زکات الفطر میں نقود کی ادائیگی کفایت کرے گی یا نہیں، اس سلسلے میں قدیم زمانے سے شدید اختلاف چلا آرہا ہے۔ چونکہ اس مسئلے کا تعلق اسلام کے ایک عظیم رکن زکات سے ہے اس لیے جب بھی رمضان المبارک کا آخری عشرہ آتا ہے اس بارے میں بحث وتحقیق میں مزید زور آزمائی کی جاتی ہے اور تحریروں تقریروں اور کتب و رسائل کی ایک لمبی فہرست دیکھنے کو ملتی ہے مگر پھر بھی اختلافات باقی ہیں۔
مسئلہ کی سنگینی کے پیش نظر اس سلسلے میں علما کی آراء بھی متعدد ہیں تقریبا تین اہم اقوال ہیں:
اول: صدقۃ الفطر میں نقود کی ادائیگی مطلقا ممنوع ہے
اس کے قائل مالکیہ شافعیہ حنابلہ میں سے جمہور اہل علم اور امام عطاء، ابن المنذر، ابن حزم، إمام الحرمين الجوينی، نووی، ابن تيمية، ابن قدامة، ابن حجر، ابن كثير، شوكانی اور معاصرین میں سے شيخ البانی، ابن باز، ابن عثيمين، صالح الفوزان، ربيع المدخلی، مقبل الوادعی، عبيد بن عبد الله الجابری، أبوبكر الجزائری، عبد الله بن عبد الرحيم البخاری، سليمان الرحيلی، محمد سعيد رسلان، عبد الله بن يوسف المطلق، عبد الله بن منصور الغفيلی، دكتور محمود الخطيب، شیخ محمد صالح المنجد وغیرہم حفظ اللہ منھم الأحياء ورحم منھم الاموات ہیں۔
ثانی: مطلقا جائز ہے جس کے قائل عمر بن عبدالعزیز، حسن بصری، ثوری، ابو إسحاق السبیعی، أبو حنیفہ، ابو یوسف، طحاوی، عام حنفيہ اور معاصرین میں سے یوسف قرضاوی (اخوانی اشعری) احمد صدیق غماری (متعصب حنفی) ہیں۔ یہ قول امام بخاری کی طرف بھی منسوب ہے۔
ثالث: اصلا ممنوع ہے البتہ ضرورت شدیدہ یا مصلحت راجحہ کے تحت جائز ہے اس کے قائل امام ابو ثور، إسحاق بن راهويہ اور معاصرین میں سے شیخ محمد اسماعیل المقدم اور دکتور سعد الخثلان ( عضو هيئة كبار العلماء بالسعودية) وغیرہم ہیں۔
تنبیہ: اس مسئلے میں اس قدر شدید اختلاف متاخرین کے ہاں ہی پایا جاتا ہے ورنہ عہد صحابہ میں نقود ادا کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں ملتا۔ اسی طرح تابعین کے زمانے میں بھی ایک دو کے علاوہ کسی نے بھی نقود ادا کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صدقۃ الفطر میں صرف کھانا نکالنا صحابہ کے ہاں اجماعی واتفاقی مسئلہ تھا۔
اس بات کی تائید درج ذیل علما کے اقوال سے بھی ہوتی ہے:
(١) فقہیہ عون الدین ابن ہبیرہ حنبلی نے اپنی کتاب (الافصاح عن معاني الصحاح : 1/214) کے اندر فرمایا ہے: “واتفقوا على أنه لا يجوز إخراج القيمة في زكاة الفطر، الا أبا حنيفة فإنه قال: يجوز”
یعنی تمام علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زکات الفطر میں قیمت کی ادائیگی جائز نہیں ہے سوائے ابو حنیفہ کے، انھوں نے جائز کہا ہے۔
(۲) قاضی عیاض مالکی نے اپنی کتاب (اکمال المعلم بفوائد مسلم :2/481) کے اندر
(٣) اور تاج الدین الفاکہانی مالکی نے اپنی کتاب (رياض الافهام في شرح عمدة الأحكام : 3/354) کے اندر فرمایا ہے: “ولم يجز عامة العلماء إخراج القيمة في ذلك، واجازه أبو حنيفة”
یعنی ابو حنیفہ کے علاوہ کسی نے بھی قیمت کی ادائیگی کو جائز نہیں کیا ہے۔
(۴) امام نووی شافعی نے اپنی (شرح صحيح مسلم : 7/ 60/61) کے اندر
(٥) اور امام علاو الدین بن العطار نے اپنی کتاب (الغدة في شرح العمدة في أحاديث الأحكام : 2/ 834) کے اندر فرمایا ہے: “ولم يجز عامة العلماء إخراج القيمة، واجازه أبو حنيفة”
یعنی ابو حنیفہ کے علاوہ کسی نے قیمت کی ادائیگی کو جائز نہیں کہا ہے۔
سبب اختلاف:
کئی ہیں:
اول: آیا احکام شرعیہ میں اصل تعبد (یعنی یہ احکام غیر معلل اور غیر معقول المعانی ہیں جن میں صرف تسلیم اور انقیاد کامل لازم ہے حکمتوں سے کوئی غرض نہیں ہے گرچہ اللہ رب العالمین کا ہر کام حکمتوں سے پر ہے) ہے یا تعلیل (یعنی یہ احکام معلل اور معقول المعانی والحکم ہیں جن کی حکمتیں اور علیں ہی ان کے وجوب، استحباب، حلت يا حرمت کا موجب ہے۔
امام غزالی (اشعري صوفی) نے فرمایا: واجبات کی تین قسمیں ہیں:
قسم اول: تعبد محض، جیسے رمی جمرات جس کا مقصد غیر معقول المعانی اعمال کی انجام دہی کے ذریعے بندے کی عبودیت کا اظہار ہے۔
قسم ثانی: جس کا مقصد ایک معقول حصہ ہے جیسے قرضوں کی ادائیگی، چنانچہ اس میں قرض خواہ تک اس کا حق پہنچا کر یا اس کی رضامندی کی صورت میں قرض کا بدل پہنچا کر واجب کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
