موجودہ حالات اور مدارس میں امتحانات کا مسئلہ

راشد حسن مبارکپوری تعلیم و تربیت

کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں جو تباہی آئی ہے، اس سے ہر فرد متأثر ہے، خاص کر تعلیمی ادارے اور تربیت گاہیں بری طرح اس وبا سے متأثر ہوئیں۔ بلکہ ہندوستان کا چپہ چپہ اس تکلیف کی شدت سے کراہ رہا ہے، عجیب سراسیمگی اور نامعلوم دہشت کا عالم ہے، اللہ تعالی حالات سازگار کرے اور تمام چیزیں اپنی پرانی حالت پر لوٹ آئیں۔ آمین
ہمارے ملک ہندوستان میں جب اس مہلک وائرس کے خطرات ظاہر ہونا شروع ہوئے تو حکومت نے اپنے طور پر پیش بندیاں شروع کیں، بعض مدارس نے فوری طوری پر غیر معینہ تعطیل کا اعلان کردیا اور بعض پس و پیش کا شکار رہے۔ ہمارے جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو کے ہوش مند ذمہ داروں نے حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے حکومتی فرمان کے مطابق فورا چھٹی کا اعلان کردیا۔ چونکہ اس وقت پوری دنیا کے حالات کے تناظر میں کچھ فیصلہ کر پانا اور سمجھ پانا بہت مشکل تھا اس لیے بہت سے لوگ تذبذب کا شکار رہے۔
تعطیل کے معا بعد لاک ڈاؤن کے ایام میں بہت سے مدارس نے اپنے اعتبار سے امتحان کی نوعیت طے کی، بیشتر مدارس نے سندی سال کے بچوں کا امتحان باقی رکھا اور دیگر بچوں کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور ایک تعداد نے خموشی اختیار کی۔
جب ہم نے اپنے طور پر غور و فکر کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ مدارس اسلامیہ میں اولی سے لے کر فراغت تک کے تمام امتحانات منسوخ کردیے جائیں، اس کے کئی اسباب ذہن میں آئے اور ان سے اتفاق واختلاف کی گنجائش موجود ہے، ہر شخص اپنی عقلی بصیرت اور صوابدید کے مطابق فیصلے کرتا ہے لہذا آپ کو بھی اختیار ہے:
1-امتحان غیر معمولی اہمیت کا حامل عمل ہے، نفسیاتی طور پر اس کا بڑا گہرا اثر طالب علمانہ زندگی پر پڑتا ہے، اس کے لیے پیشگی تیاری اور ذہنی آمادگی کی ضرورت ہوتی ہے، ظاہر ہے ان حالات میں یہ ممکن نہیں۔
2-طویل عرصہ تک لاک ڈاؤن کی صورت میں امتحانات کی وجہ پورا سال متاثر ہوگا، خود امتحانات کا مرحلہ قدرے طویل اور صبر آزما ہوتا ہے، اس سے بجائے خود ششماہی و سالانہ امتحانات متاثر ہوں گے۔
3-اگر بحالت مجبوری یا بفرض محال امتحان لینے کی ضرورت بھی پیش آئی تو نہایت سرسری انداز کا لینا ہوگا، اس لیے کہ یا تو جو کچھ پڑھایا گیا ہے، اس کا سرسری اعادہ کرایا جائے جو ممکن نہیں، یا امتحان نہایت سرسری لیا جائے جس کا بظاہر سوائے تکلیف میں مبتلا کرنے کے کوئی فائدہ نہیں۔
4- اگر صرف سندی سال والے بچوں کا امتحان لیا جائے پھر بھی ایک ہی جگہ چند بچوں کا امتحان ہو اور چند کا نہ ہو تو اس سے ذہنی وفکری انتشار ہوگا، ظاہر ہے اساتذہ وہی ہوں گے، سارے کام انہی کو کرنے ہوں گے، مثلا پرچہ سوالات تیار کرنا، جانچنا اور پھر نتیجے تیار کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
جن طلبہ کا امتحان نہیں ہوگا، امتحان میں مصروف اساتذہ ان کی تدریس کے لیے خود کو کس طرح تیار کرسکیں گے، ظاہر ہے اگر بفرض محال تیار بھی کرلیں تو کیا وہ پورے طور پر حق ادا کرسکیں گے؟
