رمضان المبارک کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے اور ماشاء اللہ مسلمانوں کی اکثریت صیام رمضان کی پابندی کرتی ہے لیکن چونکہ مسلمانوں میں یہ بات رائج اور مشہور و معروف ہے کہ اللہ کے نبی صل اللہ علیہ و سلم نے ہر ہر عمل کے لیے الگ سے خاص طور پر کوئی نہ کوئی دعا سکھلائی ہے گرچہ یہ بات غلط اور بے اصل ہے مگر اسی زعم کی بنا پر اس ماہ مبارک میں افطاری کے وقت کون سی دعا پڑھی جائے یہ مسئلہ اختلاف وانتشار اور الجھاؤ کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
بعض علما کہتے ہیں کہ روزہ افطاری کے وقت دعا کی بابت کوئی حدیث صحیح و ثابت نہیں ہے تو کچھ علما اس سلسلے میں وارد ادعیہ واذکار میں سے بعض کو ضعیف اور بعض کو صحیح یا حسن قرار دے کر افطاری کے لیے دعا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان ہی ادعیہ میں سے ایک دعا ہے: “ذهب الظمأ وابتلت العروق و ثبت الأجر إن شاء الله”۔ یہ دعا پہلے سے معروف دعا: “اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت” کی جگہ دعائے افطاری کا مقام اختیار کر چکی ہے۔ چونکہ اول الذکر دعا سخت ضعیف تھی اور ثانی الذکر دعا کو شیخ البانی وغیرہ محققین نے صحیح یا حسن قرار دیا تھا اس لیے یہ دعا علما کے ہاں بھی رواج پا گئی اور اہل علم طبقے نے بھی اسے اپنا لیا۔
مگر کچھ دنوں پہلے ایک تحریر میری نگاہوں سے گزری جس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ:“ذهب الظمأ وابتلت العروق و ثبت الأجر” والی یہ دعا بھی ضعیف ہے۔ لیکن مجھے پہلے سے معلوم تھا کہ دعائے مذکور کو علامہ البانی وغیرہ محدثین نے صحیح قرار دیا ہے اِس لیے مجھے تحقیق کی جستجو ہوئی اور اس حدیث کی تحقیق و تخریج میں لگ گیا۔ تفصیل آپ کے سامنے ہے:
اولا: مکمل متن حدیث: عن مروان يعني ابن سالم المقفع، قال: «رأيت ابن عمر يقبض على لحيته، فيقطع ما زاد على الكف» وقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا أفطر قال: «ذهب الظمأ وابتلت العروق، وثبت الأجر إن شاء الله»
ترجمہ: مروان بن سالم مقفع کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر ؓ کو دیکھا کہ وہ داڑھی کو اپنی مٹھی میں لیتے اور اس سے جو بڑھی ہوئی ہوتی اسے کاٹ ڈالتے۔ اور بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب روزہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے «ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله» ”پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہو گئیں اور ﷲ نے چاہا تو اجر بھی ثابت ہو گیا۔“
تخريج حديث:
(1) اس حدیث کو امام ابو داؤد نے اپنی سنن (حدیث نمبر: 2357) کے اندر “حدثنا عبد الله بن محمد بن يحيى أبو محمد، حدثنا علي بن الحسن، أخبرني الحسين بن واقد، حدثنا مروان -يعني ابن سالم المقفع- قال: رأيت ابن عمر يقبض على لحيته فيقطع ما زاد على الكف، وقال:… کے طریق سے روایت کیا ہے۔
اور اسے روایت کیا ہے:
(2) امام ابن ابی الدنیا نے “فضائل رمضان” (حدیث: 29) کے اندر اپنے والد محمد بن عبيد الله بن سفيان البغدادي سے
(3) اور امام بزار نے اپنی “مسند” (حدیث: 5395) کے اندر إبراهيم بن سعد الجوهري سے
