ستاروں کے سلسلے میں سرگزشت ابراہیم کی حقیقت

حسان عبدالغفار

حضرت ابراہیم علیہ السلام ان جلیل القدر اور اولو العزم پیغمبروں میں سے ایک ہیں جن کی زندگی کے حالات، قوم کے ساتھ مکالمے اور شرک سے برات وبیزاری کے واقعات کو رب العزت نے بڑے اہتمام کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ انہی مکالمے اور واقعات کا ایک حسین جزء ستاروں کے سلسلے میں ان کی سرگزشت کی ہے جس کے ظاہر سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی حیات مستعار میں ایک وقت ایسا بھی تھا جس میں وہ اپنے حقیقی خالق ومالک اور رب العالمین سے ناواقف اور ناآشنا تھے۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: “وَإِذۡ قَالَ إِبۡرَ ٰ⁠هِیمُ لِأَبِیهِ ءَازَرَ أَتَتَّخِذُ أَصۡنَامًا ءَالِهَةً إِنِّیۤ أَرَىٰكَ وَقَوۡمَكَ فِی ضَلَـٰلࣲ مُّبِینࣲ . وَكَذَ ٰ⁠لِكَ نُرِیۤ إِبۡرَ ٰ⁠هِیمَ مَلَكُوتَ ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ وَٱلۡأَرۡضِ وَلِیَكُونَ مِنَ ٱلۡمُوقِنِینَ . فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡهِ ٱلَّیۡلُ رَءَا كَوۡكَبࣰاۖ قَالَ هَـٰذَا رَبِّیۖ فَلَمَّاۤ أَفَلَ قَالَ لَاۤ أُحِبُّ ٱلۡـَٔافِلِینَ . فَلَمَّا رَءَا ٱلۡقَمَرَ بَازِغࣰا قَالَ هَـٰذَا رَبِّیۖ فَلَمَّاۤ أَفَلَ قَالَ لَىِٕن لَّمۡ یَهۡدِنِی رَبِّی لَأَكُونَنَّ مِنَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلضَّاۤلِّینَ . فَلَمَّا رَءَا ٱلشَّمۡسَ بَازِغَةࣰ قَالَ هَـٰذَا رَبِّی هَـٰذَاۤ أَكۡبَرُۖ فَلَمَّاۤ أَفَلَتۡ قَالَ یَـٰقَوۡمِ إِنِّی بَرِیۤءࣱ مِّمَّا تُشۡرِكُونَ . إِنِّی وَجَّهۡتُ وَجۡهِیَ لِلَّذِی فَطَرَ ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ وَٱلۡأَرۡضَ حَنِیفࣰاۖ وَمَاۤ أَنَا۠ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِینَ “. (الأنعام :74-79)
“اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے؟ بے شک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں۔ اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں سے ہوجائیں۔ پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھاگئی تو انھوں نے ایک ستارہ دیکھا اور کہا: یہ میرا رب ہے مگر جب وہ غروب ہوگیا تو فرمایا کہ میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا: یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو فرمایا کہ اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں گا۔ پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا: یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بے شک میں تمھارے شرک سے بیزار ہوں، میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہوکر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔”

ستاروں کے سلسلے میں حضرت ابراہیم کی سرگزشت کو لے کر مفسرین کرام کے دو اقوال ملتے ہیں:
1- یہ واقعہ ان کی بعثت سے پہلے کا ہے جبکہ وہ حق کے متلاشی تھے۔
گویا کہ انھوں نے “هذا ربي”کو ظاہری معنی پر محمول کیا ہے۔
ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
1 – حضرت ابراہیم کا قول “لَىِٕن لَّمۡ یَهۡدِنِی رَبِّی لَأَكُونَنَّ مِنَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلضَّاۤلِّینَ”
اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ ہدایت کے طالب اور حق کے متلاشی تھے۔
چنانچہ اسی ٹکڑے سے امام طبری رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ حضرت ابراہیم ناظر تھے مناظر نہیں۔
اور وجہ استدلال یہ ہے کہ:أنه عليه السلام استعجز نفسه فاستعان بربه تعالى في درك الحق “۔ (تفسير الآلوسي: 7/200)
“ابراہیم علیہ السلام نے خود کو عاجز پایا اور حق کی معرفت میں اپنے رب سے مدد طلب فرمائی”۔
2 -رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ ؛ ثِنْتَيْنِ مِنْهُنَّ فِي ذَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ؛ قَوْلُهُ : ” إِنِّي سَقِيمٌ “. وَقَوْلُهُ : ” بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا “. وَقَالَ : بَيْنَا هُوَ ذَاتَ يَوْمٍ وَسَارَةُ، إِذْ أَتَى عَلَى جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، فَقِيلَ لَهُ : إِنَّ هَاهُنَا رَجُلًا مَعَهُ امْرَأَةٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ. فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا فَقَالَ : مَنْ هَذِهِ ؟ قَالَ : أُخْتِي ۔۔۔ “. ( صحيح البخاري | كِتَابٌ : أَحَادِيثُ الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ. | بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا : 3358)
“ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا، دو ان میں سے خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے۔ ایک تو ان کا فرمانا کہ “میں بیمار ہوں” اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ “بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے (بت) نے کیا ہے”۔ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزر رہے تھے۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انھیں بلوایا اور سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں”۔
چنانچہ اگر ابراہیم علیہ السلام “هذا ربي” اپنی قوم سے مناظرہ کرتے ہوئے کہتے تو یہ عبارت سچائی سے “إنها أختي” کے بالمقابل زیادہ دور ہوتی (یعنی جس طرح اپنی بیوی کو اپنی بہن “إنها أختي” کہنا حقیقت اور سچائی سے پرے تھا اس سے کہیں زیادہ حقیقت اور سچائی سے دور “هذا ربي” کہنا ہوتا اگر یہ بات وہ اپنی قوم سے مناظرہ کرتے ہوئے کہتے) اس کے باوجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (هذا ربي) کو کذب میں شمار نہیں کیا اور نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اسے بطور عذر پیش کریں گے جب ان سے شفاعت کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا بلکہ صرف تین کذب کو ذکر کریں گے۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات اپنی قوم سے علی سبیل المناظرۃ نہیں بلکہ بعثت سے قبل کہی تھی جس پر سرے سے مواخذہ ہوتا ہی نہیں ہے کیونکہ نبوت سے پہلے صادر ہونے والے اعمال کا وہ درجہ نہیں ہوتا جو نبوت کے بعد صادر ہونے والے اعمال کا ہوتا ہے، نیز جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے “هذا ربي” کہا اس وقت اس کے جھوٹ ہونے کا قطعی اعتقاد نہیں رکھا تھا کہ اس کو کذب سے تعبیر کیا جائے بلکہ انھوں نے یہ بات استدلال اور اجتہاد کرتے ہوئے فرمائی تھی۔
3-اللہ رب العزت نے مناظرہ کا تذکرہ حضرت ابراہیم کا اپنی قوم سے برات کا اظہار اور توحید خالص کا اقرار کرلینے کے بعد کیا ہے۔
جیسا کہ ارشاد ہے: “قَالَ یَـٰقَوۡمِ إِنِّی بَرِیۤءࣱ مِّمَّا تُشۡرِكُونَ. إِنِّی وَجَّهۡتُ وَجۡهِیَ لِلَّذِی فَطَرَ ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ وَٱلۡأَرۡضَ حَنِیفࣰاۖ وَمَاۤ أَنَا۠ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِینَ “. (الانعام : 78-79)
“میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہوکر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں”۔
یعنی مناظرہ یہاں سے شروع ہو رہا ہے۔
اور جو بات حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں کے سلسلے میں کہی تھی تو وہ علی سبیل النظر والتامل تھا۔ (العصمة في ضوء عقيدة أهل السنة والجماعة: 74)
دوسرا قول: یہ واقعہ بعثت کے بعد کا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ بات بحث ومباحثہ اور مکالمے کے طور پر کہی تھی تاکہ ان کے بطلان کو واضح کر سکیں۔
ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
1- آیت کریمہ کی ترتیب
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡهِ ٱلَّیۡلُ رَءَا كَوۡكَبࣰاۖ قَالَ هَـٰذَا رَبِّیۖ”۔ (الأنعام: 76)

“پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھاگئی تو انھوں نے ایک ستارہ دیکھا اور فرمایا: یہ میرا رب ہے”۔
جبکہ اس آیت کریمہ سے معا پہلے فرمایا گیا: “وَكَذَ ٰ⁠لِكَ نُرِیۤ إِبۡرَ ٰ⁠هِیمَ مَلَكُوتَ ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ وَٱلۡأَرۡضِ وَلِیَكُونَ مِنَ ٱلۡمُوقِنِینَ”۔ (الأنعام: 75)
“اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں سے ہوجائے”۔
جو اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات ایقان کے بعد کہی تھی۔ (أضواء البيان:2/201)
2-ایک سے زائد مقام پر یہ نص موجود ہے کہ یہ بحث ومباحثہ ان کی قوم کے ساتھ تھا۔
مثلا:
“یَـٰقَوۡمِ إِنِّی بَرِیۤءࣱ مِّمَّا تُشۡرِكُونَ”۔ (الأنعام: 77)

“بے شک میں تمھارے شریک سے بیزار ہوں”۔
“وَحَاۤجَّهُۥ قَوۡمُهُۥۚ قَالَ أَتُحَـٰۤجُّوۤنِّی فِی ٱللَّهِ وَقَدۡ هَدَىٰنِۚ۔ (الأنعام: 80)
“ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کیا آپ نے فرمایا کیا تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ اس نے مجھے طریقہ بتلا دیا ہے”۔
“وَتِلۡكَ حُجَّتُنَاۤ ءَاتَیۡنَـٰهَاۤ إِبۡرَ ٰ⁠هِیمَ عَلَىٰ قَوۡمِهِۦۚ”۔ (الأنعام: 83)

“اور یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی”۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم سے مناظرہ کررہے تھے نہ کہ بذات خود اجتھاد کر رہے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر: 3/276)
کیونکہ یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ ایک نبی جسے خود حقیقت کا علم نہ ہو وہ اپنی قوم کو اس چیز پر کیسے آمادہ کر سکتا ہے؟
3-اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں یہ وضاحت فرمادی ہے کہ اس نے انھیں بعثت سے پہلے عہد طفولیت ہی میں رشد وہدایت سے نواز دیا تھا۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَقَدۡ ءَاتَیۡنَاۤ إِبۡرَ ٰ⁠هِیمَ رُشۡدَهُۥ مِن قَبۡلُ وَكُنَّا بِهِۦ عَـٰلِمِینَ”۔ (الأنبياء: 51)

“یقیناً ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور ہم اس کے احوال سے بخوبی واقف تھے”۔
من قبل: أي: من صغره ألهمه الحق والحجة على قومه”۔ (ابن كثير: 5/441)
ایک اور مقام پر فرمایا: إِذۡ جَاۤءَ رَبَّهُۥ بِقَلۡبࣲ سَلِیمٍ”۔ (الصافات: 84)“جب وہ اپنے رب کے پاس بے عیب دل لایا”۔
مزید فرمایا: “وَمَا كَانَ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِینَ “۔ (الأنعام: 161)
“اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا”۔
چنانچہ زمانہ ماضی کی نفی پورے زمانے ماضی کی نفی کو شامل ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی شرک نہیں کیا تھا۔ (أضواء البيان: 2/201)
ابن کثیر رحمہ اللہ اسی قول کی تائید کرتے ہیں۔
ان کے کلام کا ماحصل یہ ہے کہ:
– ابراہیم علیہ السلام اس مقام پر اپنی قوم سے مناظرہ کر رہے تھے اور اس بات کو واضح فرما رہے تھے کہ جن مجسموں اور بتوں کی تم عبادت کرتے ہو وہ سراسر باطل ہیں۔
– سب سے پہلے اپنے باپ کی مجسموں کی عبادت کرنے کی وجہ سے غلطی اور گمراہی کو بیان کیا۔
– اس کے بعد اپنی ستارہ پرست قوم کی طرف متوجہ ہوئے جو ساتوں ستارے عطارد، زہرہ، سورج، مریخ، مستری اور زحل کی پرستش کرتے تھے۔ چنانچہ پہلے زہرہ کی حقیقت واضح فرمائی کہ یہ “الہ” ہونے کے قابل نہیں ہے کیونکہ یہ تو ایک متعین رفتار کے ساتھ ایک مخصوص وقت کے لیے مسخر ہے جس سے یہ ذرہ برابر بھی دائیں بائیں نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے اپنے آپ پر تصرف کا اختیار حاصل ہے، بلکہ یہ تو ان اجرام فلکی میں سے ایک ہے جنھیں رب العزت نے اپنی عظیم حکمتوں اور مصلحتوں کے لیے پیدا فرمایا ہے۔
پھر اسی طرح چاند کے بارے میں بھی وضاحت فرمائی اور اخیر میں سورج کی طرف متوجہ ہو کر اس کے بھی الہ ہونے کی نفی فرمائی، اور جب قطعی دلیل سے ان تینوں اجرام فلکی کے معبود ہونے کی نفی ہوگئی تو فرمایا: “یَـٰقَوۡمِ إِنِّی بَرِیۤءࣱ مِّمَّا تُشۡرِكُونَ”۔ (الأنعام: 77)“بے شک میں تمھارے شریک سے بیزار ہوں”۔
یعنی: میں ان شرکاء سے، ان کی عبادت سے، ان کی عقیدت سے اور ان کی محبت سے بیزار ہوں، اور اگر یہ سچے معبود ہیں اور کچھ قدرت رکھتے ہیں تو ان سب کو ملا لو اور جو تم سب سے ہوسکے میرے خلاف کر لو۔ میں تو اس اللہ کا عابد ہوں جو ان مصنوعات کا صانع اور ان مخلوقات کا خالق ہے جو ہر چیز کا مالک، رب اور سچا معبود ہے”۔ (ابن کثیر: 3/292)
مزید فرمایا: یہ تو بالکل بعید بات ہے کہ ابراہیم علیہ السلام حقیقت میں اللہ کو پہچانتے ہی نہ تھے، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “وَلَقَدْ ءَاتَيْنَآ إِبْرَهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَـلِمِينَ ـ إِذْ قَالَ لاًّبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَـذِهِ التَّمَـثِيلُ الَّتِى أَنتُمْ لَهَا عَـكِفُونَ”۔ (الأنبياء:51-52)
‏‏‏‏”ہم نے پہلے سے ابراہیم کو سیدھا راستہ دے دیا تھا اور ہم اس سے خوب واقف تھے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا یہ صورتیں کیا ہیں جن کی تم پرستش اور مجاورت کر رہے ہو؟
جبکہ دوسرے مقام پر ہے: “إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ”۔ (النحل:120)
“بے شک ابراہیم پیشوا، اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھا، وہ مشرکوں میں نہ تھا۔
صحیحین میں ہے:“كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ “۔ (صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْجَنَائِزُ | بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلَادِ الْمُشْرِكِينَ: 1385)“ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے”۔
حدیث قدسی میں ہے: وَإِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ “۔ (صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْجَنَّةُ وَصِفَةُ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا | بَابٌ: الصِّفَاتُ الَّتِي يُعْرَفُ بِهَا فِي الدُّنْيَا أَهْلُ الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ: 2865)“میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا ہے”۔
کتاب اللہ میں ہے: “فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ “۔ (الروم:30)
“اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فطرت اللہ پر پیدا کیا ہے، اللہ کی خلق کی تبدیلی نہیں”۔
دوسرے مقام میں ہے:“وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى”۔ (الأعراف: 172)
‏‏‏‏”اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں”۔
چنانچہ جب یہ بات تمام مخلوق کے حق میں کہی گئی تو پھر ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جن کی توحید اور اللہ پرستی کا ثنا خواں خود کلام رحمن ہے جن کو رب العزت نے پیشوا، فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص اور شرک سے بیزار بنایا تھا۔
ان کی نسبت کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اللہ جل شانہ سے آگاہ نہ تھے اور کبھی تارے کو اور کبھی چاند سورج کو اپنا اللہ سمجھ رہے تھے اور رب کی معرفت کے لیے کوشاں تھے۔ بلکہ وہ بلا شک وشبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ فطرت سلیمہ سے قریب تر تھے اور اس مقام پر وہ اپنی مشرک قوم سے مناظرہ کر رہے تھے نہ کہ بذات خود بحث واستدلال کر رہے تھے”۔ (ابن كثير: 3/293)
علامہ سعدی رحمہ کہتے ہوئے: وهو أن المقام مقام مناظرة، من إبراهيم لقومه، وبيان بطلان إلهية هذه الأجرام العلوية وغيرها. وأما من قال: إنه مقام نظر في حال طفوليته، فليس عليه دليل”۔
“یہ مقام حضرت ابراہیم کی طرف سے اپنی قوم کے ساتھ مناظرے کا مقام تھا اور مقصد اجرام فلکی وغیرہ کی الوہیت کا بطلان تھا، رہا ان لوگوں کا موقف جو کہتے ہیں کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کے ایام طفولت میں غور وفکر کا مقام تھا تو اس پر کوئی دلیل نہیں ہے”۔
مزید فرماتے ہیں: قَالَ هَذَا رَبِّي. أي: على وجه التنزل مع الخصم أي: هذا ربي، فهلم ننظر، هل يستحق الربوبية؟ وهل يقوم لنا دليل على ذلك؟ فإنه لا ينبغي لعاقل أن يتخذ إلهه هواه، بغير حجة ولا برهان”۔
“یعنی: انھوں نے دلیل کی خاطر مد مقابل کے مقام پر اترتے ہوئے کہا تھا: “یہ میرا رب ہے” آو! ہم دیکھیں کہ کیا یہ ربوبیت کا مستحق ہے؟ کیا ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل ہے جو اس کے رب ہونے کو ثابت کردے؟ کیونکہ کسی عقلمند کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ بغیر کسی حجت وبرہان کے اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنالے”۔ (تفسير سعدي ص: 262)
یہی موقف زیادہ درست اور نص سے قریب تر معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم بالصواب

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Mojd sawood

Ma sha Allah allah qalm maim khub tarqqia ata farmaye

Mohd sawood

بہت عمدہ تحریر ہے ماشاءاللہ