کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر

راشد حسن مبارکپوری سفریات

[شکستہ خامہ کے یہ افکار پریشاں سفر عمرہ سے واپسی پر حوالہ قرطاس کیے گیے تھے، نسیبہ راشد نے سیکھنے کی خاطر انھیں کمپوز کیا، مگر شومی قسمت دیکھیے، اصل اوراق بھی کہیں اوجھل ہوگئے اور لکھنے والے کے لیپ ٹاپ سے حروف بھی۔ اب چھ برس کی طویل مسافت کے بعد جو ہاتھ آئے تو شکستگی اور بکھراؤ کے باوصف ہدیہ قارئین ہے۔ اصل تحریر میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے]

24 مارچ 2014 کو بغرض عمرہ سرزمین مقدس دیار توحید سعودی عرب کا سفر ہوا، 24 کو سرشام اندراگاندھی ایئرپورٹ سے مسلسل چار گھنٹہ اڑان اور ریاض میں کچھ دیر وقفہ  کے بعد جدہ ایئرپورٹ پر نزول ہوا۔ جدہ ایئرپورٹ پر ضروری کاروائی میں رات کا اکثر حصہ گزر گیا، سپیدۂ صبح نمودار ہوتے ہوتے مکۃالمکرمہ کی پاکیزہ سرزمین پر پہنچ گئے، ہوٹل “برج الفضیلۃ” جو حرم مکی سے قریب ہی تھا، وہیں قیام ہونا تھا، قیام ہوا۔
چونکہ نیت عمرہ کی تھی اس لیے دہلی ایئرپورٹ پر ہی احرام باندھ لیا گیا، وہیں دہلی میں عصر کی نماز پڑھی گئی، ہمارے ساتھ دہلی کے چند احباب بھی تھے، انھوں نے بھی اس سلسلہ میں اقتدا کی، مغرب کی اذان و اقامت کے مابین غالبا جہاز نے پرواز شروع کی، سعودی ایئرلاینس میں داخل ہوتے ہی اسلامی تہذیب و ثقافت کی نمایاں جھلک نظر آنے لگی۔ اڑان سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ پوری دعائے سفر جہاز کی جانب سے پڑھی گئی، دعائے سفر کی حقیقی کشش اور معنی خیزی کا اندازہ اس وقت ہوا، اور کافی دیر تک دعائے سفر کے یہ پیارے کلمات ذہن و دماغ میں گونجتے رہے:سُبْحَانَ الذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا، وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الأَهْلِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعَثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالأَهْلِ (مسلم،ابوداود)
وہ ذات پاک ہے جس نے اس کو ہمارے زیر فرمان کردیا حالاں کہ ہم میں طاقت نہ تھی کہ اس کو بس میں کر لیتے اور ہم اپنے  پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ ہم اپنے اس سفر میں نیکی، تقویٰ اور تیرے پسندیدہ عمل کا سوال کرتے ہیں، اے اللہ ہمارے لیے اس سفر کو آسان فرما، اس کی دوری کو لپیٹ دے، اے اللہ تو ہی سفر میں ہمارا ساتھی ہے اور ہمارے گھر والوں کا محافظ۔ اے اللہ میں سفر کی صعوبتوں، برے اور غم آنگیں منظر اور گھر والوں اور مال میں برے حالات سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
اس کے بعد فورا غسل کرکے ہم لوگ بے پناہ تھکان کے باوجود احرام باندھے حرم کی طرف چل پڑے، وفورِ شوق وجذب اندروں سے دل کی کیفیت بھی عجیب تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بیت اللہ شریف کا دیدار ہونے کو تھا، تھوڑی دور پیدل چلنے کے بعد حرم پہنچے، اب حرم اپنی تمام تر جلوہ خیزیوں اور خیرہ نگاہوں کے ساتھ ہمارے سامنے تھا۔ یہ وہ مقام مقدس ہے جہاں پہنچ کر دنیا کی ساری رنگینیاں ودلفربیاں بے وقعت ہوجاتی ہیں، یہ ایک ایسا جام مبارک ہے جسے ہونٹوں سے لگانے کی ہر شخص کو خواہش ہوتی ہے، جہاں ہر شخص فقیرانہ حاضر ہوتا ہے، یہاں ہر شخص حاکم ہو یا محکوم بادشاہو یا رعایا، امیر ہو یا غریب، ہر فرد رب واحد کے سامنے جھکا ہوتا ہے، اس کے گن گاتاہے، اسی کی بارگاہ میں اپنی جبین نیاز خم کرتا ہے، کتنے ہی ظالم و تمرد کا ظلم وسرکش یہاں آکر ختم ہو جاتا ہے، اسی اپنے رب واحد کی یاد آتی ہے، اور اس کے سامنے بہائے جانے والے آنسووں اور دل سے نکلنے والی آہوں کو وہ اپنی زندگی کی گرانقدر متاع سمجھتا ہے، اس کے پاکیزہ گھر کے سامنے جھکی ہوئی گردن اور آنکھوں کے عرق انفعال کو زیست کا سب سے قابل فخر سرمایہ سمجھتا ہے۔
الہی! تیرے اس مبارک گھر کی کیا شان ہے جہاں لوگ لٹے پٹے پہنچتے ہیں اور تو سب کی سنتا ہے۔
الہی! تیرے محبوب کا یہ قطعہ زمین لوگوں کے دلوں میں کس قدر عظمت رکھتا ہے۔ کاش تیرے جاہ وجلال کا یہ مقام بلند دنیا کے ہر دل اور مقام پہ ہوجائے کہ مسلمان اپنی اس موجودہ ذلت ونکبت سے دور ہوسکیں، ایمان و یقین کی باد بہاری کو وہ دوبارہ لوٹاسکیں، اور ایمانی جذبہ و شوق کی پر نور کیفیت دوبارہ پیدا کرسکیں۔ قلم بہک گیا، اب ہم حرم مقدس میں داخل ہوچکے ہیں، حرم کو دیکھنے پر کوئی دعا نہیں پڑھی گئی، حجر اسود کے محاذاۃ میں سبز لائٹ لگی ہے، جہاں سے طواف شروع کرنا ہے، مسنون دعا پڑھ کر طواف کا آغاز کیا گیا۔ حجر اسود کے لیے اشارہ، استلام اور تقبیل تینوں چیزیں ثابت ہیں، انسانی ہجوم میں اشارہ اور استلام ہی ہوسکا،  تقبیل کی باری شاید ایک آدھ بار آسکی، طواف کے سات شوط مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے قریب دو رکعت مسنون نماز ادا کی گئی، اس کے بعد سعی بین الصفا والمروہ کی باری آئی، اس کے بھی سات شوط مکمل کیے گئے، وہاں رمل (دلکی چال) کے لیے سبز لائٹ لگی ہوئی ہے۔ یہ مقام دراصل حضرت ہاجرہ کی یاد زندہ کرتا ہے، جہاں وہ پانی کی تلاش میں صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا کو آتی تھیں۔ پہلے یہ دو پہاڑیاں تھیں اب ایک بند عمارت بنادی گئی ہے، اور مکمل ائیرکنڈیشنڈ ہے جس سے کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا ہے، حکومت نے ہر جگہ راحت رسانی کے سارے سامان مہیا کر رکھے ہیں، پہاڑیاں جہاں ہیں وہاں قدرے اونچائی سے بقیہ حصے برابر ہیں۔ حرم میں داخلہ کے بعد ہی ہمارے رفقائے سفر بچھڑ گئے مگر مشکل یہ تھی کہ ہمارے پاس کوئی بیگ نہیں تھا لہٰذا ہمارا کل سرمایہ انہی کے پاس تھا، اب حلق کی باری تھی، چند ثانیے مسکراتے چہرے سامنے آگئے، پھر ساتھ ساتھ گئے اور بڑی مشکل سے پانچ پانچ ریال میں بال حلق کرائے گئے، اس کے بعد تھکے ماندے ایک ہوٹل میں کھانا ہوا اور رہائشی ہوٹل میں آکر دراز ہوگئے۔ پھر شام میں بیداری اور غسل کے بعد حرم کی طرف روانہ ہوئے، ہوٹل سے مکہ ٹاور بالکل قریب معلوم ہوتا تھا، حرم کا راستہ ہوٹل سے تقریباً ٢٠ منٹ پا پیادہ کا تھا، سفر سے قبل ہی یہ مکمل کوشش کی گئی تھی کہ کسی سے بھی ملاقات کے بجائے حرم میں عبادت اور ریاضت میں سارے اوقات گزارے جائیں لیکن جوں جوں احباب کو پتہ چلا ملاقاتوں کا سلسلہ بھی بڑھتا ہی رہا۔ پہلے دوسرے دن برادر گرامی قدر شیخ عمر فاروق اعظمی (فاضل جامعہ سلفیہ و ماجستر جامعہ ام القریٰ) سے ملاقات ہوئی، حرم میں خود ہی تشریف لے آئے اور نہایت برادرانہ اور تپاک سے ملے، اور مختلف موضوعات پر گفتگو رہی اور ان کے یہاں پر تکلف دعوت بھی رہی اور ان کے ذریعے کافی آسانیاں بھی ہوئیں۔ جب  تک رہے وقتاً فوقتاً ساتھ رہا، اسی طرح برادرم ارشاد احمد عبدالرشید (فاضل جامعہ سلفیہ و طالب جامعہ ام القریٰ، مکہ) سے محبت و اخوت بھرا ساتھ رہا، برادرم جامعہ سلفیہ میں میرے محسن اور حد درجہ قریب رکھتے تھے، ان کا جب بھی ساتھ رہا ایک بڑے بھائی کی عنایتیں اور محبتیں ساتھ ساتھ رہیں، اللہ جزائے خیر دے۔ اس طرح جامعہ ام القریٰ کے درجات علیا کے دیگر طلبہ اور دیگراخوان سے بھی ملاقاتیں رہیں۔
وقت کم  تھا کہ سات دن مکہ میں اور سات دن مدینہ میں گزارنے تھے، اس لیے پوری کوشش اور خواہش تھی کہ ملاقات کی بجائے زیادہ سے زیادہ وقت حرم مقدس میں صرف کیا جائے، کبھی کبھی پورا دن کھجور اور پانی پر گذارا ہوا اور حرم مقدس کی پاکیزہ فضا اور پرنور ماحول نے ہر طرح کی بھوک، پیاس اور حاجت سے بے نیاز کر رکھا تھا۔ حرم میں تلاوت کا مزہ ناقابل وصف تھا، نماز کے لطف کا تو کیا کہنا، ائمہ حرمین خاص کر شیخ ماہر العقیلی امامت فرماتے تو لطف دو چند ہوجاتا۔ الٰہی! تیری نازل کردہ کتاب کی لذت تو یہاں آکر محسوس ہوئی، صنم کدۂ ہند نے آشنائی کی ساری لذتیں بے کیف کر رکھی تھیں، مگر یہاں تو ہر طرف آشنائی کی لذتیں بکھری تھیں۔ ادھر کوئی مصروف  دعا ہے، ادھر مصروف تلاوت اور وہاں نماز میں مشغول ہے، اللہ اللہ … کیف و سرور کی یہ لذتیں کیا اب دوبارہ حاصل ہو سکیں گی، ایمان و ایقان کی وہ سعادتیں دوبارہ دامن گیر ہوسکیں گی، یہ روحانی ساعتیں کیا پھر سے میسر ہوسکیں گی، دل نے کہا رب اپنے بندے کو محروم کرنے کا عادی نہیں، اگر بندہ مایوسی کا شکار نہ ہو، گوش شنو کے لیے رب کی یہ صدا بار بار آتی ہے، تم مجھے پکارو میں تمھاری پکار کا جواب دوں گا۔ جو لوگ دعا سے استکبار کرتے وہ ذلیل وخوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے، اور یہ بھی … میں تمھاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔
حرم میں نماز سے فراغت کے بعد متعدد ارباب علم و فضل کے دروس میں حاضری ہوتی تھی، ایک اہل علم کا حرم کے شروع میں ترکی عمارت میں تفسیر کا درس ہوا کرتا تھا، علمی استحضار کی ایسی نادر مثال شاید نہ دیکھی ہو، ہر چیز کی تشریح حدیث سے، اور حدیث بھی پوری سند کے ساتھ، مزید برآں پوری تخریج اور الفاظ کا اختلاف بھی واضح فرماتے، خالص علمی ومنہمی درس، اس طرح کے دروس علمی افق کو وسعت دیتے ہیں اور علمائے سلف کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ یادش بخیر! علامہ البانی، امام ابن باز اور علامہ العثیمین کے دروس کا کیا حال ہوگا، جن کی علمی عظمت، تقویٰ وصالحیت کے سامنے پوری دنیا سرنگوں ہے۔ دادا محترم حضرت مولانا عبدالرحمٰن رحمانی مبارکپوری نے بتایا کہ ابا جان (شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوریؒ) جب حج کے لیے تشریف لے گئے تو اہل علم نے ان کا بے حد اعزاز کیا، خصوصاً شیخ ابن باز اور شیخ البانی تو بچھ بچھ جاتے تھے۔ ایک محفل سوالات میں شیخ البانی نے شیخ صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا «مادام الشیخ موجوداً لا  أجیب عن شيء» جب تک شیخ اس محفل میں ہوں گے وہی جواب دیں گے ہم نہیں۔ بات دوسری طرف نکل گئی۔ الحاصل حرم میں جس کے درس میں بھی بیٹھے، درس علمی، منہجی اور خالص سلفی رہا۔ ایک درس میں ایک منچلے صاحب نے «وہابیہ» کے بارے میں سوال کیا تو مدرس نے جواب دیا «الفرقة الوھابیة لا نعرف عنھا شیئا، أما الوھابیة المنسوبة من جھة الأعداء إلی الشیخ محمد بن عبد الوھاب، فالنسبة غیر صحیح، ولا تجد شیئا من مؤلفات الإمام محمد بن عبدالوھاب ما یخالف الکتاب و السنة، فإنھا دعوۃ محضة إلی الکتاب و السنة»اور اس کے علاوہ بہت کچھ کہا اور اظہارِ ناراضگی بھی کی۔ ان اہل علم کے دروس بڑے قیمتی اور اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔

أحب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا

ہمارے فاضل گرامی محترم  محمد فیصل (بھدوہی) سے اتصال ہوا، جامعہ سلفیہ کے فارغین اور برادرم بھائی محترم شیخ صہیب حسن مدنی کے ہم نوالہ وہم پیالہ دوستوں میں سے ہیں اور خود ہمارے قریبی عزیز بھی ہیں۔ اس وقت سعودی میں ہندوستانی سفارتخانہ کے اہم ذمہ دار ہیں، اور بہت بڑی شخصیات جن میں ائمہ حرمین شیخ سدیس وشریم سے ان کے گہرے مراسم ہیں۔ حرم کے قریب عزیزیہ شمالیہ میں مقیم ہیں، انھوں نے کئی پر تکلف دعوتیں کیں اور بسا اوقات دیر رات گفتگو کرنے کی وجہ سے وہاں قیام بھی کرنا پڑا۔ ان کی بڑی کرم فرمائیاں رہیں، بڑے اہل علم سے ملاقات کے لیے کہا خصوصاً جامعہ ام القریٰ کے عمید و اساتذہ سے، مگر طبیعت وقت کی قلت کی وجہ سے زیادہ مائل نہ ہوسکی۔ البتہ شیخ ہاشم الأہدل (جو جامعہ ام القریٰ کے اساتذہ میں سے ہیں) سے ملاقات کی خواہش رہی کہ وہ خود خالص سلفی ہیں اور ہندوستانی سلفیوں سے بڑی قربت اور محبت رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ البتہ محقق زماں شیخ محمد عزیز شمس حفظہ اللہ سے ملاقات کی راہ نکل آئی، غالباً فیصل بھائی نے تعارفی فون پہلے ہی کردیا تھا، فون کیا تو بڑی گرمجوشی سے گفتگو کی۔ شیخ عمر فاروق اعظمی کے ساتھ ان کے دولت کدہ پر جانا طے ہوا، رات  قدرے تاخیر سے پہنچے، شیخ نے نہایت پر تپاک استقبال کیا، آتے ہی کہا: ’’میں کل ہی سے تمھارا انتظار کر رہا تھا کہاں رہ گئے تھے‘‘۔ شیخ جامعہ سلفیہ کے ابنائے قدیم میں اور ابو محترم کے بے تکلف دوستوں میں سے ہیں۔ زمانہ طالب علمی ہی سے بے پناہ ذہانت و فطانت اور علمی محنتوں کے طفیل عالم اسلام میں بلند پایہ علمی وقار قائم کیا، اندازہ ہے کہ پچاس سے زائد تحقیقات اہل علم سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں، عرب دنیا کے متعدد اہل علم ان کا حد درجہ احترام کرتے ہیں، ان کی علمی پختگی وتبحر کے معترف ہیں اور ان کے سیال عربی قلم کے مداح بھی۔ ناچیز بچپن ہی سے ان سے حد درجہ عقیدت رکھتا ہے مگر اب تک ہزار چاہتوں کے باوصف طویل ملاقات کی کوئی راہ نہ نکل سکی تھی۔ ظاہر ہے یہ ملاقات اور ان کے ساتھ مجلس کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھی، دو تین گھنٹے علمی مجلس رہی، سننے کی زیادہ اور سنانے کی کم کوشش کی، اللہ تعالیٰ نے انھیں غضب کا قوت حافظہ اور علم کا استحضار دیا ہے، بالخصوص سیکڑوں رجال کے تاریخ وفیات وموالید انھیں ازبر ہیں۔ مرحوم مولانا اسحاق بھٹی نے بھی اپنی کتاب اولیات اہل حدیث میں اس خصوصیت کی طرف اشارہ کیا ہے، وہاں ہندوستان کے بہت سے اہل علم کا ذکر آیا، ان کی خدمات پر گفتگو کی، اور از راہِ کرم علامہ عبد الرحمٰن یحیٰ المعلمی کے آثار کی اپنی تحقیق کردہ کچھ جلدیں عنایت فرمائیں اور دعاؤں کے ساتھ اس پر اپنی دستخط بھی رقم فرمادیا۔ علم کا عالم یہ اور تواضع کا عالم یہ کہ  اس ناچیز کو اس کی قیام گاہ تک خود اپنی گاڑی سے چھوڑنے کے لیے تشریف لائے، شیخ نے اس طالب علم کے ساتھ جس اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا اور مخلصانہ دعائیں دیں  یہ کمزور قلم اس کے بیان کا متحمل نہیں۔ ع
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
اب صبح پو پھٹتے ہی ان مقامات کا رخ کیا گیا جن کی سنگلاخ وادیوں میں اسلامی تاریخ کے تابندہ نقوش روپوش ہیں، ان مقامات سے گذرتے ہوئے خیالات کا ایک ہجوم امنڈتا رہا، اسلامی تاریخ کے روشن واقعات نگاہوں میں گھوم رہے تھے، اب حالات بدل گئے ہیں، حاجی کی سہولت کی خاطر رمی الجمرات کو تین منزلہ نہایت وسیع ہال میں جدید انداز سے تعمیر کیا گیا، میٹرو ٹرین کا بھی نظم ہوگیا ہے، سڑکیں کافی کشادہ ہیں، بلند وبالا پہاڑ اور گرمی کی شدت کے باوجود ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت سعودیہ کو اللہ اس وقت تک قائم رکھے جب تک وہ حرمین شریفین کی خدمت اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کو پیش نظر رکھے، وہاں سے راستے میں جامعہ ام القریٰ کی عمارتیں نظر آئیں، جامعہ ام القری اب تقریباً شہر سے منتقل ہوکر وسیع وعریض قطعہ اراضی میں پھیل چکا ہے۔ جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کی عظیم یونیورسٹی ہے، جہاں سے تشنگانِ علوم و فنون اپنی علمی وعملی پیاس بجھاتے ہیں، ہمارے بہت سے اخوان وہاں زیر تعلیم ہیں جن کی محبتیں ہمارے ساتھ ساتھ رہیں۔
اس کے بعد غارِ حرا (جبل النور) اور غارِ ثور آئے، رفقاء نے متفقہ فیصلہ کیا کہ’’ غارِ حرا‘‘ پر چڑھنا ہے، چنانچہ بعد صلاۃ ظہر اس بلند و بالا پہاڑ پر چڑھے، اس پہاڑ کی اونچائی غیر معمولی ہے، اس قدر اونچائی پہ چڑھنا اب ناممکنات میں لگتا ہے، بڑی مشکل سے جگہ جگہ ٹھہر کر کے، آرام کرکے چڑھے، راستے میں جگہ جگہ آرام کرنے کی جگہ بنی ہے، معمولی تراش سے سیڑھیاں نما زمین ہموار کی گئی ہے، اندازہ ہے کہ کوئی بہت زیادہ تبدیلی نہیں ہوئی ہوگی، درمیان میں دو جگہ ہوٹل بھی ہیں۔ غارِ حرا پر چڑھ ہی گئے، اسے جبل النور کہتے ہیں، وحی کا آغاز یہیں سے ہوا، پہلی مرتبہ حضرت جبرئیل سورہ علق کی ابتدائی آیتیں لے کر یہیں نازل ہوئے، اللہ اللہ….! تاریخ انسانی کی ہدایت کی اولین شمع یہیں روشن ہوئی جس کے ذریعہ پوری دنیا کو اس ابدی ہدایت سے جگمگانا تھا، اس بلند و بالا پہاڑ سے اٹھنے والی ایمان ویقین سے مستنیر صدا پوری دنیا میں بلند ہوئی، بلندی پر نزول کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس کی ہر چیز بلند ہو اور ہر چیز پر بلند ہو۔ چنانچہ قرآن، نبیﷺ، جبرئیل ؑ سب سب پر بلند ہیں، اگر ان کی بلندی میں کسی کو کوئی شبہ ہے تو اس کا ایمان متزلزل ہے، وہ دیکھو مختصر سی جگہ بنی ہے جہاں نبی ﷺ نماز پڑھتے تھے، عبادت میں دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بے پرواہ ہوکر جاتے تھے، یہیں آپ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا، اس غار کا اسلامی دعوت کی تاریخ سے بہت اٹوٹ حصہ ہے۔ اس عظیم دعوت وحدانیت کا آغاز یہی ہے، انسانی ہدایت کی ساری راہیں یہیں سے نکلتی ہیں، عشق وشیفتگی کے سارے مراحل یہیں سے طے ہوتے ہیں… اس ہادی بشر کی جفاکشی دیکھیے اس بلند وبالا پہاڑ پر کیسے چڑھتے ہوں گے، اس وقت تو سیڑھیاں بھی نہیں ہوں گی، راستے بھی ناہموار رہے ہوں گے اور دھوپ کی گرمی اس پر مستزاد۔ میرا نبی رحیم و کریم ہونے کے ساتھ شجاع و باہمت بھی تھا، تنہا میدان جنگ میں اترنا اس کے لیے آسان تھا، تیر و تفنگ سے کھیلنا عام بات تھی، اس نبی کے لیے غارِحرا پہ چڑھنا کیا مشکل ہے۔
غارِ حرا سے اترے تو شام کی گرفت دوپہر پر مضبوط ہوچکی تھی۔ ارادہ ہوا کہ سیدھے حرم چلیں، حرم آکر مغرب وعشاء کی نماز ادا کی گئی، پرسوز آواز نماز کے خشوع کو دو چند کر دیتی تھی، ائمہ حرمین کی نہایت پر سکون اور باوقار تلاوت ایمانی حرارت کے خفتہ دریچے کھول دیتی ہے، ایک لذت ملتی ہے، ایک مٹھاس محسوس ہوتی ہے جو ناقابل بیان ہے اور یہ کمزور قلم اس تصویر کشی سے عاجز ہے۔ نماز کے بعد فیصل بھائی کا اصرار تھا کہ بھائی عمر فاروق کے ساتھ عشائیہ ان کے گھر پر ہی ہو، عمر فاروق بھائی حرم آئے پھر فیصل بھائی کے دولت کدہ پر عزیزیہ حاضری ہوئی۔ ارادہ ہوا تھا کہ شیخ محمد عزیر شمس صاحب حفظہ اللہ کو بھی عشائیہ میں شریک کیا جائے مگر ان کی علمی مشغولیتوں کی وجہ سے فیصل بھائی ہمت نہ کرسکے۔ بہر کیف مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، رات دیر ہوگئی تو ان کا اصرار تھا کہ وہیں قیام کیا جائے لیکن یہ آخری دن تھا اور طواف وداع باقی تھا۔ اس لیے رخصت چاہی گئی اور سیدھے حرم پہنچے، سنا تھا کہ ۱۱ سے ٢؍ کے درمیان بھیڑ کم ہو جاتی ہے مگر پہنچے تو بھیڑ اس طرح تھی کہ شیفتگان حرم پروانہ وار بچھے بچھے جارہے تھے۔ یہ حرم مقدس کا آخری دیدار تھا، بارگاہ الٰہی میں نیاز مندانہ اشک باری اور عاجزانہ سجدہ ریزی کا آخری دن تھا، فضا خوشگوار تھی اور رکوع وسجود نے ماحول کو روحانی بنا رکھا تھا، تلاوت وخشوع سے لوگوں کی نگاہیں سرنگوں تھیں، طواف کے سات شوط لگائے گئے، حطیم میں نماز پڑھی گئی کہ نبی ﷺ نے حضرت عائشہ سے فرمایا تھا کہ یہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے، حطیم سے نکل کر ملتزم کے پاس گئے، حدیث سے ثابت ہے کہ ملتزم (حجر اسود اور خانہ کعبہ کے درمیان) دعا کی قبولیت کی جگہ ہے، وہاں سخت بھیڑ تھی، آہ و بکا کا کرب ناک منظر، ہرشخص اپنے رب کی بارگاہ میں آہ و فریاد لے کر حاضر ہے، آہیں بھر بھر کر انسانی ہجوم رو رہا ہے اور اپنے معبود حقیقی سے مناجات و سرگوشی میں مشغول و مستغرق ہے۔
الٰہی! وہ کیسا مقام ہے جہاں انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے، سخت سے سخت انسانوں کی آنکھیں بہہ پڑتی ہیں، امید و بیم اور خوف و رجا کا مقام کس قدر عبرت آموز ہے، ملتزم کے پاس خانہ خدا کے پردے سے لیپٹ کر قساوت قلبی کے باوجود آنسو کے چند قطرے بہائے گئے، گر نگاہ تجلی نے رحمت کی نگاہ ڈالی تو بارگاہ خداوندی میں بہائے جانے والے آنسو زندگی کی گراں قدر متاع ہو جاتے ہیں۔

