نقدی فطرہ کے قائلین کے دلائل کا جائزہ

ابو احمد کلیم الدین یوسف رمضانیات

بعض اہل حدیث علماء نقدی فطرہ نکالنے کیلئے مختلف قسم کے دلائل پیش کر تے ہیں، آئیے چند سطور میں ہم ان کے دلائل کا مختصر جائزہ لیتے ہیں:
ان کی پہلی دلیل: ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: «أَدْرَكْتُهُمْ وَهُمْ يُعْطُونَ فِي صَدَقَةِ رَمَضَانَ الدَّرَاهِمَ بِقِيمَةِ الطَّعَامِ»

مصنف ابن أبي شيبة (10371).
کہتے ہیں کہ: ابو اسحاق السبیعی تابعی ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے صحابہ کو پایا کہ وہ رمضان کا فطرہ اناج کی قیمت میں نکالتے تھے.

جائزہ:
قارئین کرام: اس قول کو زہیر نے ابی اسحاق السبیعی سے روایت کیا ہے۔

❶ پہلی بات یہ کہ زہیر اگر ابی اسحاق السبیعی سے روایت کریں تو اس سلسلے میں علماء نے کلام کیا ہے، چنانچہ امام احمد، ابو زرعہ، ترمذی اور ابن حجر رحہم اللہ وغیرہم نے ابو اسحاق السبیعی کے بارے میں کہا ہے کہ وہ اختلاط کے شکار ہوگئے تھے، اور زہیر نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کی ہے۔
❷ دوسری بات: یہ صرف اور صرف ایک تابعی کا قول ہے جس پر کسی شرعی حکم کی بنیاد نہیں ڈالی جا سکتی.
❸ تیسری بات: ابو اسحاق السبیعی نے کم وبیش ٣٨ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اور بے شمار تابعین کو پایا ہے
☜ تو کیا ان کے قول کے مطابق وہ تمام ٣٨ صحابہ اور ان کے دور میں موجود تمام تابعین فطرہ نقدی طور پر درہم میں ہی نکالتے تھے؟
⇦ کیوں کے ابو اسحاق نے اپنے قول میں کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا ہے۔
⇚ تو ابو اسحاق السبیعی کے اثر کے مطابق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تقریبا ٣٨ صحابہ اور ہزاروں تابعین درہم کے طور پر صدقہ فطر نکالتے تھے؟
☚‏ لیکن ذخیرہ احادیث وآثار میں تو ان صحابہ میں سے کسی ایک سے بھی نقدی طور پر صدقہ فطر نکالنا منقول نہیں!
☚‏ نیز فقہاء و محدثین میں سے جو بھی صدقہ فطر نقدی نکالنے کے قائل ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی تعامل صحابہ سے استدلال نہیں کیا ہے.
☚‏ ہے نا بڑے تعجب کی بات؟
❹ چوتھی بات: ابو اسحق کے اس مبہم قول میں نقدی فطرہ کے قائلین کے مطابق اس بات کا احتمال ہے کہ شاید انہوں نے صحابہ کو مراد لیا ہو
☚‏ لیکن یاد رہے ک احتمال کی بنیاد پر استدلال کی عمارت قائم نہیں کی جا سکتی، اس کیلئے صریح دلیل کی ضرورت پڑتی ہے
☚‏ کیوں کہ: “إذا وُجد الاحتمال بطل به الاستدلال”.

