سخاوت کا دریا تھم کیوں گیا؟

رشید سمیع سلفی

جذبۂ سخاوت کو اسلام نے قدم قدم پر مہمیز کیا ہے، ترغیب وتحریص کے بیانات نے دلوں کو گرمایا ہے، خدمت خلق اور غرباء پروری کو مقصد تخلیق کا حصہ بتایا ہے۔ قرآن کی تذکیر مسلسل نے ولولوں میں وہ طغیانی پیدا کی کہ رفتہ رفتہ سخاوت کا دریا ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے، عطاوبخشش کی موجیں وقت کی فصیلوں سے ٹکرانے لگتی ہیں، فیض وکرم کی بہاریں خوشبو بکھیرنے آجاتی ہیں۔ پیغمبر اسلام کا کردار تو اس سے بھی کہیں اعلی وارفع تھا، آپ کی سخاوت کو بہتی ہواؤں سے تشبیہ دی گئی، کیونکہ خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلانا اور اپنی ضرورت پر دوسروں کو ترجیح دینا، یہ آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔

یہ قومی خصلت کم وبیش تاریخ کے ہر دور میں اس امت میں دیکھی گئی، آج بھی یہ قوم سخاوت و فیاضی اور چیریٹی میں پیش پیش ہے، لاک ڈاؤن کے عرصے میں جگہ جگہ انفرادی تعاون اور خدمت خلق کی خبریں تو آتی رہیں، لیکن اس دورانیہ میں بڑے پیمانے پر مساجد اور دینی اداروں نے بھی غریبوں کو راشن دینے اور ضرویات بہم پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، راستوں میں لنگر بھی چلتے رہے، میڈیا ہمارے خلاف فضا کو مسموم کرتا رہا مگر ہم مفلوک الحال انسانیت کی اشک شوئی میں لگے رہے۔

مساجد اور مدارس کو طبی سہولیات کے لیے وقف بھی کیا گیا، گرانقدر رقوم کے اعلانات بھی کیے گئے، پی ایم کئر میں بھی ڈونیٹ کا سلسلہ چلتا رہا، سوشل میڈیا پر خبروں اور تصویروں کی باڑھ سی آگئی، مگر مرور ایام کے ساتھ رفتار ماند پڑتی جارہی ہے، یا پھر ایک مخصوص حد کو پہنچ کر اہل ثروت کے قدم رک سےگئے ہیں۔ جس درجے کا بحران نظر آرہا ہے اس پیمانے پر سخاوت کا مظاہرہ نہیں ہورہا ہے، یہ کیا کہ بحران ابھی ختم نہیں ہوا لیکن ہمارا جوش بیٹھ گیا، یقین جانیے ہمارا قومی اسوہ ابھی پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچا ہے، ابھی ہم اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوئے ہیں۔

اگر جذبے کی حرارت سرد پڑگئی ہے تو نبی کی دریا دلی ذہنوں میں تازہ کرلی جائے کہ وہ جب دینے پر آتے تھے تو فقر وفاقہ سے نہیں ڈرتے تھے، یا سیرت صحابہ کا وہ ورق الٹ لیجیے کہ مہمان سے اپنے پیالے کی حرماں نصیبی کو چھپانے کے لیے چراغ گل کردیا گیا اور مہمان کو شکم سیر ہونے دیا گیا، یا وہ اللہ والا یاد آنا چاہیے جس کے جنازے پر امڈنے والے غریبوں کے ہجوم نے بتایا کہ یہ ہمارے دروازوں پر راتوں کو راشن رکھ جایا کرتے تھے، اکثرہمارے بجھے ہوئے چولہے ان کی دریادلی کے ایندھن سے جل اٹھتے تھے۔

