زکات الفطر میں نقود نکالنے کے متعلق چند شبہات اور ان کا ازالہ

مامون رشید ہارون رشید رمضانیات

نقود کی ادائیگی جائز قرار دینے والے اپنی کتابوں اور تحریروں میں کچھ امور کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں مگر وہ دلائل انتہائی کمزوری اور بطلان کے سبب شبہات کے دائرے میں آتے ہیں۔ وہ شبہات اور ان کے جوابات درج ذیل ہیں:

پہلا شبہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ اجتہادی ہے لہذا اس سلسلے میں اتنا تشدد نہ اختیار کیا جائے کیونکہ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے:“إذا حكم الحاكم فاجتهد فأصاب فله أجران وإذا اجتهد فأخطأ فله أجر”

یعنی اگر مجتہد اپنے اجتہاد میں صواب تک پہنچ جائے تو اسے دو اجر ملے گا اور اگر غلطی کر جائے تب بھی اسے ایک اجر ملے گا۔
لیکن جواب یہ ہے کہ اس مسئلے کو اجتہادی گرداننا صحیح نہیں ہے کیونکہ ہر وہ مسئلہ جس میں ایک سے زائد اقوال ہوں وہ اجتہادی نہیں بن جاتا بلکہ جس مسئلے میں کوئی صریح اور صحیح دلیل نہ ہو وہ مسئلہ “اجتہادی” ہوتا ہے کیونکہ اصول ہے“لا اجتهاد مع النص”

یعنی نص کی موجودگی میں نص کے خلاف اجتہاد روا نہیں ہے۔ چنانچہ جب نص کی موجودگی میں اجتہاد روا نہیں ہے تو نص کی موجودگی میں مسئلہ بھی اجتہادی نہیں ہے۔ اجتہاد کی ضرورت تو تب پڑتی ہے جب نص نہ ہو مگر جب نص موجود ہو تو اجتہاد کی ضرورت نص کے مفہوم اور اس کی دلالت کو سمجھنے میں پڑتی ہے۔ حالانکہ اس مسئلے میں تو کئی سارے صریح صحیح اور متفق علیہ دلائل موجود ہیں۔

دوسرا شبہ: کچھ لوگ کہتے ہیں: اس مسئلے میں امام احمد کا دو قول ہے۔ ایک ممانعت والا قول دوسرا اجازت والا قول۔
درحقیقت یہ شبہ بھی تین وجوہ سے باطل ہے:

اول: امام احمد سے کہا گیا“قوم يقولون، عمر بن عبد العزيز كان يأخذ بالقيمة”
یعنی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز قیمت لیا کرتے تھے۔ تو آپ نے کہا “يدعون قول رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ويقولون قال فلان”
یہ اللہ کے رسول کی بات کو چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں نے یہ کہا ہے۔ پھر آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث: فرض رسول الله زكاة الفطر سے استدلال کیا۔
ایک مقام پر فرمایا: “خلاف سنة رسول الله”قیمت ادا کرنا سنت نبوی کے خلاف ہے۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا“قوم يردون السنة”
یعنی یہ لوگ سنت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ ( المغني لابن قدامة:3/87)
کیا اس سے سخت موقف اور کوئی ہو سکتا ہے اور کیا اس کے بعد بھی کوئی شخص خود دوسرا مخالف قول اختیار کر سکتا ہے۔ واللہ ہذا عجیب

دوم: جہاں دو قول یا تین قول کی بات ہے تو وہ عام زکات یا زکات التجارة کے سلسلے میں ہے نہ کہ زکات الفطر کے سلسلے میں جیسا کہ امام ابن تیمیہ نے نقل کیا ہے اور یہ اقوال بھی خود امام احمد کے اقوال نہیں بلکہ مذہب امام احمد کی آرا ہیں۔ (ملاحظہ فرمائیں مجموع الفتاوى لابن تيمية: 25/ 79)

سوم: جہاں امام ابن تیمیہ نے تین اقوال (1) جائز ہے (2) جائز نہیں ہے (3) مصلحت کے تحت جائز ہے ذکر کیا ہے وہاں قیمت کی بات ہے اور قیمت اور نقود میں فرق ہے جس کی تفصیل آگے آئے گی۔

تیسرا شبہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ زکات الفطر میں قیمت کی ادائیگی کا جواز شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا بھی موقف ہے۔
یہ شبہ بھی بے بنیاد ہے:
اولا: کیونکہ شیخ الاسلام نے زکات الفطر کے تعلق سے بات کرتے ہوئے فرمایا ہے:“أوجبها الله طعاما كما أوجب الكفارة طعاما”۔ (مجموع الفتاوى لابن تيمية: 25/73)