❺ پانچویں بات: جس طرح ابو اسحاق السبیعی نے مبہم انداز میں کہا ہے کہ میں نے ان کو فطرہ درہم میں نکالتے ہوئے پایا ہے، اس سے زیادہ اور واضح انداز میں بیس رکعات تراویح کے تعلق سے سائب بن یزید کا اثر موجود ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ بیس پڑھتے تھے، اور امام نووی نے اسے صحیح بھی قرار دیا ہے، بلکہ علماء سلف کی اکثریت اسی کی قائل ہے.
☚‏ تو کیا جس طرح ابو اسحاق السبیعی کے اثر سے نقدی فطرہ کے قائلین شدومد کے ساتھ استدلال کر رہے ہیں کیا اسی طرح سائب بن یزید کے اثر سے استدلال کرکے بیس رکعت تراویح کا التزام کریں گے؟
☚‏ کیوں کہ جب فطرہ میں ابو اسحاق السبیعی تابعي کے اثر کا اعتبار کرتے ہوئے درہم نکال سکتے ہیں، بلکہ نقدی فطرہ نکالنے کی پرزور وکالت کرسکتے ہیں، تو سائب بن یزید رضی اللہ عنہ صحابی کے اثر کی بنیاد پر بیس رکعت تراویح کی وکالت کیوں نہیں کی جا سکتی؟
❻ چھٹی بات: نقدی فطرہ کے قائلین نے اس قول میں “أدركتھم” کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ :میں نے صحابہ کو پایا.
☚‏ محترم قارئین: اس اثر میں صحابہ کا تو کہیں دور دور تک ذکر ہی نہیں.
☚‏ اگر اس ترجمہ کو علمی خیانت نہیں کہہ سکتے تو کم ازکم علمی مغالطہ اور تدلیس ضرور کہہ سکتے ہیں.
☚‏ کیوں کہ جہاں صحابی کا ذکر موجود ہی نہیں وہاں ان کا ذکر اپنی طرف سے کرنا چہ معنی دارد؟
☚‏ اور نقدی فطرہ کے قائلین کو مجھ سے زیادہ پتہ ہوگا کہ جس قول کی نسبت کی صراحت صحابہ کی طرف نہیں ہو جان بوجھ کر بلا دلیل اس کی نسبت صحابہ کی طرف کرنے کا کیا حکم ہے؟
❼ ساتویں بات: ابو اسحاق السبیعی جو کہ تابعی ہیں ان کا قول نصِ صریح اور صحیح – جس میں تاویل کی گنجائش نہیں- کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے.
☚‏ اور نص کے مقابلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بات کا اعتبار نہیں.
☚‏ تو پھر ابو اسحاق السبیعی کے قول کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
❽ آٹھویں بات: اہل حدیث کی ہمیشہ سے یہی پہچان رہی ہے کہ دین ھدی کے دو ہی اصول: اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول.

☜ تو پھر نقدی فطرہ کے قائلین جنہیں اہل حدیث ہونے کا دعویٰ ہے انہیں قرآن و حدیث کا سہارا لے کر اپنی رائے کو پیش کرنا چاہئے نہ کہ اقوال تابعین پر اعتماد کرکے.
☜ کیوں کہ ہم اہل حدیث کسی سے بھی یہی پوچھتے ہیں کہ بھائی اس مسئلہ مین کتاب وسنت کی کیا دلیل ہے؟ سامنے والا اگر کتاب وسنت کے مقابلے ائمہ اربعہ اور تابعین عظام کے اقوال پیش کرے، تو ہم یہ کہہ کر ان پر رد کرتے ہیں کہ ہمیں نبی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ تابعین عظام اور ائمہ اربعہ کی اتباع کا.
☚‏ تو پھر اس مسئلہ میں ایک تابعی کا قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں کیسے حجت بن سکتا ہے؟

نقدی فطرہ کے قائلین کی دوسری دلیل:
✺ بخاری شریف میں باب العض فی الزکوٰۃ میں ہے:((قال معاذ لاھل الیمن أتونی بعض یثا بخمیص او لیس فی الصدقة مکان الشعیر والذرة اھون علیکم وخیر لا صحاب النبی ﷺ))

’’حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل یمن کو کہا کہ بجائے جو اور جوار کے باریک کپڑے اور عام پہننے کے کپڑے صدقہ میں ادا کرو یہ تمہارے لیے آسان ہے اور اصحاب رسول کے لے زیادہ فائدہ مند ہے۔‘‘

جائزہ:
پہلی بات: یہ اثر ضعیف ہے.
⇦ دوسری بات: اس میں ایک بہت بڑا علمی مغالطہ ہے، وہ یہ کہ بعض نقدی فطرہ کے قائلین نے اس اثر کی نسبت مطلقاً بخاری شریف کی طرف کی ہے، جس سے تدلیس کی بو آتی ہے، کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اثر کو ترجمۃ الباب میں ذکر کیا ہے، صحیح سند کے ساتھ اصل کتاب میں ذکر نہیں کیا ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ عنوان کے طور پر بلا سند جو احادیث ذکر کرتے ان میں صحیح اور ضعیف دونوں قسم کی حدیث ہوتی ہیں.
نیز یہ کہ یہ ایک صحابی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا اثر ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں آثار صحابہ کو ترجیح نہیں مل سکتی.