قسم ثالث: جس سے سابقہ دونوں چیزیں مقصود ہیں حظ العباد اور اور تعبد کے ذریعے بندے کی آزمائش۔ چنانچہ اگر کسی ایسی بات یا کام کا حکم شریعت میں وارد ہو تو دونوں معنوں کا جمع کرنا ضروری ہے، ان دونوں میں سے دقیق ترین معنی یعنی تعبد کو فراموش کرنا مناسب نہیں ہے۔ اور زکات اسی قبیل سے ہے جس پر امام شافعی کے علاوہ کوئی اور متنبہ نہیں ہوسکے۔ چنانچہ فقیر کے حق میں حاجت برآری اور ضرورت کی تکمیل مقصود ہے جو کہ واضح اور متبادر الی الفہم ہے جبکہ زکات کی تفصیلات کی اتباع میں حق تعبد کی پابندی مقصود شریعت ہے لہذا اس اعتبار سے زکات اسلام کی بنیاد ہونے میں نماز اور حج کے مماثل ہے” انتھی! (إحياء علوم الدين (1/212) ملخصا نقلا من کتاب کنوز البر فی احکام زکات الفطر للعلامۃ الشیخ محمد ماضی الرخاوی الشافعي ص: 10-11)
چنانچہ جس نے مذکورہ تفصیلات کی رعایت نہیں کی اور محض تعلیل کو ترجیح دے دی تو اس نے زکات الفطر میں نقود کی ادائیگی کو جائز قرار دیا کیونکہ صدقۃ الفطر کی علت اور مقصد اطعام المساکین ہے جو نقود کے ذریعہ ذریعے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اور جس نے تعبد کی جانب کو راجح قرار دیا تو اس نے مطلقا نقود کی ادائیگی کو ممنوع قرار دیا کیونکہ نصوص میں صرف طعام کا ذکر ہے اور قاعدہ ہے کہ “الأصل في العبادات المنع الا ما دل عليه الدليل”
اور جس نے دونوں کی رعایت کرتے ہوئے جانب تعبد پر زیادہ زور دیا تو کہا کہ اصلا تو نقود کی ادائیگی ممنوع ہے البتہ ضرورت شدیدہ یا مصلحت راجحہ کے تحت جائز ہے کیونکہ اصول ہے کہ“الضرورات تبيح المحظورات” وإذا ضاق الأمر اتسع “لا يكلف الله نفسا الا وسعها”۔
دوم: آیا زکات الفطر صدقۃ المال ہے یا صدقۃ الابدان؟ چنانچہ جس نے کہا کہ صدقۃ الفطر صدقۃ الابدان ہے تو اس نے نقود کی ادائیگی ممنوع قرار دیا اور جس نے کہا کہ صدقۃ المال ہے تو اس نے نقود کی ادائیگی جائز قرار دیا۔(مستفاد من كلام الشيخ أبي عبد المعز محمد علي فركوس الجزائرب من موقع فضيلته الرسمي… اختلاف الفقهاء للدكتور عبد الله بن عبد المحسن التركي ص: 98)
دلائل :
اولا مانعین کے دلائل:
پہلی دلیل: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث: “فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم صدقة الفطر صاعا من شعير، أو صاعا من تمر على الصغير والكبير، والحر والمملوك”۔ (صحيح البخاري1512)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور کا صدقہ فطر، چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام سب پر فرض قرار دیا۔
طریق استدلال: اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے صدقۃ الفطر انواع طعام سے فرض کیا ہے۔ اس میں نقود اور کرنسی کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں کیا جب کہ اللہ کے رسول کے زمانے میں کرنسی موجود تھی اور اصول ہے کہ “تأخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز”
لہذا جس نے بھی طعام سے عدول کیا اور قیمت ادا کی تو اس نے اللہ کے رسول کی مخالفت کرتے ہوئے فرض کو ترک کر دیا۔
دوسری دلیل: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث: “كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام، أو صاعا من شعير، أو صاعا من تمر، أو صاعا من أقط، أو صاعا من زبيب”۔ ( صحيح البخاري: 1506، صحيح مسلم:2283 )
ترجمہ: حضرت ابو سعید فرماتے تھے کہ ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع اناج یا گیہوں یا ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (خشک انگور) نکالا کرتے تھے۔
طریق استدلال: صحابہ کرام زکات الفطر میں صرف کھانے کی اشیاء ہی نکالا کرتے تھے، چنانچہ نقود کی موجودگی میں ان کا صرف کھانا نکالنا اس بات کی دلیل ہے کہ صرف انواع طعام ہی مشروع ہے۔ اس سے عدول فرمان باری تعالى:“ومن يشَاقِقِ الرسُولَ من بَعْدِ ما تَبَيَّنَ له الْهدىٰ وَيَتَّبِعْ غيْرَ سَبِيل الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا”
کہ اور جو شخص راہ ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا، اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی دوسری راہ کی اتباع کرے گا تو وہ جدھر جانا چاہے گا ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے، اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے، اور وہ برا ٹھکانا ہوگا…کا مصداق ٹھہرے گا کیو نکہ نقود کی ادائیگی نہ تو رسول کی اطاعت ہے اور نہ ہی سبیل المومنین کی اتباع۔
نوٹ: اگر کوئی کہے کہ زمانہ نبوی یا عہد صحابہ میں ارض حجاز میں نقود یعنی دراہم ودنانیر کی قلت تھی اس لیے آپ نے ان کا ذکر نہیں کیا لہذا ان احادیث سے استدلال درست نہیں ہے!!
