انتخاب و ترجمانی: عبدالوحید سلفی
(الحاد کا فتنہ عصرِ حاضر کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ ماضی سے اس کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ ہر زمانے میں اس برائی نے اپنا سر اٹھایا ہے اور معاشرے میں اسلامی اقدار پر قدغن لگانے کی بھر پور کوشش بھی کی ہے۔ بہتیرے اس کے جعل میں پھنسے اور ارتداد و کفر ان کا مقدر بن گیا، اور بہتوں کو اس سے نجات و فرار کی بھی توفیق ملی ہے۔ عصرِ حاضر میں جس طرح اس فتنے اور اس کے حاملین کی پذیرائی، ہمت افزائی اور پشت پناہی کی جارہی ہے اس سے یہی مترشح ہے کہ اب باقاعدہ یہ فتنہ منظم شکل اختیار کرچکا ہے اور نئی نسل کو اپنے چنگل میں پھانس رہا ہے۔ اب تو حکومتی پیمانے پر اسے شخصی آزادی کے نام پر قبول کیا جارہا ہے جیسا کہ ہم جنس پرستی کو کئی ممالک میں قانونی درجہ بھی دیا جا چکا ہے۔ فطرت سے ٹکراؤ کی ذہنیت پورے آن بان اور شان کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے، الحاد، اور ملحدین کو کھلے عام اظہار رائے کی آزادی اور مذاہب خصوصا مذہب اسلام کو شب و روز جارحانہ اور ظالمانہ نقد و جرح کا مشق ستم بنایا جارہا ہے۔ اس سلسلے کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ آج مسلم نوجوان اس فتنے کا شکار ہورہے ہیں اور یورپ و امریکا یا کافر ممالک میں تعلیمی یا دوسری غرض سے سفر کرنے والے مسلمانوں کو بطور خاص ٹارگیٹ کیا جارہا ہے تاکہ دینِ اسلام کے سلسلے میں انہیں مشکوک کردیں اور الحاد کی ڈگر پر انہیں لاکھڑا کریں)-
گزشتہ چند سالوں سے عالم اسلام جن بڑے مصائب و مشکلات سے دوچار ہے ان میں سے ایک بڑا خطرہ الحاد اور لادینیت کی طرف بڑھتا رجحان ہے۔ دشمنان اسلام نے اسے مسلم ممالک میں عام کرنے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ اور اس کی تنفیذ کے لئے تمام ممکنہ وسائل کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔
الحاد کی خطرناکی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ انسان جب اس مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ کا انکار، اہل ایمان سے اعراض، رشد و ہدایت سے دوری، بعث بعد الموت کی تکذیب اور جنت و جہنم کا انکاری ہوجاتا ہے، اور اسی پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر سب و شتم اور دین اسلام کے رخِ زیبا کو مسخ کرنے کاہر ممکن وسیلہ اپناتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(إِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُونَ فِیْ آیَاتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْْنَا)(سورۃ فصلت: ۴۰)
“بے شک جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی کرتے ہیں وہ (کچھ) ہم سے مخفی نہیں”
اور ایک دوسری جگہ فرمایا:
(وَلِلّٰہِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا وَذَرُواْ الَّذِیْنَ یُلْحِدُونَ فِیْ أَسْمَآءِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ) (سورۃ الأعراف: ۱۸۰)
“اور اللہ کے سب نام اچھے ہی اچھے ہیں تو اُس کو اُس کے ناموں سے پکارا کرو اور جو لوگ اُس کے ناموں میں کجی (اختیار) کرتے ہیں اُن کو چھوڑ دو، وہ جو کچھ کر رہے ہیں عنقریب اُس کی سزا پائیں گے”
