حاملہ ومرضعہ کو کب روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے؟

فاروق عبداللہ نراین پوری رمضانیات فقہیات

پہلی قسط

اسلام کی خوبیوں میں سے ایک عظیم خوبی یہ ہے کہ اس میں آسانی ہے، سختی نہیں، یہ اسلام کا عمومی مزاج ہے۔ لا ضرر ولا ضرارا، المشقۃ تجلب التیسیر، جیسے قواعد اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ انہی آسانیوں میں سے ایک آسانی شریعت نے یہ دی ہے کہ حاملہ اور مرضعہ کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت دی ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر حاملہ ومرضعہ کو یہ رخصت حاصل ہے یا خاص قسم کے حاملہ ومرضعہ کو؟
واضح رہے کہ انس بن مالک الکعبی رضی اللہ عنہ کی حدیث “إن الله تعالى وضع عن المسافر الصوم، وشطر الصلاة، وعن الحامل أو المرضع الصوم أو الصيام” میں مطلقا حاملہ اور مرضعہ سے روزہ ساقط ہونے کی بات آئی ہے، اس میں کسی طرح کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ البتہ اس حدیث کے ثبوت میں علما کے درمیان اختلاف ہے جس کا بیان آگے آئے گا ان شاء اللہ۔
جہاں تک آیت کی بات ہے تو فدیہ کے قائلین ”وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین“ والی آیت سے استدلال کرتے ہیں اور جمہور علما ”فمن کان منکم مریضا أو علی سفر فعدۃ من أیام أخر“ والی آیت سے۔
آیت ”وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین“ میں مشہور قراءت یہی ہے۔ جس کا دو معنی بیان کیا گیا ہے۔
پہلا: اس کا معنی یہ ہے کہ طاقت رکھنے والوں پر روزہ رکھنا ضروری نہیں، فدیہ دینا کافی ہے۔ اس معنی میں یہ آیت منسوخ ہے، اور طاقت رکھنے والوں پر روزہ رکھنا واجب ہے، فدیہ دینا کافی نہیں۔ صحیحین کے اندر سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کی حدیث اسی پر دلالت کرتی ہے۔ فرماتے ہیں: “لَمَّا نَزَلَتْ: {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} «كَانَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُفْطِرَ وَيَفْتَدِيَ، حَتَّى نَزَلَتِ الآيَةُ الَّتِي بَعْدَهَا فَنَسَخَتْهَا»”۔ (صحيح البخاري، 6/ 25، ح4507، وصحیح مسلم ، ح1145)
دوسرا: اس میں ”لا“ محذوف ہے، اور یہ ”لا یطیقونہ“ کے معنی میں ہے۔ یعنی جن کے پاس روزہ رکھنے کی طاقت نہیں وہ روزہ نہ رکھیں، فدیہ ادا کر دیں۔ اس صورت میں یہ آیت منسوخ نہیں، محکم ہے۔ (دیکھیں: البحر المحیط، 2/189، واضواء البیان للشنقیطی، 9/196)
جب کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس لفظ کو”يُطَوَّقُونَه“ پڑھا ہے۔ (صحیح بخاری، 6/25، ح4505)
اسی طرح یہ قراءت عائشہ، مجاہد، عطاء، سعید بن جبیر، عکرمہ، اور تابعین وغیرہم کی ایک جماعت سے منقول ہے۔ (الاستذکار، 3/364)
یعنی جنھیں روزہ رکھنے میں کلفت اور پریشانی ہوتی ہو وہ روزہ نہ رکھیں اور فدیہ ادا کر دیں۔
علامہ ابن عبد البر فرماتے ہیں: “وأما الذين كانوا يقرؤون (عَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ) فَهَذِهِ القراءة رويت عن ابن عَبَّاسٍ مِنْ طُرُقٍ، وَعَنْ عَائِشَةَ كَذَلِك،َ كَانَ يَقْرَأُ مُجَاهِدٌ وَعَطَاءٌ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَعِكْرِمَةُ وَجَمَاعَةٌ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ، وَكُلُّهُمْ يَذْهَبُ إِلَى أَنَّ الْآيَةَ مَحْكَمَةٌ فِي الشَّيْخِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ الَّذِينَ يُكَلَّفُونَ الصِّيَامَ وَلَا يُطِيقُونَهُ”۔ (الاستذكار (3/ 364)