وَقَفتُ عَلى رَبع لِمَيَّةَ ناقَتي
فَما زِلتُ أَبكي عِنَدهُ وَأُخاطِبُه
وَأَسقيهِ حَتّى كادَ مِمّا أَبُثُّهُ
تُكَلِّمُني أَحجارُهُ وَمَلاعِبُه

(لمیہ کے مکان پر اونٹنی کے ساتھ میں کھڑا ہوا اور مخاطب کرکے میں روتا رہا اور اس کے لیے سیرابی کی دعا کرتا رہا میری اس حالت کی تاثیر سے ایسا محسوس  ہوتا تھا کہ اس کے پتھر اور درو دیوار بول پڑیں گے ) [ذو الرمہ]

ما بالُ عَينِكَ مِنها الماءُ يَنسَكِبُ
كَأَنَّهُ مِن كُلى مَفرِيَّة سَرِبُ

کیوں تمھاری آنکھوں سے برابر آنسو جاری ہے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ پھٹی ہوئی مشک ہے جس سے پانی برابر ٹپکتا ہے۔
ہر دل حزین، ہر آنکھ نم آئیں، ہر لب پر اپنی تقصیرات کی معافی کی پاکیزہ التجا تھی،  دنیا کا وہ کون سا مقام ہے جہاں آنسوؤں میں تسکین اور غم میں شادمانی ہے، جہاں خضوع و انقیاد میں لذت بھی ہے اور دنیا و آخرت کی سرخ روئیاں بھی پنہاں ہیں، جہاں کا ہر ذرہ محترم ہے اور ہر شئی باوقار، اے میکشان بادہ حرم! کیا وہ مقام مقدس پاؤں سے روندنے کے لائق ہے جو دل کو پاکیزگی اور روح کو تازگی دیتا ہے۔ وہ دیکھو! یہیں تمھارے رسول جھکتے تھے، آہ و زاریاں کرتے تھے اور ظلم و ستم سہ کر پیغام رسالت کو عام کرتے تھے۔ تو کیا تم اس رسول کے نقش پا کو زندگی کے لیے نشانِ راہ سمجھتے ہو، اور حرم کی ردائے تقدس کو اپنی بے حجابی کا آنچل سمجھتے ہو۔