یعنی اللہ نے زکات الفطر کھانوں سے فرض کیا ہے جس طرح کہ کفارہ کھانے سے فرض کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا موقف نقود کی ادائیگی کو ممنوع قرار دینا ہے۔

ثانیاً: جس عبارت کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی زکات الفطر میں نقود دینے کے قائل ہیں وہ درج ذیل ہے:
سئل شيخ الإسلام:
عن تاجر هل يجوز أن يخرج من زكاته الواجبة عليه صنفا يحتاج إليه؟

آپ سے مذکورہ بالا سوال کیا گیا تو آپ نے درج ذیل جواب دیا: “الحمد لله، إذا أعطاه دراهم أجزأ بلا ريب۔ وأما إذا أعطاه القيمة ففيه نزاع: هل يجوز مطلقا؟ أو لا يجوز مطلقا؟ أو يجوز في بعض الصور للحاجة أو المصلحة الراجحة؟ على ثلاثة أقوال – في مذهب أحمد وغيره وهذا القول أعدل الأقوال. فإن كان آخذ الزكاة يريد أن يشتري بها كسوة فاشترى رب المال له بها كسوة وأعطاه فقد أحسن إليه. وأما إذا قوم هو الثياب التي عنده وأعطاها فقد يقومها بأكثر من السعر وقد يأخذ الثياب من لا يحتاج إليها بل يبيعها فيغرم أجرة المنادي وربما خسرت فيكون في ذلك ضرر على الفقراء. والأصناف التي يتجر فيها يجوز أن يخرج عنها جميعا دراهم بالقيمة فإن لم يكن عنده دراهم فأعطى ثمنها بالقيمة فالأظهر أنه يجوز؛ لأنه واسى الفقراء فأعطاهم من جنس ماله. (مجموع الفتاوى لابن تيمية: 79/25-80)
اس سوال اور جواب کے سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے جو قیمت کو جائز قرار دیا ہے وہ نہ تو زکات الامول کے متعلق ہے اور نہ ہی زکات الفطر کے متعلق بلکہ وہ تو زکات عروض التجارة سے متعلق ہے، اس کے کئی دلائل ہیں:
اول: سوال ایک تاجر کی جانب سے ہے تو ظاہر ہے وہ اموال تجارت ہی کی زکات کے سلسلے میں دریافت کر رہا ہے۔
دوم: آپ نے کہا کہ اگر درہم دے دے تو بلا شبہ کفایت کرجائے گا اس کے بعد آپ نے قیمت میں اختلاف کا ذکر کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ درہم یعنی نقود بالاتفاق بلا ریب کفایت کر جائے گا اور یہ اتفاق صرف عروض التجارة کے سلسلے میں ہے کہ اس میں نقود کفایت کر جائے گا عام اموال یا زکات الفطر میں تو اختلاف ہی اختلاف ہے۔

سوم: آپ کا قول
“والأصناف التي يتجر فيها يجوز أن يخرج عنها جميعا دراهم بالقيمة فإن لم يكن عنده دراهم فأعطى ثمنها بالقيمة فالأظهر أنه يجوز”

جن اصناف میں وہ تجارت کر رہا ہے ان تمام کی جانب سے بطور قیمت دراہم دینا جائز ہے۔ اس سے تو واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ سوال اور جواب زکات التجارة کے سلسلے میں ہے لہذا اس چیز کو سیاق و سباق سے کاٹ کر زکات الفطر کے ساتھ جوڑنا عظیم خیانت اور صریح جھوٹ ہے۔

ثالثا: شیخ الاسلام سے جب عام زکات مفروضہ کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ نے درج ذیل جواب دیا: والأظهر في هذا: أن إخراج القيمة لغير حاجة ولا مصلحة راجحة ممنوع”
زکات اور کفارہ کے سلسلے میں ظاہر یہ ہے کہ کسی ضرورت یا مصلحت راجحہ کے علاوہ عام صورتوں میں قیمت نکالنا ممنوع ہے۔

اور شیخ الاسلام کی سابقہ تفصیل سے واضح ہوچکا ہے کہ قیمت اور نقود میں فرق ہے قیمت کسی بھی شئی کے عوض اور بدل کو کہتے ہیں خواہ وہ کپڑا ہو برتن ہو یا کوئی اور سامان جبکہ نقود، دراہم و دنانیر وغیرہ کرنسیوں کو کہتے ہیں اور آپ نے ایک تو قیمت کی بات کہی ہے۔ دوسرا یہ مسئلہ زکات الفطر کے متعلق نہیں ہے بلکہ زکات مفروضہ کے متعلق ہے تیسرا آپ نے بھی اصلا ممانعت کو راجح قرار دیا ہے صرف ضرورت اور مصلحت کے وقت جواز کی بات کہی ہے۔
لہذا ان تمام تفصیلات سے صرف نظر کرتے ہوئے اسے صرف زکات الفطر کے ساتھ چسپاں کرنا امانت علمیہ کے خلاف ہے۔

