پہلی قسط : حاملہ ومرضعہ کو کب روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے؟
دوسری قسط
حاملہ ومرضعہ کے روزوں کے مسئلہ میں دو صورتوں پر اجماع کا دعوی کیا گیا ہے:
1 – حاملہ ومرضعہ کو اگر اپنے لیے روزہ چھوڑنا پڑے (بچے کے لیے نہیں) تو اس پر قضا واجب ہے۔ مذاہب اربعہ میں سے ہر مذہب میں اس صورت کو متفق علیہ یا مجمع علیہ کہا گیا ہے۔
2 – حالت نفاس میں رہنے کی مدت میں مرضعہ سے جو روزے فوت ہوں ان کی قضا ضروری ہے۔ امام نووی اور ابن قدامہ نے اس بارے میں اجماع نقل کیا ہے۔ اور معاصرین میں سے شیخ فرکوس نے یہ قول اختیار کیا ہے۔
اب دونوں صورتوں پر اجماع کے دعوے کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
●پہلی صورت:
فقہائے حنفیہ میں سے بابرتی، مالکیہ میں سے زرقانی، شافعیہ میں سے امام نووی اور حنابلہ میں سے ابن قدامہ نے اس بارے میں اجماع نقل کیا ہے۔ (دیکھیں: العنایہ للبابرتی، 2/355، شرح الزرقانی علی الموطا، 2/284، المجموع للنووی، 6/167، والمغنی، 3/149)
بابرتی اور امام نووی کے قول میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے مذہب کا اتفاق نقل کر رہے ہیں۔ جب کہ ابن قدامہ اور زرقانی کے قول کی ظاہری عبارت عمومی اتفاق کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حقیقت میں اس مسئلہ میں سلف کے درمیان اجماع تھا کہ حاملہ اور مرضعہ اگر اپنے نفس پر خوف کی وجہ سے روزہ چھوڑتی ہے تو اسے بعد میں اس کی قضا کرنا ضروری ہے، فدیہ دینا کافی نہیں؟
●اس کا جواب یہ ہے کہ شروع سے ہی اس مسئلہ میں بہت زیادہ اختلاف رہا ہے۔
■حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “الْحَامِل وَالْمُرْضِع إِذَا خَافَتَا عَلَى أَنْفُسهمَا أَوْ وَلَدَيْهِمَا فَفِيهِمَا خِلَاف كَثِير بَيْن الْعُلَمَاء فَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ يُفْطِرَانِ وَيَفْدِيَانِ وَيَقْضِيَانِ وَقِيلَ يَفْدِيَانِ فَقَطْ وَلَا قَضَاء وَقِيلَ يَجِب الْقَضَاء بِلَا فِدْيَة وَقِيلَ يُفْطِرَانِ وَلَا فِدْيَة وَلَا قَضَاء”۔ (تفسير ابن كثير، طبعہ مؤسسہ قرطبہ، 2/ 179)
(حاملہ اور مرضعہ کو جب اپنے نفس پر یا بچے پر خوف ہو تو اس بارے میں علما کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض کا کہنا ہے: دونوں روزہ چھوڑیں گی اور فدیہ دیں گی قضا کریں گی۔ اور ایک قول یہ کہا گیا ہے کہ فقط فدیہ دیں گی، ان پر قضا نہیں ہے۔ اور ایک قول یہ کہا گیا ہے کہ صرف قضا واجب ہے فدیہ نہیں۔ اور ایک قول یہ ہے کہ نہ فدیہ ہے نہ قضا ہے)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہاں واضح لفظوں میں اس مسئلہ میں ”بہت زیادہ اختلاف“ ہونے کی بات کی ہے۔ اور یہی حقیقت بھی ہے کہ عہد صحابہ سے لے کر آج تک صورت مذکورہ میں صرف فدیہ پر اکتفا کرنے اور قضا نہ کرنے کا فتوی موجود رہا ہے۔
■چنانچہ عہد صحابہ میں ترجمان القرآن عبد اللہ بن عباس اور متبع رسول عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے نفس پر خوف کی صورت میں بھی صرف فدیہ پر اکتفا کرنے کا فتوی دیا ہے، بلکہ قضا کرنے سے منع کیا ہے۔ ان سے صحیح اسانید سے یہ فتوی ثابت ہے اور اسے شاذ کہنا غلط ہے۔ ان دونوں آثار پر تفصیلی بحث ان شاء اللہ آگے آرہی ہے۔
اگر اس مسئلہ میں ان دونوں جلیل القدر صحابہ کرام کے فتووں کے علاوہ اور کسی کا قول نہ رہتا پھر بھی دعوائے اجماع کے بطلان کے لیے کافی تھا۔
