ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح اسانید سے مروی ہے کہ انھوں نے حاملہ اور مرضعہ کو رمضان کے روزے نہ رکھ پانے کی صورت میں صرف فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
بعض حضرات یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان دونوں سے قضا کا فتوی بھی ثابت ہے جیسا کہ بعض معاصر علما نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے، بلکہ بعض یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان دونوں نے اپنے فدیہ والے فتوے سے رجوع کر لیا تھا اور بعد میں صرف قضا کا حکم دیا تھا، حالانکہ کسی بھی روایت میں رجوع کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی موجود نہیں۔
اس لیے ضروری محسوس ہوا کہ ان روایات کا جائزہ لیا جائے جسے ان دونوں صحابہ کرام سے ”ثابت“ کہا جاتا ہے۔
●اولا: ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت:
ان سے مروی قضا کی روایت مصنف عبد الرزاق میں یوں آئی ہے:
عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَعَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «تُفْطِرُ الْحَامِلُ وَالْمُرْضِعُ فِي رَمَضَانَ، وَتَقْضِيَانِ صِيَامًا، وَلَا تُطْعِمَانِ» «مصنف عبد الرزاق الصنعاني (4/218, حدیث نمبر7564)
(حاملہ اور مرضعہ رمضان میں روزہ نہیں رکھیں گی، دونوں اپنے روزوں کی قضا کریں گی اور طعام نہیں دیں گی)
اس روایت میں ثوری و ابن جریج کے استاد اور ابن عباس سے روایت کرنے والے کا نام ”عطاء“ مذکور ہے۔ ان کی ولدیت یا نسبت کا کوئی تذکرہ نہیں۔
جنھوں نے اس روایت کو صحیح کہا ہے انھوں نے ”عطاء“ سے مراد ”عطاء بن ابی رباح“ لیا ہے۔ اور ان پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
لیکن ان کی یہ بات تسلیم کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ ”عطاء“ سے یہاں روایت کرنے والے ابن جریج کے ساتھ ساتھ سفیان ثوری بھی ہیں، اور”عطاء بن ابی رباح“ سفیان ثوری کے استاد نہیں، بلکہ استاد کے استاد ہیں، سفیان ثوری ان سے ایک واسطے سے روایت کرتے ہیں، ڈائرکٹ نہیں۔ اور مصنف عبد الرزاق کی زیر بحث روایت میں ثوری نے ”عطاء“ سے ڈائرکٹ روایت کی ہے۔
ڈاکٹر ہاشم عبد یاسین المشہدانی اپنی کتاب ”سفيان الثوري وأثره في التفسير“ میں فرماتے ہیں کہ سفیان ثوری کی مطبوعہ تفسیر میں ”عطاء بن ابی رباح“ سے ان کی اسانید کی تفصیل یہ ہے کہ بیس تفسیری روایات کو سات متصل اسانید سے انھوں نے ”عطاء بن ابی رباح“ سے روایت کی ہے۔ ان میں سے گیارہ میں دونوں کے مابین ابن جریج کا واسطہ ہے، تین میں طلحہ بن عمرو کا، دو میں لیث بن ابی سلیم کا، ایک میں عبد الملک بن ابی سلیمان کا، ایک میں العلاء بن المسیب کا، ایک میں سالم بن عبد اللہ الخیاط کا، اور ایک میں ابراہیم الجوزی کا۔ (دیکھیں: سفیان الثوری واثرہ فی التفسیر، ص271)
اگر ”عطاء بن ابی رباح“ سفیان ثوری کے استاد ہوتے تو وہ یہ تمام روایتیں ان سے ڈائرکٹ روایت کرتے، اور ائمہ جرح وتعدیل بھی ان کے مشایخ میں”عطاء بن ابی رباح“ کا نام شمار کرتے، یا ”عطاء بن ابی رباح“ کے شاگردوں میں ثوری کا نام ذکر کرتے، لیکن یہ تمام چیزیں مفقود ہیں، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مصنف عبد الرزاق کی زیر بحث روایت میں ”عطاء“ سے مراد ”عطاء بن ابی رباح“ نہیں ہیں، وہ کوئی دوسرے ”عطا ء“ ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہاں ”عطاء“ کون ہیں؟
قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہاں ”عطاء“ ”عطاء بن ابی مسلم الخراسانی“ ہیں۔
”عطاء بن ابی مسلم الخراسانی“ کے شاگردوں میں امام مزی نے سفیان ثوری اور ابن جریج دونوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح ان کے مشایخ کی فہرست میں ابن عباس کا بھی نام ذکر کیا ہے، اور کہا ہے کہ تمام صحابہ سے ان کی روایت مرسل ہے۔ (دیکھیں: تہذیب الکمال، 20/106-109)
حافظ ذہبی نے بھی عطاء الخراسانی کے شاگردوں میں سفیان ثوری کا تذکرہ کیا ہے، اور مشایخ میں ابن عباس سے مرسلًا روایت کرنے کی بات ذکر کی ہے۔ (دیکھیں: سیر اعلام النبلاء، 6/140، اور تاریخ الاسلام، 3/701)۔
لہذا ظاہر یہی ہے کہ مصنف عبد الرزاق کی زیر بحث روایت میں ”عطاء“ سے مراد ”عطاء بن ابی مسلم الخراسانی“ ہیں، ”عطاء بن ابی رباح“ نہیں۔
بعض حضرات یہ کہہ کر عطاء الخراسانی کی تعیین کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں کہ وہ ابن عباس سے تفسیری مرویات ہی روایت کرتے ہیں اور یہاں متن احکام سے تعلق رکھنے والا فتوی ہے کوئی تفسیری روایت نہیں۔ لیکن ان کا یہ کہناصحیح نہیں، صحیح یہ ہے کہ عطاء الخراسانی ابن عباس سے احکام وتفسیر ہر طرح کی احادیث روایت کرتے ہیں، بطور مثال یہ احادیث دیکھیں: سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3136، سنن سعید بن منصور، حدیث نمبر2588، مسند احمد، حدیث نمبر2839، و 3440۔
یہاں پر عطاء الخراسانی نے ابن عباس سے احکام کی حدیثیں روایت کی ہیں، تفسیر کی نہیں۔
لہذا اس وجہ سے عطاء الخراسانی کی تعیین کا انکار درست نہیں۔ قرائن اس بات پر واضح دلالت کرتے ہیں کہ وہ ”عطاء الخراسانی“ ہی ہیں۔
اور یہ سند انقطاع کی بنا پرضعیف ہے۔ عطاء الخراسانی نے بالاتفاق ابن عباس سے کچھ نہیں سنا ہے۔ اسی لیے علما نے ابن عباس سے ان کی روایت کو مرسل کہا ہے۔ (دیکھیں: جامع التحصیل للعلائی، ص238، وغیرہ)
امام بیہقی ”ابن جریج عن عطاء عن ابن عباس“ کے طریق سے ایک حدیث کو روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں: “عطاء هذا هو الخراساني، لم يدرك ابن عباس ولم يره، قاله أبو داود السجستاني وغيره”. (السنن الكبرى للبيهقي، 6/431)
(امام ابو داود اور دوسرے ائمہ کرام فرماتے ہیں کہ عطاء الخراسانی نے ابن عباس کا نہ زمانہ پایا ہے اور نہ انھیں دیکھا ہے)
اس لیے اس روایت کو ”صحیح“ کہنا صحیح نہیں۔
کوئی یہاں ”عطاء“ کی تعیین میں دوسرے احتمالات بھی ذکر کر سکتا ہے، اس لیے اس کا بھی جائزہ پیش کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ایک احتمال یہ پیش کیا جا سکتا ہے کہ ”عطاء“ سے مراد ”عطاء بن السائب“ ہیں، کیونکہ امام مزی نے ”عطاء بن السائب“ کے شاگردوں میں سفیان ثوری اور ابن جریج دونوں کا تذکرہ کیا ہے۔
لیکن یہ احتمال اس لیے بعید ہے کیونکہ ابن عباس ”عطاء بن السائب“ کے استاد نہیں، استاد کے استاد ہیں، انھوں نے ابن عباس سے ہمیشہ ایک واسطے سے حدیثیں بیان کی ہیں جیسے کہ کتب حدیث میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ بطور مثال صرف کتب ستہ سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں: صحیح بخاری 6578، سنن ابی داود2819، 3134، 3275، 3620، 3772، 1688،4175، سنن ترمذی 184، 877، 960، 3108، سنن نسائی 1843، 3670، 5400، وغیرہ۔
