کیا لاک ڈاؤن کی صورت میں گھروں میں نماز عید کی ادائیگی درست ہے؟

مامون رشید ہارون رشید رمضانیات

چونکہ امسال لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر سے نکلنا اور اجتماعی طور پر نماز عید ادا کرنا ممکن نہیں ہے جبکہ عید کی نماز گھر اور گاؤں سے نکل کر عوامی اجتماعی صورت میں ادا کرنا سنت نبوی ہے۔ اس کے علاوہ اس تعلق سے اللہ کے رسول سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔

بنا بریں لاک ڈاؤن کی صورت میں نماز عید گھر میں پڑھی جائے یا نہیں؟ ان دنوں یہ مسئلہ فقہائے کرام کے بیچ موضوع بحث بنا ہوا جہاں بہت سارے علماء نے جواز کا فتویٰ دیا ہے تو وہیں کچھ لوگ عدم جواز کے بھی قائل ہیں۔

سبب اختلاف کئی ہیں:
اول: اس سلسلے میں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی!
دوم: اس کے اثبات اور جواز کے متعلق صحابہ کے کچھ آثار ملتے ہیں جن میں سے بعض صحیح اور بعض ضعیف ہیں۔
سوم: جو لوگ نماز عید کی ادائیگی کی اجازت دیتے ہیں وہ لوگ نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے روکتے بلکہ اسے محدث اور بدعت گردانتے ہیں جبکہ وہ عید سے مختلف نہیں ہے۔

البتہ گھر میں نماز عید کی ادائیگی درست اور جائز امر ہے سردست اس کے چار دلائل درج ذیل ہیں:

پہلی دلیل:
نماز عید فوت ہوجانے کی صورت میں گھروں میں یا گھر سے باہر جماعت کے ساتھ یا انفرادی طور پر اس کی ادائیگی صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ چنانچہ جب فوت ہوجانے کی صورت میں اس کی قضا درست ہے جبکہ مسلمانوں کی اکثریت نے بروقت اس کی ادائیگی کی ہے تو لاک ڈاؤن کی صورت میں جہاں کسی نے اس کی ادائیگی نہیں کی بدرجہ اولیٰ جائز اور درست ہے۔ ذیل میں اس بابت صحابہ کے آثار ملاحظہ فرمائیں:
(١) “كان أنس إذا فاتته صلاة العيد مع الإمام جمع أهله فصلى بهم مثل صلاة الإمام في العيد” (سنن کبری بیھقی: 3/ 427 /6237)

یعنی جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی امام کے ساتھ نماز عید فوت ہوجاتی تو وہ اپنے اہل خانہ کو جمع کر کے امام کے نماز عید ادا کرنے کی طرح نماز عید ادا کرتے تھے۔
(۲) “وأمر أنس بن مالك مولاهم ابن أبي عتبة بالزاوية فجمع أهله وبنيه، وصلى كصلاة أهل المصر وتكبيرهم”
(صحيح بخاری: 2/23 تعلیقا بصیغۃ الجزم، مصنف عبد الرازق حديث: 5855،
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ موصولا صحیح سند کے ساتھ بھی مروی ہے، اس اثر کو شیخ عبد القادر الجنید نے بھی صحیح قرار دیا ہے)
اور اس اثر کو امام ابن أبي شيبة نے مصنف (٥٨٠٣) کے اندر بایں الفاظ روایت کیا ہے: (أن أنسًا كان ربما جمع أهله وحشمه يوم العيد، فصلَّى بهم عبد الله بن أبي عُتبة ركعتين)
یعنی حضرت انس نے اپنے غلام ابن ابی عتبہ کو ان کے اہل وعیال کو جمع کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے ان کو جمع کیا اور ان سب کو شہر کے امام کی طرح نماز عید پڑھائی۔
(٣)وقال ابن مسعود – رضي الله عنه-:(من فاته العيدان فليُصل أربعًا)

حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: جس کی نماز عید چھوٹ جائے وہ چار رکعت ادا کرے۔
(رواه عبد الرزاق (5713)، وابن أبي شيبة (5799 و 5800)، وابن المنذر (2186)، وغيرهم، وفي سنده انقطاع، وضعفه الحافظ ابن المنذر، ولكن أشار الحافظان ابن رجب الحنبلي وابن حجر العسقلاني الشافعي إلى أنه قد جاء عن ابن مسعود بإسناد صحيح۔ حیث قال الإمام ابن رجب في فتح الباري (9/77): احتج به الإمام أحمد ولا عبرة بتضعيف ابن المنذر له؛ فإنه روي بأسانيد صحيحة۔