5-طلبہ امتحان کی تیاری نہ کرسکیں گے، جس سے ان کے سندی سالوں کے نمبرات پر برا اثر پڑے گا، نمبرات کم ہوں گے، جو ہمیشہ تکلیف اور دقت کا باعث بنیں گے، ان سب کے ذمہ دار صرف ہم اساتذہ اور ذمہ داران ہوں گے۔
6-ایک اہم مسئلہ یہ ہوگا کہ ایک سال (جو بجائے خود مختصر ہے) میں چار امتحان اکٹھا ہوجائیں گے، داخلہ امتحان، گزشتہ امتحان اور ششماہی و سالانہ امتحان، اور ان سب کا اثر پورے تعلیمی سال پر پڑے گا، اس وضاحت کے ساتھ کہ مدارس کے امتحانات سخت ہوتے ہیں، بلا پیشگی تیاری کے کامیاب ہونا بہت مشکل ہوتا ہے، اندرونی وبیرونی یونیورسٹیز کی طرح آبجیکٹیو یا سرسری نہیں ہوتے۔
7-نیے داخلہ کے لیے اکثر مدارس نے صرف پہلی جماعت کے لیے داخلہ کا اعلان کیا ہے، داخلہ امتحان بھی وقت کا متقاضی ہے، یہ مختصر سال کے لیے ایک اضافی مصروفیت ہے اور اس کا اثر طبعی طور پر دوسرے امتحان پر ہوگا۔
8-مدارس میں طلبہ ہندوستان کے مختلف گوشوں سے حصول علم کے لیے آتے ہیں، صرف سندی سال کے طلبہ جو فراغت کے بعد گھروں کو جاچکے ہیں اور ممکن ہے کچھ اور مصروفیت سے جڑ چکے ہوتے، انھیں محض دس روز امتحان کی خاطر بلانا، انھیں حرج وتنگی میں مبتلا کرنا ہے، مزید برآں ہاسٹلز میں اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ 70/60 طلبہ کا معینہ مدت تک کے لیے قیام کا انتظام ہو، ٹکٹ اور آمد ورفت کے مسائل اس پر مستزاد۔
9-ممکن ہے کچھ لوگ کہیں کہ ششماہی امتحان کی بنیاد پر نمبرات طے کرنے کی صورت میں رزلٹ کی تیاری میں خاصا وقت لگے گا، تو ہم کہتے ہیں کہ یہ کام فرصت کے موجودہ لمحات میں بھی ہوسکتا ہے، اگر ہم چاہیں، اہم یہ ہے کہ اگلا تعلیمی سیشن متاثر نہ ہو۔
10-کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ گورنمنٹ نے ایسے ہی اعلان کیا ہے کہ سندی سال کے بچوں کا امتحان لیا جاے، بقیہ بچوں کا نہیں۔ یہ بڑی عجیب بات ہے، کیا تمام مدارس تعلیم، کلچر، نصاب، نظام اور تعطیلات میں حکومت کے سامنے جواب دہ ہیں؟ کیا ان کے سارے امور اپنے وضع کردہ اصول وضابطے کی روشنی میں انجام نہیں پاتے؟ جب ساری چیزیں ہم اپنی سہولت کے اعتبار سے کرتے ہیں تو اس حوالے سے بھی اپنی سہولت وبہتری پیش نظر رکھنے میں کیا مضایقہ ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ حکومت کو اس بابت کسی طرح کا کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
ان اسباب ومحرکات کی روشنی میں یہ کہنا چاہیے کہ تمام مدارس متفقہ طور پر سارے امتحانات گزشتہ بلا استثناء منسوخ کردیں اور ششماہی امتحان کی بنیاد پر رزلٹ تیار کیا جاے، یہی وقت کا بھی تقاضا ہے اور انسانیت اور مروت کا بھی۔ پوری دنیا جس ذہنی، مالی، جسمانی کوفت اور دباؤ کی گرفت میں ہے ایسے میں نونہالان قوم پر مزید بوجھ ڈالنا کسی بھی طور مناسب نہیں، خود اسلامی تعلیمات ہمیں یسروا ولا تعسروا کے بموجب آسانیاں کرنے کا حکم دیتی ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ اربابِ حل وعقد ان گزارشات پر ضرور غور فرمائیں گے اور اس حوالے سے کسی فیصلہ کن نتیجہ تک پہنچیں گے۔
واللہ من وراء القصد