(4) اور امام نسائی نے “السنن الكبرى” (حدیث: 3315 و 10058) اور “عمل اليوم والليلة” (حديث: 299) کے اندر قريش بن عبد الرحمن سے
(5) اور امام بیہقی نے “السنن الكبرى للبيهقي” (حديث: 8133) اور “الدعوات الكبير” (حديث: 499) کے اندر يحيى بن أبي طالب کے طریق سے
(6) اور امام طبرانی نے “المعجم الکبیر” (حدیث: 14097) کے اندر عبد الله بن أبي عوانة الشاشي کے طریق سے
(7) اور امام حاکم نے “المستدرك على الصحيحين” (حدیث: 1536) کے اندر إبراهيم بن هلال کے طریق سے
(8) اور امام ابن السنی نے “عمل اليوم والليلة” (حديث: 487) کے اندر قريش بن عبد الرحمن کے طریق سے
(9) اور امام دار قطنی نے “سنن دار قطنی” (حدیث: 2279) کے اندر علي بن مسلم کے طریق سے
(10) اور امام بغوی نے “شرح السنة” (حدیث: 1740) کے اندر يحيى بن أبي طالب کے طریق سے
(11) اور قوام السنہ امام اسماعیل اصبھانی نے “الترغيب والترهيب” (حديث: 1804) کے اندر أحمد بن بكر بن سيف المروزي کے طریق سے
(12) اور امام جمال الدین مزی نے “تهذيب الكمال” (27/391) کے اندر أحمد بن بكر بن سيف المروزي کے طریق سے
سبھوں نے یعنی (إبراهيم بن سعيد، قريش بن عبد الرحمن، علي بن مسلم، إبراهيم بن هلال، يحيى بن أبي طالب، أحمد بن بكر ، محمد بن عبيد الله ، اور عبد الله بن أبي عوانة) نے عن علي بن الحسن، أخبرني الحسين بن واقد، حدثنا مروان بن سالم المقفع، قال: «رأيت ابن عمر … کی سند سے حدیث مذکور کو روایت کیا ہے۔
اس حدیث کو مذکورہ سند کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد امام بزار فرماتے ہیں “وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا من هذا الوجه بهذا الإسناد” یعنی میرے علم کے مطابق یہ حدیث اللہ کے رسول سے صرف اسی طریق سے اسی سند کے ساتھ مروی ہے۔ (مسند البزار: 12/24)
سند حدیث کا دراسہ:
(1) علي بن الحسن بن شقيق المروزي: ثقة حافظ من كبار العاشرة مات سنة خمس عشرة وقيل قبل ذلك ع (تقريب التهذيب رقم الترجمة: 4706) یعنی یہ ثقہ اور حافظ ہیں۔ ایسے لوگوں کی روایت صحت کے اعلی درجے میں ہوتی ہے۔
(2)حسين بن واقد المروزي: ثقة له أوهام من السابعة مات سنة تسع ويقال سبع وخمسين خت م ٤ (تقريب التهذيب رقم الترجمة:1358) مولفین تحریر تقریب التهذيب اس پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بل: صدوق حسن الحديث، یعنی یہ ثقہ نہیں بلکہ صدوق ہیں اور ان کی حدیثیں حسن ہوتی ہے۔
لیکن ان کا یہ تعاقب صحيح نہیں ہے کیونکہ اس راوی کو صرف امام یحییٰ بن معین نے ثقہ کہا ہے۔ جبکہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے: وأحاديث حسين ما أدري أي شيء هي، ونفض يده” (الضعفاء للعقيلي، الورقة ٤٧) (حسین کی احادیث؟ مجھے نہیں معلوم یہ سب کیا ہیں۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو ہلا دیا)
اسی طرح امام احمد سے أيوب عن نافع عن ابن عمر عن النبي عليه السلام کی سند سے “ملبقة” سے متعلق مروی ایک حدیث کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے اس حدیث کا انکار کیا، اور کہا کہ اسے کس نے روایت کیا ہے؟ کہا گیا: حسین بن واقد نے تو آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور سر ہلا دیا گویا آپ اس سے راضی نہ ہوئے۔ (الضعفاء للعقيلي، الورقة ٤٧)
