میں سانس نہیں لے پارہا ہوں(جارج فلائیڈ)

رشید سمیع سلفی سماجیات

اس وقت امریکہ کے ستارے گردش میں ہیں، سیاہ فام امریکیوں نے پورے ملک میں فساد کی آگ بھڑکا رکھی ہے۔ کورونا وائرس کے بعد امریکہ سیاہ فام امریکیوں کے خونخوار مظاہروں کی زد میں ہے، ایک امریکی پولیس کے ذریعہ ایک افریقی نژاد سیاہ فام کے قتل پر یہ ہنگامہ برپا ہے۔ وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کو ایک سفید فام پولیس نے گھٹنے سے گردن دبا رکھا ہے وہ کہہ رہا ہے میں سانس نہیں لے پارہا ہوں لیکن پولیس والا مسلسل گردن دبائے رکھتا ہے اور وہ دم گھٹنے سے مرجاتا ہے۔

اس دردناک واقعہ نے سیاہ فاموں کے جذبات میں آگ لگا دی، یکھتے ہی دیکھتے جگہ جگہ آگ زنی اور توڑ پھوڑ ہونے لگی، لوگ مظلوم کے آخری جملے کا بینر لے کر سڑکوں پر اتر آئے کہ میں سانس نہیں لے پارہا ہوں۔ صورتحال کو دیکھ کر ارباب اقتدار سہمے ہوئے ہیں، ٹرمپ کے اوسان خطا ہوگئے ہیں، وہ بری طرح جھنجھلایا ہوا ہے۔

تشدد اس قدر خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے کہ 26ریاستوں اور 40بڑے شہروں میں کرفیو لگادیا گیا ہے، ٹرمپ کو اہل خانہ سمیت وہائٹ ہاؤس کے ایک بنکر میں پناہ لینی پڑی۔ امریکہ ایک طاقتور ملک ہے اور ٹرمپ ایک سنکی اور جذباتی صدر مانا جاتا ہے۔ تاہم احتجاج کے دوران حکومت کا رویہ اب تک ظالمانہ اور جارحانہ نہیں ہے، بلاشبہ احتجاج کسی بھی جمہوری ملک کی عوام کا ادھیکار ہے، یہ ہر صحت مند جمہوری ملک کی پہچان ہے،
لیکن ذرا پیچھے مڑکر ملک عزیز میں ماضی قریب کے مظاہروں کے دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری قدروں کا حال کیا ہے؟ این آر سی اور سی اے اے پر ملک میں کئی مہینے تک جاری مظاہروں میں کیسی کیسی قیامتیں گذر گئیں اور کتنے ناقابل اندمال زخم انسانیت کے وجود پر لگے۔ مظاہروں کو دبانے کے لیے نہ صرف طاقت کا بھرپور استعمال کیا گیا بلکہ اہل اقتدار بربریت کی حدوں کو پار کرگئے، بد قسمتی سے ملک کی رگوں میں نفرت وفرقہ پرستی کا زہر دوڑ رہا ہے، کیونکہ آر ایس ایس اپنے آغاز سے ملک کی فضا کو مسموم کرنے میں لگا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو امریکہ میں بھی نفرت وتعصب کی ہوا ایک زمانے سے چل رہی ہے، سیاہ فام امریکیوں سے تعصب برتا جاتا رہا ہے، ان پر زیادتیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو گاہے بگاہے منظر عام پر آتا رہتا ہے۔ لیکن سفید پوش معاشرہ اپنے کالے جذبے کو الفاظ کے ریشمی شال اور ظاہری رکھ رکھاؤ میں چھپا کے رکھتا ہے، عدالتوں میں سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ ناانصافیوں کا چلن ہے لیکن یہ سب قانونی داؤں پیچ کی چھتر چھایا میں ہوتا ہے، تاہم امریکی مظاہروں میں وہ دلدوز نظارے مفقود ہیں جو ہم‌ نے احتجاجات کے دوران اپنے ملک میں دیکھا تھا۔ یہاں تو پولیس نے صرف جارج فلائیڈ کو دبوچا تھا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی تھی مگر ہندوستان کی پولیس مظاہرین کو مار مار کر ادھ موا کردیتی ہے پھر ان سے قومی گیت پڑھاتی ہے۔ نہ تو مظاہروں میں اندھا دھند پولیس فائرنگ ہوئی اور نہ کثیر تعداد میں جانی نقصان ہوا، نہ پولیس کے ذریعہ بہیمانہ تشدد ہوا، دیش دروہی کا کیس درج ہوا نہ دہشت گردی کا الزام لگا، نہ دھمکیاں دی گئیں، نہ نقصانات کی بھرپائی کے لیے مظاہرین کے مکانات پر قبضہ کیا گیا، نہ احتجاجیوں کے گھروں میں گھس کر تشدد اور لوٹ پاٹ کی گئی، نہ پولیس کی لاٹھیاں بے لگام ہوئیں، نہ ہی سڑکوں اور چوراہوں پر تصویریں آویزاں کی گئیں، سچ پوچھو تو ہمارے ملک میں احتجاج کو بزور طاقت دبانے کے لیے وہ سب کیا گیا جو ظالم وجابر حکومتوں کا شیوہ رہا ہے۔ احتجاج سے نمٹنے کے انداز سے کہیں نہیں لگتا کہ یہ جمہوری ملک اور ڈیمو کریسی ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دہلی فساد بھی احتجاج کا رد عمل تھا تو غلط نہ ہوگا۔ امریکہ کا صدر یہ کہہ رہا ہے کہ میں فوج اتار دوں گا لیکن اس نے یہ نہیں کہا کہ ٹھونک دو یا گولی مار دو، بلکہ وہ خود اپنی جان بچانے کے لیے بنکر میں قید ہوگیا۔

ایک قابل توجہ امر یہ بھی ہے کہ کورونا کے معاملے میں اموات کی شرح سیاہ فاموں میں زیادہ دیکھی گئی ہے، پھر معاشی بحران کے پیش نظر نوکریوں سے زیادہ سیاہ فام ہی نکالے جارہے ہیں، ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں تعصب اور بھیدبھاؤ کو بڑھاوا دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، ظلم اپنے آخری نشان کو چھونے لگا تھا۔ ادھر جارج فلائیڈ کا وحشیانہ قتل ہوا تو عوام بلبلا اٹھی اور کورونا وائرس کے ڈر کو بالائے طاق رکھ کر سڑکوں پر اتر آئی۔ ذرا تصور کیجیے کہ امریکہ کے دوست ملک ہندوستان میں بھی اسی نفرت کی کاشت اس سے کہیں زیادہ جارحانہ طریقے سے ہورہی ہے، یہاں تو کرونا کو ہی مسلمان بنادیا گیا ہے اور تعصب کہاں تک سفر کرچکا ہے یہ کانپور کی تازہ شرمناک ویڈیو بتا رہی ہے جس میں میڈیکل کالج کی ڈاکٹر آرتی لال چندانی مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کررہی ہے۔
ہند کی قیادت کو امریکہ سے سبق لینی چاہیے اور ایسے فرقہ پرست عناصر کو لگام لگانا چاہیے کیونکہ اب دنیا میں نفرت اور ناانصافی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایک نہ ایک دن نفرت کا بیڑہ غرق ہوکر رہتا ہے، ظلم کی ٹہنی زیادہ دن نہیں پھلتی، یہ بات ارباب اقتدار جتنی جلدی سمجھ لیں اتنا ہی بہتر رہے گا۔

آپ کے تبصرے

3000