نیز ائمہ کرام نے ان کے مشایخ کی فہرست میں ابن عباس کا نام بھی ذکر نہیں کیا ہے۔ مجھے ان کے مشایخ میں عبد اللہ بن ابی اوفی (متوفی 87 ہجری) اور انس بن مالک (متوفی 92 یا 93 ہجری) کے علاوہ کسی صحابی کا نام نہیں ملا، بلکہ حافظ ذہبی نے ان کے مشایخ میں انس بن مالک کو ذکر کرنے کے فورًا بعد کہا ہے: “وَلَمْ يَثبُتْ أَنَّهُ سَمِعَ مِنْهُ، وَقَدْ جَاءَ بِإِدخَالِ يَزِيْدَ الرَّقَاشِيِّ بَيْنَهمَا”۔ (سير أعلام النبلاء ، 6/110)
(یہ ثابت نہیں کہ انھوں نے انس بن مالک سے سنا ہے، اور بسا اوقات دونوں کے مابین یزید الرقاشی کا واسطہ آیا ہے)
لہذا ابن عباس جن کی وفات 68 ہجری میں ہوئی ہے ان سے ان کا روایت کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ یہاں ”عطاء“ سے مراد ”عطاء بن السائب“ ہی ہے پھر بھی انقطاع کی وجہ سے یہ روایت ضعیف قرار پائے گی۔
ایک اور احتمال یہ پیش کیا جا سکتا ہےکہ یہاں ”عطاء“ سے مراد ”عطاء بن قرہ السلولی“ ہیں، کیونکہ امام مزی نے ان کے شاگردوں میں سفیان ثوری کا ذکر کیا ہے۔ (تہذیب الکمال،20/101)
لیکن یہ احتمال اس لیے بعید تر ہے کیونکہ ابن جریج ان کے شاگرد نہیں، اور مشایخ میں صرف عبد الله بن ضمرة السلولي (ت ق)، محمد بن مسلم بن شهاب الزهري، اور أبي مخرمة السعدي الدمشقي کا تذکرہ ملتا ہے، کسی بھی صحابی کا نام نہیں ملتا۔ (دیکھیں: تاریخ دمشق، 40/412، اورتهذيب الكمال، 20/ 101)
اسے بھی قبول کرنے کی صورت میں انقطاع کی بنا پر یہ روایت ضعیف قرار پائے گی۔
ایک اور احتمال یہ پیش کیا جا سکتا ہےکہ یہاں ”عطاء“ سے مراد ”عطاء بن ابی مروان الاسلمی المدنی“ ہیں، کیونکہ ابن سعد اور امام مزی نے ان کے شاگردوں میں سفیان ثوری کا ذکر کیا ہے۔ (طبقات کبری، 5/398، وتہذیب الکمال۔ 20/103)
لیکن یہ احتمال اس لیے قابل التفات نہیں کیونکہ ابن جریج ان کے شاگرد نہیں، اور ابن عباس ان کے استاد نہیں، بلکہ علما نے ان کے اساتذہ میں ان کے والد کے علاوہ کسی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ (دیکھیں: تہذیب الکمال۔ 20/103، تاریخ الاسلام، 3/281)
اور ان کے والد کے صحابی ہونے کے بارے میں کلام ہے، امام علائی نے ان کی حدیث کو مرسل کہا ہے۔ (جامع التحصیل، ص315)
لہذا اگر اس احتمال کو قبول بھی کرلیا جائے پھر بھی انقطاع واضح ہے، جس کی بنا پر یہ روایت ضعیف قرار پائےگی۔ واللہ اعلم
خلاصہ کلام یہ کہ بہر صورت یہ روایت ضعیف ہے، اس سے استدلال قطعا صحیح نہیں۔
●ثانیا: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت:
امام ابو عبید قاسم بن سلام نے اپنی کتاب ”الناسخ والمنسوخ“ میں ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
أخبرنا علي قال: حدثنا أبو عبيد قال: حدثنا ابن أبي مريم عن أنس بن عياض عن جعفر بن محمد عن ابن لبيبة أو ابن أبي لبيبة عن عبد الله بن عمرو بن عثمان أن امرأة صامت حاملًا فاستعطشت في شهر رمضان، فسئل عنها ابن عمر، فأمرها أن تفطر وتطعم كل يوم مسكينًا مدًّا، ثم لا يجزئها ذلك، فإذا صحّت قضته.