اسی طرح امام ابن حبان نے فرمایا: ربما أخطأ في الروايات (تهذيب الكمال: (1/294) (بسا اوقات یہ روایت حدیث میں غلطی کر جاتا ہے)
یہ سب جروح مفسر ہیں جن کا اعتبار لازمی ہے اور انہی کا اعتبار کرتے ہوئے امام ابن حجر نے “ثقة له أوهام” کہا ہے۔ لہذا ایسے راویوں کی روایت اگر غرابت اور تفرد سے خالی ہو تو حسن ہوتی ہے اور جہاں محدث ومحقق کو جمع طرق اور مکمل دراسہ کے بعد یہ لگے کہ ان کی یہ روایت ان کے أخطاء واوہام میں سے ہے تو اس حدیث پر ضعف کا حکم لگایا جائے گا۔ اور شاید روایت مذکور بھی ان کے اوہام میں سے ہے۔ (یہ ایک اضافی علت ہے)
(3) مروان المقفع: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب التہذیب (6569) میں فرماتے ہیں کہ یہ راوی “مقبول” ہے۔ اور حافظ موصوف تقریب مذکور کے مقدمہ میں فرماتے ہیں کہ مقبول کا مطلب ہے “مقبول إذا توبع وإلا فلين” یعنی روایت حدیث میں ایسے راوی کی اگر کوئی متابعت کرے تو وہ راوی مقبول درجے کا ہوگا ورنہ اگر متابعت نہ ہو تو پھر ضعیف۔
حافظ ابن حجر کے اس حکم پر تعلیق لگاتے ہوئے مصنفین تحریر تقریب التھذیب لکھتے ہیں: بل: مجهول الحال، فقد تفرد بالرواية عنه اثنان فقط، وذكره ابن حبان وحده في “الثقات”، وليس له في الكتب الستة سوى حديث واحد أخرجه أبو داود (٢٣٥٧)، والنسائي في (الكبرى) (٣٣٢٩) و”عمل اليوم والليلة” (٢٩٩)، وقد استغربه الحافظ أبو عبد الله بن منده۔
یعنی یہ راوی مقبول نہیں مجہول الحال ہے، ان سے صرف دو راویوں نے روایت کیا ہے۔ اور تنہا ابن حبان ہی نے انھیں “الثقات” میں ذکر کیا ہے۔ کتب ستہ میں ان کی صرف ایک ہی حدیث ہے جسے امام ابو داؤد اور امام نسائی نے السنن الکبری اور عمل الیوم واللیلۃ کے اندر روایت کیا ہے اور حافظ ابن مندہ نے اسے غریب قرار دیا ہے۔
یہی صحیح ہے کہ راوی مذکور مجہول الحال ہے۔
اور امام شمس الدین ذہبی رحمہ نے ” الكاشف (5365)” کے اندر فرمایا “وثق” یعنی اس راوی کی توثیق کی گئی ہے۔
تنبیہ: امام ذہبی کسی راوی کے بارے میں “وثق” اور امام ابن حجر “مقبول” اس وقت کہتے ہیں جب اس راوی کی سوائے ابن حبان کے “الثقات” میں ذکر کرنے کے علاوہ کسی نے توثیق نہ کی ہو۔
حکم الحدیث:
تحقیق ودراسہ کے بعد معلوم ہوا کہ حدیث مذکور ضعیف ہے۔ اس حدیث کو درج ذیل محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے:
(1) امام شمس الدین ذہبی۔ جیسا کہ امام سبط ابن العجمی نے ان سے نقل کیا ہے: مروان بن سالم دس المقفع عن بن عمر رضي الله عنهما مرفوعا يقول إذا أفطر ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله رواه عنه الحسين بن واقد حدث عنه عزرة بن ثابت انتهى لم يذكر فيه الذهبي توثيقا لكنه ذكره في حكيم للتمييز واستنكر عليه هذا الحديث الذي ساقه في ترجمته فيما يظهر وقد ذكره في تذهيبه وذكر له هذا الحديث وذكر توثيقه عن بن حبان وفي الكاشف قال فيه وثق وقد رأيته في ثقات بن حبان” (الكشف الحثيث :ص 255)
محل شاہد “واستنكر (أي الذهبي) عليه هذا الحديث الذي ذكره في تذهيبه” یعنی امام ذہبی نے اس حدیث کو منکر سمجھا ہے۔
(2) امام سبط ابن العجمی: امام موصوف نے امام ذہبی کا اس حدیث کو منکر قرار دینا نقل کیا ہے اور اس پر کوئی تعاقب نہیں کیا۔
(3) امام مقبل بن ہادی الوادعی: مستدرک کی تعلیق میں امام حاکم کے اوہام کا استدراک کرتے ہوئے شیخ فرماتے ہیں:
الثالث: أن الحديث ضعيف، لأنه يدور على مجهول الحال” حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کا مدار مجہول الحال راوی پر ہے۔ (المستدرك على الصحيحين ت الوادعي: 1/583)
(4) دکتور عمر بن عبد اللہ المقبل حفظہ اللہ: شیخ فرماتے ہیں: إسناده ضعيف، لجهالة مروان المقفع، ولتفرد الحسين بن واقد به، قال الإمام الدارقطني عقب إخراج الحديث” تفرد به الحسين بن واقد وإسناده حسن”
ونقل المزي في تهذيب الكمال “27/391 عن ابن منده أنه قال: “هذا حديث غريب لم نكتبه إلا من حديث الحسين بن واقد “ومع ذلك كله صحح الحاكم
وقد تقدم في ترجمة الحسين أن له أوهاما في حديثيه فلعله منها ويؤيد هذا كلام الإمامين الدارقطني وابن منده الذين نصا على تفرد الحسين به”
(مروان المقفع کی جہالت اور حسین بن واقد کے تفرد کی وجہ سے اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ امام دار قطنی نے حدیث کی تخریج کے بعد فرمایا: اس حدیث کو روایت کرنے میں حسین بن واقد منفرد ہے اور اس کی سند حسن ہے۔
اور امام مزی نے تہذیب الکمال کے اندر ابن مندہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے ہم نے اسے صرف حسین بن واقد ہی کی سند سے لکھا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں کہ اس کے باوجود امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ آگے لکھتے ہیں: حسین کی سوانح عمری میں یہ بات گزر چکی ہے کہ ان کے کچھ اوہام ہیں اور شاید یہ انہی میں سے ہے اور اس بات کی تائید کرتی ہے۔ امام دار قطنی اور امام ابن مندہ کی بات جنھوں نے اس حدیث کو روایت کرنے میں حسین کے منفرد ہونے کی صراحت کی ہے) اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس مقام پر امام دار قطنی کی تحسین کو متاخرین محدثین کی اصطلاح میں معروف حسن پر محمول کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ ظاہر یہ ہے کہ “اسنادہ حسن” سے امام دار قطنی کا مقصود اس کی غرابت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ (کیونکہ اسنادہ حسن کہنے سے قبل امام موصوف نے اس حدیث کی غرابت کو بیان کیا ہے اس کے بعد حدیث پر حسن کا حکم لگایا ہے) جیسا کہ یہ بات ان ائمہ کی اصطلاحات سے معلوم ہے جو تفرد اور غرابت مراد لیتے ہوئے حسن کا اطلاق کرتے ہیں۔
(زوائد السنن الأربع على الصحيحين في أحاديث الصيام: ص: 241)
(5)علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ: “فيه ضعف” (مجموع الفتاوى للشيخ محمد بن صالح العثيمين (19/363)
جبکہ محدثین کی ایک کثیر تعداد نے اسے حسن قرار دیا ہے:
(1) الإمام الدارقطني “إسناده حسن” سنن الدراقطني (2/401 ح : 2279)
(2) موفق الدين ابن قدامة: “إسناده حسن” المغني (3/176 )
(3) ابن حجر عسقلانی: “حسن” الفتوحات الربانیۃ (4/ 339)
(4) جلال الدین سیوطی: “صحيح” الجامع الصغير (6571 )
(5) ابن تیمیہ: حيث نقل تحسين الدارقطني ولم يتعقيه (شرح العمدة 1/513)
(6) ابن مفلح: حيث نقل تحسين الدارقطني ولم يتعقيه (الفروع: 3/55)
(7) ابن الملقن: البدر المنير (5/771)
(8) البانی: “حسن” إرواء الغليل (920)
(9) ابن باز: “إسناده حسن” حاشية بلوغ المرام (407)
(10) ابن عثيمين: “إسناده حسن” مجموع فتاوى ابن عثيمين (20/241)