یاد تو اس خلیفۂ راشد کی بھی آنی چاہیے جس نے قحط کے موقع پر اناج سمیت سات سو اونٹ مدینہ پر صدقہ کردیا تھا، پورا سازوسامان بازار میں چھوڑ کر خالی ہاتھ گھر لوٹے تھے۔ یہی نہیں بلکہ بے سروسامانی کے باوجود تبوک کی مہم کے لیے درہم ودینار کی جو بارش ہوئی اس سے تاریخ کے صفحات آج بھی روشن ہیں۔ یقینا یہ حوالے جذبوں کی سرد مہری کو والہانہ ترنگ عطا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
اے عشق مل سکیں گے نہ ہم جیسے سر پھرے
برسوں چراغ لےکر زمانہ اگر پھرے

ایک نظر بھوک سے نڈھال انسانیت پر ڈالیے اور اپنی ذات کو ان کی جگہ رکھ کر دیکھیے، پھر ان مجروح جذبات کی آنچ کو محسوس کیجیے جو سینے کے حصار کو توڑ کر باہر آجانا چاہتے ہیں، مانا کہ کاروبار بند ہے لیکن بے بسی اتنی بھی نہیں کہ چند گھروں کے اداس چولہے آپ کی کوشش سے روشن نہ ہوسکیں۔ آج بھی بہتیروں کے یہاں رمضانی تعیش میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے، لذت کام ودہن کا سامان ہورہا ہے، لیکن دوسری طرف دستر خوان اپنی بے سروسامانی پر ماتم کناں ہے، سحری وافطاری کے لالے پڑے ہیں، ہماری فضول خرچیوں کے قصے تو بہت مشہور ہیں۔

ذرا تصور کیجیے کیا آپ نے ضرورت مندوں کے لیے اس مال کا عشر عشیر بھی خرچ کیا ہے جو شادیوں میں بے جا نمائش پر خرچ کردیا کرتے تھے؟ کیا ہم نے اتنا پیسہ بھی ضرورت مندوں پر لگایا ہے جو لذت کام ودہن کے لیے مہنگے ریستورانوں کی نذر کردیا کرتے تھے، کیا ہم نے ایسے ہی اپنی گاڑھی کمائی غریبوں پر لٹائی ہے جیسے ہم اپنے گھروں کے ڈیکوریشن اور آرائش پر لٹاتے ہیں، کیا ہم اس رقم کا ایک حصہ بھی لاک ڈاؤن میں پھنسے بھوکے غریبوں کے نام کیا ہے جو ہم عید ورمضان کی شاپنگ پر خرچ کردیتے ہیں، مہنگی گاڑیوں کے شوق میں جس طرح ہماری جیب ابال کھاتی ہے کیا محتاجوں کے لیے بھی ہماری جیبوں کا‌ منہ کھلتا ہے؟ کیا آپ نے اتنا مال بھی مساکین تک پہنچایا ہے جتنا آپ فخرومباہات اور مقابلہ آرائی پر خرچ کردیتے ہیں، امیرانہ ٹھاٹھ تو بس خواب وخیال ہے، غریب کی آرزو تو بس یہ ہے۔
ہم نہیں چاہتے دریا پہ حکومت کرنا
ایک قطرۂ ہی سہی پیاس بجھادے کوئی

اگر ضرورتیں غریبوں کو مار رہی ہیں تو تجوری اور لاکر میں پڑے پیسے ہماری انسانیت پر سوال کھڑے کرتے ہیں، ہمارا ضمیر اگر مردہ نہیں ہوگیا ہے تو ایک بار ہم کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے کہ کیا سڑکوں پر خوار ہورہے مزدوروں کے تئیں ہم پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی؟کیا گھروں میں نان شبینہ کے محتاج مسکینوں کی خبر گیری ہمارا کام نہیں ہے؟ کیا گردش زمانہ کے شکار غریبوں کا ہم پر کوئی حق نہیں؟ ارباب اقتدار تو ایک ہاتھ میں اے سی کا ریموٹ اور دوسرے ہاتھ میں ٹی وی کا ریموٹ لیے مصیبت کے ایک ایک پل کو انجوائے کررہے ہیں، کیا بحران کے اس دور میں خیر امت بھی آنکھ وکان بند رکھے اور بے حسی کی چادر اوڑھ کر سورہے۔

آپ کے تبصرے

3000