(جو لوگ آیت کو اس طرح پڑھتے ہیں: ”عَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ“ تو یہ قراءت ابن عباس سے متعدد طرق سے مروی ہے، اسی طرح عائشہ سے، مجاہد، عطاء، سعید بن جبیر، عکرمہ، اور تابعین وغیر تابعین کی ایک جماعت بھی اسی طرح پڑھتے تھے، اور ہر ایک کی رائے یہ تھی کہ یہ آیت بوڑھے مرد وعورت، حاملہ اور مرضعہ جنھیں روزہ رکھنے میں پریشانی ہوتی ہو اور روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان کے حق میں محکم ہے)
اس آیت کے مطابق نص قرآنی سے ہمیں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، جن کو روزہ رکھنے میں پریشانی ہوتی ہو وہ روزہ نہ رکھیں، فدیہ ادا کریں۔ البتہ جنھیں پریشانی نہ ہوتی ہو، بغیر کسی پریشانی کے روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں ان کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں۔ آیت کا یہی مفہوم سلف صالحین کی ایک جماعت سے منقول ہے، اور وہ اس بات کی طرف گئے ہیں کہ یہ آیت ایسے عمر رسیدہ مرد وعورت اور حاملہ ومرضعہ کے حق میں محکم ہے (منسوخ نہیں) جنھیں روزہ رکھنے میں پریشانی ہوتی ہو، اور روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔
بطور مثال سلف سے دو فتوے ملاحظہ فرمائیں:
پہلا: ابراہیم فرماتے ہیں: جاءت امرأة إلى علقمة، فقالت: إني حبلى، وإني أطيق الصيام، وإن زوجي يمنعني، فقال لها علقمة: أطيعي ربك، واعصي زوجك. (مصنفعبد الرزاق، 4/53، ح7699)
(علقمہ کے پاس ایک خاتون آئی اور کہنے لگی: میں حاملہ ہوں اور روزہ رکھنے کی طاقت رکھتی ہوں، لیکن میرا شوہر مجھے روکتا ہے۔ علقمہ نے جواب دیا: اپنے رب کی اطاعت کرو اور شوہر کی بات نہ مانو)
غالبا علقمہ کا اشارہ اسی آیت کی طرف تھا۔
دوسرا: عثمان بن الاسود فرماتے ہیں: “سألت مجاهدًا عن امرأتي وكانت حاملًا، وشقّ عليها الصوم، فقال: مرها فلتفطر ولتطعم مسكينًا كل يوم فإذا صحّت فلتقض”۔
(میں نے مجاہد سے دریافت کیا کہ میری بیوی حاملہ ہے اور روزہ رکھنا اس کے لیے باعث مشقت ہے، تو آپ نے فرمایا: اپنی بیوی کو حکم دیں کہ وہ روزہ ترک کردے اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے اور صحت مند ہونے کے بعد اس کی قضا کر لے)
مجاہد رحمہ اللہ نے صرف مشقت اور پریشانی کی بنا پر اس حاملہ عورت کو روزہ چھوڑنے کی رخصت دی اور یہی محل شاہد ہے۔ البتہ ان کا قضا کا حکم دینا تو اس کے متعلق تفصیلی بحث آگے آئےگی، ان شاء اللہ۔
جہاں تک ”فمن کان منکم مریضًا أو علی سفر فعدۃ من أیام أخر“ والی آیت کی بات ہے تو جمہور علما اسے اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، اور حاملہ ومرضعہ کو مریض پر قیاس کرتے ہوئے روزہ چھوڑنے کی رخصت دیتے ہیں اور بعد میں قضا کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیونکہ اس آیت میں مریض ومسافر کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت دی گئی ہے اور بعد میں قضا کا حکم دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب آپ حاملہ اور مرضعہ کو مریض پر قیاس کرتے ہوئے یا مریض کے حکم میں مانتے ہوئے روزہ چھوڑنے کی رخصت دیتے ہیں اور بعد میں مریض کی طرح ان سے بھی قضا کا مطالبہ کرتے ہیں تو ایک مریض کو جس حالت میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت ملتی ہے ایک حاملہ ودودھ پلانے والی عورت کو وہ رخصت کیوں نہیں دیتے؟
انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ انھیں بدرجہ اولی وہ رخصت ملنی چاہیے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوا کہ مریض کو تو عام مرض کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی رخصت ملے لیکن حاملہ ومرضعہ کو سخت مشقت، جان جانے اور مرنے کا خطرہ ہو تبھی روزہ نہ رکھنے کی رخصت ملے، اس سے پہلے نہیں۔
جہاں تک مریض کی بات ہے تو اس میں بھی علما کے مابین اختلاف ہے کہ کس مریض کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “وَقَدِ اخْتَلَفَ السَّلَفُ فِي الْحَدِّ الَّذِي إِذَا وَجَدَهُ الْمُكَلَّفُ جَازَ لَهُ الْفِطْرُ وَالَّذِي عَلَيْهِ الْجُمْهُورُ أَنَّهُ الْمَرَضُ الَّذِي يُبِيحُ لَهُ التَّيَمُّمَ مَعَ وُجُودِ الْمَاءِ وَهُوَ مَا إِذَا خَافَ عَلَى نَفْسِهِ لَوْ تَمَادَى عَلَى الصَّوْمِ أَوْ عَلَى عُضْوٍ مِنْ أَعْضَائِهِ أَوْ زِيَادَةً فِي الْمَرَضِ الَّذِي بَدَأَ بِهِ أو تماديه, وَعَن ابن سِيرِينَ مَتَى حَصَلَ لِلْإِنْسَانِ حَالٌ يَسْتَحِقُّ بِهَا اسْمَ الْمَرَضِ فَلَهُ الْفِطْرُ, وَهُوَ نَحْوُ قَوْلِ عَطاء, وَعَن الْحسن وَالنَّخَعِيّ: إِذْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى الصَّلَاةِ قَائِمًا يُفْطِرُ”۔ (فتح الباري, 8/179)
(وہ بیماری جس کی وجہ سے مکلف کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے اس کے ضابطہ وحدود کے متعلق سلف کے مابین اختلاف ہے۔ جمہور کا موقف یہ ہے کہ جس بیماری سے پانی ہونے کے باوجود اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہو اس بیماری میں روزہ چھوڑنا جائز ہے، اور وہ یہ کہ روزہ جاری رکھنے کی صورت میں اپنی جان پر خوف ہو یا جسم کے کسی عضو پر، یا مرض بڑھنے یا لمبا کھینچنے کا ڈر ہو۔ ابن سیرین سے روایت ہے کہ جب انسان کی حالت ایسی ہو کہ اس پر مرض کا اطلاق کیا جاسکے تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے۔ اسی طرح عطاء کا بھی کہنا ہے۔ اور حسن ونخعی سے روایت ہے کہ جب کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو روزہ چھوڑنا جائز ہے)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں سلف کے موقف کو بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ گرچہ بیماری سخت مشقت والی یا موت وحیات کا مسئلہ والی نہ ہو پھر بھی روزہ توڑنے کی سلف نے اجازت دی ہے، بلکہ ابن سیرین اور عطاء رحمہما اللہ نے تو ہر اس بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی رخصت دی ہے جس پر مرض کا اطلاق کرنا درست ہو۔ اور یہ موقف صحیح بھی معلوم ہوتا ہے کیونکہ آیت میں ایسی کوئی حدبندی وارد نہیں ہے، بلکہ اس میں مطلقا مریض کی بات آئی ہے۔
امام المحدثین والفقہاء محمد بن اسماعیل البخاری اور ان کے جلیل القدر شیخ اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ نے بھی اس سے یہی سمجھا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنے شیخ کے ساتھ ایک قصہ ملاحظہ فرمائیں۔ امام بخاری فرماتے ہیں: اعتللتُ بنيسابور عِلّة خَفِيفَة وَذَلِكَ فِي شهر رَمَضَان، فعادني إِسْحَاق بن رَاهَوَيْه فِي نفر من أَصْحَابه، فَقَالَ لي: أفطرت يَا أَبَا عبد الله؟ فَقلت: نعم، فَقَالَ: خشيت أَن تضعف عَن قبُول الرُّخْصَة، فَقلت: أَخبرنا عَبْدَانِ عَن ابْن الْمُبَارك عَن ابْن جريج قَالَ: قلت لعطاء: من أَي الْمَرَض أفطر؟ فَقَالَ: من أَي مرض كَانَ كَمَا قَالَ الله عز وَجل {فَمَنْ كَانَ مِنْكُم مَرِيضا}۔ (تاریخ دمشق، 52/86، تحفة الإخباري بترجمة البخاري لابن ناصر الدين (ص: 206)، فتح الباري لابن حجر (1/ 487)، تغليق التعليق له (5/ 417)۔