آج الحاد و لادینیت کی نشرواشاعت کے وسائل اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی آسانی سے مہیا ہیں کہ ماضی میں ہم ان کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے جیسے ٹی وی چینلز، فلمیں، ویب سائٹ، نائٹ کلب، سوشل میڈیا اور لاتعداد کتابیں، مجلات، صحیفے اور مضامین۔ گزشتہ چند سالوں میں کچھ ایسے ملحدین کا اضافہ ہوا ہے جو سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز میں پوری جرأت اور بے خوفی کے ساتھ اپنے کفرو الحاد کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ ان کی تعلیم و تربیت مسلم ماحول میں ہوئی اور ان کے والدین اب بھی مذہب اسلام ہی کے حامل ہیں۔ شاید شیاطین کو اس طرح کے دینی ماحول سے آنے والے نوجوان زیادہ بھاتے ہیں جن کو اپنی جال میں پھانس کر انحراف و الحاد کی شاہراہ پر لا کھڑا کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔ ایسے ناعاقبت اندیشوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ ثُمَّ کَفَرُواْ ثُمَّ آمَنُواْ ثُمَّ کَفَرُواْ ثُمَّ ازْدَادُواْ کُفْراً لَّمْ یَکُنِ اللّہُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ وَلاَ لِیَہْدِیَہُمْ سَبِیْلاً) ( سورۃ النساء: ۱۳۷)
“جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہو گئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہو گئے پھر کفر میں بڑھتے گئے اُن کو اللہ نہ تو بخشے گا اور نہ سیدھا رستہ دکھائے گا”
شیطان کی ناپاک چال اور اس کے ہدف کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ صحیح مسلم کی اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے جسے عیاض المجاشعی نے روایت کیا ہے :
‘’أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: وَإِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ کُلَّھُمْ، وَإِنَّھُمْ أَتَتْھُمُ الشَّیَاطِینُ فَاجْتَالَتْھُمْ عَنْ دِینِھِمْ ‘‘(مسلم: ۲۸۶۵)
“اور بے شک میں نے اپنے بندوں کو راہِ حق پر پیدا کیا پھر شیاطین ان کے پاس آئے اور انہیں ان کے دین سے پھیر دیئے”-
آیئے ان ملحدین کے بعض اقوال و نظریات کو پڑھیں اور ان کے عقدی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا اندازہ لگائیں:
ایک ملحد کا قول: ’’ اللہ اور شیطان ایک سکے کے دو رخ ہیں ‘‘ مزید کہتا ہے کہ : ’’ خود کشی کرنا اللہ پر فتح حاصل کرنا ہے ‘‘ ( قبحہ اللہ)
ایک ملحد بدزبانی کرتے ہوئے یوں گویا ہوتا ہے : ’’ تمہارے اوپر لازم ہے کہ اللہ کے وجود کا سائنٹفک اور تصویری اثبات کرو اس کے بعد یہ ثابت ہوگا کہ وہی وہ ذات ہے جس نے ایک مکھی کو پیدا کیا جس کے ذریعہ تم دنیا کو چیلنج کرتے ہو‘‘
قرآن کے متعلق ہرزہ سرائی کرتے ہوئے ایک کہتا ہے کہ : ’’ قرآن ادب کی ایک صنف اور رنگ ہے جو عربوں کے یہاں اسلام سے پہلے اور اس کے بعد بھی معروف رہا ہے ‘‘
ایک کہتا ہے کہ : ’’ ادیان و مذاہب محض ہماری تراث اور کلچرل نشاطات سے عبارت ہیں‘‘ اور بھی بہت سارے ہفوات ہیں جن کا احصاء یہاں مشکل ہے۔ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے:
(کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاہِہِمْ إِن یَّقُولُونَ إِلَّا کَذِباً) (سورۃ الکھف: ۵)
“یہ تہمت بڑی بری ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے وہ نرا جھوٹ بک رہے ہیں‘‘
اور انہیں کے مثل بہت سے ملاحدہ گزرے ہیں ذلت و رسوائی جن کا مقدر بن گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(وَقَالَتِ الْیَہُودُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُولَۃٌ غُلَّتْ أَیْْدِیْہِمْ وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْ) (سورۃ المائدۃ: ۶۴)
“اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، انہیں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی”
اور ایک دوسری آیت میں فرمایا:
(وَمَا قَدَرُواْ اللّہَ حَقَّ قَدْرِہِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّٰہُ عَلَی بَشَرٍ مِّنْ شَیْْءٍ) (سورۃ الانعام: ۹۱)
“اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر پہچاننا واجب تھا ویسی قدر نہ پہچانی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی‘‘
اور ایک مقام پر اللہ نے فرمایا:
(وَقَالُوا أَسَاطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَی عَلَیْْہِ بُکْرَۃً وَأَصِیْلاً) (سورۃ الفرقان: ۵)
“اور یہ بھی کہا کہ یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں جو اس نے لکھ رکھے ہیں بس وہی صبح و شام اس کے سامنے پڑھے جاتے ہیں ‘‘
یہی وہ لوگ ہیں جو موجودہ زمانے کے ملحدین اور زندیقوں کے اسوہ و قدوہ ہیں جن سے یہ اپنی عقلی خباثت کو غذا فراہم کرتے ہیں، ان کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ اپنے الحاد و زندیقیت کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان اور صاحب صلاح و اصلاح سمجھتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے گُرو فرعون کے عقیدے کو نقل کرتے ہوئے کہتا ہے:
( قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِیْکُمْ إِلَّا مَا أَرَی وَمَا أَہْدِیْکُمْ إِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَاد) (سورۃ الغافر: ۲۹)
“فرعون بولا: میں تو تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود دیکھ رہا ہوں اور میں تو تمہیں بھلائی کی راہ ہی بتلارہا ہوں ‘‘۔
قابل غور پہلو یہ ہے کہ جب ایسے نوجوانوں کی نشوونما دینی ماحول میں ہوئی تو ان کے یہاں الحاد کیسے در آیا؟ اس سلسلے میں بعض دعاۃ اور مصلحین کی جانب سے کچھ سروے اور تحقیقات ہیں جن میں ان اسباب کا بطور خاص ذکر کیا گیا جو الحاد کے بھنور میں ان نوجوانوں کو پھانس لیتے ہیں ان میں سے کچھ کا ذکر یہاں کرنا چاہوں گا۔
۱: شرعی اصول و ضوابط کی پابندی کے بغیر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے کافر ممالک کا سفرِ
ایسی صورت میں طالبِ علم کئی سالوں تک اس ملک میں قیام کرتا ہے اور مغرب کی مزعومہ تہذیب و ثقافت سے دم بخود ہوجاتا ہے، کفار و ملحدین کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے، علم دین میں کمزوری اور عدم پختگی کے سبب ان کے شبھات و گمراہیوں کا شکار ہوجاتا ہے اور اس طرح خود اپنے دین اورعقیدے کے سلسلے میں شبہات میں مبتلا ہوجاتا ہے اور نتیجۃً الحاد و لادینیت کے دام فریب میں گرفتار ہوجاتا ہے، جیسا کہ ایسے بعض مسلم نوجوانوں کے ساتھ ہوچکا ہے جو اپنے ملک لوٹ کر آئے مگر اپنے دین و عقیدے سے بیزار ہوگئے اور دین مخالف سرگرمیوں میں مبتلا ہوگئے اور کچھ نے تو کافر ممالک میں ہی رہ جانا اپنے لئے فخر کا باعث سمجھا۔ اس سلسلے میں شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ ایسے ممالک کا سفر کرنا جہاں کفر و ضلالت عام ہو اور ہرطرح کی آزادی اور فتنۂ زنا، شراب نوشی اور کفر و ضلالت کی چلن عام ہو تو ایسی صورت میں (مسلم) مرد و عورت کا عظیم خطروں میں مبتلا ہونا بعید نہیں۔ کتنے ہی ایسے نیک و صالح ہیں جنہوں نے ان ممالک کا سفر کیا اور فاسق و فاجر ہو کر لوٹے، اور کتنے ہی ایسے مسلمان کافر بن کو لوٹے ‘‘ ( مجموع فتاویٰ و مقالات مطبوعہ ۲؍۱۹۵ للشیخ ابن باز)
۲: فکر و فلسفہ اورجدیدیت سے متعلق ایسی کتابوں کا مطالعہ کرنا جو الحاد و زندقہ پر مشتمل ہوتی ہیں