اس کی سند ضعیف ہے۔
اس میں محمد بن عبد الرحمن ابن لبیبہ یا ابن ابی لبیبہ پر محدثین نے کلام کیا ہے۔
● امام ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “ليس حديثه بشيء” (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:7/319)
● علامہ عینی ان کے بارے میں ابن معین کا حکم نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “ضَعَّفَه ابنُ معين”۔ (مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار:3/547)
علامہ عینی کی اس تصریح سے ابن معین کے قول کا صحیح مفہوم سمجھا جا سکتا ہے۔
● یعقوب بن سفیان الفسوی نے اپنی کتاب ”المعرفہ والتاریخ“ میں ایک باب قائم کیا ہے: «باب من يُرغب عن الرواية عنهم»یعنی ”ایسے روات جن سے روایت کرنے سے اعراض کیا جائے گا“۔ اور ان میں ابن ابی لبیبہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ (المعرفہ والتاریخ، 3/41)
● امام دارقطنی نے انھیں اپنی کتاب «الضعفاء والمتروكون» (3/ 129, رقم الترجمة: 454) میں ذکر کیا ہے۔
● امام ابن شاہین اپنی کتاب «تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين» (ص 169) میں ان کے متعلق فرماتے ہیں: ”لا شیء“۔
● علامہ ابن الجوزی نے انھیں اپنی کتاب «الضعفاء والمتروكون» (3/76) میں ذکر کیا ہے۔
یعنی ان کے ضعیف ہونے پر شبہ اتفاق ہے، کسی نے ان کی توثیق یا مدح ذکر نہیں کی ہے، سوائے ابن حبان کے، انھوں نے اپنے معروف منہج کے مطابق انھیں اپنی کتاب ”الثقات“ میں ذکر کیا ہے۔ لہذا ان کے معاملے کو ہلکا کرکے پیش کرنا قطعا صحیح نہیں۔ اسی وجہ سے حافظ ذہبی «ديوان الضعفاء» (ص361) میں ان کے متعلق فرماتے ہیں: ”ضَعَّفُوهُ“ (یعنی ائمہ جرح وتعدیل نے انھیں ضعیف قرار دیا ہے) اور حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: “ضعيف كثير الإرسال”۔ (تقریب التہذیب، ترجمہ نمبر 6080)
اس سند کے ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں ایک دوسری علت ہے، جوکہ پہلے سے زیادہ سخت ہے، وہ یہ کہ ابن ابی لبیبہ سے ”صحت وتندرستی کے بعد روزہ قضا کرنے“ کا لفظ اس میں ثابت ہی نہیں ہے۔
امام ابو عبید قاسم بن سلام نے ”الناسخ والمنسوخ“ میں اس لفظ کو روایت کرنے کے فورا بعد اسی اثر کی ایک دوسری سند سے اس لفظ کا معارضہ پیش کیا ہے جس میں ”صحت وتندرستی کے بعد روزہ قضا کرنے“ کا لفظ موجود ہی نہیں ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
أخبرنا علي قال: حدثنا أبو عبيد، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله بن عمر، عن ابن أبي لبيبة، عن ابن عمر أو عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن أبي لبيبة، عن ابن عمر في ذلك أنه قال: تفطر وتطعم كل يوم مسكينًا، غير أن يحيى لم يذكر القضاء في حديثه، شك أبو عبيد في نافع ولم يشك في ابن أبي لبيبة.
