: ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتے ہیں کہ اس کا قرض ادا کیا جائے لہٰذا تم اسے ادا کرو!
(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام: 7315، صحیح مسلم، کتاب الصیام: 1149)

(6) میت پر اگر نذر کا پورا کرنا رہ گیا ہو تو اس کو پورا کیا جا سکتا ہے:
دلیل حضرت ابن عباس کی مذکورہ بالا حدیث۔
اور ان کے علاوہ وہ اعمال جن کا ذکر شریعت میں وارد ہوا ہے اور سلف صالحین نے جن پر عمل کیا ہے۔ اگر کوئی ایسا عمل جس کے ذریعے میت کو ایصال ثواب شریعت میں ثابت نہیں ہے یا سلف صالحین نے اس کے ذریعے ایصال ثواب نہیں کیا ہے تو ہمارے لیے اس کے ذریعے ایصال ثواب درست نہیں ہے۔
اور ان تمام احادیث کی معارض نہیں ہے صحیح مسلم کی وہ حدیث جسے حضرت ابو ہریرہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ والہ و سلم سے روایت کرتے ہیں: “إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له” کیونکہ اس حدیث میں “انقطع عمله” سے خود میت کا عمل مراد ہے نہ کہ دوسرے کا عمل۔ اسی وجہ سے “انقطع عمله” کہا ہے “انقطع العمل له” نہیں کہا اور دونوں جملوں کے مابین واضح فرق ہے۔
البتہ ولد صالح کی دعا کو میت کا عمل اس لیے قرار دیا گیا ہے کیونکہ انسان کی اولاد خود اسی کی کمائی ہے کیونکہ وہی اس کی پیدائش کا سبب ہے۔ لہذا حدیث میں جو استثنا ہے وہ خود میت کے اپنے عمل کی انقطاع سے استثنا ہے نہ کہ دوسروں کے اعمال سے۔ ( مستفاد من کلام الشیخ ابن عثیمین)
اسی طرح مردہ انسان بھی اپنے انہی اعمال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جن کا ذکر شریعت مطہرہ میں وارد ہوا ہے اور وہ صرف تین چیزیں ہیں:
(1) صدقہ جاریہ جو خود اس نے کر رکھا ہو
(2) ولد صالح کی دعا
(3)اس کا ایسا علم جس سے بعد میں آنے والے فائدہ اٹھائیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں اللہ کے رسول نے فرمایا ہے: “إِذا مات الإنْسان انْقطع عنْه عمله إِلّا من ثلاثة: إِلّا من صدقة جارية، أَو علْم ينْتفع به، أَوْ ولد صالح يدْعو له.رواہ الامام مسلم فی صحيحه ( ١٦٣١ ) اور استثنا کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو مستثنیٰ کے علاوہ ہو وہ مستثنیٰ کے حکم سے خارج ہے چنانچہ یہ تین چیزیں مستثنیٰ ہیں ان کا ثواب میت تک پہنچے گا اور ان کے علاوہ میت کے جتنے اعمال ہیں وہ مستثنیٰ منہ ہیں لہذا ان کا ثواب میت تک ہرگز ہرگز نہیں پہنچے گا۔

تیسری بات:
جو لوگ اسے درست سمجھتے ہیں وہ اس کے جواز کے لیے اسے صدقہ پر قیاس کرتے ہیں لیکن ان کا یہ قیاس باطل ہے کیونکہ صدقہ ایک الگ عبادت ہے اور روزہ افطاری ایک بالکل الگ عبادت۔ اور قیاس کے لیے یہ شرط ہے کہ مقیس اور مقیس علیہ میں کوئی شرعی فارق نہ ہو جبکہ صدقہ اور افطاری میں شرعی فارق موجود ہے وہ اس طور پر کہ آپ بلا کراہت کسی کو بھی افطاری کروا سکتے ہیں خواہ وہ امیر ہو یا غریب و فقیر مگر صدقہ وزکات پر صرف اور صرف فقرا و مساکین کا حق ہے۔ نہ تو مالداروں کے لیے صدقہ وزکات کھانا جائز ہے اور نہ ہی کھلانا۔