ایسی کتابوں کا مطالعہ جس میں مغربی تہذیب و ثقافت کی تمحید و تحسین اور مسلمانوں کے تخلف وپسماندگی اور پچھڑے پن سے جوڑ کر دکھایا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں عقلی گھوڑے دوڑاتے ہوئے اللہ کی تنقیص اور تذلیل بھی کی جاتی ہے۔ احادیث صحیحہ کا محض اس لئے انکار کردینا کہ یہ عقل کے منافی ہیں اس طرح کی زہر آلود اور مسموم کتابوں کا مطالعہ قاری کے عقیدے کو متأثر کرتا ہے اور اس طرح کی کتابوں کے کثرت مطالعہ سے اس کے یہاں ایک خاص فکر اور بسا اوقات الحادی نظریات جنم لیتے ہیں اور اس بات کا اعتراف بہت سارے لوگوں نے کیا ہے کہ مستشرقین، علمانیین اور مسلم مخالف مصنفین اور مؤلفین کی کتابوں کے مطالعے کے بعد الحادی عقیدے نے انہیں اپنے چنگل میں گرفتار کرلیا۔
۳: ایسی ویب سائٹ اور ٹی وی چینل کا مشاہدہ کرنا جسے یہود و نصاری آپریٹ کرتے ہوں جن میں عقیدۂ تثلیث اور کمیونزم اور اباحیت کی جانب برملادعوت دی جاتی ہو۔
۴: نفسانی خواہشات، شہوات اور ملذات کے پیچھے پڑجانا، شرعی تکالیف سے دوری اختیار کرنا، اور عالم اباحیت اور جنون کے دریا میں غوطہ زنی کرنا۔
اللہ کا فرمان ہے:
(إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَۃٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّیْ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ) (سورۃ یوسف: ۵۳)
“بے شک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنارحم کرے یقیناً میرا رب بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے ‘‘
۵: والدین کا اپنے بچوں کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت نہ کرنا اور انہیں کھلے ماحول میں آزاد چھوڑ دینا
ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جس نے اپنی اولاد کو نفع بخش علم نہیں سکھایا اور یوں ہی بے کار چھوڑ دیا تو اس نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا اور اکثرو بیشتر اولاد میں بگاڑ اور فساد والدین کے عدم اہتمام اور دین کے سنن و فرائض کے ترک کرنے کے سبب ہوتا ہے اس طرح وہ انہیں بچپن میں ضائع کردیتے ہیں پھر یہ بچے نہ خود فائدہ حاصل کرتے اور نہ ہی بڑھاپے میں اپنے والدین کو کوئی فائدہ پہونچاتے ہیں ‘‘ (تحفۃ المودود فی أحکام المولود:۸۰)
۶: برے دوستوں کے ساتھ رہنا اور ان کی صحبت اختیار کرنا
یہ بات معلوم ہے کہ انسان فطری طور پر اپنے جلساء اور رفقاء سے متأثر ہوتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے انہیں کے گفتار و کردار کو اپنا لیتا ہے۔ اس طرح ایک برا ساتھی اپنے دوست کو متأثر کرتا ہے، اسے دین بیزاری کی دعوت دیتا ہے اور محرمات کے عمیق غار میں اسے گرا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:
(وَدُّواْ لَوْ تَکْفُرُونَ کَمَا کَفَرُواْ فَتَکُونُونَ سَوَاءً)(سورۃ النساء: ۸۹)
“ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہوجا”
اور ایک دوسری آیت میں فرمایا:
(وَیُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُونَ الشَّہَوَاتِ أَن تَمِیْلُواْ مَیْْلاً عَظِیْماً) (سورۃ النساء: ۲۷)
“اور جو لوگ خواہشات کے پیرو ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم اس سے بہت دور ہٹ جاؤ”
۷: خاندانی انتشار
ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ان ملحدین کے ساتھ کئی بار بات چیت کے بعد میں اس نتیجے پر پہونچی کہ ایسے لوگوں کا تعلق (عموماً) ایسے گھرانوں سے ہوتا ہے جو انتشار اور بگاڑ کے شکار ہیں، ایسے لوگ اپنے آپ کو معاشرتی زندگی میں سیٹ کرنے میں ناکام رہے، اور اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت ناراض و نالہ ہیں اور اپنی کمزور شخصیت کے سبب الحاد اور لادینی فکر کے شکار ہوگئے اور بسا اوقات مغربی معاشرہ کی تمام تر خرابیوں اور آفات کے باوجود اندھی تقلید کے دھار ے میں بہہ گئے اور ملحدانہ عقلیت اور فکر ان کے اندر راسخ ہوگئی۔
