کچھ لوگوں نے کہا کہ مولانا آپ بھی عجیب ہیں، مانا کہ فطرہ بطور غلہ ہی نکالنا سنت ہے، لیکن کیا اگر کوئی فطرہ کی رقم ادا کردے تو اس کا فطرہ نہیں ہوگا؟ بعض علماء نے تو اس کو بھی جائز قرار دیا ہے، پھر کیوں بحث ومباحثہ میں وقت ضائع کر رہے ہیں، رہنے دیجئے جو چاہے غلہ دے اور جو چاہے رقم ادا کر دے۔
میں کہتا ہوں کہ اگر میں عجیب ہوں تو اہل حدیث جماعت کے پرانے اور نئے تمام علماء عجیب تھے اور ہیں، کیوں کہ:
جب سینے پر نیت باندھنا سنت ہے اور جو نیچے نیت باندھے اس کی بھی نماز ہو ہی جائے گی تو کیوں علماء اہل حدیث نے اس تعلق سے اپنے قیمتی اوقات صرف کئے اور کر رہے ہیں؟
جب بنا رفع الیدین کے نماز ہو ہی جاتی ہے تو پھر کیوں پوری دیوبندیت کو سنت کا مخالف اور رسول کا مخالف گردانا جاتا ہے؟
جب بنا آمین بولے نماز قبول ہوہی جاتی ہے تو پھر کیوں سنت کی مخالفت کے نام پر دلوں میں دیواریں قائم ہوتی ہیں؟
جب صف میں پاؤں سے پاؤں ملا ئے بنا نماز ہو ہی جاتی ہے تو پھر نہ ملانے والوں کے خلاف اتنی ناراضگی کیوں؟
محترم قارئین بعض لوگوں کے مطابق جس طرح فطرہ رقم میں ادا کیا جائے تو فطرہ ادا ہوجائے گا اسی طرح ناف کی نیچے نیت باندھنے والے کی نماز، رفع الیدین نہ کرنےوالے کی نماز، آمین نہ بولنے والے کی نماز پاؤں میں پاؤں نہ ملا ے والوں کی نماز بھی ادا ہو جائے گی ۔
تو پھر ان مسائل پر اہل حدیثوں کا گفتگو کرنا بالکل ہی صحیح نہیں۔
پھر مقلد اور اہل حدیث میں کیا فرق رہا؟؟؟
ایک طرف مقلد فقہ اور امام کے اقوال کے نام سے سنت پر طرح طرح کے اعتراضات کی بوچھار کرتا ہے، اور پھر اس کی تاویل کرکے امام کے قول کو راجح قرار دیتا ہے، تو دوسری طرف لوگ فقیر کی مصلحت کے نام پر اور تحقیق کے نام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی تاویل کرکے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق فطرہ نقدی نکالنا راجح قرار دیتے ہیں۔
اگر کوئی حنفی ایسا کرتا تو بہت سے لوگوں کے نزدیک وہ آج اسلام سے خارج ہوجاتا، اور بعض کے نزدیک سنت کا منکر، اور بعض کے نزدیک نبی کا مخالف، لیکن جب یہی کام کوئی اہل حدیث انجام دے تو اسے علمی تحقیق کا نام دیا جاتا ہے۔
ہے نا بڑے تعجب والی بات؟
یہ جان لیں کہ فطرہ کو رقم میں ادا کرنے کی بات ائمہ اربعہ میں سے صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کی ہے، بقیہ امام مالک، شافعی، احمد رحمہم اللہ نے غلہ میں نکالنے کو واجب قرار دیا ہے۔
اور آپ کو پتا ہوگا کہ زکوۃ کو اللہ رب العالمین نے غریبوں اور محتاجوں کے فائدے کیلئے ہی جائز قرار دیا ہے، اور زکوۃ میں غلہ کے ساتھ ساتھ مویشی اور درہم و دینار نکالنے کا بھی حکم دیا ہے۔
اور فطرہ بھی اللہ رب العالمین نے غریبوں اور محتاجوں کے فائدے کیلئے مقرر کیا ہے، لیکن اس میں صرف غلہ نکالنے کی ہی صراحت ملتی ہے، نقدی نکالنے کا جواز کسی ضعیف حدیث میں بھی نہیں ملتا چہ جائیکہ کہ صحیح حدیث کا مطالبہ کیا جائے۔
دونوں سال میں ایک ہی مرتبہ نکالا جاتا ہے، غریبوں کی پیسے والی ضرورت پوری کرنے کیلئے شریعت نے پورا پورا خیال رکھا ہے، اور اس کیلئے زکوۃ مقرر کیا ہے، جبکہ فطرہ غریبوں کے کھانے کیلئے مقرر کیا ہے اور اس کیلئے بہت سے شروط وضوابط رکھے ہیں(جو میں نے اپنے پچھلے مضامین میں ذکر کئےہیں) .