اب شاید آج آخری دن ہوگا، ۱؍اپریل ہے اور کل مدینہ کے لیے روانہ ہونا ہے۔ اس سے قبل اہم اور تاریخی مقامات کی زیارت کرلی جائے۔ ہمارے رفقائے سفر چار لوگ تھے، لہٰذا مقامات حج منیٰ، عرفات اور مزدلفہ گئے، یہ سارے کے سارے نہایت وسیع میدان میں ہیں، ہر طرف خیمے ہی خیمے نظر آتے ہیں، عرفات کا میدان بھی دیکھا کہ یہی وہ میدان ہے جہاں قیامت قائم ہوگی، پوری دنیا اس میدان تک پہنچے گی، دل کے نہاں خانہ میں یہ بات گونجتی رہی، وہیں جبل الرحمۃ بھی دیکھا ہے، یہ وہی جبل الرحمۃ ہے جہاں سے نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع سے آخری خطاب کیا ہے، اس وقت آپ پر زندگی نچھاور کرنے والے صحابہ کرام کی پاکیزہ جماعت آپ کے  ساتھ تھی، جس وقت آپ نے دعوت  توحید کا آغاز کیا تھا اس وقت آپ تنہا تھے، آج آپ کے سامنے ایک لاکھ بیس ہزار لوگوں کا جم غفیر تھا، اس وقت آپ کو خوشی کے آنسو آگئے ہوں گے۔ یہ اس عظیم دعوت کی کامیابی کا دن تھا، آپ کی صرف ۶۳ سالہ زندگی کی کوششوں سے اب یہ دعوت عالمگیر ہوچکی تھی، دنیا کے ہر خطہ میں اس کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ کیا دنیا تاریخ دعوت میں کوئی ایسی مثال پیش کرسکے گی جس میں اتنی کم مدت میں اتنی طویل مسافت طے کی ہو، دعوت کی ایسی حرت انگیز کامیابی کی نظیر تاریخ اقوام عالم پیش کرنے سے عاجز و درماندہ ہے۔ اس دعوت  توحید کی خصوصیت یہ رہی کہ اس نے دلوں پر زیادہ زمینوں پر کم حکومت کی، جو بھی اس دعوت کے قریب ہوا اس کی زلفوں کا اسیر ہوگیا، لیکن الأسف ۔۔۔ کیا دعوت توحید کے علمبرداران اس عظمت کو سمجھنے کے لیے تیار ہیں، کیا اس دعوت کے اولین داعی و اولین مخاطبین کی جانثاریوں کو سینہ سے لگا کر اپنی زندگی کی بنیاد  انہی جانثاریوں اور فداکاریوں پر استوار کرنے کا جذبہ پاتے ہیں۔ اگر نہیں تو اپنے آپ کو اس نبی کی دعوت و جہاد کا ترجمان و پیرو کہنے کے سزاوار کب ہوگئے، ان مقامات سے گذرتے ہوئے یہ خیالات آتے رہے، کوندتے رہے۔ اب قلم رکنے کو تیار نہیں اور دل جبر کو تیار نہیں، گو یہ عمل بڑا سوہان روح اور دلگداز ہے۔
۱؍اپریل کی تاریخ آگئی، اب صبح کو مدینۃ الرسول روانگی ہے، لو ادھر صبح بھی ہوگئی، نو بجے بس مدینہ جانے کو تیار ہے۔ مدینہ نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب کی ہجرت گاہ ہے، جب دعوت اسلام کی پاداش میں زمین تنگ ہوگئی تو مدینہ کی زمین کشادہ ہوگئی، اس شہر سے نبی ﷺ کو بھی محبت تھی، اس کا اظہار یوں ہوا: ’’اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ۔۔۔۔‘‘الٰہی! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح جاگزیں فرما جیسے مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔۔۔[بخاری]
ایک مرتبہ یوں فرمایا  ’’اللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ البَرَكَةِ‘‘ اے اللہ مدینے میں مکے سے دوگنی برکت فرما۔ [بخاری، مسلم] مزید ارشاد ہے ’’جس شخص کے بس میں ہو، وہ مدینہ میں فوت ہو کیونکہ میں مدینہ میں فوت ہونے والے کی (قیامت کے دن) سفارش کروں گا۔‘‘ [ترمذی 3917] مزید فرمایا: ’’ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی اپنے رشتے دار سے کہے گا آؤ! آؤ! مدینہ چھوڑ کر خوشحال علاقہ میں چلے جائیں، کاش انھیں علم ہوجائے کہ مدینہ ان کے لیے ہر حال میں بہتر ہوگا، قسم ہے اس ذات اقدس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو بھی شخص مدینہ کو ناپسند کرتے ہوئے اس سے نکلے گا اللہ اس سے بہتر شخص مدینہ میں لائے گا خبردار! یقیناً مدینہ بھٹی کی طرح ہےجو برے لوگوں کو نکال باہر کرتا ہے قرب قیامت بھی مدینہ برے لوگوں کو ایسے نکال باہر کرے گا جیسے بھٹی لوہے کی میل کچیل دور کردیتی ہے۔‘‘ [ مسلم 1381]
’’مدینہ منورہ نبی کریم ﷺ کی ہجرت گاہ اور آپ کی سنت کا مرکز ہے، اس کے ہر طرف شہداء صحابہ مدفون ہیں، اللہ رب العزت نے اسے اپنے پیارے نبی ﷺکے لیے پسند فرمایا، حتی کہ آپ کی قبر مبارک بھی یہیں بنی، اس میں روضۃ من ریاض الجنۃ بھی ہے اور ممبر رسول ﷺ بھی، اس کے علاوہ مسجد قبا بھی ہے۔‘‘ [تاریخ مدینہ منورہ :۷۹]
ہمارا قافلہ پوری رفتار کے ساتھ مدینہ کی طرف رواں تھا، درمیان میں رک کر نماز ظہر ادا کی گئی، اس کے کچھ دیر بعد مدینہ کے آثار نظر آنے لگے، ذوالحلیفہ پہنچے جو مدینہ کی میقات ہے، ادھر دل ہمہ تن شوق تھا، مدینۃ الرسول کے دیدار کا شوق رہ رہ کر دل میں انگڑائیاں لے رہا تھا اور مدت کی خاموش تمنائیں جاگ رہی تھیں۔ آؤ ان راہوں میں ہادی امت کے نقش پا ڈھونڈیں، یہ جگہیں کتنی پاکیزہ اور مقدس ہیں جنھوں نے رسول خدا کے نقش پا کو اپنے سینے سے لگایا، بارہا ان راہوں سے میرے نبی کا گزر ہوا ہوگا، یہ راہیں بسوں سے گاڑیوں سے روندنے کے لائق نہیں۔ امام مالک مدینۃ الرسول میں پا پیادہ آتے تھے، مدینہ کی عظمت اور شوکت نے کبھی انھیں سوار نہ ہونے دیا، ان امام اہل مدینہ کا یہ حال ہے جن کی عظمت کی ہیبت اہل علم و ایمان پر طاری ہے، مدینہ کا چپہ چپہ سراپا عظمت، مدینہ کا گوشہ گوشہ سراپا تقدس، مدینہ کا ذرہ ذرہ سراپا محترم … ادھرخیالات کی گھٹائیں خرمن خاطر پر چھائی ہوئی تھیں، وصل حبیب کے لمحات قریب ہو رہے تھے، اگر شریعت کی اجازت ہوتی تو وصل و جذب دروں کی استعاراتی و تشبیہاتی تعبیرات صفحۂ قرطاس پر بکھر جاتیں مگر قلم کا سدرۃ المنتہی قریب اور معاملہ احتیاطی ہے، تجاوز میں مخالفت ہوگی اور ہم نشینانِ حرم کے قلم حرکت میں آجائیں گے۔ ادھر خیالات وجدان میں اہتراز جاری ہے، تسبیح و تہلیل کے ساتھ ساتھ عربی نعتیں ترنم کے ساتھ پڑھتا رہا، جیسے کبھی تنہائی میں ایک بچہ کی پر سوز آواز میں سنتا ہوں کہ جذب و شوق کو تسکین مل جاتی ہے۔

أتاھا الرسول فطابتْ به
وشرفھا الله بالھجرۃ
وأبناؤھا آمنوا بالنبي
نبي الھدایة و الرحمة
ھدانا إلی الرشد بعد الظلام
دعانا إلی الله بالحکمة