(امام بخاری فرماتے ہیں: ماہ رمضان میں نیشا پور میں مجھے معمولی سی بیماری ہوئی، اسحاق بن راہویہ اپنے شاگردوں کے ساتھ میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے، اور مجھ سے دریافت کیے: اے ابو عبد اللہ آپ نے روزہ چھوڑا یا نہیں؟ میں نے کہا: ہاں چھوڑ دیا ہے۔ کہنے لگے: مجھے ڈر ہوا کہ کہیں آپ رخصت قبول کرنے سے پیچھے نہ ہٹ گئے ہوں۔ تو میں نے کہا: مجھے عبدان نے ”ابن مبارک عن ابن جریج“ کے واسطے سے یہ حدیث سنائی ہے کہ انھوں نے عطا سے پوچھا: کس طرح کی بیماری سے انسان روزہ چھوڑ سکتا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا: کسی بھی طرح کی بیماری سے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے”فمن کان منکم مریضًا“ یعنی جب تم میں سے کوئی بیمار ہو تو روزہ چھوڑ دے)
اس واقعہ سے تین جلیل القدر فقہاء سلف کا موقف ہمیں واضح طور پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ کس طرح بہت ہلکی اور معمولی بیماری کی وجہ سے بھی وہ روزہ نہ رکھنا اور رخصت قبول کرنا جائز سمجھتے تھے۔ بلکہ اسحاق بن راہویہ کے ساتھ ان کے تلامذہ کی ایک جماعت بھی تھی اور کسی نے ان پر کوئی نکیر نہیں کی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ان کے نزدیک ایک معروف چیز تھی۔ بلکہ بسا اوقات وہ معمولی بیماری کی وجہ سے روزہ نہ چھوڑنے والوں پر نکیر کرتے تھے۔
بعض حضرات نے اس مسئلہ میں سختی دکھائی ہے اور سخت مشقت، جان جانے کا خطرہ اور ہلاکت کے ڈر کی صورت میں ہی حاملہ ومرضعہ کو روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہے۔ حالانکہ نہ آیت قرآنی اس پر دلالت کرتی ہے، نہ حدیث نبوی، اور نہ سلف صالحین ہی کا یہ موقف ہے، بلکہ اجلائے سلف کی ایک جماعت نے اس میں نرمی کا پہلو اختیار کرتے ہوئے اسلام کے عمومی مزاج کے موافق روزہ رکھنے میں پریشانی کی صورت میں افطار کرنے کی عمومی رخصت دی ہے۔
البتہ بعض ایسے امور ہیں جس سے کسی کو وہم ہوسکتا ہے کہ مشقت جب تک برداشت سے باہر نہ ہوجائے یا جان جانے کا خطرہ اور ہلاکت کا ڈر نہ ہو جائے روزہ افطار کرنے کی رخصت نہیں، حالانکہ در حقیقت ایسی بات نہیں ہے۔ ذیل میں ان امور کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
عطاء بن ابی رباح کا اثر:
عبد الرزاق الصنعانی فرماتے ہیں: قَالَ عَطَاءٌ: «وَبَلَغَنِي أَنَّ الْكَبِيرَ إِذَا لَمْ يَسْتَطِعِ الصِّيَامَ يَفْتَدِي مِنْ كُلِّ يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ بِمُدٍّ لِكُلِّ مِسْكِينٍ، الشَّيْخُ الْكَبِيرُ، وَالْمَرْأَةُ الْكَبِيرَةُ، فَأَمَّا مَنِ اسْتَطَاعَ صِيَامَهُ بِجُهْدٍ فَلْيَصُمْهُ، فَلَا عُذْرَ لَهُ فِي تَرْكِهِ» (مصنف عبد الرزاق الصنعاني (4/ 221) (ح7575)۔
عطاء فرماتے ہیں: مجھے خبر پہنچی کہ بزرگ مرد و عورت اگر روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو تو ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو ایک “مد” فدیہ دے، البتہ جو روزہ رکھ سکے گرچہ اس میں مشقت ہی کیوں نہ ہو تو وہ معذور نہیں ہے”۔
اس اثر سے استدلال کیا جاتا ہے کہ عطا بن ابی رباح نے بزرگ مرد وعورت کو ”جب تک روزہ رکھ سکے گرچہ اس میں مشقت ہی کیوں نہ ہو تو وہ معذور نہیں ہے“ کہا ہے۔ لہذا مشقت جب تک ”برداشت سے باہر نہ ہوجائے“ روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں۔