یعنی امام احمد رحمہ اللہ نے اس حدیث سے احتجاج کیا ہے لہذا ابن المنذر کی تضعیف کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ یہ صحیح سندوں سے مروی ہے)
تنبیہ: یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے کہ آیا قضا کرنے والا دو رکعت پڑھے یا چار رکعات سلف سے دونوں طرح کے اقوال ملتے ہیں البتہ راجح یہ ہے کہ دو رکعتیں ہی پڑھی جائیں کیونکہ قاعدہ ہے “الصلاة تقضي كما فاتت”
چنانچہ شیخ البانی وغیرہ نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔(جامع تراث العلامة الألباني في الفقه: 6/255)
(۴) عن محمد بن سيرين قال: “كانوا يستحبون إذا فات الرجل الصلاة في العيدين أن يمضي إلى الجبان فيصنع كما يصنع الإمام “(سنن کبری بیھقی : 3/428) وفي لفظً عند ابن أبي شيبة (٥٩٣٦): (كان يُستحب أن يُصلى مثل صلاة الإمام، وإن علم ما قرأ به الإمام قرأ)

امام ابن سیرین تابعی ہیں ظاہر ہے وہ جن لوگوں کا عمل نقل کررہے ہیں وہ صحابہ کرام ہیں یا علی الاقل تابعین عظام ہیں۔ چنانچہ یہاں دو باتیں قابل غور ہے:
اول: آپ نے جمع کا صیغہ استعمال کیا کہ صحابہ کرام ایسا کرتے تھے۔ دوم: آپ نے استمرار کا صیغہ استعمال کیا کہ بارہا ایسا ہوتا تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے اگر کسی کی نماز عید چھوٹ جاتی تو وہ میدان میں جاتے اور امام کے نماز ادا کرنے کی طرح نماز ادا کرتے۔
(٥) قيل لعلي بن أبي طالب: إن ضعفة من ضعفة الناس لایستطيعون الخروج إلى الجبانة «فأمر رجلا يصلي بالناس أربع ركعات، ركعتين للعيد، وركعتين لمكان خروجهم إلى الجبانة» (مصنف ابن أبي شيبة: 5814، 5815، 5816، 5817، 5818)

یہ اثر کئی سندوں سے مروی ہے اور امام احمد نے اس کے قوی ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے دیکھیے المغنی لابن قدامة: 2/290)
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ کچھ بوڑھے کمزور لوگ عید گاہ نہیں جاسکتے ہیں تو وہ کیا کریں؟ تو آپ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ انھیں چار رکعات نماز پڑھائے۔
لاک ڈاؤن کی صورت میں ہمارا مسئلہ بھی اس مسئلے سے مختلف نہیں ہے لہذا یہ ہمارے مسئلے کی دلیل کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے۔
ان آثار کے مقابلے میں کسی بھی صحابی سے اس رائے کی مخالفت منقول نہیں ہے لہذا یہ ایک نوع کا اجماع ہے جسے ہم اجماع سکوتی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

دوسری دلیل:

نماز عید چھوٹ جانے کی صورت میں اس کا قضا کرنا تابعین کی جماعت سے مروی ہے جن میں: عطاء، قتادۃ، حماد بن ابی سلیمان، نخعی، ابن الحنفیۃ، حسن بصری، ابن سیرین، عمرو بن دینار، شعبی، مجاہد، ابو عیاض، عکرمہ، ابو اسحاق، ضحاك وغیرہم ہیں۔ (مصنف ابن أبي شيبة: باب الرجل تفوته الصلاة في العيد، كم يصلي؟)
اور اصول ہے کہ“کل خير في اتباع من سلف وكل شر في اتباع من خلف”
اسی طرح اللہ کے نبی کی حدیث ہے: وستفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدة قيل وما هي يا رسول الله؟ قال ما أنا عليه اليومَ وأصحابي۔
اسی طرح اللہ کے رسول کا فرمان ہے“خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم”لہذا مسئلہ ہذا میں سلف کی اتباع کرتے ہوئے گھروں میں نماز عید ادا کرنا ہی عین حق وصواب ہے۔
ائمہ سلف میں سے بھی دو چند کے علاوہ جن میں بعض احناف وموالک اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہم اللہ ہیں جمہور اہل علم امام اوزاعی، ثوری، ابو حنیفہ، ابوبکر ابن ابی شیبہ، مالک، لیث بن سعد، شافعی، ابو ثور، احمد، اسحاق، امام بخاری، ابن المنذر، ابن رجب، ابن حجر، ابن قدامہ وغیرہم اسی کے قائل ہیں۔ (مسئلے میں تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں فتح الباری لابن رجب، فتح الباری لابن حجر، الأوسط لابن المنذر، المغني لابن قدامۃ، سنن کبری بیھقی، مصنف ابن عبد الرزاق مبحث ما نحن فیہ)
تیسری دلیل:

امام بخاری کی تبویب اور آپ کے دلائل: باب: “إذا فاته العيد يصلي ركعتين”، وكذلك النساء، ومَن كان في البيوت والقُرى، لقول النبي صلى الله عليه وسلم: «هذا عيدنا أهل الإسلام وأمر أنس بن مالك مولاهم ابن أبي عتبة بالزاوية فجمع أهله وبنيه، وصلى كصلاة أهل المصر وتكبيرهم وقال عكرمة: «أهل السواد يجتمعون في العيد، يصلون ركعتين كما يصنع الإمام» وقال عطاء: «إذا فاته العيد صلى ركعتين» (صحيح البخاري :2/23)
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس کی نماز عید چھوٹ جائے وہ دو رکعتیں پڑھ لے۔ دلیل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث “هذا عيدنا أهل الإسلام”
امام عینی حنفی اس حدیث سے امام بخاری کے طریق استدلال کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:“وجْه الاستدلال به: أنه أضافه إلى كل أمة الإسلام، مِن غير فرْق بين مَن كان مع الإمام أو لم يكن” (عمدة القارئ :6/308)
یعنی وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے عید کو کل امت مسلمہ کی طرف منسوب کیا ہے، خواہ کوئی امام کے ساتھ ہو یا نہ ہو آپ نے اس میں تفریق نہیں کی ہے۔

چوتھی دلیل:

نماز عید راجح قول کے مطابق فرض عین ہے جس کی ادائیگی خصوصا مردوں پر لازمی ہے جیسا کہ یہ شیخ البانی اور شیخ ابن عثیمین وغیرہم کا موقف ہے۔ لہذا لاک ڈاؤن کی صورت میں مجبوری کی وجہ سے الضرورات تبيح المحظورات کے تحت گرچہ نماز عید کے لیے اجتماع ساقط ہوجاتا ہے لیکن انفرادی طور پر ادا کرنے کی استطاعت ہونے کی وجہ سے “الضرورات تقدر بقدرها” کے تحت یہ عینی فرض جس صورت میں بھی ممکن ہو ادا کیا جائے گا محض اجتماع پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے سرے سے اس فریضے کی ادائیگی سے برئ الذمہ نہیں ہو سکتے۔ بلکہ جس طرح دیگر فرائض پنج وقتہ نماز، نماز جنازہ وغیرہ کو چھوٹ جانے پر قضا کیا جاتا ہے اسی طرح نماز عید کو بھی قضا کیا جائے گا۔ فتدبروا بارک اللہ فیکم
تنبیہ: اگر کوئی کہے کہ فقہائے کرام گھروں میں قیام جمعہ کی اجازت نہیں دیتے تو پھر ادائیگی نماز عید کی اجازت کیسے دے رہے ہیں جبکہ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
تو جواب یہ ہے کہ اول تو جمعہ قائم کرنے کے دلائل موجود نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے برخلاف حدیث میں ہے کہ اگر کسی کا جمعہ چھوٹ جائے تو وہ ظہر کی نماز ادا کرے چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسا ہی کرتے تھے۔
جبکہ عید کی نماز ادا کرنے کے دلائل آثار صحابہ و تابعین کی صورت میں موجود ہیں۔ جیسا کہ اوپر بالتفصیل گزرا۔
دوم یہ کہ نماز جمعہ چھوٹ جانے پر اس کا بدل ظہر کی صورت میں موجود ہے مگر نماز عید کا کوئی بدل نہیں ہے جس سے کہ اس فرضیت کی ادائیگی ہوجائے لہٰذا اس مسئلے میں عید کو جمعہ پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔
اخیر میں خلاصہ یہ ہے کہ نماز عید چھوٹ جانے کی صورت میں اس کو قضا کرنا درست ہے دلائل کی بنیاد پر یہی راجح ہے اسی کو معاصرین میں سے: شیخ البانی، شیخ ابن باز، شيخ وهبة زحيلي، شيخ عطية سالم، شیخ عبد اللہ بن غدیان، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ صالح الفوزان، شیخ محمد بن علي بن آدم، شیخ سلیمان الرحیلی، شیخ مقبل الوادعی، شیخ محمد المختار الشنقیطی، عبد العزیز آل شیخ، حسین العوایشۃ، شیخ کمال السید سالم، دکتور سعد الخثلان، سعودی فتوی کمیٹی اللجنۃ الدائمة، دار الافتا جامعہ سلفیہ بنارس، شیخ سعید بن وھف القحطانی، شیخ محمد صالح المنجد، شيخ عبد القادر الحنيد وغیرہم نے اختیار کیا ہے۔

چنانچہ جب چھوٹ جانے کی وجہ سے انفرادی یا اجتماعی طور پر قضا کرنا درست ہے تو لاک ڈاؤن کی صورت میں انفرادی طور پر گھروں میں ادا کرنا بدرجہ اولیٰ درست اور جائز ہے۔
والله أعلم بالصواب

آپ کے تبصرے

3000