رابعا: اگر ہم مان بھی لیں کہ نہیں واقعتا آپ نے جواز کی بات کہی ہے تو آپ تو معصوم یا واجب الاتباع ہیں نہیں کہ نص صریح کے مقابلے میں آپ کے قول سے استدلال کیا جائے۔

چوتھا شبہ: بعض لوگوں نے اسے امام بخاری کی طرف منسوب کیا ہے۔
یہ شبہ بھی کئی وجوہ سے باطل ہے:
اولا: آپ کی تبویب اور تریب ابواب سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی بات عام زکات مفروضہ اور چوپایوں میں زکات کے سلسلے میں ہے نہ کہ زکات الفطر کے سلسلے میں۔ اس کے دلائل:
اول: آپ نے پہلے عام زکات مفروضہ کا ذکر کیا، بہائم میں زکات کا ذکر کیا اور پھر اس ضمن میں اس باب کا ذکر کیا اس کے بعد چھتیس ابواب کے بعد باب فرض صدقة الفطر كا ذکر کیا اور اس کے بعد زکات الفطر کن اموال سے دیا جائے اس کے بارے میں احادیث کا ذکر کیا۔ اور خود اسی باب میں چوپایوں میں زکات کے سلسلے میں ایک مرفوع حدیث کا ذکر کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس باب کا زکات الفطر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوم: کبار شراح صحیح بخاری جن کی شروحات پر ہم مطلع ہو سکے جیسے قسطلانی، کرمانی، ابن بطال، ابن رجب اور ابن حجر اور عینی حنفی وغیرہم کسی نے بھی یہ ذکر نہیں کیا کہ اس سے امام بخاری کی مراد زکات الفطر ہے۔

سوم: آپ نے اس باب کے چھتیس ابواب بعد زکات الفطر کے سلسلے میں تبویب کی جن میں“باب: صدقة الفطر صاع من شعير” باب: صدقة الفطر صاع من طعام، باب صدقة الفطر صاعا من تمر، باب صاع من زبيب” وغیرہ شامل ہیں مگر کہیں بھی زکات الفطر میں نقود کی ادائیگی کی طرف ادنی سا اشارہ بھی نہیں کیا۔

چہارم: عام زکات کے سلسلے میں بھی آپ نے جو تبویب کی ہے اس کا بھی نقود سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ آپ کی بات عرض کے متعلق ہے جبکہ عرض نقود کے علاوہ دوسرے اشیا کو کہتے ہیں۔
اصمعی کہتے ہیں: “العرض: ما كان من مال غير نقد”
اسی طرح ابن فارس کا بھی کہنا ہے۔ (عمدة القاري :9/4)
اسی طرح امام اللغۃ ابن منظور فرماتے ہیں: والعرض خلاف النقد من المال” عرض نقد کے علاوہ اموال کو کہتے ہیں۔
اسی طرح جوہری کا کہنا ہے “والعرض المتاع، وكل شيئ فهو متاع، سوى الدراهم والدنانير فإنهما عين” عرض سامان کو کہتے ہیں چنانچہ سوائے دراہم ودنانیر کے ہر چیز عرض ہے۔ دراہم ودنانیر عین ہے۔ (لسان العرب مادة عرض)

لہذا ان تمام باتوں کے باوجود بھی اگر کوئی کہے کہ امام بخاری نے نقود ادا کرنے کو جائز قرار دیا ہے وہ بھی زکات الفطر میں تو اس سے بڑی خیانت اور دروغ کیا ہو سکتی ہے؟

پانچواں شبہ:
ابو اسحاق السبیعی کا اثر:
“حدثنا (حماد بن) أبو أسامة، عن زهير(بن معاوية) قال: سمعت أبا إسحاق، يقول: أدركتهم وهم يعطون في صدقة رمضان الدراهم بقيمة الطعام”

ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے انھیں پایا اس حال میں کہ وہ لوگ زکات الفطر میں طعام کے بدلے دراہم ادا کرتے تھے۔