رسول ﷺ مدینہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو مدینہ کی سر زمین خوشگوار ہوگئی
اللہ نے مدینہ کو نبی کی ہجرت گا ہ کا شرف عطا کیا ہے۔
باشندگانِ مدینہ نبی آخرالزماں پر ایمان لائے، جی ہاں اس نبی پر جو سراپا ہدایت اور مجسم رحمت ہے۔
اس نبی نے ہمیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی دکھائی، پوری دانائی کے ساتھ راہ الٰہی سے بھی روشناس کرایا۔
عربی میں نعت خوانی کا قافیہ کافی تنگ ہے، اس اعتبار سے اردو کافی کشادہ ظرف واقع ہوئی ہے، گو اردو میں فن نعت گوئی میں ایک بڑا حصہ شرکیات پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود بعض نعتیں قابل قدر ہیں جس میں ماہر القادری کی نعت ’’کچھ ظلم نے شعلے بھڑکائے، کچھ کفر نے فتنے پھیلائے‘‘ پر سوز بھی ہے اور عشاق رہ مدینہ کے لیے سامانِ تسکین بھی، اس حوالہ میں بوصیری اور ابن جبیر اندلسی کے قصیدے (قدر ے استثناءات کے ساتھ) عربی نعت گوئی کے شاہکار ہیں، راہ گذرتے ہوئے عربی نخلستانوں سے سابقہ رہا، ان صحراء اور وادیٔ غیر ذی زرع میں کبھی کبھی اونٹوں کا مختصر غول نظر آجاتا، مگر اب وہ ناقہ اور ساربان تاریخ کی نذر ہوگئے، جس ناقہ کے محمل میں بیٹھ کر ساربان حدی خوانی کرتے اور محبوب کی گذرگاہ پہ رک کر آنسو کے چند قطرے بہاتے، جو کہ محبت اور محبوبیت کا تقاضا ہے کہ دیار محبوب میں آہستہ چلو «قفا نبك من ذکریٰ حبیب ومنزل» رکو ٹھہرو ٹھہرو! ذرا محبوب اور اس کی گذر گاہ پہ رک کر اس کی یاد میں کچھ آنسو بہالیں۔ اب اس ناقہ کی جگہ تیز رفتار بسوں اور موٹروں نے لی ہے، جس نے محبوب کے تذکروں سے دل خالی خولی کردیے ہیں۔ اب وہ ساربان اور حدی خواں بھی نہ رہے، جو عربی ثقافت کی نشانی تھے، جن کی حدی خوانی سے صحراء و بیاباں نغمہ خواں ہوجاتے اور کوہساری خطے ساز و سوز میں ڈوب جاتے۔ ادھر یہ تصور بھی ہمرکاب رہا کہ انہی راہوں سے نبی کا گذر ہوا ہوگا، زمانہ بیت گیا، چودہ صدیاں گذر گئیں لیکن راہیں تو وہی ہیں، کتنی بار ان راہوں نے نبی کے نقش پا چومے ہوں گے، کبھی کہیں نبی اور ابوبکر ساتھ ساتھ گئے ہوں گے، جن کا نگہبان خدا تھا، سراقہ بن مالک تعاقب کیا اور دھنسا ہوگا اور نبی اسے امان دے رہے ہوں گے۔ ان راہوں کو نبی کی مہاجرت و مسافرت کا شرف حاصل ہے، یہ راہیں معجزات نبوی سے بندھی ہیں اور ہجرت کے شاندار نقوش تاریخ کے سنہرے صفحات میں محفوظ ہیں۔ ایک بات رہ رہ کے ستارہی تھی کہ یہ سیہ کار اس لائق تھا کہ وہ ان پاکیزہ نقوش پر اپنا قدم رکھے، اس کے پاس تو زاد راہ ہے ہی نہیں، سوائے عصیاں کے اور جھولی میں ہے کیا، کاش وہ ذرہ ہوتا جو نبی کے پاؤں کو سینے سے لگانے کا شرف حاصل کرتا تھا، کاش وہ سایہ ہوتا جس کے نیچے نبی تیز دھوپ میں آرام کرتے تھے، کاش وہ ناقہ ہوتا جو نبی کو اپنی پشت پر سوار کرکے مدینہ لے جارہی تھی۔
وہ دیکھو … ایک چٹان کے سائے میں نبی آرام فرما رہے ہیں، ایک چرواہے سے دودھ لے کر پی رہے ہیں، پھر چل پڑتے ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے ردیف ہیں، جو بھی راہ میں ملتا ہے کبر سنی کی وجہ سے ابوبکر سے پوچھتا ہے یہ کون ہیں، ابوبکر لطیف جواب دیتے ہیں کہ یہ راہ دکھانے والے ہیں… ام معبد کے خیمے کی بابت کچھ بات کریں، قحط کا زمانہ ہے، نبی ایک نیم مردہ دبلی بکری صحن سے لاتے ہیں، ام معبد! یہ کیسی بکری ہے، جواب آتا ہے، اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ نبی پوچھتے ہیں اس میں دودھ ہے، جواب آتا ہے، بخدا اگر تمھیں اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور نکال لو، نبی دعا کرکے دودھ نکالتے ہیں … بڑے برتن سارے لوگ … اور دودھ بچ جاتا ہے، چند ثانیے بعد شوہر سے محمد کی آمد و برکت کا حال کہہ سنایا، اس نے کہا کہ اگر آپ سے ملا تو ضرور رفاقت اختیار کروں گا، انھیں راہوں میں بریدہ اسلمی ملے، اور اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ نبیﷺ کو دل دے بیٹھے الٰہی ۔۔۔ وہ کیا لحظہ رہا ہوگا جب نبی قبا پہنچے ہوں گے، کوئے مقدس میں نبی کی آمد کا کہرام مچ گیا ہوگا، نہایت تابناک تاریخی دن رہا ہوگا، ہر طرف تحمید و تقدیس کے نغمات سے فضا زمزمہ سنج ہوگی، انصار کی بچیاں کس طرح ان اشعار کے نغمے بکھیر رہی ہوں گی۔

طلع الـبدر عليـنا
مـن ثنيـات الوداع
وجب الشكـر عليـنا
مـا دعــــا لله داع
أيها المبعوث فينا
جئت بالأمر المطـاع

ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب
چودھویں کا چاند ہے ہم پے چڑھا
شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا
کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے
ہے اطاعت فرض میرے حکم کی
[ترجمہ علامہ منصور پوری]