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ غریبوں کی مصلحت نقدی دینے میں ہے تو ان سے سوال ہے کہ عید کے دن غریبوں کو جن بنیادی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ان میں نیا کپڑا، جوتا، اور خوشبو وغیرہ ہیں، اب فقیر کی مصلحت اس میں بھی ہے کہ وہ نئے کپڑے اور نئے جوتوں میں لوگوں کے ساتھ مل کر عید منا سکے، تو کیا فقیر کی مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے جوتا فطرے میں نکالا جا سکتا ہے؟
اسی طرح بعض لوگوں کی دکان دوا کی ہے بعض مریض فقیر کی مصلحت علاج کرانے میں ہے تو کیا فطرہ دوا کے طور پر نکالا جائے؟
اسی طرح بعض لوگوں کی چشمے کی دکان ہے، بعض فقیر ایسے ہیں جنہیں نظر کی کمزوری کے باعث چشمے کی شدید ضرورت ہے، تو کیا فطرے میں چشمہ نکالا جا سکتا ہے؟؟
اگر شریعت کی مصلحت کو چھوڑ کر اپنے حساب سے مصلحت بنانا شروع کردیں تو اس قسم کے بہت سے سوالات پیدا کئے جا سکتے ہیں۔
بعض لوگ ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ غریبوں کی مصلحت اور ضرورت!!
کیا غریبوں کی مصلحت اور ضرورت پوری کرنے کیلئے شریعت نے صرف اور صرف فطرہ ہی مقرر کیا ہے؟؟
یا اور بھی دوسرے راستے ہیں جن کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکتا ہے؟
کیا زکاۃ کا مال ان کی ضرورت پوری کرنے کیلئے صرف نہی کیا جاتا ہے؟۔
نیز جب غریبوں کی مصلحت و ضرورت کا ہی خیال رکھنا ہے تو ایک اور سوال ہے کہ ایک غریب آدمی ہے جس کی بیٹی کی شادی 20 شوال کو ہے، اور وہ غریب تعاون کی اپیل کرتا ہے، اب یہاں پر غریب کی مصلحت اسی میں ہے کہ اس کی بیٹی کی شادی کروا دی جائے، اب وہ غریب کہتا ہے کہ شادی کے جو لوازمات ہیں وہ آپ لوگ ہی پورا کردیں، اتنا زیادہ پیسہ ہمارے گھر میں رہےگا تو چوری چکاری کا ڈر ہے، اب لوگ پورے رمضان پیسہ جمع کرکے اپنے پاس رکھتے ہیں اور شادی کا وقت جب قریب آتا ہے تو تقریبا 15 شوال کو شادی کی لوازمات سے متعلق ضروری اشیاء خرید کر غریب کو دے دیتے ہیں، تو کیا فطرے کی رقم سے ایک غریب کی عید کے 15 دن بعد مدد کرنا جائز ہے؟ یاد رہے کہ غریب کی مصلحت اسی میں ہے۔
ایک فقیر 28 شعبان کو بہت سخت بیمار پڑ جاتا ہے اسے پیسوں کی بہت ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ علاج کرواسکے، تو کیا رمضان کا فطرہ شعبان میں نکالا جا سکتا ہے؟ یاد رہے کہ یہاں پر غریب کی مصلحت اسی میں ہے، نیز نقدی فطرہ نکالنے کے قائلین زکوۃ کی عام دلیلوں سے بھی استدلال کرتے ہیں، اور زکوہ وقت سے قبل نکالنا جائز ہے تو کیا فطرہ بھی شعبان یا رجب میں نکالنا جائز ہوگا۔
خلاصہ کلام یہ کہ نبی کی گفتار و کردار پر مٹنے والے اہل حدیثوں کو صرف نبی کی بنائی ہوئی مصلحت ہی پیاری ہے، نبی کی فقہ ہی پیاری ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غریبوں کی مصلحت کا خیال رکھنے والا چشم فلک نے آج تک نہیں دیکھا، اس ہمدرد اور مہربان نبی نے جب غریبوں کیلئے فطرہ صرف غلہ ہی میں مقرر کیا تو پھر رقم نکالنے پر اصرار کرنے کو نبی کی مخالفت سے تعبیر نہ کریں تو اور کیا کریں۔
ماشاءاللہ، لاجواب