قصد و ارادہ اور اختیار کے ساتھ منی خارج کرنے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہےچاہے وہ بوسہ دینے اور لینے کی وجہ سے ، یا ہاتھ سے نکالنے کی وجہ سے، چھونے کی وجہ سے یا کسی اور ذریعے سے، کیونکہ یہ شہوت ہے جس سے بچے بغیر روزہ درست نہیں ہوسکتا ہے۔
جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : الصَّوْمُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَأَكْلَهُ وَشُرْبَهُ مِنْ أَجْلِي ( صحيح البخاری:۷۴۹۲) اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ روزہ خالص میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں ، بندہ اپنی شہوت، کھانا پینا میری خاطر چھوڑتا ہے۔
چونکہ منی کا اخراج بھی اسی شہوت میں سے ہے جسے روزہ دار کھانے اور پینے کی طرح ترک کرتا ہے۔ لہذا جس نے بھی رمضان المبارک میں دن کو روزہ کی حالت میں مشت زنی کی اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس دن کو بغیر کھائے پیے ہی رہے اور بعد میں اس کی قضا بھی دے۔اور اگر وہ مشت زنی شروع ہی کرے پھر انزال سے قبل ہی رک جائے اور انزال نہ ہوا ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے، انزال نہ ہونے کی وجہ سے اس پر اس روزہ کی قضا نہيں۔
لیکن اگر بوسہ لینے یا چھونے سے منی خارج نہ ہو تو روزہ فاسد نہیں ہوگا، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُوَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ (صحيح البخاری:۱۹۲۷)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے لیکن (اپنی ازواج کے ساتھ) تقبیل (بوسہ لینا) و مباشرت (اپنے جسم سے لگا لینا) بھی کر لیتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے۔
یاد رہے کہ مقبِل یعنی بوسہ لینے یا دینے والے شخص کی تین حالتیں ہو سکتی ہیں:
۱۔بوسہ لینے یا دینے کی وجہ سے منی خارج ہو جائے، تو ایسی صورت میں اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اور باطل بھی ہو جائے گا۔
۲۔بوسہ لینے یا دینے کی وجہ سے منی خارج نہ ہو، تو ایسی صورت میں نہ تو روزہ ٹوٹے گا اور نہ فاسد ہوگا۔
۳۔بوسہ لینے یا دینے کی وجہ سے ’مذی‘ خارج ہو جائے تو ایسی صورت میں علماء کے دو اقوال ہیں، لیکن درست بات یہ ہے کہ’مذی‘ نکلنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ اسی قول کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد ابن مفلح وغیرہ نے اختیار کیا ہے اور ابن باز رحمہ الله نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ (المغني لابن قدامہ:۴/۳۶۰-۳۶۳، كتاب الفروع لابن مفلح :۵/۱۰، المختارات الفقهية لابن تيمية، ص:۱۶۰، بحوالہ: الصيام في الإسلام ،ص:۱۷۶)
خلاصہ کلام یہ کہ اگر انسان کے اندر ضبط اور کنٹرول کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے تو اسے لمس اور بوس وکنار سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ معصیت کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کو ہلاک ہونے سے بچا سکے ، غالبا اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روزے دار نوجوان کو مباشرت (بیوی کو چھونے اور اس سے چمٹ کر لیٹنے ) سے منع کر دیا جبکہ بوڑھے شخص کو اجازت دے دی، جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُبَاشَرَةِ لِلصَّائِمِ فَرَخَّصَ لَهُ، وَأَتَاهُ آخَرُ فَسَأَلَهُ فَنَهَاهُ، فَإِذَا الَّذِي رَخَّصَ لَهُ شَيْخٌ وَالَّذِي نَهَاهُ شَابٌّ (سنن أبی داود:۲۳۸۷،قال الألباني في صحيح سنن أبي داؤد:۲/۶۵’ حسن صحيح‘) ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روزہ دار کے بیوی سے چمٹ کر سونے کے متعلق پوچھا، آپ نے اس کو اس کی اجازت دی، اور ایک دوسرا شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے بھی اسی سلسلہ میں آپ سے پوچھا تو اس کو منع کر دیا، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی، وہ بوڑھا تھا اور جسے منع فرمایا تھا وہ جوان تھا۔
لیکن اگر کسی شخص کے اندر ضبط اور کنٹرول کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور بوس وکنار سے شہوت بھڑکنے کا بالکل بھی اندیشہ نہیں ہے تو ایسی صورت میں بوس وکنار میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
هَشِشْتُ فَقَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَنَعْتُ الْيَوْمَ أَمْرًا عَظِيمًا ؛ قَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ. قَالَ : أَرَأَيْتَ لَوْ مَضْمَضْتَ مِنَ الْمَاءِ وَأَنْتَ صَائِمٌ . قَالَ عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ فِي حَدِيثِهِ : قُلْتُ : لَا بَأْسَ بِهِ. ثُمَّ اتَّفَقَا : قَالَ : فَمَهْ؟(سنن أبی داود:۲۳۸۵ ،صححه الألباني في صحيح سنن أبي داؤد :۲/۶۵)میں خوش ہوا تو میں نے بوسہ لیا اور میں روزے سے تھا، میں نے کہا : اللہ کے رسول! میں نے تو آج بہت بڑی حرکت کر ڈالی، روزے کی حالت میں بوسہ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلا بتاؤ اگر تم روزے کی حالت میں پانی سے کلی کر لو ( تو کیا ہو گا)، میں نے کہا: اس میں تو کوئی حرج نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو بس کوئی بات نہیں۔
اسی طرح اگر حالت نیند میں یا مجرد سوچنے کی وجہ سے احتلام ہوجائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ ؛ عَنِ الْمَجْنُونِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ حَتَّى يُفِيقَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَحْتَلِمَ (سنن أبی داود:۴۴۰۱، صححه الألباني في إرواء الغليل:۲/۴ برقم :۲۹۷)قلم تین آدمیوں سے اٹھا لیا گیا ہے: مجنون سے جس کی عقل جاتی رہے یہاں تک کہ صحت یاب ہو جائے، سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، بچے سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَلِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَكَلَّمْ (صحيح البخاری:۲۵۲۸)اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جب تک وہ انھیں عمل یا زبان پر نہ لائیں۔
Mashallah