جائزہ: یہ اثر ضعیف ہے۔ اسے ”صحیح“ کہنا صحیح نہیں۔ اس کی سند پر غور فرمائیں، اس میں یہ فتوی عطاء نے نہ اپنی طرف سے دیا ہے اور نہ ابن عباس کی طرف منسوب کیا ہے، بلکہ ”وَبَلَغَنِي“ کے صیغے سے یہ فتوی نقل کیا ہے۔ اور اس شخص کا کوئی اتہ پتہ نہیں جن سے انھوں نے یہ فتوی سنا ہے، لہذا یہ ثابت نہیں۔
اس کے برعکس ابھی عطاء بن ابی رباح کا قول گزرا، جب ان سے پوچھا گیا ”من أَي الْمَرَض أفطر؟“ (کس طرح کی بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہوں؟) تو جواب دیا: ”من أَي مرض كَانَ كَمَا قَالَ الله عز وَجل: {فَمَنْ كَانَ مِنْكُم مَرِيضا}“،
(کسی بھی طرح کی بیماری سے جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے تم میں سے جو بیمار ہو، یعنی وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے)
اسی فتوے کی روشنی میں حاملہ ومرضعہ کے متعلق ان کے ایک دوسرے فتوے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ وہ دوسرا فتوی یوں ہے: “تفطر الحامل، والمرضع في رمضان، إذا خافتا على أولادهما في الصيف، قال: وفي الشتاء إذا خافتا على أولادهما.” (مصنف عبد الرزاق، 4/ 53 ، ح 7699)
“جاڑا یا گرمی کسی بھی موسم میں رمضان میں اگر حاملہ اور مرضعہ کو اپنے بچہ پر خوف ہو تو وہ روزہ ترک کرے گی”۔
ان کے دونوں فتووں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ بلکہ پہلے فتوے کی روشنی میں جس سے امام بخاری نے استدلال کیا ہے اس دوسرے فتوے کو سمجھنا بالکل آسان ہے۔
یہاں پر اس اثر میں اور ابن عباس، ابن عمر اور دوسرے بہت سارے اسلاف کے آثار میں یہی ”خوف“ کا لفظ وارد ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ”جان کا خطرہ ہو“ تو روزہ ترک کرے گی، ورنہ نہیں، بلکہ عمومی خوف کی بات ہے، کسی بھی قسم کا خوف ہو چاہے بیمار پڑ جانے کا، یا بیماری کے بڑھ جانے کا، جسمانی طورپر کمزور ہوجانے اور نقصان پہنچنے کا، دودھ پلانے کی طاقت نہ رکھنے کا، وغیرہ تو وہ روزہ ترک کر سکتی ہے، جیسے کہ مرض کے متعلق جب عطاء سے سوال کیا گیا تو فرمایا کہ کسی بھی بیماری سے وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے مطلقا مرض کہا ہے۔ لہذا اسی طرح روزہ رکھنے کی جب طاقت نہ ہو یا کلفت اور پریشانی ہوتی ہو تو وہ روزہ ترک کر سکتی ہے جیسے کہ”وعلی الذین یطیقونہ“کی مختلف قراءات اور تفسیر میں یہ بات گزری۔
اس ”خوف“ کے لفظ کو صحیح مفہوم میں سمجھ لیا جائے تو اس مسئلہ کے اکثر وبیشتر اشکالات ویسے ہی دور ہو جائیں گے۔ کیونکہ اکثر آثار میں یہی ”خوف“ کا لفظ وارد ہے۔
اس ”خوف“ کے مفہوم کو شیخ محمد بن محمد المختار الشنقیطی حفظہ اللہ (عضو ہیئۃ کبار العلماء، ومدرس مسجد نبوی) نے عمدۃ الفقہ کے ایک درس میں بہترین انداز میں سمجھایا ہے۔ فرماتے ہیں:
“إذا كانت المرأة حاملا أو كانت مرضعا فإما أن تخاف على نفسها من الصوم، وإما أن تخاف على ولدها، وإما أن تخاف على نفسها وولدها، فإذا كانت المرأة حاملا أو كانت مرضعا سواء كانت مرضعة لولدها أو مرضعا لولد غيرها كالمرأة المستأجرة للرضاع؛ فإنه يجوز لها الفطر في جميع هذه الأحوال، يجوز لها أن تفطر إذا خافت على نفسها كأن تكون حاملا ضعيفة البنية والحمل ينهكها فإذا صامت تعبت أو لربما استضرت فيجوز لها أن تفطر، وهكذا لو قال لها الطبيب: لا تصومي وأنت حامل، فإنه يضرك في الجسد جاز لها الفطر، ففي هذه الحالة تخاف على نفسها، وكذلك أيضا إذا خافت على جنينها. فقال لها الطبيب: إن الجنين في حالة لو صمت استضرّ بصومك ولربما مات؛ فحينئذ يجوز لها أن تفطر، أو خافت على نفسها مع الجنين فهي أضعفها الحمل، وكذلك الحمل لو صامت تأثر؛ فحينئذ يكون مجموع الأمرين.