خیالات کی انہی موجوں میں تھپیڑے کھاتا رہا، حدود حرم آگیا جہاں سے غیر مسلم کا داخلہ ممنوع ہے، یہاں صرف ایمان اور اہل ایمان کا داخلہ ہے کفر کی ساری حدیں یہاں ختم ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں عقل کی بجائے محبت کام کرتی ہے، یہاں وجدان کو راہ ملتی ہے۔
ناقۂ شیفتگی کے حدی خواں! اٹھو دیار حبیب کی جلوہ سامانیاں اور سحر طرازیاں تمھارے سامنے ہیں۔
قافلہ محبت کے راہ رو … اٹھ ذرا جمال رخ زیبا کا شعوری دیدار کر!
ساغر جذب دروں کے باد خوار … اٹھ میکدۂ نبوی سے محبت کے جام لنڈھا کر ایمانی مزاج کو زندگی دے
لیلا ہائے عشق کے قیس! اٹھ کہ آستانۂ شوق پہ عقیدت کی جبین خم کر اور وجدان کی ناقہ پر عرفان کا محمل سجا، ان راہوں سے ذرا آہستہ چلو، وہ دیکھو مدینۃ الرسول آگیا، عطر بیز فضا اس بقعہ مقدس کی نورانیت کی غمازی کررہی ہے، گاڑی المنار ہوٹل کے پاس آ رکی، برادرم شعیب حسان دہلوی (اسلامک یونیورسٹی مدینہ) سے حرم نبوی کے بیرونی حصہ میں ملاقات ہوئی۔ یہ ہمارے بے تکلف دوستوں میں سے ہیں اخلاص ووفا کے مجسم، مدینہ میں یارانِ عہد گذشتہ سے کہیں زیادہ ان کی محبتیں اور عنایتیں ساتھ رہیں، تھکان سفر کی وجہ سے باہر ہی نماز عصر ادا کی گئی، غسل و تازہ دم ہونے کے لیے ان کی  آرام گاہ پر گئے، دار البر نامی عمارت ہے جو اسلامک یونیورسٹی مدینہ کی تحویل میں ہے، جامعہ کے طلبہ کی ایک تعداد وہیں رہتی ہے، کئی بسیں ہیں جو روزانہ جامعہ طلبا کو لے کر آمد و رفت کرتی ہیں، تازہ دمی کے بعد نماز مغرب کے لیے حرم نبوی گئے۔ حرم نبوی کا جمال نگاہوں کے سامنے تھا اور عز و شرف کی بلندی دیدۂ حقیقت کو خیرہ کیے دے رہی تھی، آنکھیں یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھیں کہ میں مسجد نبوی میں ہوں، اس مقدس جگہ پر جو کعبہ کے بعد دنیا کی افضل ترین جگہ ہے، جسے مسکن نبوت اور آرام گاہ نبوی ہونے کا شرف حاصل ہے، ہر طرف شان و شوکت کا جلوہ، ہر جانب عز و شرف کی تاریخ کے نقش، بذریعہ فون احباب کو خبر پہنچ چکی تھی،  یادش بخیر وہیں ہمارے دامن جامعہ سلفیہ سے وابستہ دوستوں سے ملاقات ہوئی، خصوصاً برادرم عبدالرحمٰن لطف الحق جن کا لطف حقیقی عہد شناسائی سے لے کر اب تک ہمیشہ دامن گیر رہا، مادر علمی جامعہ سلفیہ کے عہد طالب علمی میں ہمارا قافلۂ اخوت و عقیدت برادرم عبدالفتاح عبدالودود (کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض) برادرم مطیع الرحمٰن (جے۔این۔یو۔)برادرم عبد الرحمٰن (مدینہ) سے مل کر بنا تھا، سب کو ادب و ثقافت سے گہری پر آشفتگی تھی، علوم و فنون پر غیر معمولی دستگاہ تھی، یہ باہمی رشتہ اخوت ویگانگت پیہم جاری ہے، دعا ہے ہمیشہ جاری رہے، یہ ملاقات اس اخوت کے عہد وفا کا تجدید نامہ تھی۔
خدا کرے فضا یونہی یہ خواب جاگتے رہیں
صبح فجر اور ناشتے کے بعد برادرم شعیب حسان کے ساتھ  مدینہ یونیورسٹی پہنچے۔ یہ دنیا کی عظیم درس گاہ ہے جو عہد سلف کی یاد تازہ کرتی ہے، مختلف قسم کی عالیشان عمارتوں پر مشتمل ہے، اس نے ہزاروں علماء و دعاۃ کو علمی سیرابی دی اور انھیں دین حنیف کا سچا خادم اور داعی بناکر سینۂ گیتی کے مختلف خطوں میں بھیجا۔ اس کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ مدینۃ الرسول میں ہے، اس کا سلسلہ صفہ کے دامن سے وابستہ نفوس قدسیہ سے ملتا ہے، یہ وہ عظیم درسگاہ ہے جس کے پہلے وائس چانسلر امام شیخ ابن باز تھے اور جس میں علامہ شنقیطی اور علامہ البانی جیسے اساطین فن نے تدریسی خدمات انجام دی ہیں، بڑے بڑے عباقرۂ دوراں اور ارباب فکر و دانش کو یہاں سے درسی و تدریسی نسبتیں رہی ہیں، یہاں احباب سے ملاقاتیں ہیں، درس میں حاضری بھی ہوئی، پھر دار البر واپسی ہوگئی، کوشش یہی رہی کہ ملاقاتیں کم ہوں اور حرم سے استفادہ زیادہ، لیکن یہ کہاں ممکن۔ مغرب کے بعد عزیزی جاسم ضیاء، طاہر جمال سلفی اور برادرم شمیم احمد سلفی (طلباء مدینہ یونیورسٹی) سے وعدہ ہوا کہ عشاء سے فراغت کے بعد جامعہ میں عشائیہ ان کے ساتھ ہو، اصرار انکار پر غالب آکے رہا، احباب گذشتہ کا معاملہ نہ ہوتا تو چت ہونے میں اتنی فیاضی سے کام نہ لیا جاتا، برادرم عبدالرحمٰن لطف الحق کے یہاں تو ظہرانہ اور عشائیہ کے باہمی اختلاف سے کشتم کشتا ہوتی رہی، برادرم شعیب حسان کے یہاں معاملہ اس سے فزوں تر تھا، برادرم خیر الاسلام سلفی اور ان کے بڑے بھائی شیخ امیرالاسلام سلفی کے ساتھ بھی عشائیہ رہا اور ان کی عنایتیں ہم رکاب رہیں۔ اسی طرح احباب میں عبیداللہ الباقی سلفی، صفی الرحمٰن سلفی حیدرآبادی، عزیر احمد سلفی، سلمان احمد سراج سلفی (پی۔ایچ۔ڈی۔) اسامہ صغیر سلفی، سیف الرحمٰن سلفی (استاد جامعہ سلفیہ) اور محمد حامد سلفی وغیرہ سے علیک سلیک رہا۔
حرم نبوی کے دروس میں خصوصی حاضری رہی، جب تک قیام رہا شیخ عبدالمحسن بن حمد العباد البدر کے دروس میں پابندی رہی۔ شیخ عبد المحسن اس وقت عالم اسلام کے کبار اہل علم میں سے ہیں، ان کی بہت سی کتابیں اہل علم و فضل سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں، اس وقت درس صحیح مسلم کا چل رہا تھا، نہایت عالمانہ شان و جلال کے ساتھ، مدینہ یونیورسٹی کے بیشتر طلبہ ان کے دروس میں حاضر رہتے ہیں، سلفی الفکر بھی اور سلفیوں سے محبت بھی ہے۔ مدینہ یونیورسٹی کے ایک طالب نے شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری مرحوم کی فقہی ترجیحات پر ڈاکٹریٹ کی تھیسس لکھنا چاہا تو جامعہ نے اسے رد کردیا، چنانچہ شیخ نے خود اپنے دستخط سے مدینہ یونورسٹی کے فیکلٹی آف حدیث میں لکھا کہ شیخ الحدیث کی شخصیت علمی اور اہم ہے، لہٰذا ان پر رسالہ لکھے جانے کی بھر پور تائید کی جاتی ہے، شیخ کی تائید سے وہ رسالہ مقبول ہوگیا اور اللہ کرے بخوبی تکمیل کو پہنچے۔ درس میں شیخ کا انداز سلف کی یاد تازہ کر دیتا ہے، سند حدیث پر ماہرانہ گرفت، مفاہیم کی بھر پور توضیح اور مسائل کے استنتاج واخراج میں غیر معمولی دستگاہ رکھتے ہیں، ساتھ ہی شیخ انیس طاہر اندونیسی کے درس سے بھی استفادہ رہا، عربی زبان میں غیر معمولی مٹھاس ہے، خالص سلفی الفکر ہیں، باطل افکار اور تقلیدی برگ و بار پر سخت تنقید کرتے ہیں، خصوصاً تشیع اور قبوریوں کی تو شامت رہتی ہے۔ حیرت ہے حرم مدنی مکی میں اس قدر تصریح اور جرأت کیسے ممکن ہے اور جرأت صرف وابستگان دامن سنت کے حصہ میں آئی ہے، وہاں تو توحید کی حفاظت، سنت کے احیاء اور بدعات پر دارو گیر کی یہ تگ و تاز دیکھ کر روح کو تازگی اور قلب کو زندگی ملتی ہے، صد آفرین اے نگہبانان توحید! صد مرحبا اے پاسبانان سنت مصطفوی!
دوسری صبح شیخ عبد القیوم السحيبانی سے ملاقات ہوئی، آپ مدینہ یونیورسٹی کے سینیر و باصلاحیت اساتذہ میں سے ہیں۔ آپ کی بعض تصنیفات اور صوت الامۃ میں شائع ہونے والے مقالات سے پہلے ہی آگہی تھی، فراخ دلی سے ملے، گفتگو کی، ہندوستان کے علمی احوال سے متعلق بات ہوئی، اپنی بعض تالیفات بھی از راہ کرم عنایت فرمائیں۔
اسی طرح ایک اور استاد سے طویل ملاقات رہی، نوجوان تھے، اسلوب کی شگفتگی سے لگ رہا تھا زبان وأدب کے استاد ہیں، نام یاد نہیں، کافی دیر تک مبارکپور اور ہندوستان کے دعوتی وعلمی حالات سے متعلق استفسار کرتے تھے، میں تفصیل سے بتاتا رہا، پوری دلچسپی اور انہماک سے ٹکٹکی باندھ کر سنتے رہے، جاتے جاتے کچھ محبت بھری باتیں اور والہانہ اعتراف کیا، انھیں یہاں نقل کرنا اپنے منہ میاں مٹھو بننا ہے۔
عموما وہاں علماء متواضع اور سادگی پسند ہوتے ہیں، جن سے بھی ملاقات ہوئی ان میں انکسار و بے نفسی نظر آئی، ہمارے ہندوستانی علماء کا مزاج بالکل اس کے برعکس ہوتا ہے، تھوڑا سا بھی لکھنے پڑھنے اور بولنے کا سلیقہ ہوا علامہ اور شیخ الہند سے کم لقب پر راضی نہیں ہوتے، اس سے بڑی چیز مادیت کے بالکل دیوانے ہوتے چلے جارہے ہیں، ایسے اتراتے ہیں جیسے زمینی خدائی کا کچھ حصہ اللہ تعالی نے ان کے حوالے کردیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے اور مزاجوں میں نرمی اور سلیقہ مندی پیدا کرے۔
اس طرح برادرم ڈاکٹر امان اللہ (ڈاکٹریٹ مدینہ یونیورسٹی) سے ملاقات ہوئی، بعض موسم میں حرم نبوی میں ان کا درس ہوتا ہے، جامعہ سلفیہ کے ہونہار فرزندوں میں سے ہیں، خوش اخلاقی کے ساتھ اعلیٰ لیاقت بھی ہے، حرم نبوی میں درس کے بعد طویل مجلس رہی، قدیم باہمی شناسائی کا اظہار بھلا معلوم ہوا، دل کو خوشی حاصل ہوئی، برادرم شعیب حسان دہلوی کے ساتھ طے ہوا کہ مدینہ کے تاریخی مقامات کی سیر کی جائے، چنانچہ آخری ایام میں مدینہ کے مختلف مقامات کی سیر کی گئی۔