(11)شعيب الأرنؤوط: “إسناده حسن” تخريج سنن أبي داود (2357)
(12) حافظ زبیر علی زئی: “إسناده حسن” تحقیق حصن المسلم” (ص :137)
(13) شیخ عبد الرؤف عبد الحنان: “إسناده حسن” الدعاء المقبول (ص :249)
(14) امام ابو عبد اللہ حاکم “هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، فقد احتجا بالحسين بن واقد ومروان بن المقنع” المستدرك على الصحيحين ،حديث: 1536)
تنبیہ: مستدرک کی تعلیق میں امام حاکم کے اوہام کا استدراک کرتے ہوئے شیخ مقبل بن ہادی الوادعی فرماتے ہیں: فيه أوهام:
أول: امام بخاری نے حسین بن واقد سے حجت نہیں پکڑی ہے۔
ثانی: مرون المقنع کا ترجمہ “تهذيب التهذيب” کے اندر ہے۔ یہ بخاری اور مسلم کے رواۃ میں سے نہیں ہیں، امام ابن حجر نے ان سے روایت کرنے والوں میں صرف حسین بن واقد اور عزرۃ بن ثابت کے علاوہ کسی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور کسی معتبر محدث نے ان کی توثیق نہیں کی ہے۔ امام ابن حجر نے “تہذیب التہذیب” کے اندر اس پر تنبیہ کی ہے۔
ثالث: حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کا مدار مجہول الحال راوی پر ہے۔ ( المستدرك على الصحيحين ت الوادعي: 1/583)
سبب اختلاف: اس حدیث کے حکم میں اختلاف کا سبب امام دار قطنی کی تحسین کے فہم میں اختلاف اور مروان المقفع کے درجہ کے بارے میں صحیح رائے کی تعین میں اختلاف ہے:
میرے علم کے مطابق سب سے پہلے امام دار قطنی نے حدیث مذکور کو حسن کہا ہے پھر بعد میں آنے والوں نے ان کی اتباع کرتے ہوئے حدیث کو حسن یا صحیح قرار دیا ہے۔
لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ امام دار قطنی کے اطلاق حسن سے اصطلاحی حسن مراد نہیں ہے جیسا کہ پیچھے اس امر کی وضاحت گزر چکی ہے۔ لہذا جب معتمد علیہ ہی قابل اعتماد نہ ہو تو معتمد کا کوئی اعتبار نہیں رہ جاتا۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ امام دار قطنی بھی تقریبا امام ابن حبان کی طرح محہول الحال رواۃ کی توثیق میں متساہل ہیں۔ جیسا کہ امام سخاوی نے امام دار قطنی سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے “من روى عنه ثقتان فقد ارتفعت جهالته وثبتت عدالته”
یعنی جس راوی سے دو راوی روایت کرے ان کی جہالت رفع ہو جاتی ہے اور عدالت ثابت ہو جاتی ہے۔ (فتح المغيث 1/320)
لہذا ان کی تحسین کا کوئی اعتبار نہیں جب تک کہ سند کا ایک راوی مجہول اور دوسرا راوی واہم ہے۔
چند شبہات کا ازالہ:
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ گرچہ کسی محدث نے مروان المقفع کی توثیق نہیں کی ہے لیکن امام ابن حبان کے الثقات میں ذکر کرنے اور امام دار قطنی وامام حاکم وغیرہم کے ان کی روایت کو حسن قرار دینے سے ضمنی توثیق حاصل ہوجاتی ہے خاص کر اس سند میں کیونکہ یہ سند غریب ہے۔ اس حدیث کو تنہا مروان ہی روایت کررہے ہیں اس کے باوجود ائمہ مذکورین نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ اور یہ ایک قاعدہ بھی ہے کہ اگر کوئی امام کسی سند کو صحيح یا حسن قرار دے تو اس سے سند کے اندر موجود تمام رواۃ کی توثیق حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی محدث کسی حدیث کو صحیح قرار دے اور اس کی صرف ایک ہی سند ہو تو اس سے بھی سند کے رواۃ کی توثیق ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر حدیث کی ایک سے زائد اسانید ہوں اور کوئی محدث جو ضعیف جمع ضعیف حسن کا قائل نہ ہو تو اس سے بھی تمام رجال سند کی توثیق ہوتی ہے۔