12
آپ کے تبصرے

3000
9 Comment threads
3 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
10 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالعزیز

ماشاءاللہ! بہت ہی عمدہ ہے ۔
کاش یہ بات ہمارے ذمے داران کو سمجھ آجائے

معین الاسلام

ما شاء اللہ
جامعہ اسلامیہ نے بہت ہی بہترین فیصلہ کیا ہے

عبدالهادي

Ma sha Allah
Bahut hi umdah بارك الله فيك

محمد طارق بدر

اللہ تعالیٰ ذمہ داران کو مندرجہ نکات پر جو کی نقاط کی شکل میں تحریر کئے گئے ہیں، غور و خوض کر کے کوئی بہتر سبیل نکالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!!!

محمد حنیف

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ایک بات یہ بھی ہے کہ سرکاری امتحانات میں دو امتحان نہیں ہوتے ہیں. جبکہ تمام مدارس اسلامیہ میں ششماہی اور سالانہ امتحانات کے اہتمام کیے جاتے ہیں.
اس لیے میرے خیال سے ششماہی کے آدھار پر نمبرات دینے میں تمام اہل مدارس کو کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیئے.
اور “دارالعلوم ندوۃ العلماء” والوں نے سندی غیر سندی طلباء کے ساتھ یکساں معاملہ کرتے ہوئے ششماہی کے آدھار پر دیے دیے ہیں

محمد عالمگیر عبد الستار سلفی

ماشاءاللہ
آنجناب نے درست لکھا ہے اور
ان شاءاللہ آپ کی تحریر پر کلی طور پر عمل ہوگا جامعہ رحمانیہ نڈیاد گجرات میں
کیوں کہ ہم اساتذہ اور ذمہ داران جامعہ ھذا کی کچھ سوچ ایسی ہی ہے جیساکہ آپ نے اپنی تحریر میں ظاہر کی ہے

PARVEZ Ahmad

بہت ہی عمدہ گزارشات ہیں شیخ
ایسی تحریر پڑھ کر فیصلہ لینے میں اب کسی کو پش و پیش نہیں کرنا چاہیے
پچوں کے تئیں بہت ہی مناسب اور مثبت قدم ہوگا
اللہ تمام منتظمین مدراس اسلامیہ کو اس پر غور و خوض کے معا بعد عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین

راشد حسن مبارکپوری

سندی سال کے بچوں کا امتحان لینا اور بقیہ کا نہ لینا یہ ترتیب ترتیبِ معکوس ہے، یعنی جن بچوں کے نمبرات کا اثر ان کے مستقبل پر پڑے گا ان کا امتحان لے رہے ہیں اور جن بچوں کے نمبرات کا اثر ان کے مستقبل پر نہیں پڑے گا ان کا امتحان نہیں لے رہے ہیں. اسے توارد فکری کہیے یا محض حسن اتفاق کہ اس تحریر کے دو دن کے بعد مہاراشٹرا گورنمنٹ نے جملہ امتحانات گزشتہ کو کالعدم قرار دینے کا اعلان کردیا، جیسا کہ فاضل دوست شمس الرب خان (اسسٹنٹ پروفیسر مہاراشٹرا کالج) نے اپنے ایک… Read more »

Mohammad Shoaib

بعض طلبہ ایسے ہوتے ہیں کی ششماہی امتحان کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے وہ سالانہ امتحان پر اعتبار کرتے ہیں مطلب ششماہی میں کچھ کمی کوتاہی رہ گئی ہو تو سالانہ ان کے لیے ایک اُمید کی کرن ہوتی ہے پھر ان طلباء کا کیا ہوگا ششماہی امتحان کے بنا پر رزلٹ بنا دیا جائے تو ان کا سال متاثر نہیں ہوگا جو سالانہ پر نربھر تھے

راشد حسن مبارکپوری

ایک فیصد کے لیے ننانوے فیصد کو قربان نہیں کیا جاسکتا

Mohammad Shoaib

پھر تو یہ سراسر نا انصافی ہے دھوکہ ہے ان طلباء کے مستقبل کے ساتھ

Aminul Islam

جی شیخ آپ کی بات پر ہم متفق ھیں امتحان بلکل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سب طالب علم ایک جیسے نہیں ہیں کچھ تو اللہ کے فضل سے مالی اعتبار سے اچھے ہیں پر اکثریت غریب اور اچھے نہیں ہیں جسکی وجہ سے ان سب کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے طرح طرح کی پریشانیاں جھیلنی پڈ رہے ہیں اوپر سے یہ بات بھی واضح ہو کہ کسی بھی طالب کے پاس کتاب اور کاپیاں بہی دستیاب نہیں ہیں ایسی حالات میں امتحان کے بارے میں سن کر بچے دیماغي ، جسمانی اور مالی ہر طرح سے دباؤ میں پڈ… Read more »