في جميع هذه الصور تفطر المرأة الحامل، والمرضع كذلك إذا خافت على نفسها، أو خافت على الولد الذي ترضعه؛ لأنها تحتاج إلى الحليب، ولكي تدر الحليب لابد أن تكون مفطرة أو تفطر على وجه تقْوى به على الإرضاع، أو يكون الرضيع ضعيف البنية لا يمكن تأخير رضاعه، وإذا أرضعته وهي صائم استضرت؛ فحينئذ يجوز لها أن تفطر لمصلحة الغير، وكذلك أيضا إذا اجتمع الأمران من باب أولى وأحرى.”۔

(جب عورت حاملہ ہو یا دودھ پلا رہی ہو تو اسے یا تو اپنے نفس پر خوف ہوگا یا اپنے بچے پر، یا دونوں پر، پس جب وہ حاملہ ہو یا دودھ پلا رہی ہو، چاہے اپنے بچے کو دودھ پلائے یا کسی دوسرے کے بچے کو، جیسے وہ عورت جو کرایہ پر دودھ پلاتی ہے، تو اس کے لیے ان تمام حالات میں روزہ چھوڑنا جائز ہے۔ اپنے نفس پر خوف ہونے کی صورت میں اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے مثلا وہ حاملہ ہو اور کمزور ساخت (جسم) والی ہو، اور حمل اسے لاغر کر دے، روزہ رکھنے کی صورت میں تھک جاتی ہو، یا بسا اوقات نقصان پہنچتا ہو، تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے۔ اسی طرح اگر ڈاکٹر اس سے کہے کہ حمل کی حالت میں تم روزہ نہ رکھو اس سے تمھارے جسم کو نقصان پہنچے گا، تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے۔ یہ اس کی اپنے نفس پر خوف کی حالت ہے۔
اسی طرح اگر اسے بچے پر خوف ہو اور ڈاکٹر اس سے کہے کہ اگر تم روزہ رکھتی ہو تو بچے کو تمھارے روزے کی وجہ سے نقصان ہوگا، بلکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مر جائے، تو اس وقت اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہوگا۔ یا بچے کے ساتھ ساتھ اپنے نفس پر بھی خوف ہو، حمل نے اسے کمزور کردیا ہے اور روزہ رکھتی ہے تو بچہ بھی متأثر ہوتا ہے تو یہاں پر دونوں چیزیں پائی جارہی ہیں۔
ان تمام صورتوں میں حاملہ ومرضعہ روزہ چھوڑے گی، جب اسے اپنے نفس پر خوف ہو یا اس بچے پر جسے وہ دودھ پلا رہی ہے، کیونکہ اسے دودھ کی ضرورت ہے، اور دودھ آتا رہے اس کے لیے اسے روزہ چھوڑنا ضروری ہے تاکہ دودھ پلانے کی طاقت مل سکے۔ یا بچہ کمزور جسم کا ہو، اس کی رضاعت کو ٹالنا ممکن نہ ہو، اور روزہ رکھ کر دودھ پلانے کی صورت میں اسے نقصان ہو رہا ہو تو دوسرے کی مصلحت کی خاطر اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے۔ اسی طرح جب دونوں سبب پائے جائیں تو بدرجہ اولی روزہ چھوڑنا جائز ہے)
یہ ہے خوف کا صحیح معنی ومفہوم۔ اس کا معنی جان جانے کا خطرہ یا ہلاکت کا ڈر نہیں ہے، یہ تو بدرجہ اولی اس میں داخل ہے، لیکن اس خطرہ سے کافی پہلے ہی اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے گرچہ موت کا ذرہ برابر ڈر نہ ہو، صرف جسمانی طور پر نقصان پہنچتا ہو تو روزہ چھوڑنا اس کے لیے جائز ہے، اور یہی آثار صحابہ وتابعین میں ”خوف“ کا معنی ہے، ورنہ ان کے فتووں کے درمیان تضاد لازم آئے گا۔
امام شافعی کے فتوے سے استدلال کا جائزہ:
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَالْحَالُ الَّتِي يَتْرُكُ بِهَا الْكَبِيرُ الصَّوْمَ أَنْ يَكُونَ يُجْهِدُهُ الْجَهْدَ غَيْرَ الْمُحْتَمَلِ وَكَذَلِكَ الْمَرِيضُ وَالْحَامِلُ، وَإِنْ زَادَ مَرَضُ الْمَرِيضِ زِيَادَةً بَيِّنَةً أَفْطَرَ، وَإِنْ كَانَتْ زِيَادَةً مُحْتَمَلَةً لَمْ يُفْطِرْ وَالْحَامِلُ إذَا خَافَتْ عَلَى وَلَدِهَا: أَفْطَرَتْ وَكَذَلِكَ الْمُرْضِعُ إذَا أَضَرَّ بِلَبَنِهَا الْإِضْرَارَ الْبَيِّنَ، فَأَمَّا مَا كَانَ مِنْ ذَلِكَ مُحْتَمَلًا فَلَا يُفْطِرُ صَاحِبُهُ، وَالصَّوْمُ قَدْ يُزِيدُ عَامَّةَ الْعِلَلِ وَلَكِنْ زِيَادَةً مُحْتَمَلَةً وَيُنْتَقَصُ بَعْضُ اللَّبَنِ وَلَكِنَّهُ نُقْصَانٌ مُحْتَمَلٌ، فَإِذَا تَفَاحَشَ أَفْطَرَتَا. (الأم للشافعي (2/ 114)۔
جائزہ: امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ فتوی بہت ہی سخت ہے۔ اور اس طرح کی سختی کرنے میں وہ متفرد ہیں۔ مجھے سلف میں کوئی دوسرا نہ ملا جنھوں نے یہ سختی دکھائی ہو۔ اور نہ کتاب وسنت اور مزاج شریعت سے ہی اس سختی کی کوئی تائید ہوتی ہے۔ بلکہ خود انھوں نے حاملہ اور مرضعہ کو مریض پر قیاس کرکے یا اس کے حکم میں مان کرکے قضا کو واجب کہا ہے۔ اور مریض کے متعلق ابن سیرین، عطاء بن ابی رباح، ابن اسحاق، امام بخاری وغیرہ سلف کا موقف گزرا کہ مطلقا مرض کی بنا پر انھوں نے روزہ افطار کرنے کو جائز کہا ہے۔ لہذا اس شاذ فتوے کو اصل بنانا اور حاملہ ومرضعہ کو حرج میں ڈالنا قطعا مناسب نہیں۔
علقمہ ومجاہد کا فتوی:
ابراہيم فرماتے ہیں: جاءت امرأة إلى علقمة، فقالت: إني حبلى، وإني أطيق الصيام، وإن زوجي يمنعني، فقال لها علقمة: أطيعي ربك، واعصي زوجك. (مصنف عبد الرزاق، 4/53 ، ح7699)
عثمان بن الاسود فرماتے ہیں: سألت مجاهدا عن امرأتي وكانت حاملًا، وشقّ عليها الصوم فقال: مرها فلتفطر ولتطعم مسكينا كل يوم فإذا صحّت فلتقض
“میں نے مجاہد سے دریافت کیا کہ میری اہلیہ حاملہ ہے اور روزہ رکھنا اس کے لیے مشکل ہوگیا ، تو آپ نے فرمایا: اپنی بیوی کو حکم دیں کہ وہ روزہ ترک کردے اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دے اور جب طاقت ہو تو اس کی قضا کر لے”۔
جائزہ: یہ دونوں فتوے میرے ہی موقف کی تائید کرتے ہیں جیسے کہ شروع میں اسے بیان کیا گیا کہ حاملہ ومرضعہ پر اگر روزے کا کوئی اثر نہ ہو، حمل ورضاعت کی حالت اس کے لیے عام حالت کی طرح ہو، یہ مشقت کا باعث نہ ہو تو اسے روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں، آیت کریمہ ”وعلی الذین یطیقونہ“ کی مختلف قراءات و تفسیر میں یہ بات گزر چکی ہے۔ اور اسی کے مطابق علقمہ رحمہ اللہ کا فتوی ہے۔
لیکن اگر روزہ رکھنا اس کے لیے باعث مشقت ہو تو گرچہ جان کا خطرہ نہ ہو، ہلاکت کا ڈر نہ ہو اس کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے۔ اور یہی فتوی مجاہد رحمہ اللہ نے دیا ہے۔ لہذا ان دونوں کا فتوی آیت کریمہ کے عین مطابق ہے۔
علامہ ابن القیم کے قول سے استدلال:
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “أسباب الفطر أربعة: السفر والمرض والحيض والخوف على هلاك من يخشى عليه بصوم كالمرضع والحامل إذا خافتا على ولديهما”۔ (بدائع الفوائد، 4/ 45)
(روزہ ترک کرنے کے چار اسباب ہیں: سفر، مرض، حیض اور ہلاکت کا ڈر، جیسے مرضعہ اور حاملہ کو اگر بچہ پر خوف ہو)
جائزہ: علامہ ابن القیم کے اس قول سے استدلال کئی ناحیہ سے صحیح نہیں۔
1 – انھوں نے چوتھا سبب ہلاکت کا ڈر بیان کیا ہے۔ اس سے پہلے چھوڑ سکتی ہے یا نہیں اس کی صراحت نہیں کی۔ اس قول کی رو سے سخت مشقت کی صورت میں بھی گرچہ وہ برداشت سے باہر ہی کیوں نہ ہو روزہ نہیں چھوڑ سکتی، صرف ہلاکت کا ڈر ہو تو روزہ چھوڑ سکتی ہے۔ اور اس کا کوئی قائل نہیں، بلکہ قضا کے قائلین بھی اسے نہیں مانتے۔