■جب کہ یہی فتوی سعید بن جبیر، قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق اور سلف کی ایک جماعت کا بھی رہا ہے۔ چنانچہ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “عن ابن عمر قال: الحامل إذا خشيت على نفسها في رمضان تفطر وتطعم ولا قضاء عليها، وهو قول سعيد بن جبير والقاسم بن محمد وطائفة”۔ (الاستذکار، 3/365)
(ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حاملہ عورت کو جب رمضان میں اپنے نفس پر خوف ہو تو وہ روزہ چھوڑے گی، مسکین کو کھانا دے گی اور اس پر قضا نہیں ہے۔ یہی قول سعید بن جبیر، قاسم بن محمد اور ایک جماعت کا ہے)
علامہ ابن عبد البر نے اس قول کو واضح لفظوں میں ایک جماعت کی طرف منسوب کیا ہے۔
■ابو عبید القاسم بن سلام نے بھی قدیم زمانے سے اس میں اختلاف کے موجود ہونے کی بات کی ہے اور صرف ضعیف احتمال کی بنیاد پر ان کے قول کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ (الناسخ والمنسوخ: ص62)
■علامہ ابن حزم نے حاملہ ومرضعہ سے روزہ کو بالکل معاف کہا ہے۔ انھوں نے کسی بھی صورت میں کچھ بھی واجب ہونے کا انکار کیا ہے، وہ نہ قضا کو واجب مانتے ہیں، نہ فدیہ کو، بلکہ مطلقًا سب کا انکار کرتے ہیں اور اس پر انھوں نے بڑی تفصیلی بحث بھی پیش کی ہے۔ المحلی میں اس مسئلہ میں ڈھیر سارا نفیس علمی مواد موجود ہے۔
لہذا خوف علی النفس کی صورت میں قضا کے واجب ہونے پر اجماع کہاں ہوا؟ ابن حزم نے تو قضا وفدیہ دونوں کا انکار کیا ہے۔
■ابن حزم نے صرف شخصی طور پر صورت مذکورہ کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ سرے سے حاملہ ومرضعہ کے مسئلہ میں کسی اجماع ہی کے ہونے کا انکار کیا ہے۔ فرماتے ہیں: “فَلَمْ يَتَّفِقُوا عَلَى إيجَابِ الْقَضَاءِ وَلَا عَلَى إيجَابِ الْإِطْعَامِ فَلَا يَجِبُ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ؛ إذْ لَا نَصَّ فِي وُجُوبِهِ وَلَا إجْمَاعَ”۔ (المحلى بالآثار (4/ 411)۔
(علما کا نہ قضا کے واجب ہونے پر اتفاق ہے، نہ فدیہ کے واجب ہونے پر، اس لیے کچھ بھی واجب نہیں، کیونکہ اس کے وجوب میں نہ کوئی نص ہے نہ کوئی اجماع)
اور ابن حزم امام مطّلع ہیں، اجماع پر ان کی خاص تالیف اور گہری نظر ہے اور اس باب میں علما نے ان کی امامت کو تسلیم کیا ہے۔ لہذا اجماع کی نفی میں ان کا قول خاص مقام رکھتا ہے۔
نقض اجماع کے اتنے سارے دلائل کی موجودگی میں کیا یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ یہ مجمع علیہ مسئلہ ہے؟
◇کہا جاتا ہے کہ شیخ علی بن آدم اثیوبی نے اس اجماع کی موافقت کی ہے۔ اگر وہ موافقت بھی کرتے پھر بھی اتنے سارے دلائل کی موجودگی میں ان کی بات قبول نہیں کی جاسکتی تھی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ انھوں نے خود اسے ایک مختلف فیہ مسئلہ قرار دیا ہے۔
چنانچہ ذخیرۃ العقبی (21/213) میں حدیث انس الکعبی سے مستنبط مسائل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(مسألة): في اختلاف أهل العلم في حكم الحامل والمرضع إذا خافتا على أنفسهما، أو على أولادهما لو صامتا:
اس عنوان کو غور سے پڑھیں، یہاں پر وہ ”خوف علی النفس“ اور ”خوف علی الاولاد“ دونوں صورتوں کے متعلق اہل علم کا اختلاف نقل کر رہے ہیں، صرف ”خوف علی الاولاد“ کی صورت میں نہیں۔