(د۔ سناء المحذوب استشاریۃ الطب النفسی فی تصریح لصحیفۃ سبق الالکترونیۃ)
۸: خود پسندی اور دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا
ایک انسان دین اور عقیدے کی دفاع میں بہت ساری کتابوں کا مؤلف تھا مگر غرور و تکبر کا شکار ہوگیا یہاں تک کہ انبیاء کرام کی تحقیر و تصغیر پر اتر آیا اور کہنے لگا کہ ’’ بے شک جو علم و فضل اس کے پاس ہے اگر اسے مخلوقات پر تقسیم کردیا جائے تو یہ انہیں رسولوں کے علم سے بے نیاز کردے گی ‘‘ اور غرور و تکبر کے مرحلے میں ایک کتا ب لکھا ’’ ھذہ ھي الأغلال‘‘ یعنی یہی بیڑیاں اور زنجیریں ہیں، اس سے اس کی مراد اسلام کے مسلمات اور اصول و احکام ہیں۔ اس طرح اس نے انبیاء کرام کے سلسلے میں زبان درازی کی اور قرآن کے بعض احکام کی تکذیب بھی کردیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ایسے لوگوں کے علاج اور سدھار کے لئے درجِ ذیل اقدامات ضروری ہیں۔
۱: اس طرح کے زندیقوں اور فسادیوں کو شرعی عدالت کے حوالے کرنا اور ان پر شرعی احکام کی تنفیذ کرنا۔
۲: مسلم حکام پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس اور واجبات کی ادائیگی کی فکر ضروری ہے۔ الحاد کے سارے دروازوں کو بند کرنا اور مسلمانوں کے درمیان اس کے روک تھام کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا۔ کتابوں، مقالات، ریڈیو پروگرام، ٹی وی چینیل، ویب سائٹ اور مختلف اجتماعی پروگراموں کے ذریعہ لوگوں میں بیداری مہم چلانا اورا س کی ہولناکیوں سے انہیں آگاہ کرنا نیز اس کے سبب معاشرے اور انسانی زندگی پر مرتب ہونے والے نتائج و اثرات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا۔
۳:متعلقہ وزارتوں مثلا وزارتِ اطلاعات و نشریات، وزارۃ الشؤون الاسلامیہ، وزارت برائے اعلیٰ تعلیم، تعلیمی ادارے، حکومتی درسگاہیں اور اسلامی چینلوں کو اس بات کا پابند کرنا کہ ایسے مفید پروگراموں کی نشرواشاعت کا خصوصی اہتمام کریں جن سے دلوں میں ایمان کا نور جگمگائے، عقل و خرد کو جِلا حاصل ہو، دین سے متعلق شبہات اور الحاد کا منہ توڑ جواب ملے، لوگوں کے دلوں میں دین کی عظمت قائم ہو، جدید نسل اور طلبہ کے اندر صحیح عقیدے کی پختگی اور رسوخ پیدا ہو، اسی طرح الحاد کے بڑھتے فتنوں کے مقابلے کے لئے خطباءِ مساجد، داعیانِ دین اور علماء و مشائخ کو بھر پور تعاون
اور تقویت بہم پہونچانا تاکہ الحاد کے سیلاب کا رخ موڑا جاسکے۔ اس سلسلے میں خصوصی دروس و محاضرات کا اہتمام، علمی مجالس اور سمینار کا قیام، اور ایسی کتابوں اور مقالات و بحوث کی اشاعت و تقسیم عمل میں آئے جو بطورِ خاص ملحدانہ افکار کا قلع قمع کرنے کے لئے تیار کئے گئے ہوں۔
۴: جو لوگ الحاد کے دلدل میں پھنسے ہیں ان سے ملاقات کرنا اور حق کی طرف ان کی رہنمائی کرنا۔ سنجیدگی کے ساتھ ان کے سوالات کو سننا اور دلائل کی روشنی میں انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرنا۔ ان کے شبہات کا علمی انداز میں جواب دینا۔ ایسے خطرناک افکارو نظریات کے مقابلے کے لئے علماء اسلام سے بہتر بھلا کون ہوسکتا ہے۔ ایسے میں ان کی یہ عظیم ذمہ داری ہے کہ اللہ نے انہیں شرعی علوم میں جو مہارت اور پختگی بخشی ہے اس کی روشنی میں تمام جائز وسائل کا استعمال کرتے ہوئے الحاد کا مقابلہ کریں اور ملحدین کے فتنوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہمہ تن تیار اور کمر بستہ ہوجائیں۔ نیز غلط فہمیوں اور الحاد میں مبتلا لوگوں کے سوالات کا اطمینان بخش جواب دینے اور ان سے بالمشافہ بات چیت کا اہتمام بھی کریں۔
