قرآن کلام الٰہی ہے کلام بشر نہیں

ڈاکٹر شمس کمال انجم قرآنیات

قرآن کریم خالق کائنات کی طرف سے امام کائنات کو بطور معجزہ عنایت کیا گیا۔ یہ اس ماحول اور معاشرے کی بات ہے جہاں شعر وادب کا طوطی بولتا تھا۔ بڑے بڑے سحابین ونوابغ اپنے اپنے زور بیان سے دلوں پر سحر کرتے تھے۔ ذہنوں کو مسخر کرتے تھے۔ یہی ٹی وی تھے، یہی ریڈیو تھے۔ یہی فیس بک واٹس اپ، ٹویٹر اور یہی سوشل میڈیا تھے۔ یہی تھنک ٹینک، یہی مفکر یہی دانش ور اور یہی سماج کے ٹھیکیدار تھے۔ انہی کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ جسے چاہتے تھے آسمان کی بلندیوں پر مقیم کردیتے تھے اور جسے چاہتے تھے تحت الثری کے جحیم میں جھونک دیتے تھے۔
ایسے میں رمضان کے ماہ مبارک میں ایک نبی امی فداہ ابی وامی (علیہ افضل الصلوات والتسلیم) کی زبان وحی ترجمان سے ایسی آیتوں کا ظہور ہونا شروع ہوا جو اس ماحول میں ادبی شہ پاروں کی شان تھے، جان تھے، معراج تھے۔ شعر وادب ہکا بکا تھے، سحابین ونوابع ششدر تھے۔ ان کے سر چکرا رہے تھے۔ ان کے ذہن ودماغ خبط الہواسی کا شکار تھے۔ وہ حیرت واستعجاب کے سمندر میں غرق تھے۔ ارے! یہ کیا ہوگیا؟ یہ امی لقب کیسی کیسی لفظیات وتعبیرات اور کیسے کیسے مضامین ومسائل کی گفتگو کررہا ہے۔ یہ کیا ہورہا ہے۔ سارے ادیبوں شاعروں اور خطیبوں کی دکانوں پر تالے پڑنے والے تھے۔ ان کے افکار واوہام کی دنیا لاک ڈاون موڈ پر جانے والی تھی۔ اپنے علم وادب، عقل وشعوروتدبر اور فکر وفن کی دکانوں کو بند ہوتا دیکھ کر انھوں نے اس کلام الٰہی کے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کردیے۔ کسی نے کہا محمد ساحر ہوگیا ہے۔ کسی نے کہا محمد شاعر ہوگیا ہے۔ کسی نے کہا محمد نے کسی کو پکڑ رکھا ہے جو اسے لکھ کر دیتا ہے اور پھر وہ دنیا کے سامنے اس کی لکھی ہوئی شاعری کو الاپ دیتا ہے۔ یہ ایک نیا ادبی رجحان تھا۔ نیا شعری ڈسکورس تھا۔ سحابین ونوابغ نے بہت زور مارا۔ بڑے ہاتھ پاؤں مارے۔ بڑی جد وجہد کی۔ تخیل کے بڑے گھوڑے دوڑائے۔ فکر کے پرندے اڑائے۔ شعور کی اڑانیں بھریں۔ ادب کی ڈکشنریاں لے کر بیٹھے۔ شاعری کے دواوین کھنگال ڈالے مگر ایک بھی نہ چلی۔ ایک بھی جملہ، ایک بھی آیت ابن عبد اللہ کی آیتوں کی طرح گھڑنے، لکھنے، تخلیق کرنے کا کسی میں بوتا نہیں تھا۔ ان کو اچھی طرح سمجھ میں آرہا تھا کہ یہ نہ تو کسی سحبان کی خطابت ہے نہ کسی نابغہ کی شاعری، نہ کسی امرؤ القیس کا معلقہ ہے نہ کسی زہیر کی حکمت ودانائی۔ مگر عناد تھا، دشمنی تھی، کبر تھا غرور تھا کہ وہ اس بات کے اعتراف سے عاجز تھا کہ ابن عبد اللہ کی زبان وحی ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ، کلام بشر نہیں کلام الٰہی ہے۔ وہ اس بات کے اظہار سے قاصر تھا کہ ان میں اس طرح کی ایک آیت بھی تخلیق کرنے کا دم نہیں۔ اس کی ہمسری کی ان میں سکت نہیں۔ اس کی طرح کسی لفظیات اور کسی مضمون تک پہنچنے کی ان میں صلاحیت ولیاقت اور قابلیت ہی نہیں۔ ہوتی بھی کیسے؟ کلام محمد جو کلام الٰہی تھا۔ اور کلام الٰہی کے سامنے ٹھہرنے کی کس کی اوقات تھی۔ اس کی ہمسری کی کس میں جرات وہمت تھی۔ ہاں کچھ ایسے بھی تھے جو زیر لب نہیں علی الاعلان کہہ رہے تھے کہ کلام محمد میں بلا کی شیرینی اور غضب کی حلاوت ہے۔ اس میں رونق ہے جمال ہے۔ وہ ایسا کلام ہے جو غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا۔ یعنی وہ کلام بشر نہیں ہے۔ کلام الہی ہے۔ کلام ربانی ہے۔
یہ میری سعادت وخوش نصیبی رہی ہے یا توفیق ربانی کی ارزانی کہ بچپن سے ہی اس زبان قرآن سے واسطہ ہے۔ عرب وعجم کی دانش گاہوں میں اس زبان کی تعلیم وتعلم کا موقع میسر آیا ہے۔ عربی شعر وادب کی لائبریریاں کھنگالنے کا دعوی تو ہرگز ممکن نہیں البتہ عربی زبان وادب کی بے شمار کتابیں پڑھی ہیں۔ عربی شعر وادب کے عباقرہ کو بھی دیکھا ہے او رعمالقہ کو بھی۔ شاعروں کو بھی پڑھاہے اور ادیبوں کو بھی۔ نزول قرآن کے زمانے کی شاعری بھی دیکھی ہے اور ادب بھی۔ اس زمانے کی خطابت بھی دیکھی ہے اور بول چال کی زبان کا بھی مطالعہ و تجزیہ کیا ہے۔ میں ایک بات آپ کو بتاؤں میں جب بھی قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں یا اس میں کبھی غواصی کرتا ہوں تو اس کی لفظیات، اس کے مضامین، اس کا اسلوب، اس کا ڈکشن، اس کا آہنگ، اس کی معنویت، اس کی بلاغت، اس کی گہرائی، اس کی گیرائی، اس کی موسیقیت، اس کی نغمگی، اس کی چاشنی اور اس کی دلربائی اور رعنائی، اس کا فکر اور اس کا فن چیخ چیخ کر مجھ سے کہتے ہیں کہ یہ کلام بشر ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ کسی انسان کا کلام ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ ایسے کبھی بھی عربی کے کسی بڑے سے بڑے ادیب اور شاعر نے بات ہی نہیں کی۔ ایسے کبھی کسی نے لکھا ہی نہیں۔ ایسے کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں اور سچ بھی یہی ہے کہ عرب نہ کبھی ایسے بولتے تھے۔ نہ کبھی ایسے لکھتے تھے۔ نہ کبھی ایسا کہتے تھے، نہ کبھی ایسا سوچ سکتے تھے ۔نہ اس وقت اور نہ آج اور نہ آگے کبھی بھی۔ اسی لیے جب میں قرآن پڑھتا ہوں اس کی تلاوت کرتا ہوں تو مجھے شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ قرآن کریم کلام بشر نہیں کلام الہی ہے۔ کلام ربانی ہے۔ کلام خالق کائنات ہے۔ کلام رب ذو الجلال ہے۔ اور میرا یہ احساس اس ماہ مبارک میں کچھ زیادہ ہی گہرا ہوجاتا ہے کیونکہ اس ماہ قرآن میں اس کی آیتوں سے ہم آشنائی کا موقع زیادہ میسر آتا ہے۔(۱۱ رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ/۵ مئی، صبح سات بج کر پچاس منٹ)

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
خالد مصطفے بھٹی وکیل جموں

انتہائی خوبصورت تحریر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پیغام بھی ھے کہ اس کلام کی گہرائی میں ہر انسان غوطے لگانے چائیے