اور ”یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے“ اس بات کی تائید میں امام ترمذی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ کا قول نقل کرتے ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی امام ترمذی وابن حجر رحمہما اللہ کے کلام سے یہی سمجھا ہے کہ دونوں کے نزدیک دونوں صورتوں میں اختلاف ہے، کسی بھی صورت میں کوئی اجماع نہیں ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ابن قدامہ اور زرقانی نے خوف علی النفس کی صورت میں اتفاق بیان کیا ہے۔ اس ترتیب و تفصیل سے واضح ہے کہ وہ اسے ایک مختلف فیہ مسئلہ سمجھ رہے ہیں اور اس اجماع سے اتفاق نہیں رکھتے۔
بلکہ دوسری جگہ انھوں نے باقاعدہ اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ چنانچہ انس بن مالک الکعبی کی حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “يعَني أن اللَّه تعالى وضع عن الحامل، والمرضع وجوب أداء الصوم إذا خافتا علىَ أنفسهما، أو على الحمل والرضيع، ثم هل هو وضع إلى قضاء، أو فداء، أو لا قضاء، ولا فداء قد اختلف فيه أهل العلم”۔ (ذخيرة العقبى في شرح المجتبى) (21/ 176)
(یعنی اللہ تعالی نے حاملہ اور مرضعہ سے روزہ کے وجوب کو ساقط کر دیا ہے جب انھیں اپنے نفس پر خوف ہو یا اپنے حمل اور دودھ پیتے بچے پر، پھر اس کا بدل قضا ہے یا فدیہ، یا نہ قضا اور نہ فدیہ، اس بارے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے)
یہاں پر بالکل صریح لفظوں میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ خوف علی النفس کی صورت میں بھی اہل علم کا اختلاف موجود ہے۔
●دوسری صورت: حالت نفاس میں رہنے کی مدت میں مرضعہ سے جو روزے فوت ہوں ان کی قضا ضروری ہے۔ امام نووی اور ابن قدامہ نے اس بارے میں اجماع نقل کیا ہے۔ اور معاصرین میں سے شیخ فرکوس نے اسے اختیار کیا ہے۔
سابقہ دعوائے اجماع کی طرح اس اجماع کا دعوی بھی صحیح نہیں ہے۔ اس کے متعدد اسباب ہیں:
■سعید بن جبیر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت کرتے ہیں: “أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ تُرْضِعُ فَأُجْهِضَتْ، فَأَمَرَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَنْ تُفْطِرَ يَعْنِي: وَتُطْعِمَ وَلَا تَقْضِيَ”. هَذَا صَحِيحٌ۔ (سنن دارقطنی 3/197، ح2384)
(ان کی ایک کنیز تھی جو مرضعہ تھی اور روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کا حمل ساقط ہوگیا تھا آپ نے اسے روزہ توڑنے کا حکم دیا۔ یعنی وہ اس کی جگہ مسکین کو کھانا دے گی اور اس کی قضا نہیں کرے گی)
امام دار قطنی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
یہاں پر ایک نفاس والی عورت کا مسئلہ ہے جو پہلے سے ہی دودھ پلا رہی ہے اور اب حمل سقط ہونے کی وجہ سے نفاس کی حالت میں آگئی ہے۔ انھیں ابن عباس نے روزہ چھوڑنے کا حکم دیا۔ آگے اس کی تشریح موجود ہے یعنی وہ بعد میں ”فدیہ دے گی اور قضا نہیں کرے گی“۔ یہ جملہ کس کا ہے اس بارے میں صراحت نہیں ہے۔ ابن عباس ہی کا یا سند میں موجود کسی راوی کا یا امام دارقطنی کا؟
احتمال ہر ایک کا موجود ہے۔ بہر حال جس کا بھی کلام تسلیم کیا جائے دعوائے اجماع کے بطلان کے لیے کافی ہے۔ دعوی یہ کیا جا رہا ہے کہ امت میں سے کسی نے مرضعہ کو حالت نفاس میں روزہ فوت ہونے کی صورت میں فدیہ پر اکتفا کا حکم نہیں دیا ہے، صرف قضا کا حکم دیا ہے۔ اور یہاں صریح لفظوں میں لکھا ہوا ہے کہ وہ عورت کھانا دےگی، قضا نہیں کرے گی۔
صرف ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اس اجماع کے نقض کے لیے کافی ہے۔
■حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول ابھی اوپر بیان کیا گیا کہ مسئلہ میں علما کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہے، انھوں نے اس اختلاف سے اس خاص حالت کا کوئی استثنا نہیں کیا ہے، بلکہ عمومی اختلاف کا ذکر کیا ہے۔ اور اس میں نفاس وغیر نفاس دونوں حالت کی رضاعت شامل ہے۔
■ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف بیان کیا گیا کہ وہ کسی بھی صورت میں حاملہ و مرضعہ پر کچھ بھی واجب ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ مرضعہ نفاس کی مدت میں رضاعت کی وجہ سے جو روزے چھوڑے گی ان کی تو قضا کرے گی لیکن پاک ہونے کے بعد جو روزے چھوڑے گی ان کی قضا یا فدیہ کی ضرورت نہیں۔ بلکہ مرضعہ اگر رضاعت کی پریشانی کی وجہ سے روزہ چھوڑتی ہے تو ان کے نزدیک اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہے۔ اسے انھوں نے بالتفصیل بیان کیا ہے۔
■یہ ایک انتہائی غیر معقول اصول ہے کہ ولادت کے بعد جب ایک خاتون انتہائی کمزور ہوتی ہے اس حالت میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کا تو اس سے مطالبہ کیا جائے لیکن ولادت کی صعوبتوں سے باہر آجانے کے بعد چھوٹنے والے روزوں کی قضا کا اس سے مطالبہ نہ کیا جائے۔ یہ المشقۃ تجلب التیسیر کے اصول کے بالکل مخالف ہے۔ یہاں پر مشقت کی حالت میں سختی برتی جا رہی ہے اور آسانی کی حالت میں نرمی، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہیے۔
■ابن عمر، ابن عباس اور دیگر سلف صالحین نے حاملہ ومرضعہ کے متعلق مطلقا کہا ہے کہ وہ روزہ چھوڑیں گی اور بعد میں صرف فدیہ دیں گی قضا نہیں کریں گی۔
اس اجماع کا دعوی کرنے والے ان اسلاف کے متعلق کیا فرماتے ہیں، کیا انھوں نے حالت نفاس میں رہنے کی مدت میں مرضعہ کو روزوں کی قضا کا حکم دیا ہے؟
اگر ہاں تو اس کی کیا دلیل ہے؟
اور اگر نہیں تو پھر اجماع کیسے ہوا؟
یہ تمام امور اس بات کی بیّن دلیلیں ہیں کہ صورت مذکورہ میں کوئی اجماع نہیں ہوا ہے۔ سلف کی ایک جماعت ہمیشہ سے مطلقا مرضعہ کو صرف فدیہ دینے کا فتوی دیتے ہوئے آئی ہے۔
●اجماع کی توضیح:
جنھوں نے یہ اجماع نقل کیا ہے ان کا قول اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ جن عورتوں کو حمل ورضاعت کی وجہ سے کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوتی، جو ولادت سے پہلے بھی روزے رکھ رہی تھیں اور ولادت کے بعد بھی آرام سے روزہ رکھ سکتی تھیں اگر روزہ رکھنا جائز ہوتا لیکن نفاس کی وجہ سے روزہ رکھنا ان کے لیے جائز ہی نہ رہا۔ لہذا وہ رضاعت کی رخصت کی وجہ سے نہیں بلکہ حالت نفاس کی حرمت کی وجہ سے روزہ ترک کر رہی ہیں انھیں بالاتفاق بعد میں روزہ قضا کرنا ہے۔
اور ظاہر سی بات ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ حمل ورضاعت کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کی رخصت صرف ان خواتین کو ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتی ہوں، جنھیں روزہ رکھنے میں پریشانی لاحق ہوتی ہو، جیسے کہ پہلی قسط میں بیان کیا گیا۔ اور یہاں پر چونکہ وہ علت موجود نہیں ہے اس لیے انھیں قضا کرنا ضروری ہے۔
لیکن اگر کوئی خاتون کمزور ہو اور پاک ہونے بعد بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتی ہو تو اسے یہ نہیں کہا جائے گا کہ جن ایام میں وہ نفاس کی حالت میں تھی ان ایام کی قضا کرے اور پاک ہونے کے بعد جو روزے چھوٹے ہیں ان ایام کا فدیہ دے۔ یہ انتہائی غیر معقول اصول ہے۔ سلف میں سے کسی نے ایسا غیر معقول اور شاذ فتوی نہیں دیا ہے۔
بلکہ علامہ ابن حزم جنھوں نے مطلقا حاملہ ومرضعہ سے قضا وفدیہ کا انکار کیا ہے انھوں نے بھی کہا ہے نفساء پر بعد میں قضا کرنا ضروری ہے۔ تو کیا یہ کہا جائے گا کہ انھوں نے وہ رضاعت جس کی وجہ سے ایک خاتون مسلسل روزے نہیں رکھ پا رہی ہے اگر رمضان کے آدھے ایام میں وہ نفاس کی حالت میں ہوتی ہے اور آدھے ایام میں طہر کی حالت میں تو ان کے نزدیک آدھے ایام کی قضا کرے، آدھے ایام کی نہیں۔ یقینا کوئی یہ نہیں سوچ سکتا۔ بلکہ رضاعت کی وجہ سے افطار کرنے والی کو وہ بالکلیہ قضا و افطار سے آزاد کہتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ رضاعت نفاس کے ایام میں ہے یا طہر کے ایام میں۔
■جو لوگ اس اجماع کو بہت اہمیت دیتے ہیں انھیں حیض کی حالت میں مرضعہ کے چھوٹے ہوئے روزوں کو بھی اسی کٹیگری میں رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اکثر وبیشتر دودھ پلانے والی خاتون کا حالت نفاس سے سابقہ ہو یا نہ ہو حالت حیض سے سابقہ غالبا پڑتا ہے اور رمضان کے بعض ایام میں انھیں حیض کا خون غالبا آتا ہے۔
کیا ابن عمر، ابن عباس اور فدیہ کے دوسرے قائلین کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ جب انھوں نے مرضعہ کو فدیہ دینے کا فتوی دیا تھا تو ایام حیض کو اس سے مستثنی کیا تھا؟
مثلا ابن عباس یا ابن عمر سے بسند صحیح یہ فتوی موجود ہے: «الْحَامِلُ وَالْمُرْضِعُ تُفْطِرُ وَلَا تَقْضِي»،
اور دارقطنی نے اسے صحیح کہا ہے۔ (سنن الدارقطني، 3/ 198)
کیا یہ کہا جائے گا کہ ان کا مقصد ایام حیض کے علاوہ تھا؟
یعنی ان کے فتوے کے مطابق اگر ایک دودھ پلانے والی خاتون بچے پر خوف کی وجہ سے پورا مہینہ روزہ نہیں رکھ پا رہی ہے، جن میں سے پانچ دن وہ حیض سے بھی گزرتی ہے تو کیا ابن عباس یا ابن عمر کے نزدیک وہ پچیس دنوں کا فدیہ دے گی اور پانچ دنوں کی قضا کرے گی؟
قطعا ایسی بات نہیں ہے۔ بلکہ وہ مطلقا فدیہ دینے کے قائل ہیں، بعض ایام کی قضا اور بعض ایام کے فدیہ کے نہیں۔
اسی طرح حالت نفاس میں مرضعہ کے چھوٹے ہوئے روزوں کی بات ہے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
●خلاصہ کلام: دونوں صورتوں میں اجماع کا دعوی غلط ہے۔ تابعین کے زمانے سے اس میں اختلاف رہا ہے۔ اور آج بھی یہ اختلاف باقی ہے۔ اگر اس میں کچھ حد تک اجماع کا دعوی کرنا صحیح ہو تو فدیہ والے قول پر کیا جاسکتا ہے، کیونکہ عہد صحابہ میں ابن عباس وابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ فتوی رہا ہے، اور ابن قدامہ، عبدالرحمن مقدسی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہم اللہ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے ان کی مخالفت نہیں کی ہے۔ بلکہ شیخ محمد بن عمر بازمول نے اس پر اجماع سکوتی کا دعوی کیا ہے۔ (الترجیح فی مسائل الصوم والزکاۃ: ص64)
لیکن چونکہ متقدمین علما نے اسے مجمع علیہ مسئلہ شمار نہیں کیا ہے اس لیے مختلف فیہ مسئلہ مان کر ہی اس کا حل تلاشنے کی ہم کوشش کریں گے کہ اس میں راجح کیا ہے تاکہ اقرب الی الصواب قول پر عمل کیا جاسکے۔
والله الموفق وهو الهادي إلى سواء السبيل
تیسری قسط: صومِ حاملہ و مرضعہ کے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کی تخریج
Bahut hu umdah tahrir h Allah ta’ala see duwa hk aapko jazaye khair de