◈ بعض نقدی فطرہ کے قائلین کہتے ہیں کہ: “ہمارے زمانہ میں کرنسی بھی ایک طرح سے “طعام” ہی کا بدل ہے”.
✺ ایسا کہنے والے علماء حضرات سے ایک سوال ہے کہ اگر کوئی آدمی دس گرام چاندی کے عوض ایک کیلو باسمتی چاول ادھار خریدتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟
☚‏ مذکورہ مسئلہ میں اجماع ہے کہ ایسی بیع جائز ہے.
☚‏ لیکن نقدی فطرہ کے قائلین کے مطابق یہ حرام ہوجائے گا کیوں کہ ان کے نزدیک ایک صاع غلہ کرنسی کی حیثیت رکھتا ہے اور چاندی بھی کرنسی کی حیثیت رکھتی ہے، اور کرنسی کی کرنسی سے ادھار بیع جائز نہیں۔

نقدی فطرہ کے قائلین کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک صاع کی قیمت کی کرنسی موجود نہیں تھی، اس لئے کرنسی کا حکم نہیں دیا.
جائزہ:
❐ عن أبي سعيد الخدري وعن أبي هريرة رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلا على خيبر فجاءه بتمر جنيب فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل تمر خيبر هكذا قال لا والله يا رسول الله إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين والصاعين بالثلاثة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تفعل بع الجمع بالدراهم ثم ابتع بالدراهم جنيبا”. ((صحیح بخاری: ٢٠٨٩)).

ترجمہ: ابو سعید الخدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنایا، وہ وہاں سے صاف ستھری اور بہترین کھجور لے کر آیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی عمدہ ہیں؟، تو اس شخص نے کہا کہ نہیں اے اللہ کے رسول، ہم دو صاع ملاوٹ والی کھجوروں کے بدلے ایک صاع صاف ستھری کھجور خریدتے ہیں، اور کبھی دو صاع تین صاع کے عوض خریدتے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو، بلکہ ملاوٹ والی کھجور کو درہم کے ذریعہ بیچ دو اور پھر اس درہم کے ذریعہ بہترین کھجور خرید لو۔

✺ اس حدیث سے بہت سے اشکالات دور ہو جاتے ہیں:
❶ أ: ایک صاع یا دو صاع یا اس سے زائد کھجور کی خریدو فروخت درہم کے ذریعہ عام تھی، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھر رہنمائی فرمائی۔
❷ ب: ایک صاع کے مقابل کرنسی موجود تھی، جیسا کہ فحوائے حدیث اس پر دلالت کر رہا ہے۔
☚‏ اب کوئی یہ نہ کہے کہ نبی کا حکم عام ہے خریدو فروخت کے بارے میں، نہ کہ نبی ﷺ نے ایک صاع کو درہم سے خریدنے کا حکم دیا ہے، کیوں کہ ایک صاع کی جو قیمت ہوتی ہے اس قیمت کی کرنسی نبی کے زمانے ميں موجود ہی نہیں تھی۔
✺ محترم قارئین آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ حدیث میں معاملہ ایک صاع کے بدلے دو صاع خریدنے کا ہے، اور نبیﷺ ایک صاع کو درہم سے خریدنے کیلئے کہہ رہے ہیں، اگر ایک صاع کی قیمت کی کوئی کرنسی موجود ہی نہیں تھی تو نعوذ باللہ نبی ﷺ کا یہ کلام لغو ٹھہرے گا۔
⇦ نبی ﷺ نے ایسی خریدو فروخت سے اس لئے منع کیا کیوں کہ کھجور کی بیع یا تبادلہ کھجور سے ہوتی ہو تو وہ برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہئے، زیادہ لینے کی صورت میں، یا ادھار کی صورت میں ربا ہو جائے گا۔
☚‏ اگر ایک صاع کرنسی کا بدل تھی جیسا کہ نقدی فطرہ کے قائلین کہتے ہیں، اور دوسری طرف دو صاع غلہ تھا تو اس کی خرید وفروخت بالکل جائز ہوتی، لیکن نبی ﷺ نے ایک صاع غلہ کو کرنسی نہیں شمار کیا جیسا کہ نقدی فطرہ کے قائلین کرتے ہیں، بلکہ ایک صاع طعام کو صرف طعام ہی شمار کیا جیسا کہ حدیث سے واضح ہے