10
آپ کے تبصرے

3000
8 Comment threads
2 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
9 Comment authors
newest oldest most voted
Hamood sami

ماشاء اللہ شیخ قابل تعریف مضمون، انداز تحریر نہایت ہی عمدہ اور جازب ہے پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی رہا اتنی شفافیت اور عمدگی سے احساسِ دیدارِ حرمین کو قلمبند کیا گیا ہے کہ واللہ محسوس ہورہا تھا جیسے وہ سب آنکھوں کے سامنا ہورہا ہو…… قاری اگر محویت و دیانت داری سے پڑھے تو وہ عمرہ کا طریقہ سیکھ جائے روداد عمرہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ فضیلتِ حرمین کو بھی احادیث صحیحہ کے تناظر میں آپ نے خوبصورت پیرائے میں بیان کردیا ہے…… بارک اللہ فیکم حرم مکی، غار حرا، مسجدِ قبا، شہر مدینہ کا جس انداز… Read more »

راشد حسن مبارکپوری

آمين

عبدالرحمن لطف الحق

ماشاء الله، بہت ہی عمدہ اور ادبی تحریر، پڑھ کر کافی لطف آیا اور بہت ساری معلومات بھی حاصل ہوئیں، جو بھی اس تحریر کو پڑھے گا اس کے دل حرمین کی زیارت کا بے پناہ شوق یقینا پیدا ہوگا، اس سے پہلے بھی سفریات پر راشد بھائی کی کئی تحریریں مجھے پڑھنے کا موقع ملا، یقینا وہ جب بھی لکہتے کافی معیاری لکھتے ہیں ۔

Asdullah

ماشاءاللہ!!! بہت ہی عمدہ اور معلوماتی تحریر، ادبی اسلوب نگارش کا شاہکار نمونہ، الله کرے زور قلم اور زیادہ!!! جزاک الله خیرا.

Abdul hadi

ماشاءاللہ شیخ پڑھ کر بہت لطف آیا اللہ تعالیٰ آپ کی عمر اور علم میں برکت دے

عبدالفتاح عبدالودود

ماشاءاللہ
نہایت عمدہ تحریر
راشد بھائی اخلاص و وفا کے پیکر ہیں۔
دوستی کرتے ہیں اور نبھاتے ہیں۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

حميد حسن مبارکپوری

ما شاء اللہ
نفع الله بكم الأمة

آپ تو ہمارے بڑے بھائی ہیں، میں زیادہ کچھ نہیں لکھ سکتا البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ اس کم عمری میں اللہ نے آپ کو جن صلاحیتوں سے نوازا ہے وہ نایاب تو نہیں لیکن کمیاب ضرور ہیں اور یہ وہ حقیقت ہے جسکا اعتراف ہند و بیرون ہند کے منصف علماء کرام نے کیا ہے
مجھے فخر ہے کہ آپ میرے بڑے بھائی ہیں
أطال الله حياتك ونفع الله بك الأمة

Khalid Rasheed

بہت زور دار لکھے ہیں بھائی
اب آپ کی تعریف میں کیا کروں یوں محسوس ہورہا تھا کہ میں دیار مقدسہ کا راہی ہوں اور آپ کی انگلی پکڑ کر دم قدم ہوں ایک مختصر تحریر میں پوری سیرت کو آپ نے گھول کر پلا دیا ہے
پہلے سے آپ کا معتقد اور مداح رہا ہوں اب ایک ہی دل ہے راشد بھائی کتنی بار جیتیں گے
دعا ہے کہ آپ کا سیال قلم یوں ہی رواں دواں رہے اور ہم خوردوں کو آپ کی محبتیں یوں ہی ملتی رہیں ویسے ایک سوال ہے کہ نسیبہ راشد کون ہیں

راشد حسن مبارکپوری

سلامت رہیں عزیز من
اہلیہ ہیں

مسعود

ماشاء اللہ
جزاکم اللہ خیرا الجزاء
پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے عمرہ کرلیا
دوران مطالعہ آنکھوں سے اشک بھی جاری ہوئے
واللہ بلا مبالغہ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ سفر نامہ تو بہت پڑھا مگر ایسا سفر نامہ جو ایمان کو تازہ کردے پہلی بار نظر نواز ہوا ہے
اللہ مزید قلم میں قوت دے اور زیادہ سے زیادہ خدمت دین کی توفیق دے آمین