2 – انھوں نے صرف بچے پر خوف کی صورت میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی ہے، تو کیا یہ کہا جائے گا کہ اپنے نفس پر خوف کی صورت میں کسی بھی حال میں روزہ نہیں چھوڑ سکتی گرچہ ہلاک ہو جائے؟ کیونکہ ہلاکت کے وقت بھی انھوں نے بچے پر خوف کی قید لگائی ہے۔
3 – انھوں نے تیسرا سبب حیض بیان کیا ہے، لیکن نفاس کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ تو کیا نفاس یہ روزہ چھوڑنے کا سبب نہیں؟
اگر کوئی کہے کہ سخت مشقت، خصوصا جب وہ برداشت سے باہر ہوجائے، اسی طرح خوف علی النفس، اور حالت نفاس بھی ان کے قول کے عموم میں داخل ہے تو کہا جائے گا کہ پریشانی اور روزہ چھوڑنے کی جو دیگر صورتیں بیان کی گئیں وہ بھی ان کے قول کے عموم میں داخل ہیں۔
خلاصۂ کلام: اگر کوئی حاملہ ومرضعہ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتی ہو، روزہ رکھنے میں اسے مشقت ہو رہی ہو گرچہ یہ مشقت قابل برداشت ہی کیوں نہ ہو، گرچہ جان کا خطرہ نہ ہو، گرچہ ہلاکت کا ڈر نہ ہو، شریعت نے اسے روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہے۔ برداشت سے باہر مشقت کی، جان کے خطرے کی، ہلاکت کے ڈر وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی ہے، اور نہ سلف سے ہی اس طرح کا کوئی فتوی منقول ہے سوائے امام شافعی کے۔
اور حمل ورضاعت کی حالت میں اکثر وبیشتر خواتین کو اس طرح کی مشقت لاحق ہوتی ہے۔ حمل کے ابتدائی ایام میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد الٹی کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ کھانے پینے کی خواہش مر جاتی ہے جس سے جسم بھی کمزور ہوجاتا ہے، روزہ کی وجہ سے نڈھال بے جان پڑی رہتی ہے۔ نسیں کھینچنے لگتی ہیں، سر چکراتا ہے، وغیرہ، طرح طرح کی مشقتیں لاحق ہوتی ہیں۔ اسی طرح حمل کے آخری مہینوں میں چلنے پھرنے اور اپنے ضروری کام کرنے میں بھی مشقت لاحق ہوتی ہے، چہ جائیکہ روزہ رکھ کر گھر کی ذمہ داری بھی سنبھالے۔

اسی طرح رضاعت کی بھی بات ہے، ماں کی غذا پر بچے کے دودھ کا دار ومدار ہے۔ چھ مہینے تک بچہ دودھ کے علاوہ کچھ نہیں لیتا۔ اور چھ مہینے کے بعد گرچہ خارجی غذا لینا شروع کر دیتا ہے لیکن دودھ بھی پیتا رہتا ہے، ادھر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی بھوک بڑھتی رہتی ہے، اور ادھر ماں کا دودھ طبعی طور پر آہستہ آہستہ گھٹنے لگتا ہے، اس وقت ایک دودھ پلانے عورت مکمل غذا لینے کے باوجود بچے کی ڈیمانڈ ٹھیک سے پوری کرنے میں پریشان رہتی ہے۔
ایسے حالات میں حاملہ عورتوں کو روزہ نہ رکھنے کی شریعت نے رخصت دی ہے۔ اور یہ شریعت کی عظیم خوبیوں میں سے ایک اہم خوبی اور احسان ہے۔
ہاں بعض عورتوں کے ساتھ ایسا معاملہ پیش نہیں آتا، بلکہ بعض عورتوں کو کئی کئی مہینے تک پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ حاملہ ہے، بعض عورتیں ولادت کے دن تک ایک دم نارمل رہتی ہیں، تو ایسی عورتوں کے لیے جن کے لیے روزہ رکھنا کسی بھی طرح مشقت کا باعث نہ ہو روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔

دوسری قسط: کیا مسئلہ صومِ حاملہ ومرضعہ کی کسی صورت پر علما کا اجماع ہے؟

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
جبران احمد ضمیر احمد

بارك الله فيكم ونفع بكم الإسلام والمسلمين