۵: ہر والدین اور تمام اساتذہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں، جدید نسل اور معاشرے کی عقیدۂ توحید، ایمان و توکل اور اسلامی نقوش وہدایات کی روشنی میں تربیت اور ذہن سازی کریں اور کفر و فسق اور عصیان و سرکشی کی جعل سازیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے صحیح عقیدے اور سیرتِ رسول ﷺ کی محبت اور فدائیت کے جذبے سے ان کے دلوں کو موجزن رکھیں۔ یہ بہت ہی عظیم ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ ہر ذمہ دار سے سوال کرے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
’’کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ‘‘(بخاری: ۲۵۵۸، مسلم:۱۸۲۹)
“’تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘‘
الحاد کی خطرناکی اور ہولناکی، جدید نسلوں پر اس کے اثرات اور تعلیمی و سیاحتی مقاصد سے یورپین ممالک کے اسفار کے سلسلے میں سعودی عرب کے کبار علماء کمیٹی کی طرف سے یہ قرار داد صادر ہوا جس میں یہ کہا گیا کہ : ’’ عام شہریوں اور فوجیوں میں سے کسی کو سرکاری خرچ پر اس وقت تک باہر ملکوں میں تعلیم کے لئے نہ بھیجا جائے جب تک کہ ان کی شادی اور کالج کے مرحلے تک کی تعلیم پوری نہ ہوجائے اور ان کے اندر عقیدۂ صحیحہ راسخ ہوجائے نیز منہج سلف سے اچھی طرح واقفیت اور منحرف وگمراہ مذاہب و تنظیموں کی خطرناکیوں اور دسیسہ کاریوں سے پوری طرح آگاہی حاصل ہوجائے اور اس طرح کے گمراہ فرقوں کے زیغ و ضلال کے بارے میں اس کے پاس اتنا علم ہو کہ اسے اللہ کے دین سے بہکانا بہت مشکل ہو۔ مذکورہ شروط پر جو کھرے نہیں اترتے (ایسے لوگ اگر تعلیم کے لئے پہلے بھیجے جاچکے ہیں) تو ان کو مملکہ واپس لانا اور داخلِ مملکہ ان کی تکمیلِ تعلیم کا انتظام کرنا چاہئے وہ اپنے یا اقرباء کے خرچ پر پڑھ رہے ہوں یا حکومتی وظیفے اور اسکالرشپ یا کسی موسسہ کی جانب سے بھیجے گئے ہوں ‘‘ (رقم القرار: ۸۸، تاریخ:۱۱؍۱۱؍۱۴۰۱ھ)
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دور حاضر میں حالات جس طرح دھماکہ خیز ہیں، بچوں کی تربیت کا فقدان، مغربی معاشرے میں ہر طرح کی آزادی اور حریتِ دین کے تانے بانے جس طرح بنے جارہے ہیں ان کے پیشِ نظر ہر والدین، ہر معلم ہر معاشرے اور ہر ذی شعور مسلم حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بچوں، جدید نسلوں اور اپنے شہریوں کو الحاد کی سونامی سے محفوظ رکھنے کے لئے تمام وسائلِ مشروعہ کا استعمال کریں، الحاد کے سرچشموں کو پاٹ دیں، فکری یلغار کی توڑ کے لئے شرعی ماہرین اور علماء ربانیین کی مدد لیں، اور اس فتنے کو اپنے معاشرے میں پنپنے سے پہلے ہی اس کی جڑیں کاٹ دیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اس فتنے سے محفوظ رکھے اور اس کے بھنور میں پھنسے لوگوں کو ہدایت کی توفیق دے۔ آمین۔
رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنتَ الْوَہَّابُ۔
السلام علیکم امید ہے کہ بخیر ہوں گے مضمون میں شاید صرف مسلم ممالک کو مد نظر رکھتے ہوۓ بحث کی گئ ہے ۔ قرآن وسنت سے بکثرت دلائل پیش کۓ گۓ ہیں ، جو صرف ان لوگوں کے لۓ مؤثر ہیں جو کم از کم اسلام کی بنیادی تعلیمات سے واقفیت رکھتے ہیں ، وہ ان باتوں پر غور کریں گے اور سمجھنے کی بھی کوشش کریں گے لیکن اگر خود وطن عزیز میں اس فتنے کی ترویج و اشاعت کی بات کی جاۓ تو یہاں بھی یہ کچھ کم نہیں ہے ، بلکہ دہلی ، بنگلور اور حیدرآباد… Read more »
خود اپنی اور اپنے کمزور سوسائٹی کی کھلّی اڑاتی ہوئی ایک ناپختہ تحریر!