جیسا کہ امام ذہبی نے فرمایا ہے: الثقة: من وثقه كثير، ولم يضعف۔ ودونه: من لم يوثق ولا ضعف۔ فإن خرج حديث هذا في “الصحيحين”، فهو موثق بذلك. وإن صحح له مثل الترمذي وابن خزيمة، فجيد أيضا. وإن صحح له كالدارقطني والحاكم، فأقل أحواله: حسن حديثه۔
( الموقظة: ص 78)
یعنی ثقہ وہ ہے جسے بہت سارے محدثین نے ثقہ قرار دیا ہو اور اس کی تضعیف نہ کی گئی ہو۔ اور مرتبے میں اس سے کم وہ ہے جس کی نہ تو توثیق کی گئی ہو اور نہ ہی تضعیف۔ چنانچہ اگر ایسے راوی کی حدیث صحیحین میں روایت کی گئی ہو تو وہ اس کے ذریعے موثق ہے اور اگر ایسے راوی کی روایت کو امام ترمذی اور امام ابن خزیمہ جیسے محدثین صحیح قرار دیں تو وہ بھی جید ہے۔ اور اگر اس کی روایت کو امام دار قطنی اور امام حاکم جیسے محققین صحیح قرار دیں تو اس کی کم تر حالت یہ ہے کہ اس کی حدیث حسن ہوگی۔
لیکن یہ اعتراض اور دلیل بھی کئی وجوہ کی بنا پر صحیح نہیں ہے:
(1): امام دار قطنی نے حدیث کی تحسین نہیں کی ہے بلکہ آپ کے اطلاق حسن سے سند کی غرابت اور تفرد بتلانا مقصود ہے۔
(2): امام دار قطنی کے ہاں توثیق کا مفہوم نہایت وسیع ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ لہذا ان کی تحسین سے حاصل شدہ توثیق زیادہ قابل اعتنا نہیں ہے جیسا کہ واضح ہے۔
(3) امام حاکم کا تساہل معروف ہے کہ امام موصوف مستدرک کے اندر ضعیف، منکر، موضوع اور واہیات روایتوں کو بھی صحیح اور علی شرط الشیخین قرار دیتے ہیں۔ لہذا ان کی تصحیح کا کوئی خاص اعتبار نہیں ہے۔
(4) امام حاکم اس حدیث کے حکم میں بھی واضح تساہل کے شکار ہیں جیسا کہ محققین نے اس کو واضح کیا ہے اور امام مقبل الوادعی کا سابقہ کلام بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔
(5) امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے: “هذا حديث صحيح على شرط الشيخين” چنانچہ آپ نے مروان اور حسین دونوں کو صحیحین کا راوی قرار دیا ہے لیکن مروان سے ان کا مقصود شاید مروان الاصفر ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے: “زعم الحاكم فى ” المستدرك أن البخارى احتج به، فوهم، ولعله اشتبه عليه بمروان الأصفر”۔
(امام حاکم نے مستدرک کے اندر فرمایا کہ امام بخاری نے اس سے احتجاج کیا ہے لیکن یہ ان کا وہم ہے شاید ان پر معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے چنانچہ مروان المقفع کو مروان الاصفر سمجھ بیٹھے ہیں)
( إرواء الغليل 4/40 بحوالہ تهذيب التهذيب)
لہذا جب مروان سے ان کی مراد کوئی اور مروان ہے تو ان کی تصحیح سے مروان المقفع کو کیا فائدہ اور اس سے مروان المقفع کی توثیق کیسے ہوگی۔
(6) اور جہاں تک امام ابن حبان کے”الثقات” میں ذکر کرنے سے توثیق حاصل ہونے کی بات ہے تو یہ بھی بے معنی ہے کیونکہ امام ابن حبان نے بیشتر مجہولین کو “کتاب الثقات” کے اندر ذکر کر رکھا ہے تو کیا ان سب کے سلسلے میں بھی وہی کہا جائے گا جو مروان المقفع کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔ وإن لا فلا..
اور جہاں تک متاخرین کی تصحیح یا تحسین کی بات ہے تو ان سب کا مرجع و مصدر یہی کچھ چیزیں ہیں:
(1) دارقطنی کی تحسین (2) ابن حبان کی توثیق (3) امام حاکم کی تصحیح (4) ائمہ کرام کی تصحیح یا تحسین سے ضمنی توثیق کا حصول وغیرہ لیکن ان میں سے کوئی بھی چیز سالم اور قابل حجت نہیں ہے جیسا کہ اوپر بالتفصیل بیان گزرا۔
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ مرون المقفع اوساط تابعین میں سے ہیں اور اوساط تابعین میں مجہول الحال راویوں کی روایت قابل قبول ہوتی ہے جیسا کہ امام ذہبی رحمہ نے فرمایا ہے:
وأما المجهولون من الرواة: فإن كان الرجل من كبار التابعين أو أوساطهم احتمل حديثه وتلقي بحسن الظن إذا سلم من مخالفة الأصول ومن ركاكة الألفاظ ”
( تحقيق كتاب المغني في الضعفاء 374/1 بحوالہ ضوابط الجرح والتعديل ص: 106)
لہذا مروان کی یہ روایت اگرچہ وہ مجہول ہیں تب بھی قبول کی جائے گی۔
لیکن یہ بات بھی غلط ہے:
اول: اس لیے کیونکہ اس طرح کے بہت سارے رواۃ کی روایتیں محدثین نے ضعیف کہہ کر ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
ثانی: “تلقي بحسن الظن” کا مطلب محتج بہ قرار دینا نہیں بلکہ قابل اعتبار و استشہاد قرار دینا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر کا قول اس پر دال ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ایسا مبہم راوی جس کا نام نہ لیا گیا ہو یا جس کا نام تو لیا گیا ہو مگر اس کی جہالت عین رفع نہ ہوئی ہو تو ایسے راویوں کی روایت ہمارے علم کے مطابق کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ لیکن اگر ایسا راوی عہد تابعین یا قرون مفضلہ کا ہو تو اس کی روایت سے استیناس کیا جائے گا اور بہت سارے مقامات پر اس سے کسب ضو بھی کیا جائے گا “۔ (اختصار علوم الحدیث ص:81)
ثالث: اکثر مجہول رواۃ تابعین ہی کے زمانے کے ہیں چنانچہ اگر سب کی روایتوں کو قابل حجت قرار دیا جائے تو راوی کے مجہول ہونے کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جائے گا اور علم جرح و تعدیل ایک طرح سے معطل قرار پائے گا لہذا امام ذہبی کی عبارت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ایسے مجہول راویوں کی روایت قابل اعتبار و استشہاد ہوگی نہ کہ قابل تصحیح و حجت اور اس کے قائل اکثر محدثین ہے۔
ان تمام تفاصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیث مذکور ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں کئی علتیں ہیں اور اس کا کوئی متابع یا شاہد بھی نہیں ہے مثال کے طور پر چند علتیں درج ذیل ہیں:
(1) حسین بن واقد ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ واہم بھی ہیں اور شاید یہ حدیث ان کے اوہام میں سے ہے۔
(2) مروان المقفع مجہول الحال ہے جس کی متابعت مطلوب ہے مگر کوئی متابعت نہ دارد۔
(3) حدیث سندا ومتنا غریب ہے۔
والله أعلم بالصواب
جزاكم الله خيرا. اس تخریج کے بارے میں چند دن پہلے میں نے ایک صاحب کو علامہ مقبل کا موقف ذکر کیا تھا اور حسن سے دارقطنی کے مراد کے بارے میں بھی بتلایا تھا، اس لنک پر تفصیل سے تخریج موجودہے،www.ajurry.com/vb/showthread.php?t=20165 الموضوع: حديث : ذهب الظمأ ، وابتلت العروق ، وثبت الأجر إن شاء الله علم جرح وتعدیل کے قواعد سے دیکھا جائے تو حديث ضعیف ہے، لیکن بہت سارے علما نے حسن کا حکم بعض ائمہ کی تحسین کی وجہ سے لگایا ہے، واللہ اعلم۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ شبکہ آجری پر ایک صاحب نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے:… Read more »
بارك الله فيك..
جزاكم الله خيرا و أحسن الجزاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ.
امید ہے کہ آپ مع اہل خانہ بخیر ہوں گے – ان شاء اللہ
جناب مضمون نگار اور محقق حدیث سے درخواست ہے کہ اب عوام کونسی قبل افطار اور بعد افطار پڑھے-امید رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے –