رمضان کے ایام میں بیوی سے ہمبستری کے احکام

حسان عبدالغفار رمضانیات

اگر کوئی شخص رمضان کے ایام میں طلوع فجر سے لے کر غروب شمس تک بیوی سے ہمبستری کرلے تو سخت گنہگار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا روزہ بھی فاسد ہوجائے گا، جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكْتُ. قَالَ : ” مَا لَكَ ؟ ” قَالَ : وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً تُعْتِقُهَا ؟ ” قَالَ : لَا. قَالَ : ” فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ؟ ” قَالَ : لَا. فَقَالَ : ” فَهَلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا ؟ ” قَالَ : لَا. قَالَ : فَمَكَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهَا تَمْرٌ – وَالْعَرَقُ : الْمِكْتَلُ – قَالَ : ” أَيْنَ السَّائِلُ ؟ ” فَقَالَ : أَنَا. قَالَ : ” خُذْهَا فَتَصَدَّقْ بِهِ “. فَقَالَ الرَّجُلُ : أَعَلَى أَفْقَرَ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَوَاللَّهِ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا – يُرِيدُ الْحَرَّتَيْنِ – أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي. فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ ثُمَّ قَالَ : ” أَطْعِمْهُ أَهْلَكَ “
( صحيح البخاري:۱۹۳۶)ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں تو تباہ ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا بات ہوئی؟ اس نے کہا کہ میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا تمھارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کر سکو؟ اس نے کہا نہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا لگاتار دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت ہے؟ اس نے اس کا جواب بھی انکار میں دیا، راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گئے، ہم بھی اپنی اسی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( عرق نامی) ایک تھیلا پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں ۔ عرق تھیلے کو کہتے ہیں – (جسے کھجور کی چھال سے بناتے ہیں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسے لے لو اور صدقہ کر دو ، اس شخص نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں، بخدا ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی بھی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہنس پڑے کہ آپ کے آگے کے دانت دیکھے جا سکے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اچھا جاؤ اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو۔
ابو داؤد کے الفاظ میں ہے:
كُلْهُ أَنْتَ وَأَهْلُ بَيْتِكَ، وَصُمْ يَوْمًا، وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ “
( سنن أبي داود:۲۳۹۳/صححه الألباني في صحيح سنن أبي داؤد:۲/۶۷)اسے تم اور تمھارے گھر والے کھاؤ اور ایک دن کا روزہ رکھ لو اور اللہ سے بخشش طلب کرو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص نے رمضان کے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا تو اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا ، لہذا اس پر روزے کی قضا اور کفارہ دونوں ضروری ہے۔
لیکن یہ عام نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ شرائط بھی ہیں:
(۱)وہ ان لوگوں میں سے ہو جن پر روزہ لازم ہے ،چنانچہ اگر اس پر روزہ لازم نہیں ہے، جیسے بچے تو ان پر نہ تو قضا ہے اور نہ ہی کفارہ ۔
(۲)وہاں پر روزے کو ساقط کرنے والی کوئی چیز نہ ہو، چنانچہ اگر کوئی حالت سفر میں روزے سے ہے اور بیوی سے جماع کر لیتا ہے، یا ایسا مریض جس کے لیے بیماری کی وجہ سے روزہ توڑنا حلال ہے، لیکن پھر بھی روزہ رکھے ہوئے ہے اور بیوی سے جماع کر لیتا ہے تو ان پر نہ تو گناہ ہے اور نہ ہی کفارہ ہے بلکہ صرف قضا ہے۔
(۳)جماع قبل یا دبر میں ہو۔ خواہ وہ حلال ہو، یعنی : اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرے، یا حرام ہو یعنی: زنا کرے۔ (الشرح الممتع :۶/۳۹۹)
سوال: جب شوہر اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرے تو کیا اس پر بھی قضا اور کفارہ ہوگا؟
جواب : جس خاتون کے ساتھ خاوند نے رمضان میں دن کے وقت جماع کیا ہے، وہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگی۔
۱۔کہ عورت بھول جائے، یا جبراً جماع کیا جائے، یا پھر اسے رمضان میں دن کے وقت جماع کے حرام ہونے کا علم نہ ہو تو اس بنا پر اسے معذور سمجھا جائے گا، اور ایسی حالت میں اس کا روزہ درست ہوگا، اسے قضا یا کفارہ نہیں دینا پڑے گا۔
اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
(۱)فرمان باری تعالی ہے:
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ إِن نَّسِینَاۤ أَوۡ أَخۡطَأۡنَاۚ
(البقرة:۲۸۶)اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں ، یا غلطی کر بیٹھیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔
(۲)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِذَا نَسِيَ فَأَكَلَ وَشَرِبَ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ ؛ فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ
(صحيح البخاري:۱۹۳۳)جب کوئی بھول گیا اور کچھ کھا پی لیا تو اسے چاہیے کہ اپنا روزہ پورا کرے۔ کیونکہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا۔
چناں چہ جماع اور دیگر تمام روزے کو فاسد کرنے والی اشیاء کو کھانے پینے پر قیاس کیا جائے گا۔
(۳)ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ
(سنن ابن ماجہ:۲۰۴۵/صححه الألباني في صحيح ابن ماجہ:۲/۱۷۸)بے شک اللہ نے میری امت سے بھول چوک اور زبردستی کرائے گئے کام کو معاف کر دیا ہے۔
ابن باز رحمہ اللہ سے ایسے خاوند کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کے ساتھ زبردستی جماع کیا، تو انھوں نے جواب دیا:
’’۔۔۔ اگر عورت کے ساتھ زبردستی کی گئی توعورت پر کچھ نہیں ہوگا اور اس کا روزہ بھی صحیح ہوگا۔‘‘ (مجموع فتاوى ابن باز :۱۵/۳۱۰)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ رمضان میں دن کے وقت جماع کرنے کے بارے میں کہتے ہیں:
’’اگر عورت لاعلمی، بھول چوک، یا جبر کی وجہ سے معذور ہو تو اس پر قضا نہیں ہوگی اور نہ ہی کفارہ ہوگا۔‘‘ ( الشرح الممتع:۶/۴۰۴)
۲۔عورت جماع کے لیے راضی ہو، تو ایسی حالت میں صحیح قول کے مطابق قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوگا ۔
اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
(۱)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرنے والے شخص کو کفارے کا حکم دیا، اور اصول یہ ہے کہ مرد و خواتین احکامات میں ایک دوسرے کے مساوی ہوتے ہیں، الّا کہ شریعت کسی کو واضح لفظوں میں مستثنی قرار دے دے۔
اسی بنا پر اگر کوئی شخص کسی دوسرے آدمی پر زنا کی تہمت لگا دے اور چار گواہ پیش نہ کرسکے تو اسے اسی کوڑے لگائے جائیں گے، باوجود اس کے کہ آیت عورتوں کے بارے میں ہے:
وَٱلَّذِینَ یَرۡمُونَ ٱلۡمُحۡصَنَـٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَأۡتُوا۟ بِأَرۡبَعَةِ شُهَدَاۤءَ فَٱجۡلِدُوهُمۡ ثَمَـٰنِینَ جَلۡدَةࣰ وَلَا تَقۡبَلُوا۟ لَهُمۡ شَهَـٰدَةً أَبَدࣰاۚ
(النور:۴)جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں، پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انھیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔
(۲)اس خاتون نے بھی جماع کے ذریعے رمضان کی حرمت کو پامال کیا ہے، تو اس پر بھی مردوں کی طرح کفارہ لازم ہوگا۔
(۳)چونکہ کفارہ جماع سے متعلقہ سزا ہے، تو اس میں بھی زنا کی طرح مرد وخواتین کا ایک ہی حکم ہوگا۔
چنانچہ بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَامْرَأَةٌ طَاوَعَتْ غَيْرَ جَاهِلَةٍ الْحُكْمَ أَوْ غَيْرَ نَاسِيَةٍ الصَّوْمَ كَرَجُلٍ فِي وُجُوبِ الْقَضَاءِ وَالْكَفَّارَةِ ، لِأَنَّهَا هَتَكَتْ حُرْمَةَ صَوْمِ رَمَضَانَ بِالْجِمَاعِ مُطَاوِعَةً ، فَأَشْبَهَتْ الرَّجُلَ
(شرح منتهى الإرادات :۱/۴۸۶)ایسی عورت جسے جماع کے حکم کا علم ہو، اسے بھول نہ لگی ہو اور اس کے لیے راضی بھی ہو ، تو اس پر بھی مرد کی طرح قضا اور کفارہ لازم ہوگا، کیوں کہ اس نے بھی رضا مندی کے ساتھ رمضان کی حرمت کو جماع کے ذریعے پامال کیا ہے، اس لیے اس کا حکم بھی مرد جیسا ہی ہوگا۔
اور اگر کوئی کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کو کفارے کا حکم دیا ، جبکہ عورت کے بارے میں کفارے کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ ’ تأخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز‘(ضرورت کے وقت وضاحت میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے) اور یہ ممکن نہیں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت کے ہوتے ہوئے بھی وضاحت کو مؤخر فرمادیں ۔
تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ عورت کے لیے کفارے کا ذکر اس لیے نہیں ہوا کہ مرد نے اپنے بارے میں فتوی پوچھا تھا، عورت نے نہیں پوچھا تھا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ عورت اس قصہ میں جبر کی وجہ سے معذور رہی ہو، لیکن اگر معذور نہ رہی ہو تو اس کے فتوی دریافت نہ کرنے کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سکوت اختیار کیا ہو اور یہ نہ کہا ہو کہ اس عورت پر بھی کفارہ ہے، کیونکہ فتوی کے اندر دوسرے شخص کے تعلق سے بحث کرنے کی شرط نہیں لگائی جاتی ہے ۔(الشرح الممتع:۶/۴۰۲)
کفارے کی تین قسمیں ہیں:
(۱)ایک غلام آزاد کرنا۔
(۲)مسلسل دو مہینے کا روزہ رکھنا۔
چنانچہ بغیر کسی شرعی عذر کے درمیان میں روزہ توڑ دینا جائز نہیں ہے اور اگر کسی نے بغیر عذر شرعی کے درمیان میں ایک روزہ چھوڑ دیا تو پھر اسے دوبارہ نئے سرے سے روزہ رکھنا پڑے گا ۔
سوال : عذر شرعی کیا ہے؟
جواب : عذر شرعی جیسے ایام عیدین و ایام تشریق، اسی طرح عذر حسی جیسے بیماری، سفر اور عورت کا حیض و نفاس سے ہونا۔
(۳)ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ۔
لیکن اگر کسی کے پاس ان تینوں میں سے کسی ایک کی بھی طاقت نہ ہو یعنی : نہ تو وہ غلام آزاد کر سکتا ہو، نہ ہی مسلسل دو مہینے کا روزہ رکھ سکتا ہو اور نہ ہی ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہو تو ایسی صورت میں اس پر سے کفارہ ساقط ہو جائے گا ۔
کیونکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
لَا یُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفۡسًا إِلَّا وُسۡعَهَاۚ
(البقرة:۲۸۶)اللہ تعالٰی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
نیز قاعدہ بھی ہے کہ ’ لا واجب مع عجز‘:عاجزی اور عدم استطاعت کی وجہ سے واجبات ساقط ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غریب شخص سے – جس نے اپنی بیوی سے دن میں جماع کر لیا تھا- پوچھا کہ : ’’کیا تمھارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کر سکو؟ اس نے کہا نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا لگاتار دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت ہے؟ اس نے اس کا جواب بھی انکار میں دیا۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ عدم استطاعت کی بنا پر تمام کفارات ساقط ہو جاتے ہیں ۔

آپ کے تبصرے

3000