یہ شبہ بھی باطل ہے:
اول: یہ اثر ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں جو زہیر بن معاویہ ہیں انھوں نے ابو اسحاق السبیعی سے ان کے اختلاط (مختلط ہو جانے) کے بعد سنا ہے جیسا کہ امام ابو زرعہ رازي نے فرمایا ہے “ثقة إلا أنه سمع من أبى إسحاق بعد الاختلاط”
اسی طرح امام ابو حاتم رازی کا بھی بیان ہے “وزهير متقن صاحب سنة، غير أنه تأخر سماعه من أبى إسحاق” (الجرح والتعديل لابن ابي حاتم: 3/549)
اسی طرح کا قول امام احمد سے بھی مروی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث کی علت ہے لہذا جب تک اس کی متابعت نہ ملے قابل حجت نہیں ہوگی اور اس کی کوئی متابعت یا شاہد بھی نہیں ہے فالحديث باق على ضعفه۔

ثانيا: اگر اس اثر کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا یہ عمر بن عبدالعزیز کے زمانے کی بات کر رہے ہیں کیونکہ سبیعی کی وفات عمر بن عبد العزیز کے ستائس سال بعد ہوئی ہے لہذا غالب گمان یہی ہے کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کی بات نقل کر رہے ہیں۔

چھٹا شبہ: عمر بن عبدالعزیز اور حسن بصری کا اثر
اب لے دے کے ان کے پاس یہی ایک چیز بچی ہے مگر اس کے بارے میں بھی علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ شاید: عمر بن عبدالعزیز نے عمال کو حکم دیا تھا کہ وہ زکات الفطر میں دراہم اصول کریں پھر ان سے غلہ جات خرید لیں اور پھر فقرا کو طعام دیں تا کہ عمال حضرات کھانوں کو ڈھو ڈھو کر جمع کرنے کی تکلیف سے بچ جائیں اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ یہ نائب بنانا ہوا کہ کوئی شخص کسی کو کہہ دے کہ میں تمھیں روپیہ دے دیتا ہوں تم ان روپیوں سے کھانا خرید کر فقرا میں تقسیم کر دینا۔ اور یہی توجیہ حسن بصری کے فتوی کے بارے میں بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے عمال کو دراہم دینے کی اجازت دی ہے۔ اگر یہ توجیہ کلی طور پر صحیح نہ ہو تب بھی اس سے ایک احتمال پیدا ہوتا ہے اور مخالفین کے پاس اس کا کوئی جواب بھی نہیں ہے لہذا اصول “إذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال”کے تحت مخالفین کے لیے اس سے احتجاج درست نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر واقعی انھوں نے زکات الفطر میں مساکین کو دراہم دیا ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم قول وفعل رسول اور عمل صحابہ کو چھوڑ کر ایک دو تابعی کی بات لے کر اڑنے لگیں۔ وہ بھی ہماری طرح انسان تھے ان سے جس طرح دیگر مسائل میں اجتہادی غلطیاں ہوئیں اس مسئلے میں بھی ہوئی ہیں۔

جیسا کہ عمر بن عبدالعزیز جمعہ کے لیے پچاس لوگوں کا ہونا ضروری قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح نماز جمعہ میں قنوت نازلہ پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح شہد میں زکات کے قائل ہیں اور ان سارے مسائل میں آپ رحمہ اللہ سے غلطی ہوئی ہے۔
اسی طرح حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی بعض مسائل میں غلطیاں ہوئیں جیسا کہ آپ سونے کا نصاب چالیس مثقال 170 گرام یعنی صحیح نصاب کا دگنا بتاتے ہیں۔
اسی طرح آپ محرم پر غسل واجب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اپنے سے قئی آ جانے پر آپ رحمہ اللہ قضا کے قائل ہیں وغیرہ وغیرہ۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اقوال الرجال کے پیچھے نہ بھاگیں اور جہاں کہیں بھی ہوں اتباع سنت کا دامن ہم سے چھوٹنے نہ پائے ساتھ ہی ساتھ جب بھی کوئی قول یا عمل کسی کی طرف منسوب کرنے سے پہلے اچھی طرح اس کی تحقیقات کرلیں ورنہ فتصبحوا على ما فعلتم نادمين کا مصداق بنیں گے۔
اخیر میں عرض ہے کہ اس مسئلے میں ہمارے مخالفین تین قسم کے لوگ ہیں:
اول: مجتہدین جو گنے چنے ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں مگر ان کے قول کی تغلیط بھی کرتے ہیں۔
دوم: عوام جو اپنے مفتیوں کی باتوں پر عمل کرتے ہیں ہم ان کو ملامت نہیں کرتے البتہ ان کے سامنے دلائل واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سوم: متعالمین یہ شبہات انہی کی پیداوار ہیں اور ہمارے ردود کا مرجع بھی یہی لوگ ہیں۔ اللہ امت کو ایسوں کے شرور وفتن سے محفوظ رکھے۔ آمین
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح علم سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
والله أعلم بالصواب

آپ کے تبصرے

3000