منہج سلف ہی کی پیروی کیوں؟

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی ادیان و مسالک

منہج سلف کیا ہے؟ : حافظ عبدالحسیب عمری مدنی


’’آخر سلفیت ہی کی پیروی کیوں؟‘‘ تحقیق کی راہ میں یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ جو آدمی اس حقیقت سے واقف ہے کہ یہاں اختلاف ہے، یہاں مختلف منہج ہیں، مختلف طریقے ہیں اور ہر کوئی کسی نہ کسی منہج کے بارے میں یہ دعوی رکھتا ہے کہ وہی برحق ہے، اسی کا منہج صحیح ہے، نجات کا راستہ وہی ہے تب ایسے حالات میں اگر یہ کہا جائے کہ: نہیں! سارے منہجوں سے کٹ کر سلفِ صالحین ہی کے منہج کی پیروی کرنا چاہیے تو یہ ایک سیدھا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں؟ کیوں ہم اسی کی پیروی کریں؟ کیوں اس کے علاوہ کسی اور کی پیروی نہ کریں؟

اس کا جواب ہم قرآن وسنت اور تاریخ کے حوالے سے تلاش کریں تو ہمیں مختلف ایسے اسباب ملیں گے جو صحابہ ہی کو مقدم رکھنے کی تعلیم وہدایت دیتے ہیں۔ کتاب وسنت میں کئی ایسی بنیادیں ہیں جن کے ہوتے ہوئے ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہدایت کا سامان صحابہ کے طریقے سے ہٹ کر کسی اور طریقے میں ہوسکتا ہے۔ مذکورہ وجوہات اور بنیادوں میں سے چند پیش خدمت ہیں:
سب سے پہلا جواب یا پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کا اور اس کے رسول کا حکم ہے کہ آپ دین کی سمجھ میں صحابہ کو مقدم رکھیں، صحابہ کے طریقے پر چلیں۔ سورۃ توبہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {والسابقون الأولون من المھاجرین والأنصار والذین اتبعوھم بإحسان رضي اللہ عنھم ورضوا عنہ} اچھائی اور نیکی کے معاملے میں انصارومہاجرین میں سے جو ابتدا میں ایمان لے آئے ہیں اور جو بعد میں ایمان لے آئے اور ان کے نقش قدم پر چلے….”
اس کی تفسیر میں علماء نے دو باتیں کہی ہیں۔ بعض مفسرین نے کہا کہ ’’السابقون الأولون‘‘ سے ابتدائی مسلمان مراد ہیں ’’والذین اتبعوھم‘‘ سے فتح مکہ کے بعد کے مسلمان ہیں۔ اور بعض مفسرین نے کہا کہ یہ فتح مکہ کہ بعد تک نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے سبھی مسلمان ہیں، اگر یہ بعد میں آنے والے ان صحابہ کے نقش قدم پر چلیں تو کیا ہو گا؟ ’’رضي اللہ عنہم ورضوا عنہ‘‘ یعنی یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ یہ حقیقت میں اللہ تعالی سے راضی ہوئے۔ اور جب یہ ہوا تو اللہ تعالی بھی ان سے راضی ہو جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔

رسول اللہ ﷺکا حکم کہاں ہے؟ مشہور حدیث میں نبی ﷺکی پیشن گوئی کہ امّت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے 72 جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا۔ نجات پانے والے اس گروہ کے بارے میں صحابہ نے پوچھا وہ کون ہیں؟ مختلف روایات میں مختلف الفاظ ہیں، ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ما أنا علیہ الیوم وأصحابي‘‘ یعنی وہ میں اور میرے صحابہ جس طریقے پر قائم ہیں، گویا نبی کریمﷺ نے امت کو صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کا حکم دیا ہے۔

دوسرا جواب یا دوسری وجہ یہ کہ نبی ﷺ کے صحابہ دین کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔ کیا دلیل ہے اس بات کی؟؟
وہ اللہ کے نبیﷺ کے شاگرد ہیں۔ نبی سے بہتر کوئی استاد نہیں ہوسکتا اور نبی کے شاگردوں سے بہتر کوئی شاگرد نہیں ہوسکتے۔ صحابہ نبی کے شاگرد ہیں، قرآن کریم انھوں نے نبی سے سمجھا ہے، حدیث انھوں نے نبی سے سمجھی ہے۔ یہ بات محض کوئی دعویٰ نہیں حقیقت ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک اثر منقول ہے تابعی ابوعبد الرحمن عبداللہ بن حبیب بیان کرتے ہیں کہ جن صحابہ نے ہمیں دین سکھلایا وہ کہتے ہیں کہ ہم دس آیتیں پہلے نبی سے پڑھنا سیکھ لیتے، پھر ان کا معنیٰ و مطلب سیکھتے۔ پہلے پڑھنا سیکھتے پھر معنی و مطلب جانتے۔ جب یہ ہوجاتا تو اس پر عمل کرتے۔ یہ تینوں مرحلے ہوجاتے تو پھر مزید دس آیات سیکھتے۔
اس سے معلوم‌ ہوتا‌ ہے کہ صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف قرآن کے الفاظ ہی نہیں معنیٰ و مطلب بھی سمجھا ہے۔ جب یہ طے ہے کہ صحابہ نے نبی کی شاگردی میں دین سیکھا ہے تو نبی کریمﷺ کی شاگردی سے بہتر کوئی شاگردی نہیں اور ان سے بہتر سمجھ کسی اور کی ہو نہیں سکتی۔

ایک شبہہ اور اس کا ازالہ:
نبی کریمﷺ سے ایک حدیث مروی ہے جس کا معنی لوگوں نے غلط سمجھا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’بلغوا عني ولو آیۃ فرب مبلغ أوعی من سامع” یعنی بسا اوقات وہ آدمی جس تک حدیث پہنچائی جارہی ہے پہنچانے والے سے زیادہ یاد رکھنے والا ہوتا ہے یا سمجھنے والا ہوسکتا ہے۔ اس حدیث کو لے کر بعض لوگوں نے بڑا عجیب مسئلہ نکالا وہ یہ کہ نبی ﷺنے خود فرمایا ہے کہ صحابہ کے بعد آنے والے ان سے بہتر سمجھ کے ہو سکتے ہیں۔ اب اس حدیث کو بھی آپ سمجھ لیں۔ عربی زبان میں ’’رُبَّ‘‘ کا معنی ہوتا ہے’’ تھوڑے‘‘ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کو یا دین کو دوسروں تک پہنچایا کرو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض باتیں بعد میں آنے والا ایک آدمی پہلے والے آدمی سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے۔ اس حیثیت سے یہ حقیقت ہے کہ بسا اوقات بعض چھوٹے صحابہ جنھیں نبی کریمﷺ سے شرف تلمذ، نبی ﷺ کی شاگردی کا زیادہ حصہ نصیب نہ ہوا، صرف ایک یا دو مجلس اللہ کے نبی ﷺکے پاس رہے، ایسے صحابہ کے مقابلے میں بعد میں آنے والے بعض وہ تابعین جنھوں نے بڑے بڑے صحابہ سے علم حاصل کیا ان کی سمجھ زیادہ وسیع رہی ہے۔ تاریخ اسلام میں اس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے اور نہ اس حدیث کے اندر یہ دلالت ہے کہ بعد کے لوگ صحابہ کی جماعت سے زیادہ بحیثیت جماعت یا صحابہ میں سے بڑے اونچے درجے کے صحابہ سے زیادہ بہتر سمجھ والے ہوجائیں گے۔ حدیث کے الفاظ میں دور دور تک یہ مفہوم نہیں ہے۔
تیسرا جواب یا تیسری وجہ کہ منہج صحابہ ہی کی پیروی کیوں ضروری ہے؟ یہ ہے کہ قرآن مجید صحابہ کے سامنے نازل ہوا اور صحابہ ہی اس کے مشاہد ہیں۔ وقتا فوقتا پیش آنے والے واقعات، حادثات، مناسبات سب کچھ صحابہ کے سامنے پیش آتے۔ پھر انہی کے سامنے آیتیں نازل ہوتی۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ کسی بھی قانون کی سب سے اچھی تفسیر وہ کرتا ہے جو قانون کو اپنے سامنے بنتا ہوا دیکھتا ہے۔ بعد میں آنے والا قانون کے الفاظ کا سہارا لے کر بسااوقات قانون کی ایسی تفسیر کر بیٹھتا ہے جو اس کی منشا اور مقصود کے برعکس ہو۔ لیکن جو آدمی قانون کو بنتے دیکھتا ہے وہ قانون کے الفاظ کی نزاکتیں جانتا ہے، قانون کو صحیح طریقے سے سمجھتا ہے ۔ یہی معاملہ قرآن و سنت کی سمجھ کے سلسلے میں صحابہ کا بھی ہے۔ شریعت اسلامیہ انہی صحابہ کے سامنے اتری اور صحابہ نے قرآن مجید اپنے سامنے اترتے اور سماج پر اسے فٹ ہوتے چسپاں ہوتے نافذ ہوتے دیکھا ہے۔ اس حیثیت سے صحابہ نے قرآن مجید کو زیادہ سمجھا ہے۔
اور اگر کہیں کسی بات کے سمجھنے میں صحابہ سے غلطی ہوئی تو نبیﷺ نے صحابہ کی اصلاح فرمائی ہے اور کبھی ایسا ہوا کہ کسی اور نے معنی سمجھنے میں غلطی کی تو صحابہ نے اس کو سمجھایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے؟
دلیل نمبر ایک: صحیح بخاری اور مسلم کی ایک روایت ہے عدی بن حاتم رضي اللہ عنہ کا واقعہ ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: {وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الأبیض من الخیط الأسود من الفجر} یعنی اتنا اجالا ہوجائے کہ سفید اور کالے دھاگے میں فرق کرنا ممکن ہوجائے۔ الفاظ کا ظاہری معنی یہی ہے۔ حضرت عدی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اونٹ باندھنے کی رسی (عقال ) ایک سفید اور ایک کالی اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لی تاکہ ان دونوں کے درمیان جب فرق کرسکوں تب فجر کا وقت کب ہوتا ہے متعین کرسکوں۔ کہتے ہیں کہ فجر کا وقت ہوگیا مگر میں ان میں فرق نہ کرسکا۔ معاملہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ لہذا نبی ﷺکے پاس گیا اور کہنے لگا کہ قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے سفید دھاگا کالے دھاگے سے ممتاز ہو جائے۔ میں نے اس پر عمل کیا مگر معاملہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ نبیﷺ نے فرمایا اے عدی! اس سے مراد حقیقت میں کالا اور سفید دھاگا نہیں ہے، اس سے مراد رات اور دن کی حد ہے کہ رات جب ختم ہو اور دن شروع ہو تو اجالے کی ایک لکیر بنتی ہے اور اندھیرے کی ایک لکیر بنتی ہے۔ قریوں میں اس کا مشاہدہ ممکن ہے کہ جیسے ہی اندھیرا ختم ہو سفیدی کی ایک لکیر بنتی نظر آتی ہے۔ اس واقعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صحابہ سے کہیں آیت کے سمجھنے میں غلطی ہوئی تو نبیﷺ نے ان کی سمجھ کو درست کیا۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ یہ سمجھ صرف سمجھ نہیں ہے بلکہ اکثر وبیشتر معاملات میں یہ مصدقہ سمجھ ہے، نبی ﷺ کی جانب سے تصدیق شدہ سمجھ ہے، صحابہ کی سمجھ پر اللہ کے نبیﷺ کی مہر لگی ہوئی ہے۔ یہ بہت بڑی حقیقت اور بڑی ہی اہم بات ہے۔
دلیل نمبر دو: ایسا ہی ایک اور واقعہ سنن ابی داود میں مروی ہے ابو عمران کہتے ہیں کہ ہم قسطنطنیہ کی طرف گئے وہاں عبدالرحمن بن خالد بن ولید ہمارے سپہ سالار تھے۔ ہم جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ دشمن پوری فصیل کو گھیرے ہوئے کھڑا ہے۔ ایسے حالات میں ایک آدمی نے اکیلے آگے بڑھ کر ان پر حملہ کردیا۔ عام طور پر فوج سے ٹکرانے کے لیے پوری فوج یا فوج کی ایک ٹکڑی جاتی ہے۔ جوش اور جذبے میں ایک آدمی گیا اور حملہ کردیا۔ بعض لوگوں نے اس کو ٹوکا اور یہ آیت پڑھی: {ولا تلقوا بأیدیکم إلی التھلکۃ} تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو! کہنے والوں کا مطلب یہ تھا کہ تم اس طرح جا رہے ہو، تمھیں اپنی جان کا خطرہ ہوسکتا ہے، تمھاری ہلاکت ہوسکتی ہے۔ لہذا تم اس اقدام سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہو۔ ابوعمران کہتے ہیں کہ حضرت ابوایوب انصاری لشکر کے اندر موجود تھے انھوں نے کہا لوگو! تم آیت کا معنی غلط بتا رہے ہو یہاں ایک شخص جہاد کرنے کے لیے جہاد کے جذبے سے سرشار دشمن پر حملہ آور ہورہا ہے اور تم اسے اس سے روکنے کے لیے آیت سے استدلال کررہے ہو جبکہ آیت کریمہ جہاد کا حکم دینے کے لیے آئی تھی، کیسے؟ ابوایوب انصاری نے کہا: نبیﷺ کے دور میں جب فتوحات ہوئیں تو ہم نے جہاد کو چھوڑ کر خود کے لیے اطمینان والی زندگی اپنا لینی چاہی کیونکہ اللہ کی طرف سے مال کی فراوانی میسر تھی تو اللہ تعالی نے حکم دیا: {وأنفقوا في سبیل اللہ ولا تلقوا بأیدیکم إلی التھلکۃ} اللہ کا مال صرف کھانے پینے کے لیے نہیں ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور جہاد کے لیے بھی نکلا کرو جہاد کو چھوڑو نہیں اس لیے کہ تم جہاد کو چھوڑو گے تو ہلاکت میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ واضح یہ ہوا کہ { ولا تلقوا بأیدیکم إلی التھلکۃ } کا بعض لوگوں نے غلط معنی لیا۔ جہاد سے روکنے کے لیے اس آیت کا استعمال کیا تو حضرت ابوایوب انصاری نے انھیں سمجھایا کہ اس کا صحیح معنی کیا ہے۔

منہج صحابہ ہی کی پیروی ضروری قرار دینے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کا منہج ہدایت کا معیار ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: {فإن آمنوا بمثل ماآمنتم بہ فقد اھتدوا} ترجمہ: اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں (بقرۃ: ۱۳۷) ہم ہدایت کا دعوی کر سکتے ہیں مگر ہم دونوں میں سے ہدایت پر کون ہے اس کا فیصلہ صحابہ اور ان کا منہج کر تے ہیں۔ قرآن کے مقابلے اور حدیث کے مقابلے میں صحابہ کے اپنے اقوال دلیل نہیں ہیں، یقینا دلیل نہیں ہیں لیکن جب بات قرآن اور سنت کو سمجھنے کی آتی ہے تو صحابہ کی سمجھ ہماری اور آپ کے سمجھ کے مقابلے میں مقدم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام خود اس بات کا خیال رکھا کرتے تھے۔ دیکھتے تھے نئے پیش آمدہ مسائل میں صحابہ میں سے کون کس طرف ہے۔ اگر کسی بات پر صحابہ میں سے کسی کو موافقت کرتے نہ دیکھتے تو اس بات پر عدم اتفاق کو مذکورہ بات کے غلط اور گمراہی ہونے کی دلیل اور ثبوت تسلیم کیا کرتے تھے۔
ہمیں معلوم‌ ہے خوارج ایک فرقہ ہے گمراہ فرقہ۔ خوارج اپنی سمجھ کے مطابق یہ مانتے تھے کہ حضرت علی اور ان کے ساتھی اور معاویہ اور ان کے ساتھی رضی اللہ عنہم اجمعین تحکیم کے مسئلہ میں غلطی پر ہیں اس لیے انھوں نے ان سبھی صحابہ کو کافر قرار دیا اور ان کے خلاف باقاعدہ لڑائی لڑی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت علی سے اجازت لے کر خوارج کے پاس پہنچے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے مناقشہ کیا، بحث کی اور جن باتوں کے حوالے سے خوارج کو سمجھانا چاہا ان میں سے ایک حوالہ یہ بھی تھا کہ حضرت ابن عباس نے پوچھا کہ دیکھو نبی کے صحابہ کتنے ہیں؟ یہ بتاؤ تم جس رائے پر قائم ہو، جن اصولوں کی بنیاد پر لڑرہے ہو، تمھارے ان اصولوں میں کون سے صحابی تمھاری تائید میں ہیں، ایک بھی صحابی خوارج کی تائید میں نہیں، ایک صحابی بھی خوارج کے ساتھ نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی اکرمﷺ نے جن صحابہ کو اپنے بعد پیچھے چھوڑا تھا، علم کے باب میں، تقوی کے باب میں، سب میں جن کو اللہ کے نبیﷺ نے اپنے شاگرد کی حیثیت سے چھوڑا تھا، ان میں سے ایک بھی تمھارے ساتھ نہیں ہے تو بھلا بتاؤ تم کیسے ہدایت پر ہو سکتے ہو؟ مؤرخ نے لکھا ہے اس مجلس کے اختتام کے بعد دو ہزار خوارج نے توبہ کی۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ صحابہ واقعی معیار ہدایت ہیں، صحابہ کی سمجھ مقدم ہے اور صحابہ جب ہماری رائے پر نہیں ہیں تو ہماری ہی سوچ میں غلطی ہے۔ گویا دین کی وہ تفسیر جو صحابہ نے کی ہے یہی معیار ہے۔
پانچویں وجہ یا پانچواں جواب یہ ہے کہ صحابہ کی پیروی امت میں اتفاق واتحاد کی اساس اور بنیاد ہے۔ صحابہ کی پیروی کریں گے تبھی امت کے اندر اتحاد باقی رہے گا اور اگر اختلاف ہوچکا ہے تو اتحاد اسی راستے پیدا ہوگا۔ اگر پہلے سے اتحاد ہے تو اتحاد اسی وقت باقی رہے گا جب صحابہ کے نقش قدم پر چلیں گے اور اگر اختلاف ہو چکا جیسے ہمارے دور میں ہے۔ آپ لاکھ کوشش کرلیں مگر اتحاد اسلامی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ ہر جماعت اپنے منہج اور عقیدے پر باقی رہ کر آپس میں اگر ایک پلیٹ فارم پر آجائے تو اس کو اتحاد نہیں کہتے۔ یہ تو سیاسی سمجھوتا ہے، وقتی ضرورت کے تحت یقینا اس کی ضرورت ہے، ہندوستان جیسے ماحول میں آپسی اختلاف رکھتے ہوئے بھی ملنا جلنا ضروری ہے، اس کی اہمیت گھٹانا مقصد نہیں۔ لیکن حقیقی اسلامی اتحاد کسے کہتے ہیں؟ اتحاد دراصل فکرونظر کا اتحاد ہے، خیالات کی یکسوئی کا نام ہے۔ فقہی مسائل میں اختلاف اپنی جگہ ہے، عقائد ایک ہونا چاہیے، منہج ایک ہونا چاہیے، ایمان اور عقیدے کے بنیادی مسائل میں پوری طرح اتفاق ہونا چاہیے۔ اور یہ اتحاد اگر اس وقت نہیں ہے تو یہ کیسے پیدا ہوگا؟ وہ ایسے ہی پیدا ہوگا کہ صحابہ کی سمجھ کو معیار بنا کر ہم سب صحابہ کی سمجھ کی طرف لوٹیں۔ اسی راستے اتحاد ہوگا۔ اور اگر صحابہ کی سمجھ کو مقدم نہیں رکھیں گے اختلاف باقی رہے گا۔ یہ بات اللہ تبارک وتعالی نے اسی آیت کی تکمیل کرتے ہوئے بیان فرمائی ہے: {فإن آمنوا بمثل ما آمنتم بہ فقد اھتدوا وإن تولوا فإنما ھم في شقاق فسیکفیکھم اللہ وھوالسمیع العلیم} اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں۔ اللہ تعالی ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔ (بقرۃ :۱۳۷)
آیت کریمہ اپنے پیغام میں بہت ہی واضح ہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ صحابہ کے طریقے پر آؤگے تو اتحاد ہوگا۔ آج امت مسلمہ کی جتنی تنظیمیں تحریکیں اتحاد امت کے لیے کوشش کر رہی ہیں ان سب کو یہی پیغام ہے کہ تمھاری کوششیں قابل قدر یقینا ہیں لیکن سب کو یہ پیغام ہے کہ یاد رکھیں صحابہ کے منہج کو اپنائیں گے۔ ہر معاملہ میں، دین کے ہر مسئلہ میں صحابہ کے منہج کو اپنائیں گے تب ہی جاکر اسلامی اتحاد قائم ہوگا۔ ورنہ اتحاد کا خواب ہم دیکھ سکتے ہیں، کوشش صرف کرسکتے ہیں مگر ان کوششوں کا پھل ہم کو اپنی زندگی میں دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔
صحابہ کی سمجھ یا صحابہ کے منہج ہی کی پیروی کیوں ضروری ہے؟ اسی کی اتباع کیوں ضروری ہے؟ اس کی وجوہات میں سے چھٹی وجہ یہ ہے کہ صحابہ نے جس وقت دین کو سمجھا تھا اس وقت ان کی زبان خالص عربی تھی اور کسی بھی قسم کی خارجی مداخلت سے پاک تھی، وہ بھی خالص عرب تھے دوسری کسی زبان کا اثر عربی زبان پر نہیں تھا۔ ان کی زبان اور قرآن وسنت کی زبان ایک تھی، ابھی زبان اس قدر معیار سے گری نہیں تھی جس کی وجہ سے فہم و استنباط میں زبان کے فرق کی وجہ سے اونچ نیچ ہوجائے۔ جبکہ بعد کے ادوار میں خود عربی داں بھی خارجی مؤثرات کی وجہ سے اپنی خود کی زبان کا معیار باقی نہ رکھ سکے۔ نتیجہ میں ان کی اپنی زبان اور قرآن وسنت کے اسلوب وبیان میں آنے والا فرق خود اپنے آپ میں اس بات کی دلیل ہے کہ بعد والے پہلے والوں کی برابری نہیں کرسکتے۔ یہ عربی دانوں کی بات ہے، رہے وہ لوگ جن کا عربی زبان سے بھی کوئی رشتہ نہ ہو یا برائے نام جانتے ہوں وہ کیسے قرآن فہمی اور سنت کے ادراک کے دعوے میں ان صحابہ کی برابری کرسکتے ہیں ؎ چہ نسبت خاک را باعالم پاک؟اس سلسلہ کی ساتویں وجہ یہ ہے کہ صحابہ کا زمانہ بدعتوں کے وجود سے پہلے کا زمانہ تھا۔ صحابہ کے زمانے میں بدعتی نہیں تھے، کسی قسم کی گمراہی نہیں تھی۔ لہذا ان کی اپنی سوچ بھی بالکل صاف اور شفاف تھی، بدعت یا اہل بدعت کی صحبت سے آلودہ معاشرہ نے ان کے قلوب واذہان کو متأثر نہیں کیا تھا جس طر ح بعد کے لوگوں کے ساتھ ہوا۔ آدمی جس ماحول میں پروان چڑھتا ہے، اس کے دماغ کی جو ترتیب ہوتی ہے، اس کا ذہن جو بنتا ہے وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے اور آدمی جب اپنے اسی دماغ پر زور ڈالتا ہے اور اس پر اعتماد کرتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے تو اپنے ماحول کے اثرات سے آزاد ہو نہیں سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ صحابہ کا جو زمانہ تھا وہ ہر قسم کی بدعات کے غلبہ سے پاک تھا، ہر قسم کی دخل اندازیوں سے پاک تھا اس لیے ان کی سمجھ میں خلل پیدا ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کے مقابلے میں بعد کے زمانے میں جو دین کی تفسیریں ہوئیں ان سب کے اندر باہر کے بہت سے لوگوں کے اثرات تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ بہت سے دشمنان اسلام نے مسلمان بن کر اسلام کو نقصان پہنچایا، بہت سے لوگوں نے بدعتوں کو لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے دین میں داخل کرلیا اور اس ماحول میں جینے والے اکثر لوگ ان ساری چیزوں کے اثر سے خود کو بچا نہ سکے۔ اس لیے آج اگر تفسیر کی بات ہوگی یا اگر تفہیم کی بات ہوگی یا آج اگر کسی کی سمجھ کی بات ہوگی تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ سمجھ صاف وشفاف ہوگی، کسی سے متاثر نہیں ہوگی۔ صحابہ کی سمجھ کسی اور سے متاثر نہیں، پاک ہے، صاف و شفاف ہے، اس لیے بھی صحابہ کے منہج کی پیروی ضروری ہے۔
صحابہ کے منہج ہی کی پیروی کی آٹھویں وجہ یہ ہے کہ یہ افراط وتفریط سے پاک اعتدال پر مبنی منہج ہے۔ یہی حقیقی وسطیت ہے: {وکذلک جعلناکم أمۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس} ہم نے اسی طرح تمھیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔ (البقرۃ: ۱۴۳) صحابہ کے منہج ہی میں آپ کو یہ چیز ملے گی۔ دین کے ہر مسئلہ میں دو طرح کی غلطیاں ہوئیں یا تو اس معاملے میں غلو ہوا یا تو اس معاملے میں لوگوں نے کمی کی۔ لیکن صحابہ کا منہج ہمیشہ درمیانی رہا وسطیت صحابہ کے منہج میں رہی۔ مثالیں کئی ایک ہیں۔
نبیﷺ کے گھرانے آل بیت رسول سے خصوصی محبت رکھنا یہ اللہ کے نبی ﷺکا حکم ہے، یہ ایمان کی علامت ہے۔ لیکن اس باب میں دو فرقوں نے غلطی کی۔ ایک طرف شیعوں کا مسئلہ ہے انھوں نے آل بیت سے محبت کے نام پر غلو کیا، حد سے آگے نکل گئے اور دوسری طرف ناصبی ہیں، نواصب نے آل بیت کے ساتھ دشمنی کی۔ ان دونوں کے درمیان سلف صالحین کا، صحابہ کا، سلفیت کا اصول یہ ہے کہ صحابہ و آل بیت ہر دو سے محبت کی جانی چاہیے ویسے ہی جیسے اللہ کے نبیﷺ نے سکھائی ہے۔ نہ شیعہ کی طرح آل بیت سے محبت میں غلو کیا جائے نہ نواصب کی طرح آل بیت سے بے اعتنائی اختیار کی جائے۔ دین کے ہر مسئلہ میں یہی افراط وتفریط در آیا۔
اسی افراط وتفریط کی ایک اور مثال تقدیر پر ایمان کا مسئلہ بھی ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ تبارک وتعالی نے تقدیر لکھ دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب مجبور ہیں کوئی اختیار نہیں۔ یہ ان کی غلطی اور تقدیر کے مسئلہ میں غلو اور افراط تھا۔ دوسری طرف کچھ لوگوں نے کہا کہ نہیں، انسان صاحب اختیار ہے اور صاحب اختیار ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کو پہلے سے کچھ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ بندہ کیا کرنے والا ہے۔ بندہ کرتا ہے تب جا کر اللہ تبارک وتعالی کو معلوم ہوتا ہے۔ یہ تفریط کی راہ تھی۔ یہ دو کنارے تھے، کچھ لوگوں نے تقدیر کا انکار کیا اور کچھ لوگوں نے تقدیر کو ثابت کیا تو ایسے ثابت کیا کہ انسان کا اختیار ہی چھین لیا۔ اہل سنت ان دونوں کے درمیان ہیں۔
ایک اور مثال حکمرانوں کے منکرات کی لے لیں۔ یہاں بھی دو قسم کے لوگ آئے، خوارج نے انکار منکر یعنی برائی سے روکنے کے نام پر مسلمان حکمران کے خلاف بغاوت کو دین کا نام دیا اور ان کے مقابلے میں کچھ لوگ وہ آئے جنھوں نے حکمرانوں کے ہر معاملے کو شریعت کا مسئلہ بتانے اور اس کے لیے جواز ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ یہ دونوں طرف غلطی پر تھے۔ شریعت اسلامیہ کی نظر میں اس معاملے میں صحابہ کا منہج صحیح تھا صحابہ نے یہ حد متعین کی کہ خوارج کا جو طریقہ ہے وہ بھی غلط ہے اور جو لوگ حکمرانوں کے تلوے چاٹنے کا مزاج رکھتے ہیں، ہر حال میں ان کی بات کو دین کی بات ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں وہ بھی غلط ہے۔ درمیان میں منہج سلف وصحابہ یہ ہے کہ ہر ایک کی بات کی طرح حکمران کی بات کو بھی شریعت کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ حکمران کا جو حکم یا ہدایت اور فیصلہ شریعت کے مطابق ہو وہ سر اور آنکھوں پر ہوگا۔ اس لیے کہ یہ اس کا نہیں اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے اور اگر حکمران شریعت سے اختلاف کا حکم دیتا ہے تو ہم اس کی وہ بات نہیں مانیں گے، بقیہ معاملات میں اس کی اطاعت کریں گے۔
مختصر یہ کہ ہر مسئلہ میں صحابہ کی سمجھ درمیانی سمجھ ہے نہ تو غلو ہے نہ تو اس میں کسی قسم کی کمی ہے۔ صحابہ کی سمجھ افراط وتفریط سے پاک، وسطیت، اعتدال اور میانہ روی پر مبنی ہے۔
منہج صحابہ ہی کی پیروی کی نویں وجہ یہ ہے کہ وہ دین کے سب سے بڑے خیرخواہ تھے۔ صحابہ کے زمانے میں بعد کے زمانے کی طرح نہ فرقے تھے نہ نسبتیں تھیں اور نہ ہی کسی اور قسم کی وابستگیاں، وہ اللہ ورسول کے ساتھ مخلص تھے، قرآن وسنت کے ساتھ ان کا رشتہ مضبوط ومستحکم تھا۔ بعد کے لوگوں میں یہ ہوا کہ ان کے اندر طرح طرح کی نسبتیں اور مختلف قسم کی عصبیتیں وجود میں آگئیں اور ان سے وابستہ افراد چاہ کر بھی ان نسبتوں سے وابستگی کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ وہ مخلص ہوکر بھی اکثر اپنی عصبیتوں کے اثرات سے آزاد نہ ہوسکے۔ رہے وہ جن کی نظر میں ان کی یہ وابستگیاں ہی سب کچھ بن کر رہ گئیں وہ دین کے خیر خواہ ہونے سے زیادہ اپنے محدود دائرہ کے خیرخواہ ہی بن سکے۔ حد تو یہ ہے کہ ایسے بعض لوگوں نے اپنی تائید میں حدیثیں تک گڑھیں اور دین کے نام پر خود کی فکر کو رواج دینے میں لگے رہے۔ صحابہ ان سب سے اوپر اٹھ کر اللہ ورسول کے ساتھ مخلص رہے اور قرآن وسنت کے اور اس معاملہ میں امت کے سب سے بڑے خیرخواہ رہے۔
منہج سلف ہی کو اپنانے کی دسویں وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان صحابہ کے باطن کی پاکیزگی کی گواہی دی ہے۔ اور یہ ایک ایسی ضمانت ہے جو کسی اور سے متعلق نہیں ملتی، باطن کی پاکیزگی بدعات اور سیئات دونوں ہی کے غلط اثرات سے محفوظ ہونے کا ایک ایسا حوالہ ہے کہ جو فکر ونظر کی سلامتی اور سمجھ بوجھ کی راستی کی ضمانت بن جاتا ہے۔ یہ شہادت قرآن وسنت میں مکرر وارد ہے، ملاحظہ کریں: (لقد رضي اللہ عن المؤمنین إذ یبایعونک تحت الشجرۃ فعلم ما في قلوبھم…) یقینا اللہ تعالی مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا…. (الفتح : ۱۸) مزید برآں قرآن میں مکرر یہ گواہی {رضي اللہ عنہم ورضوا عنہ} اللہ ان سے اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کا ظاہر وباطن اللہ کی نظر میں اس قدر پاک تھا کہ رب ہمیشہ کے لیے ان سے راضی ہوگیا۔
اس پہلو کی مزید وضاحت اس حوالہ سے بھی ہوتی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو محمد ﷺ کے دل کو سب سے اچھا دل پایا، اللہ نے آپ کو چن لیا اور اپنا پیغمبر بنالیا۔ اللہ نے محمدﷺ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں کو دیکھا تو محمدﷺ کے صحابہ کے دل کو بندوں کے دلوں میں سب سے اچھا دل پایا۔ اللہ نے ان کو اپنے نبی کے وزراء کی حیثیت سے چن لیا ۔۔۔۔ (مسند أحمد :۳۶۰۰) مختصر یہ کہ ان کے دل دیکھ کر نبی کی صحبت کے لیے ان کا انتخاب ہوا ہے جس طرح محمدﷺ کا دل دیکھ کر نبوت کے لیے آپﷺ کا انتخاب ہوا ہے۔
منہج سلف ہی کی اتباع کے لازمی ہونے کی گیارہویں وجہ یہ ہے کہ ان صحابہ نے جاہلیت اور اسلام دونوں کو قریب سے دیکھا ہے۔
بقول عربی شاعر متنبی کے کہ(وبضدھا تتبین الأشیاء) آدمی جب کسی چیز کی حقیقت کے ساتھ جب اس کی ضد اور مخالف کو بھی پہچانتا ہو تو اس کی پہچان اور معرفت مکمل ہوتی ہے۔ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے عمر بن خطاب رضي اللہ عنہ کا یہ اثر ذکر کیا ہے: (إنما تنقض عری الإسلام عروۃ عروۃ إذا نشأ في الإسلام من لایعرف الجاھلیۃ) اسلام ایک ایک کڑے کی طرح بکھرتا جائے گا جب اسلام میں ایسے لوگ پروان چڑھنے لگیں جو جاہلیت کو نہ پہچانتے ہوں۔ (دیکھیں: درء تعارض العقل والنقل: ۵۔۲۵۹) علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پھر اس کی بڑی زبردست تعلیل وتوجیہ کی ہے جو اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ صحابہ کو یہ بھی امتیاز حاصل ہے کہ وہ جاہلیت اور اسلام دونوں دریاؤں کے شناور تھے لہذا اسلام کو پہچان کر اپناتے تھے اور جاہلیت کو پہچان کر اس سے بچتے بھی تھے اور ایسا امتیاز بعد کے لوگوں کو کم ہی حاصل ہوا یا ہوگا۔
بارہویں اور اس سلسلہ کی آخری وجہ جو نہج سلف ہی کی پیروی کے ضروری ہونے کو واضح کرتی ہے یہ ہے کہ اگر آپ سلف صالحین کے نہج پر چلیں گے اور دین کو ان کے طریقے پر سمجھیں گے تو یہ دین آپ کے لیے بہت آسان ہو جائے گا۔ اس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا دونوں ہی آسان ہوں گے۔ اس کے مقابلے میں کسی اور منہج یا طریقہ کو آپ اپنائیں گے، کسی اور طریقے پر چلیں گے تو ہوگا یہ کہ یہ دین آپ کے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں صرف ایک حوالہ نقل کرتا ہوں۔ امام رازی تاریخ اسلام کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ آپ ان کو علم کا سمندر کہیے بالخصوص منطق، فلسفہ اور تصوف وغیرہ میں امامت کے درجہ پر تصور کیے جاتے ہیں۔ رازی نے بڑی عمر فلسفہ اور منطق کی خدمت اور ان کے سہارے دین کو سمجھنے اور سمجھانے میں لگادی۔ لیکن اپنی اس کوشش میں وہ کس حد تک کامیاب رہے، صحابہ کے فطری اور سادہ طریقہ فہم کے مقابلے منطق اور فلسفہ نے انھیں کیا دیا اس کا اعتراف وہ خود کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: میں نے علم کلام کے جتنے طریقے تھے سب کا جائزہ لے لیا اور فلسفے کے جتنے منہج تھے ان سب پر غور کر لیا، بالآخر جس حقیقت کو میں نے پایا ہے وہ یہ ہے کہ یہ نہ کسی (دین وایمان کے) بیمار کو شفا دیتے ہیں اور نہ کسی (حقیقی علم کے) پیاسے کی پیاس مٹاتے ہیں۔ ان سب کے مقابلے میں میں نے یہ دیکھا کہ حقیقت سے قریب اور سب سے آسان اگر کوئی طریقہ ہے تو وہ قرآن مجید کا طریقہ ہے۔ (شرح الطحاویۃ لابن أبي العز ۱:۱۷۸)
صحابہ کا یہی طریقہ تھا صحابہ نے خواہ مخواہ کی بحثوں میں الجھنے کے بجائے فطری اور سادہ دین کو اپنایا جو ایک عام آدمی سے لے کر پڑھے لکھے بڑے دماغ سب کو یکساں طور پر مخاطب کرتا ہے اور یکساں طور پر سب کے ایمان اور اطمینان کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔
خلاصہ:
دین کے مسائل میں اپنے آپ کو بڑا علامہ سمجھنے یا اپنے امام کو، اپنے مقتدی ورہنما کو بہت بڑا عالم علامہ سمجھنے سے بہتر یہ ہے بلکہ واجب یہ ہے کہ ہم اپنے اوپر اور سب پر ان کو مقدم رکھیں جن کی امامت سب کے نزدیک مسلم ہے۔ سبھی صحابہ کو مانتے ہیں لیکن صحابہ کو ماننا صرف محبت کے لیے نہیں، صرف عقیدت کے لیے نہیں بلکہ صحابہ کو حقیقت میں ماننا یہ ہے کہ ہم ان کی فہم اور ان کی سمجھ کو دین کے سبھی معاملات میں بنیاد بناکر چلنا سیکھیں۔ صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے آثار اہل علم نے نقل کیے ہیں، تقریبا سبھی صحیح کتابوں میں بالخصوص مصنف ابن ابی شیبہ یا مصنف عبدالرزاق ان دو کتابوں میں صحابہ کے آثار مذکور ہیں۔ حدیثوں کے معانی کو سمجھنے کے لیے، آیتوں کا معنی متعین کرنے کے لیے، امت کے اندر جو مسائل اختلافی ہیں ان کو سمجھنے کے لیے آپ صحابہ کی سمجھ کو معیار بنا لیں آپ کا دین آپ کے لیے آسان ہوجائے گا اور حقیقت کا راستہ آپ کے سامنے کھول دیا جائے گا۔
(یہ مضمون دراصل شیخ حافظ عبدالحسیب عمری مدنی کے ایک خطاب کا حصہ ہے جو انهوں نے ۲۰۱۳ء میں ممبئی میں کیا تھا)

آپ کے تبصرے

3000