اس روایت کو بغور دیکھیں۔
پہلی روایت میں ابن ابی لبیبہ سے روایت کرنے والے جعفر بن محمد تھے جو کہ صدوق راوی ہیں۔ اور اس روایت میں ابن ابی لبیبہ سے روایت کرنے والے یا تو عبید اللہ بن عمر العمری ہیں، یا نافع ہیں۔ اور دونوں صحیحین کے معروف ومشہور ثقہ اور متقن روای ہیں۔ انھوں نے یہی حدیث جب ابن ابی لبیبہ سے روایت کی تو ”صحت وتندرستی کے بعد روزہ قضا کرنے“ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
اس لفظ کے ذکر نہ کرنے میں ان کی متابعت محمد بن عجلان نے بھی کی ہے۔ امام عبد الرزاق نے اپنے ”مصنف“ (حدیث نمبر7558) میں معمر اور ابن عیینہ کے واسطے سے ان سے یہ روایت کی ہے۔ البتہ ابن عجلان نے اسے عنعنہ سے روایت کی ہے، اور وہ تیسرے طبقے کے مدلس راوی ہیں۔ لیکن متابعت کے باب میں ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں۔
اگر ابن عجلان کی روایت نظر انداز بھی کر دی جائے پھر بھی جعفر بن محمد عبید اللہ بن عمر العمری یا نافع کی طرح بلند پائے کے راوی نہیں ہیں۔ لہذا اصلا ابن ابی لبیبہ سے قضا کا لفظ ثابت ہی نہیں ہے۔ اوپر سے وہ خود شبہ متفق علیہ ضعیف راوی ہیں۔ لہذا اس روایت کو قابل قبول ماننے کی کوئی گنجائش ہی نہیں نکلتی، چہ جائے کہ یہ کہا جائے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے فتوے سے رجوع کر لیا تھا۔
شاید اسی وجہ سے امام احمد رحمہ اللہ نے صیغہ تمریض کے ساتھ لفظ ”رُوِيَ“ سے اسے بیان کرکے اس کے ضُعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (دیکھیں: الخلافيات بين الإمامين الشافعي وأبي حنيفة وأصحابه للبيهقي:5/56)
اسی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی لفظ ”رُوِيَ“ سے اس کے ضُعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (السنن الصغير للبيهقي:2/103 حدیث نمبر:1356)
اس لیے ”السنن الکبری“ میں ان کی تبویب کا اس روایت کے صرف موافق ہونے کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھوں نے اس روایت پر اعتماد کیا ہے۔ وہاں اس تبویب کے موافق ابن عمر کے اثر کے علاوہ امام مالک، مجاہد اور حسن بصری رحمہم اللہ کا بھی اثر ہے۔ اور انھوں نے ابن عمر کی قضا والی اس روایت کو مسندًا روایت بھی نہیں کی ہے، بلکہ امام ابو عبید کی کتاب سے صرف نقل کیا ہے، اور اپنے وابو عبید کے درمیان کی سند بھی ذکر نہیں کی ہے۔ لہذا صرف امام بیہقی کی تبویب سے اسے کوئی تقویت نہیں ملتی، خصوصا جب کہ خود انھوں نے ہی دوسری جگہوں پر لفظ ”رُوِيَ“ سے اس کے ضُعف کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حاملہ اور مرضعہ کے متعلق روزہ نہ رکھ پانے کی صورت میں صرف فدیہ کا فتوی ثابت ہے، قضا کا فتوی نہیں۔ اور صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی ان کے اس فتوے کی مخالفت نہیں کی ہے جیسے کہ علامہ ابن قدامہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ (دیکھیں: المغنی، 3/150، وشرح العمدہ، کتاب الصیام، 1/249)۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد
جزاكم الله خيرا وبارك الله فيك۔ محترم المقام قابل احترام عزت مآب ڈاکٹر صاحب امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوگا۔ مسئلہ: ایک لڑکا کی عمر اس رمضان میں ایک سال 11 مہینہ کی ہے۔ اس رمضان کے تمام روزے اس کی ماں نے رکھ لیا۔ فلله الحمد على ذلك. لیکن گزشتہ رمضان میں بچہ کی عمر صرف گیارہ مہینے کے تھی ظاہر ہے کہ اس رمضان کے تمام روزے نہیں رکھ سکی۔ ایسی صورت میں مذکورہ بیانات مدللہ سے استدلال کرتے ہوئے اس شیر خوار کی ماں ان چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ دے سکتی ہے؟ رہنمائی فرما کر عنداللہ… Read more »
ما شاء اللہ بارک اللہ فیکم وسدد خطاکم وجعلکم من المفیدین للامۃ ووفقکم للخيرات والحسنات…. میں نے مطالعہ کیا تھا شیخ البانی رحمہ اللہ اور ہمارے ہندوستانی شیخ مولانا محفوظ الرحمن فیضی حفظہ اللہ وغیرہما نے ان آثار سے استدلال کرتے ہوئے صرف فدیہ دینے والی رائے کو راجح قرار دیا ہے… شیخ محفوظ الرحمن کا اس سلسلے میں تفصیلی مضمون بھی ہے… مگر جب بعد میں کسی نے لکھا کہ نہیں ابن عمر وابن عباس رضي الله عنهما نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا ہے تو پھر میں توقف اختیار کر لیا کہ تحقیق تک معاملہ ملتوی… Read more »