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ کئی وجوہ سے بالکل باطل ہے:
اول: شریعت اسلامیہ کسی خاص زمان ومکان کے لیے نازل نہیں کی گئی بلکہ اس کا نزول بعثت نبوی سے لے کر وقوع قیامت تک کے ہر انسان کے لیے ہوا ہے جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: “وما أرسلناك الا كافة للناس بشيرا ونذيرا”۔
دوم: اگر واقعی نقود کی کمی ہی وجہ رہی ہوتی تو اللہ کے رسول سونے چاندی کی صورت میں دنانیر ودراہم کا نصاب ہی متعین نہ کرتے جیسا کہ آپ نے بھینس کا نصاب متعین نہیں کیا ہے۔ جبکہ حدیث میں صراحت ہے“ففي كل عشرين دينارا نصف دينار وفي كل أربعين درهما درهم”۔
یعنی نصاب تک پہنچ جانے پر ہر بیس دینار میں آدھا دینار اور ہر چالیس درہم میں ایک درہم بطور زکات ادا کرنا ہے۔
سوم: عہد صحابہ میں قلت نقود کی شکایت اسلامی تاریخ سے جہالت یا تجاہل کی دلیل ہے کیونکہ ہر وہ شخص جو خلافت راشدہ کی تاریخ پر ادنی نگاہ رکھتا ہے اسے معلوم ہے کہ عہد فاروقی اور اس کے بعد کے ادوار میں ایران وروم وغیرہ پر فتوحات کی وجہ سے صحابہ کرام کے پاس سونے چاندی اور دراہم ودنانیر کی کثرت تھی جیسا کہ معلوم ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بدری صحابہ کے لیے پانچ ہزار درہم سالانہ وظیفہ مقرر کیا تھا اور جو بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے مگر سابقین اولین میں سے تھے ان کے لیے چار ہزار مقرر کیا۔ ازواج مطہرات کے لیے بارہ ہزار مقرر کیا وغیرہ وغیرہ جن کی تفصیلات کتب احادیث وتواریخ میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے صرف طعام پر ہی اکتفا کیا تو کیا اس کے باوجود یہ کہا جائے گا کہ صحابہ کرام نے قلت نقود کی وجہ سے ایسا کیا تھا؟؟ جبکہ ان کے ہزاروں دراہم موجود تھے! واللہ هذا عجيب جدا جدا
چہارم: خلافت راشدہ کے ادوار میں اسلامی حکومت کی وسعت دنیا کے آدھے سے زیادہ حصے کو اپنے حدود میں سمیٹ چکی تھی اور مختلف ممالک میں خلیفہ کی جانب سے صحابہ یا تابعین امیر مقرر ہوتے تھے مگر کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے کہ آپ نے صدقۃ الفطر میں قیمت ادا کی ہو۔ کیا اتنے سارے ممالک میں ہر جگہ نقود کی قلت تھی اور لوگ اپنے سارے معاملات صرف سامانوں کے مبادلے سے انجام دیتے تھے۔ هذا محال في القياس بديع
پنجم: اللہ کے رسول نے اپنی امت کو بشارت دی تھی کہ ان کے لیے زمین کے خزانے کھول دیے جائیں گے۔ اسی طرح حضرت سراقہ بن مالک کو کسری کے دونوں کنگنوں کی خوشخبری دی تھی کہ وہ دونوں تمھیں ملیں گے لہذا یہ کہنا کہ عہد صحابہ میں نقود کی قلت تھی صریح گمراہی ہے۔ یا یہ کہنا نقود کی قلت کی وجہ سے اللہ کے رسول نے اس کا ذکر نہیں کیا واضح تناقض ہے۔
تیسری دلیل: حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث: “فرض رسول الله – صلى الله عليه وسلم – الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث، وطعمة للمساكين”۔
(سنن أبي داود: 1609، سنن ابن ماجه: 1827، اس حدیث کو امام حاکم، موفق الدين ابن قدامة، نووي، ابن الملقن، ذهبي، الباني، ابن باز وغیرہم نے صحيح قرار دیا ہے)
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا تاکہ روزے کے لیے لغو اور بیہودہ اقوال و افعال سے پاکیزگی ہو جائے اور مسکینوں کو طعام حاصل ہو۔
طریق استدلال: طعمۃ طعام سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ دراہم ودنانیر سے۔ دراہم ودنانیر سے تو ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے لہذا معلوم ہوا کہ زکات الفطر میں بجائے نقود کے کھانا نکالنا ہی شارع کا مقصد ہے۔ چنانچہ اگر کوئی نقود ادا کرے اور مساکین اس سے کھانا کے بجائے کپڑا خرید لے تو اس سے حدیث مذکور کی مخالفت لازم آئے گی۔ فتدبروا بارک اللہ فیکم
چوتھی دلیل: صدقۃ الفطر ایک عبادت ہے جس کی ادائیگی ایک معین جنس طعام سے فرض ہے لہذا غیر جنس معین سے اس کی ادائیگی کفایت نہیں کرے گی جیسا کہ غیر وقت معین میں اس کی ادائیگی کفایت نہیں کرتی ہے۔
پانچویں دلیل: قیمت ادا کرنے والا منصوص علیہ سے عدول کرنے والا ہے لہذا یہ کفایت نہیں کرے گی جس طرح اگر کوئی شخص اچھی چیز کے بدلے ردی اور خراب چیز دے دے تو کفایت نہیں کرتی۔ (المغنی :4/297)
چھٹی دلیل: صدقۃ الفطر اسلام کے ظاہری شعائر میں سے ہے، مگر منصوص علیہ کھانوں کی جگہ قیمت ادا کرنے سے اس ظاہری شعار کا اخفا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ (کیونکہ اگر زکات الفطر نقود کی شکل میں نکالی جائے تو یہ بجائے ظاہری شعار کے ایک مخفی صدقہ کی صورت اختیار کرلے گی جس کا علم صرف لینے اور دینے والوں تک ہی محدود رہے گا جبکہ کھانا نکالنے کی صورت میں ہر چھوٹا بڑا اس کو ناپنے تولنے تقسیم کرنے لانے لے جانے وغیرہ کی تفاصیل کو دیکھے گا جس سے لوگوں کے دلوں میں شریعت اسلامیہ کی عظمت کا احساس پیدا ہوگا اور یہ انتہائی اچھی چیز ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے “ومن يعظم شعائر الله فإنها من تقوى القلوب)” (مجموع فتاوی ورسائل ابن عثیمین:18/278)
ساتویں دلیل: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے صدقۃ الفطر مختلف اصناف طعام سے فرض کیا ہے جن کی قیمتیں مختلف ہیں، چنانچہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مراد وہ منصوص علیہ اشیا ہیں نہ کہ قیمت اور نقود ورنہ اگر قیمت معتبر ہوتی تو یا تو آپ اس کا ذکر کر دیتے یا صدقۃ الفطر کسی ایک ہی نوع کے کھانے سے فرض کرتے اور دوسرے اجناس میں اس کے برابر جو قیمت ہوتی اسے فرض قرار دیتے۔
آٹھویں دلیل: نقود کی ادائیگی خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کے متفقہ اجماعی عمل کا مخالف ہے کیونکہ صحابہ کرام ایک صاع “طعام” نکالا کرتے تھے اور اللہ کے رسول نے خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: “عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ”
اور اصول بھی ہے: “كل خير في اتباع من سلف وكل شر في اتباع من خلف”
اسی طرح اللہ کے نبی کی حدیث ہے: وستفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدة قيل وما هي يا رسول الله ؟ قال ما أنا عليه اليومَ وأصحابي
اسی طرح اللہ کے رسول کا فرمان ہے: “خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم”۔
لہذا صحابہ کی اتباع کرتے ہوئے طعام نکالنا ہی عین حق وصواب ہے۔ وما بعد الحق الا الضلال
نویں دلیل: عام زکات مفروضہ پر قیاس، چونکہ آحادیث نبویہ کی صراحت کی بنیاد پر راجح قول کے مطابق زکات مفروضہ میں قیمت کی ادائیگی درست نہیں ہے جیسا کہ حدیث “خذ الحب من الحب والغنم من الشاة والبعير من الإبل والبقرة من البقر”۔ (سنن ابی داؤد:1599، سنن ابن ماجه:1814 صححه الحاكم في المستدرك والجورقاني في الأباطيل والمناكير)
ترجمہ: سیدنا معاذ بن جبل ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو یمن کی طرف (عامل بنا کر) بھیجا تو ان سے فرمایا ”غلے سے غلہ، بکریوں سے بکری، اونٹوں سے اونٹ اور گائیوں سے گائے وصول کرنا۔
اور حدیث “من بلغت عنده من الإبل صدقة الجذعة، وليست عنده جذعة وعنده حقة، فإنها تقبل منه الحقة، ويحمل معها شاتين إن استيسرتا له، أو عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليست عنده الحقة، وعنده الجذعة فإنها تقبل منه الجذعة، ويعطيه المتصدق عشرين درهما أو شاتين…. ” (صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب من بلغت عنده صدقة بنت مخاض وليست عنده)
ترجمہ: جس کے اونٹوں کی زکوٰۃ جذعہ تک پہنچ جائے اور وہ جذعہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو اس سے زکوٰۃ میں حقہ ہی لے لیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ دوبکریاں بھی لی جائیں گی۔ اگر ان کے دینے میں اسے آسانی ہو ورنہ بیس درہم لیے جائیں گے اور اگر کسی پر زکوٰۃ میں حقہ واجب ہو اور حقہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی لے لیا جائے گا اور زکوٰۃ وصول کرنے والا زکوٰۃ دینے والے کو بیس درہم یا دوبکریاں دے گا” سے پتہ چلتا ہے… ورنہ اگر قیمت کفایت کر جاتی تو اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم ان جھول جھمیلوں کا ذکر نہ کرتے بلکہ سیدھا سیدھا یہ کہہ دیتے کہ اگر کسی کے پاس حقہ نہ تو وہ اس کی قیمت دے دے۔ جذعہ نہ ہو تو وہ بھی اس کی قیمت دے دے۔
چنانچہ امام مجد ابن تیمیہ فرماتے ہیں “والجبرانات المقدرة في حديث أبي بكر تدل على أن القيمة لا تشرع وإلا كانت تلك الجبرانات عبثا”۔ (نيل الأوطار :4/171)
یعنی حضرت ابو بکر کی حدیث میں مذکور مقررہ جبرانات (اونٹ کی زکات میں متعینہ نصاب نہ ملنے کی صورت میں بطور بھرپائی دی جانے والی چیزیں) اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قیمت مشروع نہیں ہے ورنہ یہ جبرانات عبث اور بے کار قرار پائیں گے۔
لہذا جس طرح زکات مفروضہ میں نص کی دلالت وصراحت کی وجہ سے قیمت کی ادائیگی درست نہیں ہے بالکل اسی طرح زکات الفطر میں بھی قیمت کی ادائیگی درست نہیں ہے۔
دسویں دلیل: زکات الفطر عبادت اور تقرب الہی کا ذریعہ ہے اور عبادت میں اصل توقیف ہے جیسا کہ اصول ہے “الأصل في العبادات المنع الا ما دل عليه الدليل” چنانچہ جب توقیف اور دلیل سے صرف طعام کی ادائیگی کی اجازت ملے تو ہمیں اسی کو لازم پکڑنا ہے نہ کہ بے لگام عقلی گھوڑے دوڑا کر نصوص صریحہ کی تاویل کرنی ہے۔
چنانچہ جس طرح چالیس بکریوں میں ایک بکری اور پانچ اونٹوں میں ایک بکری کی جگہ اگر کوئی بکری کی قیمت دے دے تو کفایت نہیں کرے گا جیسا کہ قربانی کی جگہ صدقہ کردینے یا کفارہ میں غلام آزاد کرنے کی جگہ قیمت دے دینے یا کھانا کھلانے کی جگہ کنواں کھودانے یا روپیہ دے دینے سے کفایت نہیں کرتا عین اسی طرح صدقۃ الفطر میں بھی ایک صاع طعام کے بدلے اگر کوئی قیمت دے دے تو یہ بھی کفایت نہیں کرے گا۔
گیارہویں دلیل: قیمت ادا کرنے سے کئی لحاظ سے اصول کی مخالفت لازم آتی ہے۔
جیسا کہ شیخ عطیہ سالم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: قیمت کو جائز قرار دینے سے دو صورت میں اصول کی مخالفت ہوتی ہے:
پہلی صورت: اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے جب ان اصناف طعام کا ذکر کیا تو ان کے ساتھ قیمت کا ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ اگر قیمت ادا کرنا جائز ہوتا تو آپ ان چیزوں کے ساتھ اس کا بھی ذکر کرتے جیسا کہ اونٹ کی زکات میں (جبرانات کی صورت میں) عوض کا ذکر کیا ہے (کیونکہ اصول ہے“السكوت في مقام البيان يفيد الحصر”
یعنی بیان اور توضیح کے مقام پر خاموشی حصر اور قصر کا فائدہ دیتی ہے دلیل یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے فرمایا ہے: “وما كان ربك نسيا”
چنانچہ جب اللہ رب العالمین نہیں بھولتے تو ایسے مقام پر جہاں مکلفین کے کسی فعل سے متعلق حکم بیان کیا جا رہا ہو اللہ کا یا اللہ کے رسول کا جو کہ اللہ رب العالمین کا مبلغ ہے بعض چیزوں کو ذکر کرنا اور اسی کے مشابہ ومماثل بعض چیزوں سے سکوت اختیار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مسکوت عنہا اشیا کا حکم اشیائے مذکورہ کے حکم سے مختلف ہے یہ خاموشی بلا سبب یا بھول وذھول کی وجہ سے نہیں ہے لہذا اگر نص میں اشیائے مذکورہ کی اجازت وارد ہوئی ہو تو اس سے اشیائے مسکوت عنہا کی ممانعت لازم آئے گی وإن كان العكس فالعكس۔ یہ نہایت عظیم اصول ہے جس پر علما نے بہت سارے مسائل کی بنیاد رکھی ہے اور یاد رہے کہ یہ اصول “وما سكت عنه فهو عفو” کے مخالف بھی نہیں ہے۔ جبکہ اللہ کے رسول مساکین کے تئیں تمام لوگوں سے زیادہ شفیق اور رحم دل ہیں۔
دوسری جہت: وہ عام قاعدہ ہے کہ “لا ينتقل إلى البدل الا عند فقد المبدل منه”
یعنی بدل کی طرف انتقال اسی صورت میں جائز ہے جب کہ مبدل منہ ناپید ہوں (اور یہاں تو اصل اور مبدل منہ یعنی “طعام” موجود ہے تو فرع اور قیمت کی طرف عدول کیسے جائز ہوا ؟) اسی طرح “إذا كان الفرع يعود على الأصل بالبطلان فهو باطل”کہ جب فرع اصل کے عمل کو ملغی اور باطل کردے تو وہ خود باطل ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی قیمت جائز قرار دینے سے اس سے عظیم چیز پر جرات کا بھی راستہ ہموار ہوگا چنانچہ جس طرح ابھی زکات الفطر میں قیمت کو جائز قرار دیا جاتا ہے قربانی میں بھی قیمت کے جواز کی راہ تلاشی جائے گی۔ انتہی ملخصا بتصرف یسیر( تتمة أضواء البيان :8/493-494)
ثانیاً: جائز قرار دینے والوں کے دلائل:
پہلی دلیل: مقصد شارع کی رعایت چونکہ فی الواقع صدقۃ الفطر کا مقصد اس دن فقرا ومساکین کو دست سوال دراز کرنے سے بے نیاز کرنا ہے جیسا کہ حدیث “أغنوهم عن الطواف في هذا اليوم” (رواه الدارقطني في سننه(2/153)والحاكم في “معرفة علوم
الحديث” ص (131) والبيهقي(4/175) وابن عدي في الكامل كما في “نصب الراية” (2/432)
ترجمہ: اس دن ان فقرا ومساکین کو مانگنے سے بے نیاز کر دو!
طریق استدلال: اغنا اور بے نیازی بنسبت طعام کے نقود کے ذریعے بآسانی حاصل ہوتی ہے کیونکہ نقود سے جب چاہیں جو چاہیں اور جس طرح چاہیں خرید سکتے ہیں خواہ وہ کھانوں کی شکل میں ہو یا کپڑوں کی شکل میں یا اور کسی ضرورت کی شکل میں۔
ملاحظہ:
اول: تو یہ کہ مستدل بہ حدیث ضعیف ہے خود زیلعی حنفی نے “نصب الراية” (2/432) کے اندر اس کو سند حدیث کے ابو معشر نجیح نامی ایک راوی کی وجہ سے ضعیف اور معلول قرار دیا ہے۔ اسی طرح حدیث کو ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے جن میں: امام نووي، ابن حجر، ابن عبد الهادي، ابن الملقن، ابن حزم اور امام صنعانی وغیرہم ہیں۔
دوم: یہ کہ ٹھیک ہے شارع کا مقصد فقرا و مساکین کو کھانا پہنچانا اور انھیں خوش کرنا ہے مگر شارع نے اس کا طریقہ کار بھی بتایا ہے۔ محض مقصد بیان کر کے طریقہ کار سے بے اعتنائی نہیں برتی ہے۔ چنانچہ آپ کے اس استدلال پر قیاس کرتے ہوئے اگر کوئی شارع کا مقصد “تعبد” کو مرضی کے مطابق پورا کرنے لگے اور منصوص علیہ عبادات کو چھوڑ کر خود سے عبادات ایجاد کرلے پھر اس پر یہ دلیل دے کہ اللہ نے تو فرمایا ہے “وما خلقت الجن والإنس الإ لعيبدون”
مقصد عبادات ہے خواہ وہ منصوص علیہ ہوں یا خود اختراعی، مقصد تو بہرحال حاصل ہو ہی رہا ہے۔ تو کیا اس کا یہ قیاس درست ہوگا؟ وإن لا فلا
سوم: علی سبیل التنازل اگر حدیث کو ثابت مان لیا اور ایک صاع کی قیمت ادا کرکے اغناء الفقیر کا مقصد حاصل نہ ہو تو کیا آپ حضرات ایک صاع کی جگہ دو صاع ادا کریں گے وإن لا فلا۔ لہذا اگر یہاں مقصد کا اعتبار نہیں تو وہاں کیوں؟؟؟
چہارم: اللہ رب العالمین نے کپڑا خریدنے علاج کرانے اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے زکات فرض کیا ہے۔ صدقۃ الفطر اس کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ صدقۃ الفطر صرف مساکین کو کھانا فراہم کرنے کے غرض سے فرض کیا گیا ہے جیسا کہ صدقۃ الفطر صرف فقرا ومساکین میں تقسیم کرنا ہے۔ جبکہ مصارف زکات آٹھ ہیں لہذا جس طرح ایک کو دوسرے کے مصرف میں صرف نہیں کیا جاسکتا بالکل اسی طرح ایک کو دوسرے کے مقصد کی تکمیل کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا!!
دوسری دلیل: صدقات وزکات میں اصل مال دینا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:“خذ من أموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها”
یعنی لوگوں کے اموال سے زکات اصول کریں۔ اور مال اصل میں سونے چاندی دراہم ودنانیر اور نقود کا نام ہے۔ البتہ اللہ کے رسول نے جو یہ چند چیزیں بتائی ہیں وہ آسانی اور رفع حرج کی خاطر ہے اس سے حصر واستقصا مراد نہیں ہے۔
ملاحظہ: یہ اصول کہ “مال اصل میں سونے چاندی اور نقود کا نام ہے” صحیح نہیں ہے بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ یہ بالکل باطل اصول ہے۔ کیونکہ جس بھی چیز کو بطور مالیت انسان اپنے پاس رکھے وہ مال ہے خواہ وہ چوپائے ہوں یا غلہ جات یا اور کوئی شئی ورنہ اس اصول کی رو سے چوپایوں میں زکات نہیں ہے کیونکہ یہ تو مال ہی نہیں ہے جبکہ آیت میں مال سے زکات اصول کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ وهذا باطل عقلا ونقلا وبداهة
تیسری دلیل: دلیل استحسان سے استدلال: وہ اس طرح کہ قیمت کی ادائیگی فقرا ومساکین کے حق میں زیادہ نفع بخش اور استفادہ کے اعتبار سے زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ انسان نقود سے جو چاہے خرید سکتا ہے لہٰذا گرچہ نص میں طعام کا ذکر ہے لیکن دلیل استحسان کے تحت مصلحت تیسیر اور آسانی کی وجہ سے نقود کی ادائیگی افضل اور بہتر ہے۔
ملاحظہ:
اولا: دلیل استحسان بذات خود متفق علیہ دلیل نہیں ہے کہ جس سے جہاں چاہیں استدلال کرتے پھریں۔
دوم: استحسان دلیل کی عدم موجودگی میں قیاس جلی اور قیاس خفی کے مابین قیاس خفی کی ترجیح کی صورت میں عمل میں آتا ہے۔ جبکہ یہاں تو نص صریح موجود ہے لہذا استحسان کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔
سوم: استحسان میں قیاس خفی کو کسی خارجی دلیل کی بنیاد پر ترجیح دیا جاتا ہے اور یہاں ایسی کوئی دلیل نہ دارد۔
چہارم: شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو شخص کہتا ہے کہ قیمت کی ادائیگی فقرا کے حق میں زیادہ نفع بخش ہے وہ دو غلطی کرتا ہے:
پہلی غلطی: نص کی مخالفت کرتا ہے جبکہ معاملہ تعبدی ہے اور یہ اس سلسلے میں سب سے معمولی بات ہے۔
دوسری غلطی: یہ زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس (زیادہ نفع بخش قرار دینے) کا مطلب ہے کہ جب شارع حکیم اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کی طرف وحی کی کہ آپ اپنی امت پر زکات الفطر میں ان کھانوں میں سے ایک صاع فرض کردیں تو اللہ رب العالمین فقرا ومساکین کی مصلحت سے اس طرح آگاہ نہیں ہو سکے جس طرح یہ قیمت نکالنے والے ہو گئے۔ چنانچہ بعض لوگوں کا نص کی تطبیق سے انحراف کرتے ہوئے بدل یعنی نقدی کو اختیار کرنا شارع پر الزام ہے کہ انھوں نے اچھی طرح شریعت سازی نہیں کی ہے کیونکہ ان حضرات کی تشریع ہی افضل اور نفع بخش ہے۔ اگر ان حضرات کا یہ مقصد ہو تو یہ کفر ہے لیکن یہ ان کا مقصد نہیں ہے البتہ یہ لوگ غفلت برتتے ہوئے ایسی بات کرتے ہیں جو مبنی برخطا ہے۔ انتہی ملخصا (جامع تراث العلامة الألباني في الفقه : 10/ 596)
چوتھی دلیل: قاعدہ اصولیہ “رعاية المصالح أولى من رعاية الوسائل” مصلحتوں کی رعایت مقاصد کی رعایت سے بہتر اور مقدم ہے۔
طریق استدلال: چونکہ زکات الفطر کے ایجاب سے شارع کا مقصد مال نکال کر فقرا ومساکین کو نفع پہنچانا ہے لہذا کسی خاص نوع کے وسائل سے چمٹ کر ان سے زیادہ فائدہ مند شئی کو ترک کر دینا عقل مندی نہیں ہے خاص کر جب وہ شئی حصول مقصد میں ان وسائل سے زیادہ ممد و معاون ہو۔
ملاحظہ:
اولا: اس اصول پر عمل اس وقت کیا جاتا جب حقیقی اور ساری مصلحتیں قیمت کی ادائیگی میں ہی ہوتیں اور کھانوں کی ادائیگی سرے سے مصالح سے خالی ہوتی۔
ثانیاً: اس اصول سے استدلال کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ شارع حکیم حقیقی مصلحت کے ادراک پر نعوذ باللہ قادر نہ ہوئے اور بجائے قیمت ادا کرنے کا حکم دینے کے طعام ادا کرنے کا حکم دے بیٹھے۔ وهذا باطل بلا ريب
ثالثا: اصل حکمت ومصلحت حکم شارع میں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے جس کا ہر کام لا محدود مصلحتوں کا جامع ہوتا ہے جن کا ادراک عقل انسانی سے پرے ہے لہذا کسی اور مصلحت کو مصلحت شارع پر مقدم کرنا انتہائی خطرناک امر ہے۔
پانچویں دلیل: حضرت ابو سعید خدری کی حدیث: “كنا نعطيها في زمن – صلى الله عليه وسلم – صاعا من طعام أو صاعا من شعير أو صاعا من أقط أو صاعا من زبيب. فلما جاء معاوية وجاءت السمراء قال: أرى مدا من هذه يعدل مدين. قال أبو سعيد: أما أنا: فلا أزال أخرجه كما كنت أخرجه على عهد رسول الله – صلى الله عليه وسلم”
ترجمہ: ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا خشک انجیر) نکالتے تھے۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے۔ حضرت ابو سعید فرماتے ہیں رہی بات میری تو میں جس طرح اللہ کے نبی کے زمانے میں ایک صاع نکالتا تھا اب بھی نکالتا ہوں۔
اسی طرح سنن ترمذی وغیرہ میں مروی بعض احادیث ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے رسول نے خود بھی گیہوں میں آدھا صاع دینے کا حکم دیا تھا چنانچہ احمد الغماری نے اپنی کتاب “تحقیق الامال فی اخراج زكاة الفطر بالمال”کے اندر اس سلسلے میں بہت ساری احادیث کا ذکر کیا ہے جن میں سے بارہ موصول، چار مرسل دس موقوف اور اسی کے بقدر مقطوع ہیں۔ اس کے بعد صفحہ (88) پر لکھتے ہیں: ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ گیہوں کے سلسلے میں نصف صاع کا حکم اللہ کے رسول سے قطعی طور پر تواتر کے ساتھ وارد ہے ورنہ یہ محال ہے کہ اتنے سارے لوگ کسی جھوٹ کے روایت کرنے پر متفق ہوجائیں۔
طریق استدلال: گیہوں مہنگا ہونے کی وجہ سے اللہ کے رسول اور حضرت معاویہ نے قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے ہی ایک صاع کے بدلے آدھا صاع دینے کا حکم دیا تھا۔ لہذا جب قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے صاع میں تخفیف درست ہے تو قیمت ادا کرنا بدرجہ اولیٰ درست ہے۔
ملاحظہ:
اول: جہاں تک امیر معاویہ کے نصف صاع متعین کرنے کی بات ہے تو یہ ان کی انفرادی رائے تھی صحابہ نے اس پر ان کی موافقت نہیں کی جیسا کہ خود ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ میں ایک صاع ہی نکالا کرتا تھا۔
دوم: جہاں تک غماری کی تفصیلات اور تواتر کی بات ہے تو یہ ان کا وہم ہے کیونکہ نصف صاع سے متعلق مرفوع احادیث کو امام بیہقی اور زیلعی حنفی وغیرہما نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ان کی اس تضعیف کو حضرت ابوسعید کے قول “فلا أزال أخرجه كما كنت أخرجه على عهد رسول الله”
یعنی اللہ کے رسول کے زمانے میں یہ لوگ گیہوں میں بھی ایک صاع ہی نکالا کرتے تھے” سے تقویت ملتی ہے لہٰذا جب صحیح حدیث سے یہ ثابت ہو گیا اللہ کے رسول کے زمانے میں ایک صاع ہی نکالا جاتا تھا تو ان ضعیف الاسانید روایات کا کیا اعتبار جبکہ محققین علما نے انھیں ضعیف قرار دیا ہے۔
سوم: اگر فرض کر لیا جائے کہ مرفوعا یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے عثمان، علی، ابن عباس، ام سلمہ، ابو ہریرہ، جابر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم سے موقوفا صحیح قرار دیا ہے کہ یہ لوگ نصف صاع گیہوں دیا کرتے تھے تو اس وقت یہ معاملہ بھی ایک صاع کی طرح توقیفی قرار پائے گا کہ جس طرح اللہ کے رسول نے عام کھانوں میں دو صاع یا زیادہ یا کم کے بجائے صرف ایک صاع فرض کیا ہے اسی طرح گیہوں میں ایک صاع کے بجائے نصف صاع فرض کیا ہے۔ علت کیا ہے کس مصلحت کی بنا پر ایسا کیا ہے قیمت کا اعتبار کیا ہے یا کسی اور چیز کا؟ اس سے کوئی غرض نہیں ہے جس طرح کے عام کھانوں میں ایک صاع کیوں فرض کیا ہے اس میں کیا مصلحت ہے؟ یا گائے اور اونٹ پر زکات کیوں فرض کیا، گھوڑوں گدھوں اور ہاتھیوں پر کیوں نہیں کیا؟ علت کیا ہے کس حکمت کی بنا پر ایسا کیا ہے؟ اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔
چہارم: ان حضرات کے استدلال کی بنیاد پر کہ چونکہ گیہوں اس زمانے میں مہنگا تھا اس لیے حضرت امیر معاویہ نے قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے نصف صاع متعین کردیا یہ لازم آئے گا کہ اب گیہوں سستا ہونے کی وجہ سے کجھور اور کشمس کے مقابلے میں پانچ یا دس صاع دیا جائے چنانچہ ایسی صورت میں زکات الفطر کی کوئی منضبط اور محدود مقدار نہیں رہے گی اور یہ عظیم فتنے کا باعث بنے گا۔
چھٹی دلیل: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث: “وقال طاوس: قال معاذ رضي الله عنه لأهل اليمن: «ائتوني بعرض ثياب خميص – أو لبيس – في الصدقة مكان الشعير والذرة أهون عليكم وخير لأصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة»
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے یمن والوں سے کہا کہ: مجھے صدقہ میں جو اور بھٹا کے بدلے سامان خمیص (کالا یا سرخ دھاری دار کپڑا) کپڑا یا یا عام ملبوسات دو یہ تمھارے لیے آسان اور مدینے میں صحابہ کے حق میں بہتر ہوگا۔
طریق استدلال: جس طرح زکات میں اصل کی جگہ قیمت لے دے سکتے ہیں اسی طرح زکات الفطر میں بھی منصوص علیہ کی جگہ قیمت دے سکتے ہیں۔
ملاحظہ:
یہ استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے۔ امام ابن حزم نے کہا یہ حدیث کئی وجوہ سے قابل حجت نہیں ہے:
اول: حدیث مرسل (منقطع) ہے کیونکہ طاؤس نے معاذ کا زمانہ نہیں پایا بلکہ وہ تو حضرت معاذ کی وفات کے بعد پیدا ہوئے۔ (اس حدیث کو حافظ ابن حجر نے بھی انقطاع کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے)
دوم: اگر یہ صحیح ہوجائے تب بھی حجت نہیں ہے کیونکہ یہ نبی کی حدیث نہیں ہے جبکہ حجت تو صرف احادیث رسول ہیں۔