✺ نقدی فطرہ کے قائلین حدیث مصراۃ سے فطرہ میں رقم نکالنے پر استدلال کیا ہے، اور مسئلہ مصراۃ میں احناف کی پرزور تائید فرمائی ہے۔
☚‏ حالانکہ حنفیہ نے قیاس کی بنیاد پر اس حدیث کو رد کرتے ہوئے قیمت ادا کرنے کی بات کہی ہے، جبکہ جمہور نے اسے امر تعبدی کہا ہے اور صرف غلہ ہی ادا کرنے کیلئے کہا۔
☚‏ جب ایک صاع کھجور نہ دودھ کا مثل ہے اور نہ ہی اس کی قیمت ہے اس کے باوجود نبی ﷺ نے کھجور دینے کا حکم دیا اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ امر تعبدی۔
☚‏ ایسی فقہ کو اہل حدیث مانتے ہی نہیں جس سے کلامِ رسولِ عربی ﷺ کی مخالفت ہوتی ہو، لیکن بعض اہل حدیث آج کل حدیث کے مقابلے قیاس کو ترجیح دینے میں پیچھے نہیں ہیں، ہو سکتا ہے میدان میں کوئی نئی تحقیق آئی ہو جس کی روشنی میں بعض اہل حدیث کے یہاں تابعی کے قول کو اور قیاس کو نبی کے قول وعمل اور جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے تعامل پر ترجیح ملتی ہو. واللہ اعلم

◈ نقدی فطرہ کے قائلین کہتے ہیں کہ: “نقدی صدقہ فطر ادا کرنا غرباء او مساکین کے لیے زیادہ مفید ہے”.

جائزہ:
☚‏ حدیث رسول کے مقابلے میں یہ قیاس ہے، کیوں کہ دین اسلام اور اس کے تمام احکام ہر زمان و مکان کیلئے موزوں اور مناسب ہے۔
☚‏ اور جس ذات گرامی نے غلہ کی صورت میں فطرہ ادا کر نے کا حکم دیا وہ ہم سے زیادہ فقراء کے فائدہ ونقصان کا علم رکھتے تھے۔
☚‏ اور فقراء ومساکین کا وجود ہر زمانے میں رہا ہے اور رہےگا، اس کی دلیل فطرہ کی ادائیگی والی حدیث ہے، کیوں فطرہ صرف مساکین وفقراء کو ہی دیا جا سکتا ہے، ان تمام امور کے باوجود شارع نے جو فرض کیا وہ غلہ ہی ہے۔
☚‏ تو پھر ہما شما کا شارع کے مقابلے میں غریبوں کیلئے زیادہ بہتر اور فائدہ کی سوچنے کی جسارت کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

✺ آخری بات اگر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی حدیث کا عام فہم ترجمہ کرکے عوام کو بتایا جائے تو عوام یہی سمجھےگی کہ فطرہ ایک صاع غلہ نکالنا ہے۔
☜ لیکن اگر آپ اس حدیث کا ترجمہ کرکے عوام کو سنائیں اور پھر اس کے بعد کہیں کہ اس حدیث کا صحیح ترجمہ تو یہی ہے لیکن حدیث میں نبی ﷺ نے جو غلہ دینے کا ذکر کیا ہے میرے خیال سے اس غلہ سے زیادہ فائدہ مند غریبوں کیلئے روپے پیسے ہیں وہی ادا کیا جائے تو میرے نزدیک زیادہ بہتر ہے۔
☚‏ یہ نبی ﷺ کی موافقت ہوئی یا مخالفت؟؟
☚‏ اگر موافقت ہوئی تو پھر احناف اپنے امام کے قول کے مقابلے میں احادیث کو رد کرنے کیلئے جن تعلیلات کا سہارا لیتے ہیں ان کے اس عمل کو انکار حدیث کے چور دروازے اختیار کرنے سے تعبیر نہیں کرسکتے، کیوں کہ مذکورہ دونوں صورتوں میں نص حدیث سے دوری کو ہی ترجیح دی جا رہی ہے.

ہم کریں تو سلفی، اہل حق، اہل حدیث اور اہل سنت کہلائیں، اور یہی کام بے چارے احناف کریں تو ان پر ضلالت وگمراہی، اور بدعتی ہونے کا فتویٰ داغا جائے.

مالکم کیف تحکمون؟

آپ کے تبصرے

3000