چوتھی بات:
یہ ہے کہ میت کی طرف سے کھانا کھلانا شریعت مطہرہ میں ثابت نہیں ہے خواہ وہ بطور صدقہ ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی میت کی جانب سے جو صدقہ مشروع ہے اس میں کھانا شامل نہیں ہے بلکہ الٹا یہ کافروں کا دین ہے۔ ہندو مذہب میں میت کی روح کو سکون پہچانے کے مقصد سے “روٹیاہی” کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کفار و مشرکین سے اہل بدعت نے بھی اسے اپنالیا ہے چنانچہ یہ لوگ بھی تیجہ دسمی اور چالیسہ کی صورت میں میت کی طرف سے کھانا کھلانے کا اہتمام کرتے ہیں۔
لہذا میت کی طرف سے کھانا کھلانا یا افطاری کروانا ایک طرح سے کفار و مشرکین اور اہل بدعات وخرافات کی مشابہت قرار پائے گا۔ (مستفاد من کلام الشیخ محمد جعفر الہندی)
اور اگر کسی عمل میں عدم دلیل کے ساتھ ساتھ کفار و مشرکین کی مشابہت بھی شامل ہو جائے تو اس کی حرمت اور عدم جواز میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ایک تو اللہ کے رسول نے “إنه ليس شيء يقربكم إلى الجنة إلا قد أمرتكم به وليس شيء يقربكم إلى النار إلا قد نهيتكم عنه” رواه أبو بكر الحداد في “المنتخب من فوائد ابن علويه القطان ” (١٦٨ / ١) وصححه الألباني في الصحيحة (2866) فرما کر یہ بتا دیا کہ کوئی بھی عمل جو تقرب الہی کا باعث ہو اس کا حکم میں نے اپنی امت کو دے دیا ہے۔ لہذا کوئی ایسا عمل جس کا باعث ثواب یا عبادت ہونا رسول سے ثابت نہیں ہے یا اس پر قرآنی یا حدیثی یا اثری دلیل موجود نہیں ہے تو اس کو عبادت سمجھنا بدعت ہے اور فرمان الہی“اليوم أكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا” کا بھی یہی مطلب ہے۔

دوسری بات یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے“من تشبه بقوم فهو منهم” رواه أبو داود (4031) وأحمد ( 5667 ) وحسنه أحمد شاكر، والألباني، وشعيب الأرنؤوط۔ یعنی جس نے بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے، کہہ کر کسی غیر قوم کی مشابہت بالکل حرام اور ناجائز قرار دیا ہے۔ امام ابن تیمیہ اس حدیث کی شرح کرت ہوئے فرماتے ہیں “وهذا الحديث أقل أحواله أن يقتضي تحريم التشبه بهم ، وإن كان ظاهره يقتضي كفر المتشبه بهم” یعنی اس حدیث کا کم از کم یہ تقاضا ہے کہ کفار سے مشابہت حرام ہے، اگرچہ ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان سے مشابہت رکھنے والا شخص کافر ہے “اقتضاء الصراط المستقيم” (1/270)
لہذا ان تمام باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ میت کی جانب سے افطاری کروانا ایک طرف تو غیر ثابت شدہ اور غیر شرعی بے اصل وبے دلیل عمل ہونے کی وجہ سے بدعت ہے تو دوسری طرف کفار و مشرکین کی مشابہت کی وجہ سے سخت ممنوع اور حرام فعل ہے۔
والله أعلم بالصواب

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted

محترم نے میت کی طرف سے روزے افطاری کرانے نے کو نا جائز قرار دیا، اور صدقہ پر قیاس کرنے کو قیاس مع الفارق بتایا موصوف نے وجہ یہ بتائی کہ روزے افطاری بلا کراہیت کسی کو بھی کراسکتے ہیں جبکہ صدقہ بلا کراہیت ہر کس کو نہیں کرسکتے ، جبکہ یہ بات بالکل غلط ہے کیوں کہ موصوف نے اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ریشم کی چادر دینے والی حدیث پڑھیں ہوتی تو شاید یہ سب کچھ نہیں لکھتے جس میں کہا گیا کہ مجھ سے زیادہ حقدار موجود ہے اس کو دیجئیے، پھر بھی اللہ… Read more »

محترم نے میت کی طرف سے روزے افطاری کرانے نے کو نا جائز قرار دیا، اور صدقہ پر قیاس کرنے کو قیاس مع الفارق بتایا موصوف نے وجہ یہ بتائی کہ روزے افطاری بلا کراہیت کسی کو بھی کراسکتے ہیں جبکہ صدقہ بلا کراہیت ہر کس کو نہیں کرسکتے ، جبکہ یہ بات بالکل غلط ہے کیوں کہ موصوف نے اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ریشم کی چادر دینے والی حدیث پڑھیں ہوتی تو شاید یہ سب کچھ نہیں لکھتے جس میں کہا گیا کہ مجھ سے زیادہ حقدار موجود ہے اس کو دیجئیے، پھر بھی اللہ… Read more »

MD RAIHAN ALI

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته . (میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز یے ، لیکن افطار کو صدقہ نہیں کہا جا سکتا اس لئے میت کی طرف سے افطار کروانا جائز نہیں۔ مضمون نگار نے اپنے اس موقف کو ثابت کرنے کے لئے ایک نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ افطاری امیر و غریب سب کو کرایا جا سکتا ہے البتہ صدقہ صرف غریبوں کا حق ہے۔) سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فرض صدقات (زکات ) کی طرح نفلی صدقات بھی امیر لوگ نہیں کھا سکتے؟ یعنی افطاری جو فرض صدقہ سے نہ ہو بلکہ میت کی طرف… Read more »