سوم: حضرت معاذ نے یہ نہیں کہا کہ” زکات “میں …لہٰذا ممکن ہے کہ آپ نے یہ جزیہ ادا کرنے والوں سے کہا ہو کیونکہ آپ ان سے جزیہ میں جو، بھٹا اور دیگر سامان لیا کرتے تھے۔ (بعض روایات میں”في الصدقة” کے بجائے “في الجزية” آيا ہے جیسا کہ امام بیہقی نے ذکر کیا ہے دیکھیے فتح الباری (3/313) یہ حدیث جزیہ کے تعلق سے ہے یہ امام ماوردی، نووی اور ابن قدامہ وغیرہم کا موقف ہے۔ ان حضرات کی دلیل کہ یہ حدیث جزیہ کے تعلق سے ہے:
اول: اس میں حضرت معاذ نے مدینہ لے جانے کی بات کی ہے جبکہ اللہ کے رسول نے انھیں حکم دیا تھا جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں ہے “تؤخذ من اغنياءهم فترد على فقرائهم”
یعنی وہیں کے فقرا سے زکات لی جائے گی اور وہیں کے فقرا میں تقسیم کر دی جائے گی۔ چنانچہ وہ خود اس کی مخالفت کیسے کر سکتے ہیں؟
دوم: حضرت معاذ کی یہ بات مشہور ہے کہ جو کوئی بھی اپنے قبیلے کے ضلع سے کسی دوسرے ضلع میں منتقل ہوجائے تو اس کا عشر اور اس کی زکات اس کے قبیلے کے ضلع میں ہی تقسیم کی جائے گی۔ (رواه الأثرم في “سننه” وأخرجه أيضا سعيد بن منصور بإسناد صحيح إلى طاوس(اهـ. من “بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني “( 9/46)
لہذا جب وہ زکات کے مال کو کہیں منتقل کرنے کے قائل نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے یہ زکات نہیں جزیہ کے سلسلے میں ہے کیونکہ جزیہ کو کہیں بھی منتقل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح قاضی عبد الوہاب مالکی فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام جزیہ پر صدقہ کا اطلاق کرتے تھے شاید یہ اسی قبیل سے ہے۔ (فتح الباري :3/313)
چہارم: اس حدیث کے باطل ہونے کی دلیل اس کے اندر موجود “خير لأهل المدينة” والا جملہ ہے۔ اللہ کی پناہ کہ حضرت معاذ ایسی بات کریں کہ جس چیز کو اللہ نے واجب نہیں کیا ہے اسے واجب چیز سے بہتر قرار دیں۔ انتہی! (المحلی :6/312)
راجح:
ان تمام تفصیلات اور دلائل کا جائزہ لینے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ راجح پہلا قول ہے یعنی زکات الفطر میں قیمت (نقود) کی ادائیگی مطلقا ممنوع ہے۔ اگر کوئی نقود ادا کردے تو اس کی ادائیگی کفایت نہیں کرے گی۔
البتہ اگر شدید ضرورت ہو کسی قسم کی مجبوری ہو یا کوئی راجح مصلحت ہو تو یہ الگ بات ہے ایسی صورت میں قیمت کفایت کر جائے گی۔ اور یہ صرف اس مسئلے کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ جو بھی چیز حرام ہے سخت ضرورت کے وقت “الضرورات تبيح المحظورات”کے تحت اس کا کرنا کھانا جائز ہوجاتا جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے“إِنّما حرّم عَلَیكم ٱلۡمیتة والدم ولحم ٱلۡخنزیر وَمَاۤ أُهل بِهِۦ لغَیرِ الله فَمن اضۡطر غیر بَاغ وَلا عاد فلَاۤ إِثۡمَ علیۡه إِنّ ٱلله غفور رحیم”
یعنی مردار، خون، سور کا گوشت اور غیر اللہ پر ذبح کیا جانے والا جانور اصلا حرام ہے مگر مجبوری کی صورت میں جائز ہے۔
مگر شرط ہے کہ مجبوری حقیقی معنوں میں مجبوری ہو اور فرمان الہی “غير باغ ولا عاد” اور اصول “الضرورات تقدر بقدرها” کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہو۔
وجہ ترجیح:
کئی چیزیں ہیں:
اول: قیمت کو جائز قرار دینے والوں کے پاس سوائے باطل استدلالات کے کوئی نبوی نص یا کسی صحابی کا ایک اثر بھی نہیں ہے جب کہ مانعین کے پاس آحادیث وآثار کی کثرت ہے۔
دوم: جو شخص طعام نکالتا ہے تو وہ بالکل شرح صدر کے ساتھ کامل اطمینان کی حالت میں صدقۃ الفطر ادا کرتا ہے کیونکہ اس کے پاس سنت نبوی سے دلیل موجود ہے۔ جبکہ قیمت یعنی نقود ادا کرنے والوں کے دل میں کھٹکا لگا رہتا ہے کہ شاید زکات ادا ہوئی کہ نہیں “والإثم ما حاك في صدرك” گناہ وہی ہے جو آپ کے دل میں کھٹکے لہذا بہتر یہی ہے کہ شکوک و شبہات میں نہ پڑا جائے بلکہ“فمن اتق الشبهات فقد استبرا لدينه وعرضه” کے تحت سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے کھانا ہی دیا جائے۔
سوم: یہی احتیاط کا بھی تقاضا ہے کیونکہ کہ تمام علما کا اس بات پر اجماع واتفاق ہے کہ کھانے کی ادائیگی کفایت کر جائے گی مگر اکثر بلکہ عام فقہائے کرام کی یہ رائے ہے کہ قیمت کی ادائیگی کفایت نہیں کرے گی۔
چہارم: جب یہ معلوم ہے کہ قیمت ادا کرنا کفایت نہیں کرے گا اس کے باوجود کوئی تاویل کرتے ہوئے اجتہاد کا لبادہ اوڑھ کر قیمت ادا کرتا ہے تو وہ سنت کی مخالفت کرتا ہے اور سنت کی مخالفت ہلاکت کا باعث ہے:
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:“فليحذر الذين يخالفون عن أمره أن تصيبهم فتنة أو يصيبهم عذاب أليم”
اسی طرح فرمایا ہے: “فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ولا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما”
لہذا اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں سنت اور راہ حق وصواب کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آپ کے تبصرے